پاکستان کے لیے امن وامان کی پیچیدہ ہوتی صورتحال

414

گزشتہ روز کراچی یونیورسٹی میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے باہر ایک خودکش دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں تین چینی باشندوں سمیت چار افراد جاں بحق اور چار زخمی ہوگئے۔ دھماکے کی ذمہ داری ’بلوچ لبریشن آرمی‘ کی مجید بریگیڈ نے قبول کی ہے۔

پاکستان میں حالیہ عرصے کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اور دیکھا گیا ہے کہ ملک میں تمام تشدد پسند گروہ، چاہے قوم پرست ہوں یا مذہبی، زیادہ متحرک ہونے لگے ہیں۔ گزشتہ چند مہینوں میں بڑے پیمانے کی کاروائیاں عمل میں لائی گئیں جن میں داسو ڈیم حملہ، پشاور مسجد خودکش حملہ اور نوشکی وپنجگور میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے نمایاں ہیں، جو ماضی میں جاری رہنے والی دہشت گردی کی بدترین لہر کی یاد دلاتے ہیں۔

چینی باشندوں اور چینی مفادات پر مسلسل حملوں کے بعد پاکستان پر وقت کے ساتھ دباؤ بڑھا ہے، اس کے باوجود اس نوع کی کاروائیوں کا سدباب نہیں ہوپایا ہے اور یہ پاکستانی سکیورٹی اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ چینی شہری بلوچ قوم پرست باغیوں اور تحریک طالبان پاکستان دونوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ دہشت گرد گروہوں کے بننے والے نئے اتحاد اور ایک دوسرے کے ساتھ آپریشنل تعاون انہیں مزید مضبوط بناتے ہیں۔

باغی اور دہشت گرد عناصر کی حالیہ کاروائیاں بتاتی ہیں کہ انہوں نے اپنی صلاحیت میں اضافہ کیا ہے اور پاکستان کے متعلقہ ذمہ داران ان کی طاقت اور نفوذ کو ختم نہیں کرسکے۔ بالخصوص گزشتہ روز جامعہ کراچی میں ایک اعلی تعلیم یافتہ خاتون کا خودکش دھماکہ جس بحران کو واشگاف کرتا ہے اس کے تمام پہلوؤں پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے۔ بلوچستان میں ریاست کی تمام تر کوششوں کے برخلاف تعلیم یافتہ نوجوان آخر عسکریت پسند عناصر کی جانب کیوں مائل ہورہے ہیں؟ صوبے کے مسائل اور وہاں کی شورش سے نمٹنے کے لیے ریاست کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کی ضرورت تو نہیں؟

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...