الجزیرہ کی صحافی کا قتل، اسرائیلی جارحیت کا ایک اور نمونہ

308

گزشتہ روز فلسطین کے مغربی کنارے کے علاقے جنین میں اسرائیلی فوجی اہلکاروں نے ایک کاروائی کے دوران الجزیرہ کی خاتون صحافی کو گولی کا نشانہ بنا کر قتل کردیا تھا۔

اسرائیلی فورسز کے اس اقدام کی عالمی سطح پر مذمت کی جارہی ہے۔ تاہم فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے صحافیوں کو نشانہ بنانا اور انہیں ہراساں کرنا معمول کا عمل ہے۔ فرانس میں واقع صحافیوں کی ایک غیرسرکاری تنظیم reporters without borders کے مطابق گزشتہ چار سالوں کے دوران اسرائیلی افواج کی جانب سے مقامی اور غیرملکی صحافیوں کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنانے اور ہراساں کرنے کے 144 واقعات سامنے آئے، جن میں گولی چلانا، ان پہ آنسوگیس پھینکنا، لاٹھیوں سے مارنا، وغیرہ جیسے اقدام شامل ہیں۔ جبکہ سال 2000ء سے اب تک 55 صحافی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دنیا بھر سے صحافیوں کی تنظیموں نے صحافت کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی تحقیقات کے لیے شکایات درج کرا رکھی ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ اس کی جوابدہی کی جائے اور صحافت کے خلاف دراندازی کو روکا جائے۔

ریاستی سطح پر صحافت اور صحافیوں کو نشانہ بنانا ایک گھناؤنا فعل ہے۔ عالمی قوانین کے مطابق شورش زدہ اور متنازعہ علاقوں میں بھی صحافت کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ جبکہ اسرائیل ہمیشہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو چھپانے کے لیے فلسطین میں صحافتی حلقوں کو ہراساں کرتا آیا ہے، صحافی شیرین ابوعاقلہ کا قتل اس جارحیت کا ایک اور نمونہ ہے۔ انہوں نے باقاعدہ صحافتی لباس پہن رکھا تھا، اس کے باوجود انہیں گولی مارنا جانا بوجھا قتل ہے، نہ کہ غلطی۔ ہمیشہ سے پوری دنیا میں اس طرح کے اسرائیلی رویے کی مذمت کی جاتی رہی ہے، لیکن اسرائیل نے اسے کبھی اہمیت نہیں دی۔ عالمی برادری اور حقوق کے بین الاقوامی اداروں کو چاہیے کہ وہ اس پر ٹھوس اقدامات کریں اور صحافت کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...