مذہب اور پوسٹ ماڈرن ازم کا چیلنج

811

مذہب کیا ہے؟اس سوال کا جواب انسائیکلوپیڈیاز سے مل جاتا ہے اور مذہبی مفکرین کی کتب سے بھی۔لیکن کیا مذہب کی کوئی ایک ایسی تعریف ممکن ہے،جس پر سب کا اتفاق ہو؟طلال اسد کا کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں۔سیکولرزم کی طرح مذہب کی تعریف بھی بڑی حد تک اس کے ماننے والوں کے رویے سے ماخوذ ہے اور یوں تبدیل ہو تی رہتی ہے۔

جب ہم اس سوال کو کسی خاص مذہب کے حوالے سے اٹھاتے ہیں تو اہلِ علم کی ایک بڑی تعداد اسے متعین کرتی ہے۔جیسے اسلام۔ان کا کہنا ہے کہ اس کی تعریف ان الٰہیاتی مآخذ سے ہوگی جو مذہب کی بنیاد ہیں،جیسے قرآن اور سنت۔یہ بات اصولی طور پر کتنی درست ہی کیوں نہ ہو،دلچسپ حقیقت یہی ہے کہ جب سماجی سطح پر اسلام کا ظہور ہوتا ہے تواس کی مختلف تعریفیں سامنے آتی ہیں۔

مثال کے طور پر سب توحید کو بنیاد مانتے ہیں مگر توحید کی تعریف میں اختلاف ہے۔یہی اختلاف مختلف فرقوں یا مسالک کے وجود میں آنے کا سبب ہے۔سلفی یا اہلِ حدیث کا تصورِ توحید،بریلوی مسلک یا صوفیا کے تصورِ توحید سے مختلف ہے۔یہاں اختلاف اتنا سنگین ہو جاتا ہے کہ ایک مسلک جسے شرک سمجھتا ہے،دوسرا اسے توحید قرار دیتا ہے۔ توحید کا ایک مقبول تصور وہ ہے جو قرآن مجید میں بیان نہیں ہوا لیکن ایک بڑا طبقہ اسے قبول کرتا ہے۔ یہی معاملہ تصورِ رسالت کا بھی ہے۔ عجم میں رسول اور نبی کا جو تصور ہے،وہ عربی تصور سے یکسر مختلف ہے۔

مسیحیت کی تاریخ بھی اس سے مختلف نہیں۔تاریخ کے مختلف ادوار سے گزرنے کے بعد،مسیحیت کی ایک تعریف پر اکثریت کا اتفاق ہوا۔یہ اتفاق کسی الہام سے نہیں بلکہ مذہبی علما کی مشاورت سے ہوا۔مثال کے طور پر موجودہ مسیحیت کے سارے عقائدلازم نہیں کہ اناجیل میں بھی پائے جاتے ہو۔جیسے تثلیث۔یہ عقیدہ بعد میں مرتب ہو،جس پر اہلِ مذہب کی غیر معمولی اکثریت کا اتفاق ہو گیا۔مسیحیت کی تاریخ کے دوادوار تو معلوم ہیں۔ایک قبل ازسینٹ پال،دوسرا بعد از سینٹ پال۔قبل از سینٹ پال کے دور میں مسیحیت کیا تھی،اس کے بارے میں موجود تاریخی مواد سے جو تصویر بنتی ہے،وہ اس تصویر سے مختلف ہے جو بعد از سینٹ پال ہمارے سامنے آتی ہے۔

پاکستان میں 1950 ءکی دہائی میں مذہب کی تعریف کا سوال اٹھاتھا جب پنجاب کے فسادات پرجسٹس منیر رپورٹ سامنے آ ئی تھی۔اس وقت علما کے سامنے جب یہ سوال رکھا گیا تو انہوں نے اس کے مختلف جواب دیے۔تاہم مذہبی طبقے کا موقف یہ ہے کہ علما کے بائیس متفقہ نکات اس بات کاا علان ہیں کہ علما میں اسلام کے بنیادی تصورات پر کوئی اختلاف نہیں۔

مذہب کی تعریف میں موجوداختلاف کوتسلیم کرتے ہوئے بھی مذہب کی ایک عمومی تعریف ممکن ہے۔اس سے مراد وہ نظامِ عقائد وتعلیمات ہے جس کی اساسات مابعد الطبیعیاتی ہیں۔کسی ہستی یا نظامِ کائنات پر ایمان جو طبیعیات کی اس دنیا سے ماورا ہے۔اس ہستی یا نظام کے ساتھ انسان کا جو رشتہ وجود میں آتا ہے،وہ رسومِ عبادات،عقائد یا اخلاقیات کی صورت میں ظہور کرتا اور انسان اور انسان،انسان اور خدا، انسان اور کائنات کے باہمی تعلق کی تجسیم کرتا ہے۔مذہب،موت جیسے تصورات کو مخاطب بناتا ہے جو انسان کے لیے ہمیشہ ایک لاینحل سوال رہا ہے۔ مذہب کی اساس کسی الہام پر ہوتی ہے۔یہ الہام کتاب کی صورت میں ہو سکتا ہے،کسی الہامی ہستی کے کلام اور سیرت کی شکل میں ہو سکتا ہے ا ورسینہ در سینہ سفر کرنے والی روایات کی صورت میں بھی۔

مذہب کو ماننے والے جب اپنے دور کے معروف یا غالب نظام ہائے فکر سے متاثر ہوئے تو انہوں نے ان کے مابین تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی۔مثال کے طور پر جو انسانی حقوق کے تصور سے متاثر ہوئے انہوں نے مذہب کی ہیومنسٹ (Humanist)تعبیر اختیار کر لی۔جو سائنس کی دریافتوں سے متاثر تھے، انہوں نے مذہب کی نیچری تعبیر پیش کی۔ جو ازمز(isms) یانظاموں سے متاثر تھے انہوں نے اصرار کیا کہ اسلام مروجہ معنوں میں مذہب نہیں،دین ہے جس کا مطلب ’سٹیٹ‘ ہوتا ہے۔اس طرح یہ ایک سیاسی اور معاشی نظام ہے۔

ان تعبیرات کو ہم مذہب کے توسیعی معنی قرار دے سکتے ہیں لیکن ان کی بنیاد ایک ہے اور وہ مذہب کا ایک مابعد الطبیعیاتی تصورہو نا ہے۔جو سائنس کو معیار مان کر اسلام کی تعبیر کرتا ہے،وہ بھی مانتا ہے کہ یہ خدا کا دیا ہوا دین ہے،موت کے بعد بھی ایک زندگی ہے اور انسان کو خدا کے حضور میں پیش ہو نا ہے۔گویا مذہب کے مابعد الطبیعیاتی تصور ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔

مذہب،بطور عقیدہ ہر عہد کا حصہ رہا ہے۔جب تک مذہب نے ایک اداراتی صورت اختیار نہیں کی تھی،مذہبی مظاہر یا عقائد کو توہمات کے عنوان سے بیان کیا جا تا رہا ہے۔اُن ادوار میں چونکہ انسانی تہذیب کسی مربوط نظامِ علم سے بے خبر تھی،اس لیے مذہب کو ایک بیانیے کے طور پر کسی بڑے چیلنج کا سامنا نہیں تھا۔اخلاقیات چونکہ انسانی نظام فکر کا حصہ تھا،اس لیے مذہب اخلاقیات کے ایک ماخذ کے طور پر قابلِ قبول تھا۔قدیم یونان کی علمی روایت میں بھی،عقل کے ساتھ، اخلاقیات کو ایک علمی مقدمے کے طور قبول کیا گیا ہے۔سقراط،اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔اس دور میں،اس لیے ہمیں فلسفہ اور اخلاقیات ساتھ ساتھ چلتے دکھائی دیتے ہیں۔

دورِ جدیدیت(Modernity) میں عقل کی بنیاد پر جو علمی روایت مرتب ہوئی،اس نے خود کو مذہبیات سے الگ کر لیا۔تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر جب فطرت اور کائنات کو سمجھنے کا عمل شروع ہوا،جسے سائنسی دور کہتے ہیں تو علم بالحواس ہی کو مستندسمجھا گیا۔جو خیال یا تصور اس معیار پر پورا نہیں اترتا تھا،اسے ایک علمی حقیقت کے طور پر قبول نہیں کیا جا تا تھا۔اب مذہب کے لیے ایک متوازی علمی روایت کے طور پر کھڑا رہنا مشکل ہو گیا۔پہلے مرحلے میں اس نے کوشش کی کہ اپنی سماجی قوت کے زور پر غیر مذہبی روایت کو کمزور کر دے۔جب مذہب کو،اس میں کامیابی نہ ہوئی تو اس نے خود کومابعد الطبیعیات میں قید کر لیا،جس کا دائرہ سائنسی دریافتوں کے سبب سے سکڑتا جا رہا تھا۔

یہ واقعہ ایک ایسی دنیا میں ہواجہاں مذہب کی نمائندگی کا کردار مسیحیت کے پاس تھا۔سائنس کے اثرات مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عالمگیرہوتے چلے گئے،جس کی وجہ سے سائنس نے ہر مذہب کے لیے ایک چیلنج کھڑا کر دیا۔مسلمان اہلِ علم نے بھی سائنس کی آہٹ کو سنا اور اسلام کو اس کے تاخت سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔کئی اہلِ علم نے کوشش کی کہ اسلام کو سائنسی دریافتوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ یہ ایسی ہی ایک کوشش تھی جو اس سے قبل فلسفے کے چیلنج کا سامنا کرتے ہوئے کی گئی۔ابن رشد وغیرہ نے ایک علمِ کلام کو جنم دیا جو دراصل اسلام اور فلسفے میں مطابقت کی ایک کوشش تھی۔جدیدیت کے بعد سرسیداحمد خان جیسے اہلِ علم کی کوششوں سے ایک اور علمِ کلام وجود میں آیاجس میں اسلام اور سائنس میں تطبیق پیدا کرنے کی سعی کی گئی۔

بعد از دورِ جدید (Post modern)عہدمیں علم کا وہ مربوط پیمانہ باقی نہیں رہا جو دورِ جدیدیت میں بنایا گیا تھا۔دورِ جدید میں غلط اورصحیح کو دو اور دوچار کی طرح بیان کیا جا تا تھا۔ پوسٹ ماڈرن دور میں غلط اور صحیح کے تعین کو موضوعی مانا گیا ہے۔ اب دو متضاد اشیایاخیالات بیک وقت درست ہو سکتے ہیں۔یہ اس نظامِ علم کی نفی ہے جوارسطو کی منطق سے پیدا ہوا اورسائنسی دور میں مکمل ہوا۔اب مذہب کے لیے جہاں یہ گنجائش پیدا ہوگئی ہے کہ وہ ایک بیانیے کے طور پر باقی رہے،وہاں اس کا یہ دعویٰ بھی معرضِ خطر میں ہے کہ وہ واحد درست بیانیہ ہے یا حقیقت تک رسائی کا واحد ذریعہ ہے۔پوسٹ ماڈرن ازم میں حقیقت کی صورت گری چند سماجی عوامل کے زیر اثر ہوتی ہے۔ گویا حقیقت اپنا کوئی وجود نہیں رکھتی۔عوام بدلتے ہیں تو حقیقت بھی بدل جا تی ہے۔

مذہب چونکہ مطلق سچائی ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے،اس لیے آج مذہب کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ پوسٹ ماڈرن دور میں اپنا وجود کیسے ثابت کرتا ہے جب مطلق سچائی کی بنیاد ہی کو تسلیم نہیں کیا جاتا؟ جس طرح ارسطو کی منطق نے، جس کا دورِ عروج فلسفے کا عہد ہے، مسلم فکر کو ایک نئے علمِ کلام کی طرف مائل کیا یا سائنسی دور میں ایک نئے علمِ کلام کی ضرورت محسوس کی گئی،کیا آج بھی مذہب کو اس طرف پیش رفت کرنا ہوگی؟اگر اس سوال کا جواب اثبات میں ہے تو اس کی صورت کیا ہوگی؟علمِ کلام محکم علمی بنیادوں کو بطور مفروضہ اختیار کر کے آگے بڑھتا ہے۔جب کوئی ایسی بنیاد ی میسر نہ ہو توعلمِ کلام کس شاخ پر اپنا آشیانہ بنائے گا؟

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...