خواجہ سرا طبقے کے لیے تعلیمی پالیسی
سندھ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ خواجہ سراؤں کے لیے ’ ٹرانس جینڈر ایجوکیشن پالیسی‘ وضع کررہی ہے، جس کا مقصد صوبے کے اندر اس صنف کو خصوصی تعلیمی سہولیات و وسائل فراہم کرنا ہے۔ اس کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ صوبے کے نصاب میں اس صنف سے متعلق مواد شامل کیا جائے گا تاکہ ان کے بارے میں لوگوں کی ذہنیت کو تبدیل کیا جاسکے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل پنجاب حکومت نے خواجہ سراؤں کے لیے ملتان میں پہلا سکول قائم کیا ہے جہاں ان کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوچکا ہے۔
خواجہ سرا ملک کا ایسا طبقہ ہے جو اپنی پیدائش سے لے کر موت تک تکلیفوں اور شدید مشکلات کا شکار رہتا ہے۔ ذریعہ معاش نہ ہونا، صحت کی سہولیات اور عزت واحترام نہ ملنا اور دیگر سماجی محرومیاں زندگی بھر کے لیے ان کا مقدر ہوتی ہیں۔ یہ ملک کے دیگر پسماندہ طبقات سے زیادہ بری حالت میں زندگی گزارتے ہیں۔
تعلیم کا مسئلہ براہ راست ان کی شناخت کی مضبوطی اور زندگی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ایک سروے کے مطابق ان کے 72 فیصد سے زیادہ افراد کا خیال ہے کہ تعلیم ان کی زندگی کو تبدیل کرسکتی ہے، لیکن تعلیمی اداروں میں ان کے ساتھ جانبدارانہ اور تحقیرآمیز رویہ اپنایا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں یہ عام تأثر بن گیا ہے کہ وہ سماج کے دیگر افراد کے ساتھ مل جل کر نہیں رہ سکتے۔ اس صنف کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہ ابتدائی قدم خوش آئند ہیں۔ اس سے وہ تمام افراد جن کے لیے عام تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا مشکل ہے وہ خصوصی اداروں میں تعلیم حاصل کرسکیں گے۔
تاہم اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ خواجہ سراؤں کی مجموعی بہبود، انہیں تحفظ فراہم کرنے اور ان کو درپیش تمام مسائل کے حل کے لیے ملکی سطح پر قانون سازی کی جائے اور عوام میں آگاہی مہم بھی چلائی جائے۔ تعلیم کے علاوہ انہیں ہنر سکھانے کے لیے بھی مخصوص ادارے قائم کیے جانے چاہئیں تاکہ ان کے ذریعہ معاش کا بندوبست ممکن ہو اور وہ عزت کے ساتھ روٹی کما سکیں۔ خواجہ سراؤں کو خودمختار بنانے کے لیے ریاست اور سماج دونوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
فیس بک پر تبصرے