بین المذاہب ہم آہنگی میں نوجوانوں کا کردار سماجی اقدامات کی منصوبہ بندی
فضہ بتول
سماجی اقدامات کی منصوبہ بندی کی کُل 60 نشستیں منعقد کی گئیں۔ ان میں 50 کی تفصیل ذیل میں دی گئی ہے:
اسلام آباد:
1۔ 4 اگست 2021 کو نوجوانوں کے ایک گروہ نے اسلام آباد کے مارگلہ کے دامن میں واقع تاریخی سیدپور گاؤں کے قدیم ہندو مندر کا دورہ کیا۔ دورے کے دوران، شرکاء نے مندر کی تاریخ کے بارے میں آگاہی حاصل کی اور پاکستان میں ہندو برادری کو درپیش مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔ پاکستان میں اقلیتوں کو تعلیمی اداروں میں اور ملازمت کے حصول میں نسلی امتیاز کا سامنا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بین المذاہب ہم آہنگی قومی استحکام کے لیے اہم ہے اور مزید کہا کہ تنوع کی تحسین کرنے میں ناکامی معاشرے میں انتشار کا باعث بنتی ہے۔
2۔ کھیل امن، رواداری کو فروغ دینے اور لوگوں کو سرحدوں، ثقافتوں اور مذاہب سے قطع نظر اکٹھا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ کھیل کی اقدار جیسے ٹیم ورک، نظم و ضبط، انصاف اور احترام پوری دنیا میں مانے جاتے ہیں اور ان کا اطلاق یکجہتی اور سماجی ہم آہنگی کو بڑھاوا دینے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ 22 اگست کو اسلام آباد کی مختلف یونیورسٹیوں کے نوجوان کھلاڑیوں نے سماجی ہم آہنگی کا پیغام دینے کے لیے فٹ بال میچ کھیلا۔ میچ کے بعد، شرکاء نے مشاہدہ کیا کہ اگرچہ پاکستان کی مختلف برادریاں (بشمول اقلیتوں کے) معمولی مسائل پر جھگڑ سکتی ہیں، لیکن جب وہ کھیل کے میدان میں ہوتے ہیں تو وہ متحد ہو کر کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ایک خوشحال پاکستان کے لیے ایک برادری، ایک قوم کی ضرورت ہے۔
3۔ خواتین میں اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونے کا حوصلہ ہونا چاہیے کیونکہ وہ معاشرے کے مساوی درجے کی رکن ہیں اور انہیں ریاست کے شہری ہونے کی وجہ سے برابر حقوق حاصل ہیں۔ 23 اگست کو اسلام آباد کی مختلف یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے ایک گروپ نے خواتین کے حقوق پر مکالمہ کیا۔ شرکاء نے پاکستان میں خواتین کو درپیش سماجی و معاشی اور سیاسی چیلنجوں پر تبادلہ خیال کیا۔ اس کے علاوہ، دیگر سماجی مسائل جیسے جنسی ہراسانی، صنفی بنا پر تشدد پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ شرکا نے مشاہدہ کیا کہ پاکستانی خواتین کل آبادی کا نصف سے زیادہ ہیں، پھر بھی ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے چاہے وہ گھر میں ہو، باہر یا کام کی جگہ پر۔ انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ نوجوانوں میں اخلاقی اقدار کی آگاہی صنفی مساوات اور شہریوں کے مساوی حقوق کو فروغ دے گی۔ مزید یہ کہ خواتین کے حق کی ضمانت اور معاشرے میں ان کی مساوی شرکت پرامن اور مستحکم معاشرے کو فروغ دے گی۔
4۔ 9 اگست کو نوجوانوں کے ایک گروپ نے جو مختلف برادریوں، مذاہب، فرقوں، ثقافتوں، یونیورسٹیوں اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں پر مشتمل تھا، آئی نائن پلے گراؤنڈ، اسلام آباد میں فٹ بال میچ کھیلا۔ کھلاڑیوں نے اس بات کی توثیق کی کہ تنوع ہماری طاقت ہے اور ایک دوسرے کے لیے محبت اور احترام کا اظہار کیا۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے اس دوستانہ میچ کے ذریعے مختلف مذاہب، فرقوں، نسلی گروہوں اور پاکستان کے مختلف علاقوں کے لوگوں کے درمیان معاشرے میں تنوع، قبولیت، امن، ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دینے کے لیے ایک مضبوط پیغام دیا گیا۔ قریبی مسجد سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین نے گروپ ڈسکشن میں حصہ لیا اور نوجوان کھلاڑیوں کو مذہبی ہم آہنگی اور اقلیتوں کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے مثال دے کر مساوی سلوک کے بارے میں آگاہ کیا۔
5۔ علاقائی اور نسلی طور پر متنوع نوجوانوں کے گروپ نے 5 اگست کو پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کی صورت حال کا اندازہ لگانے کے لیے ایک گروہی بحث کا اہتمام کیا۔ عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نے جو بحث میں شریک تھا، بتایا کہ کسی قسم کا کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس، دیگر شرکاء، جن کا تعلق کے پی اور ڈیرہ اسمٰعیل خان سے تھا، نے متعلقہ علاقوں میں تعصب اور فرقہ وارانہ انتہا پسندی کے اپنے مشاہدے کے بارے میں آگاہ کیا۔ شرکاء نے نوٹ کیا کہ فرقہ وارانہ یا مذہبی تقسیم گھر اور پھر کلاس روم سے شروع ہوتی ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ بنیادی سطح سے نصاب میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی جائیں۔ بچوں کو ایک دوسرے کے ثقافتی، سماجی اور مذہبی اصولوں کا احترام کرنا سکھایا جانا چاہیے کیونکہ یہ زندگی کا سیکھنے کا حصہ ہے جبکہ بلوغت کے بعد ان اصولوں کی عملی صورت سامنے آتی ہے اور یہ عمر سیکھنے کی نہیں ہوتی۔
کوہاٹ:
6۔ 29 جولائی کو کوہاٹ میں نوجوانوں کے ایک گروپ نے ایک مقامی چرچ میں سماجی امن اور ہم آہنگی پر ایک روزہ مکالمے کا انعقاد کیا۔ مذہبی رہنماؤں بشپ جاوید اختر، شگفتہ روز اور ریو عاشر نے اظہار رائے کی آزادی، مذہبی انتہا پسندی اور تنوع کے بارے میں گفتگو کی۔ مقررین نے کہا کہ مذہبی مداخلت ناقابل معافی ہے۔ کسی کو دوسری برادریوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ پاکستان میں سماجی امن، مذہبی تنوع کو قبول کرنے کے ساتھ مشروط ہے۔
7۔ کھیل تنوع اور سماجی ہم آہنگی کی قدر کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتا ہے۔ 29 اگست کو، نوجوان طلباء کی ایک ٹیم نے بین المذاہب ہم آہنگی کے تصور کو فروغ دینے کے لیے کھیلوں پر مبنی آگاہی مہم کا اہتمام کیا۔ تازہ گریجویٹس (اقلیتوں سے) اور کوہاٹ فٹ بال اکیڈمی کے کھلاڑیوں کی ٹیم نے فٹبال میچ کا اہتمام کیا۔ مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے کھلاڑیوں کو ان دونوں ٹیموں کے درمیان بدلا گیا۔ میچ نے متنوع مذاہب اور عقیدے کے نوجوانوں کو تنوع کی تحسین کا احساس اجاگر کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا۔ آفریدی صاحب، ضلعی چیئرمین، نیشنل پیس کونسل پاکستان کو بطور مہمان مقرر مدعو کیا گیا تھا جنھوں نے اس سرگرمی کو سراہا۔ انہوں نے کھلاڑیوں کو روزمرہ زندگی میں مذہبی ہم آہنگی کی اہمیت کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔
8۔ 7 اگست کو نوجوانوں کی ایک مذہبی تنوع کی حامل ٹیم نے مختلف مذہبی مقامات کا دورہ کیا جن میں برگیڈ مندر، تبلیغی مرکز کوہاٹ ( جو دنیا کا دوسرا اور ایشیا کا سب سے بڑا اسلامی مذہبی ادارہ ہے) اور یونائیٹڈ پریسبیٹیرین چرچ آف پاکستان شامل ہیں۔ برگیڈ مندر کے مذہبی رہنما پنڈت شری اشوک اور پوپ جاوید اختر نے مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوششوں میں نوجوانوں کے دورے کو سراہا۔ دوروں کے دوران شرکاء نے مذہبی اقدار کے بارے میں تنقیدی سوالات پوچھے جن کے جوابات افہام و تفہیم کی فضا میں دیے گئے۔ نوجوانوں کو مندر اور چرچ کے دورے کے دوران ہندو مذہب اور عیسائیت کے بارے میں آگاہی فراہم کی گئی۔ انہوں نے رحیم یار خان میں مندر پر حملے کی مذمت کی اور معاشرے میں امن اور استحکام کو فروغ دینے کے لیے مذہبی ہم آہنگی کے اس طرح کے اقدام پر زور دیا۔
9۔ 17 اگست کو کوہاٹ میں نوجوانوں کے ایک گروپ نے ملک میں موجود تمام مذاہب کو فروغ دینے کے لیے ایک مہم کا اہتمام کیا۔ اس مہم کا مقصد دوسروں کو پاکستان میں موجود مختلف مذاہب اور غیرمسلم شہریوں کی پاکستان کے لیے خدمات اور قربانیوں کے بارے میں بتانا ہے۔ ایک مشہور ہندو اسکالر نواب چن نے شرکاء کو تاریخ کی ایسی غیر معمولی شخصیات کے کارناموں کے بارے میں آگاہ کیا جو اقلیتوں سے تعلق رکھتے تھے اور جن میں رابرٹ کارنیلیس اور سیسل چودھری جیسے اکابرین شامل ہیں۔ کوہاٹ کے ایک چرچ کے دورے کے دوران، شرکاء نے عیسائی اداروں کی ڈولتی ہوئی ساکھ کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا اور مستقبل میں مذہبی اداروں کی ساکھ اور سالمیت کو برقرار رکھنے کے حوالے سے بات چیت کی۔
سوات:
10۔ دنیا کو بہترین طور پر سمجھنے اور دریافت کرنے کے لیے تنقیدی سوچ انتہائی ضروری ہے۔ بنیادی طور پر نوجوانوں میں تنقیدی سوچ کی مہارت کو فروغ دینا ضروری ہے۔ 12 اگست کو سوات کے نوجوانوں کے ایک گروپ نے روزمرہ کی زندگی میں عقلی سوچ کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا۔ بحث کے دوران، شرکاء نے دلیل دی کہ نوجوانوں کی طرف سے خاص طور پر بحران کے وقت میں عقلی جوابات امن اور استحکام کو فروغ دیتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں شہریوں کی مساوات پر گفتگو کی اور اس بات پر زور دیا کہ تمام شہری، اپنے مذہبی عقائد سے قطع نظر،برابر ہیں۔
11۔ سوات کی بھرپور ثقافتی اور نسلی تنوع کی وجہ سے، پانچ مختلف نسلی برادریوں یعنی پشتون، توروالی، اوشوجو، گوری اور گجروں کے نوجوانوں نے ثقافتی تنوع اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے 17 اگست کو ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا۔ شرکاء نے نوٹ کیا کہ ان برادریوں میں اجتماعیت اور بقائے باہمی کے تصور کو تقویت دینا ضروری ہے۔ سماجی کارکن جناب زبیر توروالی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ہمارے درمیان جو اختلافات ہیں ان کے لیے باہمی احترام ہونا چاہیے اور مشترکہ بنیادیں تلاش کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ اجتماعی طور پر امن اور اپنی برادریوں کی ترقی کے لیے کام کیا جا سکے۔ مذہبی اسکالر قاری عطاء الرحمن نے اسلام کے نقطہ نظر سے امن کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ بعض مذہبی علماء شخصی مفادات کے پیشِ نظر مذہب کا غلط استعمال کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں پیروکاروں کو گمراہ کرتے ہیں۔
ڈیرہ اسمٰعیل خان:
12۔ پاکستان میں سماجی ترقی کا تناسب مذہبی امن پر منحصر ہے۔ 8 اگست کو،ڈیرہ اسمٰعیل خان میں نوجوانوں کے ایک گروپ نے بین المذاہب ہم آہنگی پر گروہی بحث کا انعقاد کیا اور مذہبی اسکالر ملک اورنگزیب کو دعوت دی کہ وہ اسلامی نقطہ نظر سے مذہبی آزادی کے بارے میں گفتگو کریں۔ شرکائے گفتگو نے مؤقف اختیار کیا کہ معاشرے میں مذہبی اسکالر بین المذاہب تنازعات اور تعصب کو فروغ دے رہے ہیں۔ شرکائے گفتگو میں سے عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک رکن نے اس پر رنج کا اظہار کیا جس امتیازی سلوک کا انھیں معاشرے میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عالم دین نے شرکاء کو مذہبی ہم آہنگی سے آگاہ کیا اور قرآن پاک سے حوالے دیے۔
13۔ 8 اگست کو، نوجوانوں کی قیادت میں ایک گروپ نے پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 پر بحث کی، جس میں خصوصی توجہ آزادی اظہار پر رہی۔ انہوں نے آرٹیکل کی نمایاں خصوصیات کو اچھی طرح پرکھا، اور اس کی خوبیوں اور خامیوں کا بھی جائزہ لیا۔ انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اظہار رائے کی آزادی شہریوں کا بنیادی حق ہے، اور یہ کہ یہ جمہوری اور پرامن معاشرے کے لیے اہم ہے۔
14۔ 8 اگست کو ڈیرہ اسمٰعیل خان میں، دار ارقم گرلز کالج میں یونیورسٹی کی طالبات کے ایک متنوع گروپ نے آزادی اظہار کی قدر کو اجاگر کرنے کے لیے ایک مکالمہ منعقد کیا۔ انہوں نے احساس دلایا کہ اظہار رائے کی آزادی نہ صرف آزادانہ طور پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کی صلاحیت ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ دوسروں کی بات سننے کی صلاحیت بھی ہے۔ انہوں نے مزید زور دے کر کہا کہ ہر ایک کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی جنس یا مذہبی رجحان سے قطع نظر اپنی رائے کا اظہار کرے۔ کالج کے وائس پرنسپل ڈاکٹر منظر نے اپنے اختتامی کلمات میں شرکاء پر زور دیا کہ وہ پاکستان کی طویل مدتی پائیدار ترقی کے لیے اظہار رائے کی آزادی کو فروغ دیں۔
15۔ خواتین نے معاشرے میں امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 9 اگست کو، ڈیرہ اسمٰعیل خان میں نوجوانوں کے ایک متنوع گروپ نے معاشرے میں خواتین کے حقوق کے مسئلے کو اجاگر کیا۔ شرکاء نے مشہور عوامی شخصیت منیبہ مزاری کی متاثر کن زندگی کی کہانی پر ایک دستاویزی فلم دیکھی، جو پاکستان میں خیر سگالی کی پہلی خاتون سفیر ہیں جنہوں نے صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے 2015 میں بی بی سی کی 100 خواتین کی فہرست میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ دستاویزی فلم دیکھنے کے بعد شرکا نے نتیجہ اخذ کیا کہ اگر خاتون صاحبِ بصیرت ہو تو کوئی اسے روک نہیں سکتا۔
ایبٹ آباد:
16۔ ایبٹ آباد میں نوجوانوں کے ایک پرجوش گروپ نے 4 اگست کو گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج (GPGC) منڈیاں میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا، جس میں مذہبی اقلیتوں کی حالت کا جائزہ لیا گیا اور ثقافتی تنوع، شہریوں کی مساوات، خواتین کو بااختیار بنانے، احتساب، مذہبی انتہا پسندی اور تنقیدی سوچ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ GPGC میں زبردست سماجی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تنوع ہے اور سیمینار میں مختلف سماجی پس منظر کے شرکاء شریک تھے۔ GPGC کی طرف سے امین اللہ خان اور ڈاکٹر ارشد محمود نے سماجی امن اور ہم آہنگی کے کے حوالے سے منتخب موضوعات کے بارے میں گہری بصیرت فراہم کی۔ شرکاء نے مذہبی تنوع سے متعلق مسائل پر اپنے خدشات کا اظہار کیا جنہیں مقررین نے متاثر کن طریقے سے سنا اور پرکھا اور انہوں نے تمام شرکاء کو تسلی بخش جوابات دیے۔ مقررین نے نوجوان شرکاء پر زور دیا کہ وہ دوسروں کے خیالات، تصورات، عقائد اور ان کے سماجی اور مذہبی طریقوں کے حوالے سے روادار رہیں۔ سیمینار اس عزم کے ساتھ اختتام پذیر ہوا کہ تمام شرکاء امن اور ہم آہنگی کے کارکنوں کے طور پر اپنا کردار ادا کریں گے۔
17۔ تنقیدی سوچ، خواتین کو بااختیار بنانے اور بین المذاہب ہم آہنگی پر دانشورانہ مکالمے کے لیے، نوجوان طالب علموں کے ایک گروپ نے 10 اگست کو ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا۔ گفتگو سے پتا چلا کہ شرکاء اپنے اپنے تصورات ہی سے صحیح طور پر واقف نہیں تھے۔ یہ سرگرمی رواداری کی طرف جھکاؤ میں معاون ثابت ہوئی۔ مختلف سرگرمیوں کے دوران، شرکاء نے نوٹ کیا کہ خواتین کو بنیادی حقوق کا علم ہونا چاہیے اور انھیں اس کے مطابق اپنے موقف پر مضبوط رہنا چاہیے۔ شرکاء نے سیکھا کہ استدلالی سوچ کسی صورتحال کے متعلقہ متغیرات پر غور کرنے اور متعلقہ معلومات جیسے حقائق، آراء، فیصلوں اور اعداد و شمار تک رسائی حاصل کرنے، اور انھیں منظم کر کے انھیں نتیجہ خیز بنانے کی صلاحیت کا نام ہے۔ مختلف ذریعوں اور طریقوں کی وضاحت کی گئی کہ کوئی شخص کس طرح مختلف تکنیکوں کا استعمال کرتے ہوئے خود کو نقصان دہ خیالات سے دور کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر عرفان ناصر، سابق ڈسٹرکٹ ممبر نے عسائی برادری کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنی برادری کو درپیش چیلنجز پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ تنقیدی شعور،سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔
ملتان:
18۔ پاکستان مختلف ثقافتوں، زبانوں اور مختلف مذہبی اور نسلی پس منظر کے لوگوں کا گھر ہے۔ 9 اگست کو، مختلف نسلی اور مذہبی پس منظر سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے ایک گروپ نے، ایک گروہی مباحثے کے دوران، تنوع کے احترام کی اہمیت پر گفتگو کی۔ شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ نوجوان معاشرے میں امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پرامن بقائے باہمی کے لیے تنوع کی تحسین کرنے کی ضرورت ہے۔
19۔ 13 اگست کو، لوئس ہال، ملتان میں ایک روزہ ورکشاپ کے دوران پاکستان کے تمام مذاہب، ثقافتوں، زبانوں اور نسلوں کے تنوع کو سراہنے کے پیغام کو نوجوانوں کے متنوع گروہوں میں فروغ دیا گیا۔ محترمہ سوریہ ناہید، لیکچرار NUML، نے پاکستان میں متنوع ثقافت اور مقامی/علاقائی زبانوں کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ تنوع کا احترام امن اور سماجی ہم آہنگی کی کلید ہے۔
20۔ 13 اگست کو، یونیورسٹی کے نوجوان طلباء نے مل کر کھیلوں کے میدان، بوچ ایگزیکٹو ولاز، ملتان میں دو گھنٹے کا دوستانہ کرکٹ میچ کھیلا۔ اس ایک روزہ سرگرمی کا بنیادی مقصد مختلف نسلی پس منظر کے طالب علموں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا اور انہیں یہ تعلیم دینا تھا کہ ہر شہری کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ شرکاء نے اجتماعیت پر مبنی معاشرے کی حرکیات پر تبادلہ خیال کیا۔
21۔ 22 اگست کو ملتان کی مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلباء نے سماجی ہم آہنگی اور امن کے تصور کو فروغ دینے کے لیے دوستانہ کرکٹ میچ کا انعقاد کیا۔ اس کھیل کی سرگرمی کے ذریعے، شرکاء نے تنوع کی خوبصورتی اور ٹیم کے مختلف ارکان کے درمیان اتحاد کا سبق سیکھا۔ میچ کے بعد، انہوں نے دوسروں کی رائے اور عقائد کی قبولیت کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اتحاد، نظم و ضبط اور ایمان ہمارے معاشرے کی کامیابی کی کلید ہیں جبکہ مذہبی/نسلی اختلافات فطری ہیں۔ فرق کے بغیر دنیا کی خوبصورتی تباہ ہو جاتی ہے۔ اس لیے مذہب، ذات، رنگ، قوم اور زبانوں کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت کرنا غلط ہے۔ انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ نوجوان نسل کو تنوع کو قبول کرنے اور احترام کرنے کے لیے تربیت دینے کی ضرورت ہے۔
22۔ نوجوان انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے اور روکنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پچھلے کچھ برسوں میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، 25 اگست کو، مختلف پس منظر کے نوجوانوں کے ایک گروپ نے بین المذاہب ہم آہنگی اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ایک مباحثہ کیا۔ مباحثے کا مقصد مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے طلباء کے تحفظات اور نقطہ نظر جاننا تھا۔ بحث کے ذریعے، شرکاء نے آزادانہ طور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے رواداری سیکھی اور دوسروں کی باتیں پرامن طریقے سے سنیں۔ انہوں نے پرامن معاشرے کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی پر عمل کرنے پر زور دیا۔
شیرنگل، اپر دیر، خیبر پختونخوا :
23۔ اس امر کے پیشِ نظر کہ طالب علموں کے لیے اضافی و ہم نصابی سرگرمیوں کا فقدان ہے، شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی، شیرنگل میں 5 اگست کو طالبات کے لیے مصوری، مباحثے اور بیڈمنٹن جیسی سرگرمیوں کے انعقاد کے ذریعے سماجی ہم آہنگی کا پیغام دیا گیا۔ مختلف سماجی پس منظر اور مختلف مقامات سے تعلق رکھنے والی مختلف شعبوں کی طالبات ویڈیو کانفرنس روم میں جمع ہوئیں۔ اس کا مقصد خواتین طالب علموں کو ایسی سرگرمیوں میں شامل کرنا تھا جو ان کے لیے خوشگوار اور بے حد اہمیت کی حامل تھیں۔ مصوری کے مقابلے کے دوران، آرٹ اور رنگوں کی زبان کے ذریعے، شرکاء سے کہا گیا کہ وہ مذہبی انتہا پسندی کے اثرات اور وجوہات کو خاص طور پر پاکستان کے تناظر میں اجاگر کریں۔ شرکاء نے اپنے خیالات کی وضاحت کی جنہیں پینٹنگز میں پیش کیا گیا تھا۔ تمام پینٹنگز نے مذہبی ہم آہنگی، امن اور رواداری کا پیغام دیا۔ شرکاء نے سماجی ہم آہنگی کے تصور کو سمجھنے کے لیے بیڈمنٹن بھی کھیلی۔ ان سرگرمیوں نے مذہبی انتہا پسندی کے سنگین اور ابھرتے ہوئے مسئلے کو ہلکے پھلکے انداز میں اجاگر کرنے میں مدد کی۔ شرکاء نے بحث کے ذریعے مختلف عوامل کو معاشرے میں جنونی ذہنیت کے ذمہ دار سمجھا۔ انہوں نے مختلف سماجی، انفرادی اور اجتماعی عوامل کے کردار کو اجاگر کیا جو معاشرے کو مذہبی انتشار کی طرف لے جاتے ہیں۔ SBBU سے مہمان مقرر ڈاکٹر میاں باچا نے کہا کہ دوسروں کے مذاہب اور مذہبی فرقوں کا احترام کرنے کے ذہن کے ساتھ متوازن نقطہ نظر یقینا معاشرے میں ہم آہنگی اور امن کو فروغ دے سکتا ہے۔
سرگودھا:
24۔ 12 اگست کو سرگودھا یونیورسٹی میں نوجوانوں کے متنوع گروپ کے درمیان ایک روزہ ورکشاپ کے دوران، سرگودھا یونیورسٹی کی لیکچرار محترمہ بشریٰ نے زور دیا کہ خواتین کو سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر بااختیار بنایا جائے تاکہ وہ اپنے ملک کی بہترین خدمت کرسکیں۔ . سرگودھا یونیورسٹی سے ایک اور مہمان مقرر محترمہ زرقا نے زور دے کر کہا کہ محدود سماجی و اقتصادی مواقع والی خواتین اپنی صلاحیتوں کو بہترین طریقے سے استعمال کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائیں گی۔ ورکشاپ کے اختتام پر شرکاء نے نہ صرف پنجاب بلکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کے سامنے آنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
25۔ 30 اگست کو، مختلف تعلیمی اور نسلی پس منظر سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے ایک گروپ نے گورنمنٹ گریجویٹ کالج (خواتین) سرگودھا میں’’یکساں ہے رنگ، گو ہیں زبانیں جدا جدا‘‘ کے عنوان سے تقریری مقابلہ منعقد کیا۔ ججوں کا پینل پروفیسر ڈاکٹر قمر بتول، محترمہ منیبہ زہرہ، اور محترمہ ثمرہ شوکت پر مشتمل تھا۔ اختتامی ریمارکس میں، ججوں نے اس بات پر زور دیا کہ مذہبی، نسلی اور ثقافتی تنوع کی تعریف اور احترام ایک پرامن اور صحت مند معاشرے کی کلید ہے۔
26۔ یکم ستمبر کو نوجوانوں کے ایک گروپ نے سرگودھا یونیورسٹی میں استدلالی سوچ پر ایک روزہ ورکشاپ منعقد کی۔ پروفیسر ڈاکٹر ابرار بھٹی، ڈاکٹر زرینہ قاسم اور محترمہ روبینہ ظفر مہمان مقررین کے طور پر شامل ہوئے۔ ورکشاپ اپنی نوعیت کے اعتبار سے دوطرفہ مکالمے پر مبنی تھی اور شرکاء نے مقررین سے متعدد سوالات کیے۔ شرکاء نے زور دیا کہ تعلیم استدلالی سوچ کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ استدلالی سوچ مذہبی انتہا پسندی سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تعلیم اور انفرادی کوششوں کے ذریعے استدلالی طرزِ فکر کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
پشاور:
27۔ عوام میں یہ فہم پیدا کرنے کے لیے کہ تنوع ہماری کمزوری نہیں بلکہ یہ ہماری طاقت ہے، مذہبی تنوع پر ایک روزہ ورکشاپ 9 اگست کو پشاور میں منعقد ہوئی۔ ورکشاپ کے شرکاء اور مقررین نے مذہبی اور نسلی امتیاز کے بارے میں کھل کر بات کی جو انہوں نے اپنی روز مرہ زندگی میں محسوس کی اور اس سے نمٹنے کے لیے تجاویز پیش کیں۔ شرکا سے کہا گیا کہ وہ تنوع کی اہمیت کو نوٹ کریں اور پھر تمام شرکا کو اس سے آگاہ کریں۔ اس سرگرمی کا مقصد اس احساس کو فروغ دینا تھا کہ ہم مل کر بہت سے کام کر سکتے ہیں، ہم ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور اگر ہم باہمی حمایت اور برداشت سے کام لیتے ہیں تو ہم اپنے مقصد یعنی سماجی ہم آہنگی تک پہنچ سکتے ہیں۔ شرکا نے اس کی اہمیت کا احساس کیا اور اپنے گھروں، خاندانوں اور اپنے دوستوں کے حلقے میں یہ معلومات پہنچانے کا عہد کیا۔
بہاولپور:
28۔ اظہار رائے کی آزادی جمہوری حکمرانی کے نظام کی بنیادی قدر ہے۔ بہاولپور میں نوجوانوں کی قیادت پر مبنی ایک گروپ نے 16 اگست کو ایک مباحثہ منعقد کیا جس میں شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ ہر ایک کو آزادانہ طور پر اظہار خیال کرنے اور بغیر کسی امتیازی سلوک کے خوف کے عوامی زندگی میں فعال طور پر شامل ہونے کا حق ہونا چاہیے۔ انہوں نے دلیل دی کہ پدرسری معاشرے میں خواتین اظہار رائے کی آزادی کے اپنے حق سے آگاہ نہیں ہیں۔ انہوں نے آزادی اظہار کی اہمیت، خوبیوں اور خامیوں پر مزید غوروخوض کیا۔
29۔ ملکی امن اور استحکام قومی مفادات کے لیے ضروری ہے۔ معاشرے میں امن کی تعمیر میں نوجوانوں کا کردار اہم ہے۔ 22 اگست کو بہاولپور میں نوجوانوں کی قیادت میں سماجی ہم آہنگی اور شہریوں کے مساوی حقوق پر ایک روزہ ورکشاپ منعقد ہوئی۔ ورکشاپ کے دوران، یہ دیکھا گیا کہ کسی معاشرے میں امن اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے شہریوں کی مساوات سب سے اہم اجزاء میں سے ایک ہے۔ تاہم، مذہبی عدم رواداری، نسلی تنازعات، انسانی حقوق کی ترغیب کے فقدان، سیاسی عدم استحکام اور سماجی معاشی تفاوت نے معاشرے کے پرامن تانے بانے کو مسائل میں الجھا کر رکھ دیا ہے۔ ڈاکٹر صفدر حسین، اسسٹنٹ پروفیسر، اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور نے اس بات پر زور دیا کہ نسل، جنس، رنگ، مذہب، معذوری، یا دیگر خصائص سے قطع نظر، بغیر کسی جانبداری، رعایت یا تعصب کے، قانون کے تحت ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہیے۔ امریکا اور فرانس کے انقلاب ( جن کا مقصد آزادی، مساوات اور بھائی چارہ تھا) کا حوالہ دیتے ہوئے شرکا نے کہا کہ یہ سب شہریوں کی مساوات پر بنا رکھتے تھے۔ انہوں نے دنیا کے مزید کئی آئین بھی نشان زد کیے جو شہریوں کی مساوات کو تسلیم کرتے ہیں۔ تاہم کہیں کہیں جانبداری موجود ہے، مثال کے طور پر پاکستان میں جہاں ایک غیر مسلم صدر نہیں ہو سکتا کیونکہ صدر کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ ایک سرگرمی کے ذریعے، شرکاء نے سیکھا کہ مساوات کا تصور حقیقی زندگی کے حالات میں کیسے لاگو ہوتا ہے جیسے کام کی جگہ پر اور عدالت میں تنازعات کا حل کے وقت۔ نوجوانوں میں مساوات اور تنوع کے احترام کو فروغ دینے کے پیغام پر مبنی چند مختصر دستاویزی فلمیں بھی حاضرین کو دکھائی گئیں۔
30۔ کھیل مضبوط اور صحت مند معاشرے کی تعمیر میں معاون ہوتے ہیں اور سماجی ترقی میں حصہ ڈالتے ہیں۔ 30 اگست کو متنوع مذہبی پس منظر کے نوجوانوں کے ایک گروپ نے بین المذاہب ہم آہنگی اور تنوع کے احترام کو فروغ دینے کے لیے ایک روزہ کرکٹ میچ کھیلا۔ میچ کے بعد، کھلاڑی مل بیٹھے اور مذہبی اشتراکات اور امتیازات پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ امن کی تعمیر اور تنوع کا احترام تمام مذاہب کی مشترکہ خصوصیت ہے۔
31۔ خواتین کے حقوق عالمگیر ہیں اور ان کا تحفظ ہونا چاہیے۔ 29 اگست کو، پاکستان میں لڑکیوں اور نوجوان خواتین کے حقوق پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے تعلیم اور نسل کے لحاظ سے مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والی طالبات کو ایک گول میز مباحثے پر اکٹھا کیا۔ شرکاء نے گھر اور ملازمت کی جگہ پر صنفی بنیاد پر امتیازی سلوک پر رنج کا اظہار کیا۔ ایک مقرر نے توجہ دلائی کہ پاکستان کے تقریبا ہر علاقے میں کچھ والدین خواتین کو وراثت کے حقوق دینے سے ہچکچاتے نظر آتے ہیں۔ عورتوں کے لیے یہ ایک رسم بن گئی ہے کہ وہ جائیداد میں اپنا حصہ والدین یا بھائیوں کو دے دیں۔ مزید یہ کہ خواتین کے لیے گھر میں رہنا اور جسمانی مشقت کرنا معمول بن گیا ہے۔ لاہور میں خواتین کے ساتھ زیادتی کی ایک حالیہ مثال پر گفتگو کرتے ہوئے، جہاں تقریبا 300 مردوں نے ایک نوجوان خاتون کو ہراساں کیا، لیکچرر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، محترمہ سحرش نے کہا کہ تشدد کے مرتکب افراد کی بجائے خواتین کی تذلیل کی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ متاثرہ خاتون پر الزام تراشی ختم کیا جائے اور انصاف کے نظام کو نئی شکل دی جائے۔ اس امر پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا کہ خواتین کو ملازمتوں، سیاسی جماعتوں اور حکومت میں زیادہ حصہ دیا جانا چاہیے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکومتیں، معاشرے، اقوام متحدہ اور دیگر کثیرالجہتی تنظیمیں خواتین کے حقوق پر بیان بازی کے علاوہ کچھ عملی اقدامات بھی کریں۔
32۔ یکم ستمبر کو، ایک نوجوان گروپ نے تنوع، شہریوں کی مساوات، خواتین کے حقوق، بین المذاہب ہم آہنگی اور استدلالی سوچ پر ایک مباحثہ منعقد کیا۔ شرکاء نے فکرانگیز بحث کے ذریعے، مذہبی اور سماجی ہم آہنگی پر مشترکہ مؤقف کا تنقیدی تجزیہ کرنا سیکھا۔
جامشورو:
33۔ کسی ملک کی پائیدار جامع ترقی اس کے طرزِ حکومت اور سول سوسائٹی کے ڈھانچے سے وابستہ ہوتی ہے۔ 16 اگست کو جامشورو میں گریجویٹس اور نوجوان طالب علموں کے ایک گروپ نے مختلف موضوعات پر مباحثہ منعقد کیا جن میں استدلالی سوچ، صنفی مساوات، شہریت اور اظہار رائے کی آزادی شامل ہیں۔ شرکاء نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ آبادی کی اکثریت بنیادی حقوق سے لاعلم ہے۔ ہمارے معاشرے میں صنفی حوالے سے جو دقیانوسی تصورات موجود ہیں، وہ خواتین کو اپنی شخصی صلاحیتوں کو جلا بخشنے، اپنے پیشہ ورانہ زندگی کو آگے بڑھانے اور اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کی گنجائش کم دیتے ہیں۔ شرکا نے اظہار کیا کہ صنفی امتیاز، مذہبی انتہا پسندی اور استدلالی سوچ کی کمی نے معاشرے میں تنازعات کو فروغ دیا ہے۔
کوئٹہ:
34۔ جمہوری معاشرے میں تقریر کی آزادی نہایت اہم چیز ہے۔ 17 اگست کو، کوئٹہ میں متنوع برادریوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے اس نکتے پر مباحثہ منعقد کیا کہ کیا انہیں جب چاہیں آزادانہ طور پر کچھ بھی کہنے کی اجازت ہے۔ قرارداد کے حق میں بولنے والوں نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی ایک آئینی حق ہے اور لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق کچھ بھی کہنے کا حتمی حق حاصل ہے۔ اس بنیادی حق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف آئینی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔ دوسری جانب قرارداد کے مخالفین نے آزادی اظہار کے منفی نتائج کو اجاگر کیا۔ انہوں نے دلیل دی کہ تقریر کی آزادی غلط معلومات پھیلانے میں کردار ادا کر سکتی ہے اور اکثر کردار کی بدنامی کا باعث بن سکتی ہے۔ کچھ شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ حکومتی یا غیر سرکاری تنظیموں کے خیالات، آراء یا معلومات کے آزادانہ اظہار میں مداخلت کرنے والے کئی اقدامات سراسر غلط اور غیر آئینی ہیں۔
35۔ 17 اگست کو کوئٹہ کے مختلف لاء کالجوں کے نوجوانوں کے ایک گروپ نے پاکستان میں شہریوں کی مساوات کی حالت پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہیں اور مساوی تحفظ کے حقدار ہیں۔ خواتین شرکاء نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے، پدرسری سماجی نظام پر برہمی کا اظہار کیا اور رنج سے کہا کہ خواتین کے لیے سماجی و معاشی اور سیاسی آزادی کا فقدان ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صنفی مساوات ایک جامع عمل ہے اور خواتین کی معاشی آزادی صنفی عدم مساوات کی تشکیل میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔
36۔ عصر حاضر میں آزادی اظہار کا حق امن اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے بہت قیمتی ہے۔ 28 اگست کو ایک نوجوان طالبہ نے پریس کلب، کوئٹہ میں ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد کر کے آزادی اظہار کا پیغام عام کیا۔ مہمان مقررین صدر کوئٹہ پریس کلب، عبدالخالق رند، بلوچستان یونٹی آف جرنلسٹس کے صدر سلمان شیخ، اور سینئر صحافی اے پی پی، شیخ عبدالرزاق نے سول سوسائٹی میں مختلف قسم کے میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی آزادی پر تبادلہ خیال کیا۔ شرکاء نے آگاہی دی کہ متنازع مسئلے کے تمام فریقوں کو اپنی نسل، عقائد یا سیاسی خیالات سے قطع نظر لوگوں کے اظہار رائے کی آزادی کے حق کا احترام کرنا چاہیے۔
37۔ کوئٹہ مختلف مذاہب، نسل اور برادریوں کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ 29 اگست کو کوئٹہ میں یونیورسٹی کے نوجوان طلباء نے امن اور بین المذاہب ہم آہنگی پر ایک روزہ سیمینار کا اہتمام کیا۔ شرکاء نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان رواداری کے کلچر کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اقلیتوں اور دیگر برادریوں کے لیے اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنایا جائے تو نئے خیالات سامنے آئیں گے۔ صحافی سیف اللہ کھوسہ نے مختلف ثقافتوں، زبانوں اور برادریوں کے بارے میں اپنے علم اور تجربات کا اشتراک کرتے ہوئے کہا کہ تنوع ایک معاشرے کی خوبصورتی ہے اور سماجی ہم آہنگی کے لیے ضروری شے ہے۔
38۔ 28 اگست کو کوئٹہ کی مختلف یونیورسٹیوں کے نوجوانوں نے ایک روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیا تاکہ پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی سے متعلق آگاہی کو فروغ دیا جا سکے۔ ورکشاپ کے دوران، شرکاء نے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ (UDHR) کے آرٹیکل 19 پر زور دیا کہ رائے اور اظہار کی آزادی کو یقینی بناتا ہے۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ بولنے کی آزادی دیگر انسانی حقوق کو یقینی بنانے کی شرط ہے۔ آزادی اظہار کی عمومی تفہیم انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تمام صوبوں میں اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنایا گیا ہے، تاہم، قومی سلامتی اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے یہ کچھ پابندیوں کے ساتھ ہے۔ بدقسمتی سے یہ پابندیاں لوگوں کے مختلف گروہوں مثلا اقلیتوں، صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں وغیرہ کے خلاف استحصال کے لیے غلط طور پر استعمال ہو رہی ہیں۔ معاشرے میں اقلیتوں کے خلاف آزادی اظہار کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اظہار رائے کی آزادی کی ایک جامع تعریف کا مسودہ تیار کرنا ضروری ہے۔ حکومت کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے اور ملک میں اظہار رائے کی آزادی کو درپیش خطرات کو دور کرنے کے لیے مناسب اقدامات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
39۔ 3 ستمبر کو، تازہ فارغ التحصیل گریجویٹس اور یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے نوجوانوں کے ایک گروپ نے استدلالی سوچ، تنوع کے احترام اور صنفی مساوات کے پیغام کو فروغ دینے کے لیے ایک روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیا۔ مہمان مقرر، انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ، یونیورسٹی آف بلوچستان کے لیکچرار جناب عبدالقدوس نے معاشرے میں استدلالی سوچ کے کردار پر روشنی ڈالی۔ بلوچستان ویمن فورم (BWF) سے محترمہ ام کلثوم نے نوجوانوں کو معاشرے میں تنوع اور تنازعات سے آگاہ کیا۔ کچھ شرکاء نے تنوع اور مذہبی اقلیتوں کے احترام کے ذریعے سماجی ہم آہنگی پر پریزنٹیشن دی۔ انہوں نے کہا کہ استدلالی سوچ اور تجزیہ پائیدار امن اور ترقی کے لیے انتہائی اہم ہے۔
40۔ نوجوانوں میں شہریوں کے مساوات کے پیغام کو فروغ دینے کے لیے، 27 اگست کو ایک نوجوان، پرجوش طالبہ نے ‘زیکری’ کمیونٹی اور دور دراز علاقوں بشمول گنا، شاپوک، ساؤم، ہارونک، بلادیہ، بلگاتر، پسانی، حب، دشت کودان، دشت پانوڈے، دشت بالناگوور، اور دشت شاکارو کے لوگوں کے ساتھ مکالمہ کیا۔ سماجی کارکن یحییٰ بادل نے کہا کہ شہریت کے رنگ برنگ ہونے کا احساس ایک خوشحال اور پرامن معاشرے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ سیکولر ریاستیں شاذ و نادر ہی فرقہ وارانہ/مذہبی تشدد کے مسئلے کا سامنا کرتی ہیں۔ یورپی آئین کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان کے جانبدار آئین کی نشاندہی کی اور کہا کہ پاکستان میں غیر مسلموں کے مقابلے میں مسلمانوں کو زیادہ مواقع دیے گئے ہیں۔ نیز، غیر مسلموں کو ان کے مذاہب کی بنیادوں پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ محترمہ شیرین آدم، لیکچرر تربت یونیورسٹی نے اقوام متحدہ کے 17 SDGs پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ سب کو یکساں طور پر پرورش، علاج، تعلیم اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق بنیادی حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔
تربت:
41۔ 25 اگست کو، مختلف نسلی، لسانی، ثقافتی اور مذہبی پس منظر کے نوجوانوں کے ایک گروپ نے بڑھتے ہوئے کثیرثقافتی اور متنوع معاشرے کے درمیان تنوع کے احترام کو فروغ دینے کے لیے ایک روزہ مکالمہ منعقد کیا۔ شرکاء نے حیاتیاتی تنوع اور سماجی تنوع کا تصور سیکھا۔ انہوں نے مذہبی برتری کے موروثی تصور کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مذہبی، جنسی، علاقائی اور نسلی اختلافات کو قبول کرتے ہوئے تمام پہلوؤں میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا ضروری ہے۔ انہوں نے استدلال کیا کہ سماجی ہم آہنگی اور ترقی کو قبولیت اور تنوع کے احترام کے ذریعے فروغ دیا جا سکتا ہے۔ مکران میڈیکل کالج تربت کے وائس پرنسپل ڈاکٹر اسلم آذر نے بحث میں حصہ لیا اور شرکاء کو اس نوع کی سرگرمیوں میں شرکت کی ترغیب دی تاکہ سماجی امن اور ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکے۔
سکھر:
42۔ 26 اگست کو سکھر میں نوجوان طالب علموں کے ایک گروپ نے ‘شہریوں کی مساوات’ پر ایک روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیا۔ آغاز کرتے ہوئے، مفتی عبدالحئی اشرفی نے پاکستان میں مذہبی آزادی اور شہریوں کی مساوات پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو کسی دوسرے کے عقیدے یا مذہب پر تنقید کا حق نہیں ہے۔ نوجوانوں میں بنیادی حقوق کا احترام مقامی/قبائلی تنازعات کو ختم کرنے اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے میں مددگار ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مذہبی تنوع اور تمام شہریوں کی مساوات کا احترام ہمارا اخلاقی اور آئینی فرض ہے اور کوئی بھی پیارے وطن میں قانون سے بالاتر نہیں ہے۔
43۔ 3 ستمبر کو، بیگم نصرت بھٹو ویمن یونیورسٹی (BNBWU) کی طالبات نے پاکستان میں سماجی ہم آہنگی میں تنوع کے کردار پر گفتگو کرنے کے لیے ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا۔ پروفیسر (BNBWU ) ڈاکٹر شہزاد نسیم اور مذہبی اسکالر ڈاکٹر اسد مہمان مقرر کے طور پر شریک ہوئے۔ شرکاء نے ورکشاپ کے دوران مذہبی انتہا پسندی سے متعلق اپنے تجربات بیان کیے اور کہا کہ تنوع کا احترام سماجی ہم آہنگی کی کلید ہے۔ ڈاکٹر اسد نے مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کا طریقہ تجویز کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی تہواروں کی باہمی تقریبات معاشرے میں امن کو فروغ دیں گی۔ لوگوں کو ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کا دورہ کرنا چاہیے، اکٹھے کھانا کھانا چاہیے، ایک دوسرے کی بات سننی چاہیے، دوسرے مذاہب کا احترام کرنا چاہیے کیونکہ ہر فرد کے اپنے حقوق ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی اور شہریوں کی مساوات مذہب یا عقیدے سے قطع نظر بنیادی حق ہے۔ اسی دوران میں ڈاکٹر شہزاد نسیم نے سماجی امن اور ہم آہنگی کو متاثر کرنے والے مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔
44۔ 4 ستمبر کو سکھر میں مسلمانوں اور ہندو برادری کی نوجوان طالبات نے بین المذاہب ہم آہنگی کے پیغام کو فروغ دینے کے لیے بیڈمنٹن کھیلا۔ ایک ہی جگہ پر ایک ہی ریکیٹ کے سا تھ کھیلتے ہوئے، شرکاء نے مساوات اور تنوع کے احترام کے تصور کو سمجھا۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ تنوع کا یہ تصور صرف مذاہب کے بارے میں نہیں بلکہ ذات، رنگ اور نسل سے متعلق ہے۔ یہ اس امتیازی سلوک کے بارے میں ہے جو سکول ہی میں شروع ہوجاتا ہے۔ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی کھلاڑی طالبات نے بتایا کہ سکول میں نفرت کا سامنا کس طرح ان کی زندگی اور مستقبل کی کوششوں کو متاثر کرتا ہے۔ انہوں نے مزید اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں مذہبی اکثریت اور اقلیتوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے کھیل یا مکالمے جیسی تقریبات کا انعقاد اہم ہے۔
حیدرآباد:
45۔ خطے میں مذہبی تنوع کی وجہ سے، پُرجوش نوجوانوں کے ایک گروپ نے 25 اگست کو حیدرآباد میں بین المذاہب ہم آہنگی پر ایک روزہ سیمینار کا اہتمام کیا۔ انسانی حقوق کے کارکن جناب بلاول نصیر نے امن اور رواداری کے فروغ میں سول سوسائٹی کے کردار پر زور دیا۔ مذہبی ماہر محترمہ کرن جوئیہ نے کہا کہ ہر مذہب محبت اور امن کا پیغام دیتا ہے۔ انہوں نے سماجی ہم آہنگی اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے مثبت تبدیلی لانے کی اشد ضرورت پر زور دیا۔ ایک اور مذہبی اسکالر مسٹر رمیش گپتا نے پائیدار سماجی ترقی کو فروغ دینے کے لیے مختلف ثقافت اور مذہب کے لوگوں کو ایک بینر کے تحت اکٹھے ہونے پر سراہا۔ موضوع کے ماہرین جناب پادری سلیم اقبال اور محترمہ شازیہ سلیم نے شرکاء کے ساتھ بات چیت کی اور یونیورسٹیوں میں اور باہر ان کو درپیش سماجی مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔
46۔ سندھ یونیورسٹی، حیدرآباد میں 2 ستمبر کو بین المذاہب ہم آہنگی پر ایک روزہ ورکشاپ کے دوران، علاقے کے مختلف اداروں کے نوجوانوں نے تنوع کے احترام کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا۔ مہمان مقرر پروفیسر فرح بھٹو نے انتہا پسندی، اس کے نقصانات اور معاشرے پر اس کے اثرات کی وضاحت کی۔ ایک رکن نے دلیل دی کہ دوسرے کے عقیدے اور مذہب کے بارے میں بنیادی معلومات کا فقدان سماجی تنازعات اور عدم استحکام کا باعث بنا ہے۔ دنیا کا ہر مذہب محبت، امن، ہمدردی اور انسانیت کا درس دیتا ہے۔ کسی کو دوسروں کے مذہب اور عقیدے کا اتنا ہی احترام کرنا چاہیے جتنا وہ اپنے مذہب یا عقیدے کا احترام کرتا ہے۔ لوگوں کو معاشرے میں اتحاد اور نظم و ضبط کا پابند ہونا چاہیے۔ اقلیتی برادری کے ایک رکن نے یونیورسٹی کینٹین میں پیش آنے والے مذہبی امتیاز کے تجربے کو بیان کیا۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ اگر غیر مسلم مسلمانوں سے نفرت نہیں کرتے تو پھر مسلمان ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں اور ہمیں کمتر کیوں سمجھتے ہیں؟ دیگر نے کہا کہ نسل، جنس، رنگ، طبقے، علاقے یا زبان کی بنیاد پر امتیازی سلوک اسلام میں سختی سے منع ہے۔ اس ورکشاپ نے شرکاء کو ایک دوسرے کے عقیدے اور مذہب سے واقفیت کے ذریعے تنوع کے احترام کو فروغ دینے میں معاونت کی۔
لاہور:
47۔ پاکستان میں مذہبی امتیاز ایک سنگین مسئلہ رہا ہے۔ 28 اگست کو، مختلف نسلی، صوبائی اور مذہبی پس منظر سے تعلق رکھنے والے طلباء کے ایک گروپ نے ملک میں اقلیتی حقوق کی حالت پر بحث کے لیے پارلیمانی طرز کی بحث کی۔ شرکاء نے دیگر پسماندہ مذہبی برادریوں کے ساتھ امتیازی سلوک، ظلم و ستم اور تشدد پر روشنی ڈالی۔ غیر مسلم اقلیتوں کو پارلیمنٹ اور مقامی کونسلوں میں مناسب نمائندگی نہیں دی جاتی۔ پاکستان کے آئین کے مطابق پاکستان کے ہر شہری کو اپنے عقیدے پر عمل کرنے کی آزادی کی ضمانت دی جانی تھی لیکن اس حق کو کچھ شدت پسندوں نے پامال کیا ہے۔ بحث کے دوران، کچھ سخت گیر نظریات رکھنے والوں نے کچھ سوالات بھی اٹھائے۔ بین المذاہب ہم آہنگی اور تنوع کے احترام کے پیغام پر اتفاق کرتے ہوئے بحث کا اختتام ہوا۔
48۔ پاکستان میں جامعات سماجی اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے اہم پلیٹ فارم مہیا کرتی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں موجود تنوع کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، نوجوانوں نے مل کر 31 اگست کو ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا، جس میں صنفی مساوات اور ملک میں خواتین کے حقوق کی حیثیت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ شروع میں، شرکاء حیرت زدہ ہوئے، ایسا لگتا تھا کہ وہ اس موضوع کے بارے میں نہیں سننا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ صنفی مساوات اور حقوق نسواں مغربی پروپیگنڈے کا حصہ ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے قانونی ماہر جناب شاہ زمان شاہد نے شرکاء کو قانون کے تحت خواتین کے حقوق اور حیثیت کے بارے میں آگاہ کیا۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں تقریر کرنے والے جناب حافظ زوہیب حسن نے معاشرے میں خواتین کے حقوق پر جاری امتیازی سلوک اور استحصال کی وضاحت کی۔ ورکشاپ کے اختتام پر، کچھ مرد شرکاء کو چھوڑ کر جو ہچکچاہٹ کا شکار تھے، سب نے خواتین کو ان کے بنیادی حقوق دینے کے عزم کا اظہار کیا۔
سمندری، فیصل آباد:
49۔ یکم ستمبر کو، مختلف علمی اور نسلی پس منظر سے تعلق رکھنے والے نوجوان امن کارکنوں نے ایک مکالمہ کیا تاکہ ایک مستحکم معاشرے کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی کی اہمیت کو واضح کیا جا سکے۔ انہوں نے زور دیا کہ سماجی ہم آہنگی تنوع کے احترام سے منسلک ہے۔ بڑے پیمانے پر عدم استحکام سے بچنے کے لیے مذہبی تنازعات کو سمجھنا اور ان سے نمٹنا مناسب ہے۔ مختلف مذاہب اور مذاہب کی تفہیم ایک دوسرے کے لیے رواداری اور احترام کو فروغ دے گی۔ اسلام نے ہمیشہ بین المذاہب ہم آہنگی کی تلقین کی ہے۔ بین المذاہب مکالمہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ ’’ صلح حدیبیہ‘‘ اور ’’ میثاقِ مدینہ ‘‘ مذہبی ہم آہنگی کی واضح مثالیں ہیں۔ شرکاء نے نوجوانوں میں بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے سماجی آگاہی کی مہمات کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ پرامن معاشرے کے لیے مذہبی اشتراکات کی نشاندہی اور فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
50۔ 7 ستمبر کو فیصل آباد میں نوجوان طلباء کے متنوع گروپ نے امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کے پیغام کی تائید کے لیے ایک سیمینار منعقد کیا۔ ہندو، سکھ اور عیسائی معاشرے کے شرکاء نے جامع معاشرے کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ لوگ اپنے معاشی مفادات کی پیروی کرتے ہیں، مذہب اور ایمان کے نام پر اپنے عیوب اور ذاتی ذہنی مسائل کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے دلیل دی کہ دوسروں کے معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی اور بین المذاہب مکالمے مذہبی ہم آہنگی کے لیے اہم ہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ (UDHR) اور پیغامِ پاکستان (PeP) کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تمام انسان برابر کے شہری ہیں چاہے ان کے مذاہب اور عقائد کچھ بھی ہوں۔ شہریوں کی مساوات کا تصور، مذہبی انتہا پسندی اور اقلیتوں کو درپیش امتیازی سلوک بالآخر علاقائی اور عالمی نظام میں پاکستان کے تشخص کو نقصان پہنچائے گا۔ تاہم میڈیا کو امن اور ہم آہنگ معاشرے کے فروغ میں تعمیری کردار ادا کرنا چاہیے۔
فیس بک پر تبصرے