امام ابن تیمیہ اور اصولِ فقہ کی تشکیلِ نو

1,053

امام ابن تیمیہ [م ۷۲۸ ھ] تاریخ اسلام کے ایسے پر آشوب عہد سے تعلق رکھتے ہیں جس میں امت مسلمہ کو منگولوں اور صلیبی حملہ آوروں کے ساتھ طویل اور مسلسل جنگوں کا سامنا تھا۔ سیاسی استحکام کے لیے مضبوط ریاست اور ملت کو یکجا رکھنے کے لیے سخت اور اٹل قوانین کی ضرورت تھی۔ امام نے ان موضوعات پر لکھنا شروع کیا تو علما اور فقہا کی جانب سے مخالفت شروع ہو گئی۔ شروع میں یہ اختلاف عقائد اور بدعات کے حوالے سے تھا۔ لیکن پھر سیاسی اور فقہی امور میں بھی اس میں شامل ہو تے گئے۔ ان کے عقائد پر سوال اٹھائے گئے۔ اسلامی روایت محنة یا تفتیش کے تحت عدالتوں میں ان کے عقائد کا بار بار امتحان لیا گیا۔ کئی مرتبہ قید ہوئے۔ اس قید و بند کےدوران انہیں مسلسل غورو فکر اور تصنیف و تالیف کا موقع ملا۔ان آزمائشوں کے دوران امام اس نتیجے پر پہنچےکہ علما کے فقہی اختلافات امت کو یکجا نہیں ہونے دیتے۔

انہیں یہ بھی یقین تھا کہ ان اختلافات کا سبب یونانی منطق اور مابعد الطبيعيات کے علوم تھے جن پر قدیم اصول فقہ اورعلم الکلام کی عمارت کھڑی کی گئی تھی۔ یہ اصول عقلی مسلمات اور حقائق کے جانچنے کا معیار قرار دیے گئے۔ فقہی استدلال میں یونانی منطق کے یہی طریقے اختلاف رائے کے ثبوت کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ امام ابن تیمیہ علم الکلام اور اصول الفقہ الاسلامی پر یونانی فلسفے ااورمنطق کے اثرات کے شدید ناقد بن گئے۔ امام ابن تیمیہ نے الرد علی المنطقییین[1]، رسالہ فی معنی القیاس اور القیاس فی الشرع الاسلامی[2] میں قیاس کے اصولوں کے یونانی منطق پر انحصار کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا۔ اور السیا سۃ الشرعیہ میں دین اور سیاست میں دوری کا ذکر کیا۔

امام ابن تیمیہ سے پہلے امام غزالی [م ۵۰۵ ھ] نے یونانی فلسفے پر تو تنقید کی، تاہم وہ چونکہ علوم کی عقلی اور دینی دائروں میں تقسیم کے قائل تھے اس لیے انہوں نے تمام دینی علوم کے لیے جن میں علم الفقہ بھی شامل ہے علم الکلام کو بنیادی اور کلی علم قرار دیا [3]۔علوم فقہ میں قیاس کے اصول کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ فقہا کے قیاس کو قطعی نہیں، موہومہ یا مفروضہ مانتے تھے۔کیونکہ فقہی استدلال میں نتائج مشابہت یا مماثلت پر مبنی قیاس یا ایسے استقرا کی بنیاد پر اخذ کیے جاتے ہیں جو نامکمل ہوتا ہے۔ دونوں رائے کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے دونوں ظنی رہتے ہیں۔ امام غزالی منطقی قیاس کو قطعی سمجھتے ہیں جسے وہ برہان کا نام دیتے ہیں۔ برہان دو مقدمات پر مشتمل ہوتا ہے جن کو ترتیب دینے سے نتیجہ نکالا جاتا ہے۔ اس کی مثال یوں دیتے ہیں۔ ہرجسم مختلف عناصر کا مرکب ہے۔ ہر مرکب فانی ہے اس لیے جسم فانی ہے۔ فقہی قیاس میں یہ مقدمات یا قضایا حکم اور محکوم شمار ہوتے ہیں۔ فقہی قیاس کی مثال یوں دیتے ہیں کہ

ہر نبيذ نشہ آور ہے۔

ہر نشہ آور حرام ہے[حدیث]۔

لہذا نبیذ حرام ہے۔

غزالی کے نزدیک منطقی دلیل برہان میں دونوں مقدمات قطعی اور یقینی ہوتے ہیں اس لیے نتائج بھی ناقابل تردید ہوتے ہیں۔ منطقی قیاس میں دونوں مقدمات مسلمہ ہوتے ہیں یعنی فریقین ان کو تسلیم کرتے ہیں۔ ابن تیمیہ کا اعتراض یہ ہے کہ منطقی قیا س میں اصل اور فرع کو معنی کے لحاظ سے برابر اہمیت دی جاتی ہے[4]۔ اس لیے نتائج کے مسلمہ ہونے کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ فقہی قیاس میں دونوں مقدمات رائے پر مبنی اور ظنی ہوتے ہیں اس لیے دلیل اور ثبوت کے بغیر نتیجہ لازم نہیں ہوتا [5]۔ چنانچہ متکلمین نے یونانی علم منطق میں موجود قیاس کی تمام اقسام اور تفصيلات کو بتدریج فقہی قیاس کا حصہ بنا لیا [6]۔

ابن تیمیہ کے مطابق منطق کی بنیاد پر استوارفقہی اختلافات شرعی مسائل کی صحیح تفہیم میں آڑے آرہے تھے۔ تشریع اورقانون سازی میں انہی اصولوں پر انحصار تھا جس کی وجہ سے شریعہ اور سیا سہ اقتدار کے دو الگ اور متوازی ستون بن گئے تھے[7]۔ ابن تیمیہ نے السیا سۃ الشرعیہ فی اصلاح الراعی والرعیہ [8] میں شریعہ اور سیاست میں دوری کو ہی موضوع بنا یا ہے۔

بقول وائل حلاق، ابن تیمیہ کو یقین تھا کہ یونانی منطق اور مابعد الطبيعيات کے زیر اثر مسلم فلاسفہ، متکلمین اور صوفیا کے ہاں فکر اسلامی متضاد افکار کا شکار ہوا[9]۔ابن تیمیہ کہتے تھے کہ یونانی منطق کی عقلمند کو ضرورت نہیں اور بے وقوف کے کسی کام کی نہیں[10]۔ وہ لکھتے ہیں کہ منطقی دلائل کے طریقے سے جو نتیجے نکلتے تھے وہ اکثر صحیح ہوتے تھے اس لیے وہ دیر تک یہی سمجھتے رہے کہ منطق کے قضایا اور مسلمات حقائق پر مبنی ہوتے ہیں۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ قضایا اور مسلمات بھی ظنی ہوتے ہیں۔ ان کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، لیکن ان اصولوں کو مسلمات بتا کر الہیات اور منطق کے علوم میں متعارف کرایا گیا تو آگے چل کر یہی علم الکلام میں عقائد میں فساد اور بگاڑ کا سبب بنے اور اصول فقہ کی حیثیت میں فقہی اختلافات کا جواز ٹھہرے[11]۔

توہین رسالت کے مسئلے پر جب امام ابن تیمیہ کو قیدو بند کی صعوبتوں کا سامنا ہوا اور اس مسئلے پر غور کیا تو وہ اسی نتیجے پر پہنچے کہ توہین رسالت کے فقہی احکام جن اصول فقہ کی روشنی میں لکھے گئے وہ بھی نصوص کی تعبیر میں یونانی بلاغت اور قیاس میں یونانی منطق کے منہج پر انحصار کرتے ہیں اس لیے فقہا اختلافات میں مبتلا ہیں۔ چنانچہ ان کا اصول فقہ کی تشکیل نو کا عزم پختہ ہو گیا۔

امام ابن تیمیہ کی کتاب الصارم المسلول علی شاتم الرسول[12] کا بنیادی موضوع اصول فقہ کی تشکیل نو کی ضرورت ہے۔ اس تصنیف کا پہلا اور فوری محرک تو توہین رسالت کا واقعہ تھا جو ۶۹۲ ھ میں پیش آیا۔ دوسرا اور اصل محرک وہ فقہی اختلافات تھے جن کی وجہ سے توہین رسالت [سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم] بہت ہی نازک اور پیچیدہ مسئلہ بن گیا تھا۔ تیسرا اور اصولی محرک نصوص کی اس تعبیر کا تجزیہ تھا جو یونانی فکر پر مبنی کلام، بلاغت اور منطق کے قواعد میں محدود تھی۔ اجماع اور قیاس کی قدیم تشکیل کی تائید میں اسی تعبیر پر انحصار کیا گیا۔ ابن تیمیہ نے ارسطو کی منطق اور افلا طون کی مابعد الطبیعیات پر مبنی قیاس کے طریقے کو ترک کیا۔ اس طریقے سےاصول فقہ کی تشکیل نو کے بعد ہی دو ٹوک نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہو ئے۔

اب تک مغربی محققین کی توجہ زیادہ تر امام کی کلامیات پر مرکوز رہی ہے۔ بیسویں صدی کے اواخر میں وائل حلاق[13] اور اکیسویں صدی کے اوائل میں یوسف راپوپورٹ[14] نے امام کی فقہیات اور خصوصاً اصول فقہ کو تحقیقات کو موضوع بنایا تو امام ابن تیمیہ کی کتاب الصارم کے فقہی زاویے سے مطالعہ کے رجحان کو تقویت ملی[15]۔

یہ مختصر مضمون دو حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلے حصے میں توہین رسالت اور فقہی اختلافات کے محرکات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں توہین رسالت کے بارے میں امام کا موقف اور نو تشکیل اصول فقہ کا بیان ہے

-۱-

توہین رسالت

 توہین رسالت ۶۹۲ ھ کا واقعہ

ابن کثیر (م ۷۷۵ ھ) لکھتے ہیں کہ سویداء میں لوگو ں کے گروہ نے گواہی دی کہ عساف نصرانی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی ہے۔ سویداء شام کے جنوب مغرب میں واقع ایک شہر ہے۔ عساف اسی شہر کا باشندہ تھا اور امیر آل علی احمد بن حجی کے ہاں بطور کاتب [سیکرٹری] ملازم تھا۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی شیخ ابن تیمیہ، شیخ ا لحدیث زین الدین الفارقی اور بہت سے لوگوں کوساتھ لے کر شکایت کے لیے نائب سلطنت امیر عزالدین ایبک الحموی کی عدالت میں پہنچ گئے۔ امیر نے ان کی بات سنی اور حکم دیا کہ عساف نصرانی کو حاضر کیا جائے۔ جب تک عساف پہنچا عدالت کے باہر لوگوں کا ہجوم جمع ہو چکا تھا۔ عساف کے ساتھ عرب امیر حجی بھی تھا۔ لوگوں نے عساف کو دیکھا تو اسے گالیاں دینے اور برا بھلا کہنے لگے۔ عرب امیر نے لوگوں کو بدکلامی سے روکا اور کہا تم سے تو یہ نصرانی کہیں بہتر ہے۔ لوگ طیش میں آگئے اور عساف اور امیر پر پتھر پھینکنے لگے۔ پتھر لگنے سے عساف بری طرح زخمی ہوگیا۔ نائب سلطنت نے دونوں شیوخ کو عدالت میں طلب کر لیا۔ عساف نصرانی کو بھی پیش کیا گیا۔ تفتیش میں پتہ چلا کہ الزام جھوٹا ہے اور چند لوگوں نے عداوت کی بنا پر عساف کے خلاف گواہی دی تھی۔۔عدالت نے اسے بری کردیا۔ شیوخ کی سرزنش کی اور اپنے سامنے دونوں کو سزادی اور العذراویہ میں قید کا حکم دیا۔ عساف نے عدالت کے سامنے اسلام قبول کر لیا نائب سلطنت نے شیوخ کو بلا کر عساف سے راضی نامہ کروایا اور انہیں رہا کردیا۔ ابن کثیر کی اطلاع کے مطابق قبول اسلام کے بعد عساف حج پر روانہ ہوگیا۔ مدینہ منورہ کے قریب پہنچا تھا کہ اس کے بھتیجے نے اسے قتل کردیا۔[16]

ابن الاثیر نے حوادث الزمان میں اس واقعے کی مزید تفصیلات روزنامچے کی شکل میں بیان کی ہیں۔ یہ واقعہ ۲۷ رجب ۶۹۲ ھ میں پیش آیا۔ ابن کثیر اور ابن الاثیر نے جو تفصیلات فراہم کی ہیں۔ ان سے جہاں توہین رسالت کے خلاف عوامی غم و غصے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے وہاں اس قانون کے غلط استعمال کی وجہ سے واقعہ کے سنگین نتائج کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔۔ابن الاثیر کے مطابق عوامی احتجاج کا سلسلہ مقدمے کے فیصلے کے بعد بھی دیر تک جاری رہا۔جلسے اور جلوسوں میں شافعی، حنبلی اور حنفی سبھی مذاہب کے مفتی اور قاضی حصہ لے رہے تھے۔ ان مواقع پر جذباتی اور رجزیہ نظمیں بھی پڑھی جاتیں۔ابن کثیر اور ابن الاثیر دونوں کے بیانات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران اور مذہبی اشرافیہ کے درمیان شدید تناؤ موجود تھا جس کی وجہ سے یہ واقعہ سیاسی صورت اختیار کر گیا [17]۔

امام ابن تیمیہ اس واقعے سے بے حد متاثر ہوئے۔ انہوں نے اپنے احساس کی اس شدت کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے۔” یہ واقعہ مجھ سے مطالبہ کرتا ہے کہ خدا نےہم سب کو نبی کی تعظیم اور ان کی ہر طرح سے حفاظت کا فرض سونپا ہے اس لیے نبی کا مجھ پر کم سے کم اتنا حق تو بنتا ہے کہ میں کھل کر وہ سزا بیان کروں جو قانون نے توہین کے مرتکب مسلم یا غیر مسلم (کافر) کے لیے مقرر کی ہے۔ مفتی اپنے فتووں میں اور قاضی اپنے فیصلوں میں اس قانون کے پابند ہیں”[18]۔ابن کثیر کے مطابق امام ابن تیمیہ کی کتاب الصارم المسلول علی شاتم الرسول اسی عزم کی تکمیل میں لکھی گئی۔

فقہی اختلافات

فقہا میں توہین رسالت اور ارتداد کے بارے میں بہت اختلافات پائے جاتے تھے خاص طورپر غیرمسلموں کے حوالے سے جن پر ارتداد کا جرم عائد نہیں ہوتا، اختلافات بہت تفصیلی تھے۔ قاضی عیاض (م ۵۴۰ ھ) فقہی اختلافات کو  فروعی خیال کرتے تھے، اس لیے ان کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔ابن تیمیہ اس مسئلے میں قاضی عیاض سے اتفاق کرتے ہیں اور تفصیلات میں بھی ان کی رائے پر انحصار کرتے ہیں۔ تفصیل میں جائے بغیر ہم یہاں جرم کی نوعیت، سزا، توبہ اورغیر مسلم کے جرم اور سزا کی نوعیت کے بارے میں صرف اہم اختلافات کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔

جرم کی نوعیت

توہین رسالت (سب النبی صلی اللہ علیہ و سلم) کے قانون کی تشریح میں اکثر فقہا نے اس جرم کی نوعیت پر تین پہلوؤں سے بحث کی ہے: توہین، ارتداد یا معاہدے کی خلاف ورزی؟

بعض فقہاء مثلاً احناف میں ابو جعفر الطحاوی (م ۳۲۱ھ)، ابو بکر الجصاص الرازی (م ۳۷۰ھ)، ابو الحسن السغدی (م ۴۶۲ھ) اور برہان الدین المرغنیانی (م ۵۹۴ھ) کی رائے میں اگر مسلمان توہین رسالت کا ارتکاب کرے تو اس کا جرم ارتداد کے زمرے میں شمار ہوگا۔ دیگر فقہا نے توہین اورارتداد کو دو مختلف جرائم بتا یا ہے۔حنبلی فقہا میں امام احمد بن حنبل کے بیٹے ابو عبداللہ (م ۲۹۱ھ)، مالکی فقہا میں ابن وہب (م ۱۹۸ھ)، محمد بن سحنون (م ۲۵۷ھ)، اور ابو زید القیروانی (م ۳۸۶ھ) ارتداد اور توہین رسالت میں فرق کے قائل تھے۔ ابن وہب کے مطابق، امام مالک بھی فرق کرتے تھے، تاہم توہین رسالت کو ارتداد کا حصہ سمجھتے تھے۔ شافعی فقہاء میں ابو بکر الصیدالانی (م ۴۳۶ ھ)، اور امام الحرمین الجوینی (م ۴۷۸ھ)، مالکی فقہا میں ابن وہب، ابو القاسم الخرقی (م ۳۳۴ھ))، ابن عبد البر (م ۴۶۴ ھ)، اور قاضی عیاض اور حنبلی فقیہ شمس الدین المقدسی (م ۷۶۴ ھ) اور جعفری فقہا میں شیخ طوسی (م ۴۹۱ ھ)، ابن زہرا الحلبی (م ۵۸۶ ھ)، المحقق الحلی (م ۶۱۷ ھ) اور فاضل الآبی (م ۶۹۱ ھ) بھی توہین رسالت اور ارتداد کے درمیان فرق کے قائل تھے۔

یہ فرق کیا ہے؟ کس بنیاد پر کیا جاتا ہے؟ کیا یہ جرم حقوق العباد سے تعلق رکھتا ہے جن میں معافی ممکن ہے یا حقوق اللہ سے جن میں معافی نہیں؟ امام الجوینی توہین کو قذف شمار کرتے تھے اس لیے اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ کیا اس جرم کا اطلاق غیر مسلم پر بھی ہوتا ہے؟ ابو محمد عبد الوهاب نصر (م ۴۲۲ ھ) مالکی کے نزدیک غیر مسلم کی جانب سے توہین رسالت کی گستاخی دل میں چھپے کفر کا علانیہ اظہار ہے، اور مسلمان کی جانب سے توہین کا ارتکاب ارتداد کا جرم ہے کہ اس نے نبی کی تعظیم کے عقیدے سے انکار کیا۔

قاضی عیاض نے سب و شتم اور توہین رسالت کے دوسرے جرائم کو پیغمبر اسلام کو ایذاء اور تکلیف پہنچانے کا جرم قرار دیا اور اس بحث کو پیغمبر کے حقوق کے تحفظ کے احکام میں شامل کیا، ضرر سے حفاظت ہر انسان کا حق ہے اس لیے امت مسلمہ کا فرض ہے کہ پیغمبر کے اس حق کی حفاظت کرے۔ قاضی عیاض کے نزدیک اس معاملے میں توبہ بھی قابل قبول نہیں ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایسے کئی لوگوں کو معاف کردیا تھا جنہوں نے آپ کی توہین کی تھی قاضی عیاض نے وضاحت کی کہ عہد رسالت میں یہ غیر معمولی واقعات اس وقت پیش آئے جب اسلامی نظامِ حکومت ابھی پوری طرح مستحکم نہیں ہوا تھا، اور ان حالات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کو اصلاح کا موقع دینے کو ترجیح دی۔ تاہم ان کو معاف کرنے کا حق صرف پیغمبر کو تھا۔ ان کی غیر موجودگی میں کسی اورکو ایسے مجرموں کو معاف کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ اب توہین رسالت سے مسلمانوں کے دل زخمی ہوتے ہیں۔ ان زخموں سے شفا ان لوگوں کو سزا دے کر ہی مل سکتی ہے جنہوں نے پیغمبر اسلام کی توہین کی۔ قاضی عیاض نے ان احکام پر مبنی کتاب کا عنوان بھی لشفاء بتعریف حقوق المصطفی [نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کے اعتراف میں شفا ہے ] رکھا۔ قاضی عیاض نے توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت پر مسلم فقہاء کے درمیان مکمل اتفاق کا دعویٰ کیا اور ثابت کیا کہ اس کی تائید قرآن، حدیث اور سنت میں موجود ہے۔ قاضی عیاض نے فقہی اختلافات کا تذکرہ کیا، لیکن انہیں معمولی قرار دیا۔

غیرمسلم کے جرم کی نوعیت

اکثر فقہا کے نزدیک توہین کے مرتکب غیر مسلم کے جرم کی نوعیت مسلم مرتکب سے مختلف ہے۔ اسلامی ریاست میں غیر مسلم کی حیثیت معاہد کی ہے۔ تحفظ کے معاہدے میں مذہب کی آزادی کا تحفظ شامل ہے۔بعض فقہا توہین رسالت کو اس معاہدے کی خلاف ورزی شمار کرتے ہیں۔ امام محمد بن ادریس الشافعی (م ۲۰۵ ھ) کے نزدیک تحفظ کے معاہدے کی خلاف ورزی سے مراد جزیہ ادا کرنے سے انکار ہے۔اما م شافعی نے معاہدے کی خلاف ورزی کا ایک مسودہ تجویز کیا تھا۔اس میں سب النبی کا ذکر تو نہیں تھا، تاہم اس مجوزہ مسودے کی ایک شق میں’ نا مناسب ذکر ‘ کی اصطلاح موجود تھی: “اگر اس معاہدے کے تحت رہنے والے کسی غیر مسلم نے خدا کے نبی، کتاب اور مذہب کا نامنا سب الفاظ میں ذکر کیا تو مسلمانوں پر ان کی حفاظت کی ذمہ داری باقی نہیں رہتی اور تحفظ اور صلح کا معاہدہ ختم ہو جاتا ہے۔‘‘

حنفی فقہا کے نزدیک صرف جزیہ ادا کرنے سے انکار معاہدہ کی خلاف ورزی شمار ہوتا ہے۔ حرابہ، ڈکیتی، مسلمان کا قتل، ایک مسلمان عورت کی عصمت دری، اور مسلمانوں کی جاسوسی قابل سزا جرائم ضرور ہیں، لیکن ان میں کچھ جرائم کا تعلق حقوق اللہ سے ہے، کچھ کا حقوق العباد سے۔ یہ سب معاہدے کی خلاف ورزی شمار نہیں ہوتے۔ اس باریک حنفی استدلال کو سمجھنے کے لیے امام السرخسی کی کتاب المبسوط سے متعلقہ عبارت پیش کرنا ضروری ہے۔

وَأَصْلُ الْكُفْرِ مِنْ أَعْظَمِ الْجِنَايَاتِ، وَلَكِنَّهَا بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ رَبِّهِ فَالْجَزَاءُ عَلَيْهَا مُؤَخَّرٌ إلَى دَارِ الْجَزَاءِ، وَمَا عُجِّلَ فِي الدُّنْيَا سِيَاسَاتٌ مَشْرُوعَةٌ لِمَصَالِحَ تَعُودُ إلَى الْعِبَادِ كَالْقِصَاصِ لِصِيَانَةِ النُّفُوسِ، وَحَدِّ الزِّنَا لِصِيَانَةِ الْأَنْسَابِ وَالْفُرُشِ، وَحَدِّ السَّرِقَةِ لِصِيَانَةِ الْأَمْوَالِ، وَحَدِّ الْقَذْفِ لِصِيَانَةِ الْأَعْرَاضِ، وَحَدِّ الْخَمْرِ لِصِيَانَةِ الْعُقُولِ، وَبِالْإِصْرَارِ عَلَى الْكُفْرِ يَكُونُ مُحَارِبًا لِلْمُسْلِمِينَ فَيُقْتَلُ لِدَفْعِ الْمُحَارَبَةِ إلَّا أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى نَصَّ عَلَى الْعِلَّةِ فِي بَعْضِ الْمَوَاضِعِ بِقَوْلِهِ تَعَالَى {فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ} [البقرة: 191]

[کفر سب سے بڑےجرم کی جڑہے لیکن یہ انسان اور خدا کے درمیان کا معاملہ ہے۔ اس جرم کی سزا قیامت تک ملتوی ہے۔ جس قانونی بنیاد پر جرائم کی سزا دنیا میں پیشگی دی جاتی ہے وہ مصلحت اور قومی مفاد کا سیاسی أصول ہے جوحقوق العباد کی حفاظت کے لیے ہے۔ مثلاً قصاص کی سزا کا حکم انسانی جانوں کی حفاظت کے لیے ہے۔زنا کی سزا نسب اور نکاح کے رشتے کی حفاظت کے لیے ہے۔ چوری کی سزا اموال کی حفاظت کے لیے۔ قذف کی سزا عزت اور آبرو کی حفاظت، خمر کی سزا انسان کی عقلی صلاحیت کی حفاظت کے لیے ہے۔ [حقوق العباد کی حفاظت کے اصول کی بنیاد پر ]محض کفر نہیں، کفر پر اصرار سے آدمی مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شامل شخص بن جاتا ہے۔جنگ کے خاتمے کے لیے اس کا قتل جائز ہو جاتا ہے۔ ا للہ تعالی نے قرآن کریم میں کئی مواقع پر اس کو جنگ کے جواز کی علت اور سبب کے طور پر بیان کیا ہے : اگر وہ تم سے جنگ کریں تو انہیں قتل کر و، البقرہ : ۱۹۱ ]

سزا

جرم کی نوعیت پر بحث کے لیے حقوق اللہ اور حقوق العباد میں فقہی فرق کو بنیاد بنایا گیا۔ سزا کی نوعیت کی یہ بحث میں قانون میں دینی اور ریاستی اختیارکی اہم تفریق کی حیثیت اختیار کر گئی۔اس سے ایک طرف تو یہ سوال اٹھا کہ سزا فرض ہے یا حق؟ اور سزا کون دے گا۔تو دوسری طرف سزا کے مقصد کے حوالے سے یہ سوال بھی پیش نظر رہا کہ کیا متعلقہ فرد کے ساتھ ہونے والی زیادتی انفرادی تکلیف اور نقصان ہے یا اجتماعی تکلیف اور مجموعی نقصان ؟ سزا اس نقصان کا ازالہ ہے؟ انفرادی معاوضہ ہے یا زیادتی کا بدلہ؟ انفرادی سزا سے ایک فرد سے انتقام مقصود ہے یا معاشرتی نظم کی حفاظت ؟  اسی بنیاد پر دوسرا سوال یہ اٹھا کہ سزا کے لیے کسی نظم کی ضرورت ہے یا اس کی ذمہ داری متاثر فرد اور اس کے خاندان پر عائد ہوتی ہے۔کیا ریاست اور عدالت سے رجوع، شکایت اور فریاد کے بغیر سزا دی جاسکتی ہے؟ توہین اور ارتداد کے حوالے سے ان تمام سوالات کے جوابات میں فقہا میں اختلاف ہے۔

جعفری فقہاء کے مطابق توہین انفرادی جرم ہے۔ اس کی سزا کی ذمہ داری بھی انفرادی ہے۔ چنانچہ جو مسلمان کسی کو پیغمبر کی توہین کرتے ہوئے سنے وہ براہ راست اور ذاتی طور پر مجرم کو قتل کرنے کا پابند ہے۔ تاہم اگر گستاخ کے قتل میں اپنی جان کو خطرہ ہو تو شیخ طوسی نے سننے والے کو اس فرض سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ دوسرے جعفری فقہا نے جن میں ابن زہرا الحلبی، المحقق الحلی اور فاضل الآبی شامل ہیں یہ وضاحت کی ہے کہ جس شخص نے ذاتی طور پر گستاخانہ الفاظ نہیں سنے وہ مجرم کو قتل کرنے کا پابند نہیں ہے۔ جعفری فقہا کے نزدیک حکام کی اجازت کے بغیر توہین کے مرتکب کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔

مالکی فقہا ارتداد کو حد کے جرم میں شمار کرتے ہیں، اور توہین رسالت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور امت مسلمہ کے حقوق کی خلاف ورزی کا قابل سزا جرم قرار دیتے ہیں۔ حنفی فقیہ ابو بکر السرخسی (م ۴۹۰ ھ) توہین رسالت کو حدود کے جرائم میں شامل نہیں کرتے اور اسی لیے جرم پر پر حدود کی سزا کے اطلا ق کے بھی قائل نہیں۔

توبہ، معافی

اگر توہین رسالت حدود میں شمار نہیں ہوتا تو کیا یہ جرم قابل معافی ہے؟ اس سوال کے جواب میں بھی فقہا کی رائے منقسم ہے۔ البتہ معافی کے لیے توبہ کی شرط پر عمومی اتفاق ہے۔ابو اسحاق الشیرازی الشافعی (م ۳۹۴ ھ) توبہ کے بعد توہین رسالت اور ارتداد دونوں جرائم کو قابل معافی سمجھتے ہیں۔ ابوبکر الصیدالانی الشافعی صرف ارتداد کو قابل معافی سمجھتے ہیں۔ دوسرے شافعی فقہا مثلاً ابوبکر الفارقی (م ۳۴۹ ھ)، ابو بکر الافضل (م ۳۶۵ ھ)، ا امام لجوینی اور شرف النووی (م ۶۷۶ ھ) اور مالکی فقہا میں ابن عبد البر، ابن وہب اور نصر اور حنبلی فقیہ ابن قدامہ (م ۶۲۰ ھ) توہین رسالت اور ارتداد دونوں کو ناقابل معافی سمجھتے ہیں۔

حنفی فقہاء عموماً ارتداد کو قابل معافی سمجھتے ہیں۔ ابو حنیفہ (م ۱۵۰ ھ) اور ابو یوسف (م ۱۸۲ ھ) ارتداد کے مرتکب کو تین بار توبہ کی مہلت دینا واجب قرار دیتے ہیں۔ محمد بن حسن الشیبانی (م ۱۹۰ ھ) اور السرخسی کے نزدیک توبہ کی مہلت صرف اسی صورت میں دی جاتی ہے جب مرتد اس کا مطالبہ کرے۔ اگر وہ ارتداد کے بعد اسلام لے آئے تو اسے سزا نہیں دی جائے گی۔ ابو الحسین احمد القدوری (م ۴۲۹ ھ) نے توبہ کی مہلت کو ہر صورت میں واجب قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہر مرتد کو تین دن کے لیے قید میں رکھا جائے اور اسلام کی طرف لوٹنے کی دعوت دی جائے۔ اگر وہ مسلسل توبہ سے انکار کرے تو اسے پھانسی دی جائے۔ السرخسی نے واضح کیا کہ ارتداد کے جرم میں سزائے موت کی بنیاد کفر نہیں بلکہ کفر پر اصرار ہے۔ چونکہ توبہ سے اصرار کی نفی ہو جاتی ہے اس لیے موت کی سزا منسوخ ہو جاتی ہے۔ امام الجوینی کا کہنا تھا کہ فقہا کے اختلاف سے پتا چلتا ہے کہ مرتد کی موت کی سزا کے حکم کی بنیاد نصوص پر نہیں بلکہ فقہا کی آرا پر ہے۔ ان کی رائے میں سزائے موت کا فیصلہ محض فقہا کی آراء کی بنیاد پر نہیں کیا جا سکتا۔

غیر مسلم کی سزا

کیاغیر مسلم مجرم کے اسلام قبول کرنے پر سزائے موت معطل اور معاہدہ بحال ہوسکتا ہے؟ فقہا کا اس بارے میں اختلاف ہے۔ سویدا کے مذکورہ بالا واقعہ میں عساف کو قبول اسلام کے باوجود قتل کردیا گیا۔ ابن تیمیہ نے الصارم میں اپنا یہی موقف بیان کیا ہے کہ توہین کے مرتکب کی سزائے موت قبول اسلام کے بعد بھی معاف نہیں ہوتی۔ تاہم اس معاملے میں بھی فقہا میں اختلاف تھا۔ مالکی فقیہ ابو الولید ابن رشد (م ۵۲۰ ھ) کی رائے میں غیر مسلم صرف اس صورت میں بری ہو گا جب وہ اسلام قبول کر لے۔ حنفی فقہاء علاء الدین کاسانی (م ۵۸۷ ھ) اور المرغنیانی توہین رسالت کے جرم کو معاہدے کی خلاف ورزی شمار نہیں کرتے تھے۔السرخسی کی وضاحت کی روشنی میں مسلمان مرتد اور ذمی، دونوں کافر ہیں لیکن ذمی شروع میں ہی کافر تھا، مسلمان ارتداد کے بعد کافر کہلایا۔ مسلمان مرتد اگر وہ دوبارہ اسلام نہ لائے تو اس کے ارتداد کی سزا موت ہے۔ ذمی کو موت کی سزا صرف اسی صورت میں دی جا سکتی ہے جب وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شامل ہو جائے یا معاہدے کی خلاف ورزی کر کے دشمن کے کیمپ میں شامل ہو جائے۔ المرغنیانی بھی غیر مسلم کےتوہین رسالت کے ارتکاب کو معاہدے کی خلاف ورزی شمار نہیں کرتے۔جعفری فقیہ شریف المرتضیٰ (م ۴۳۸ ھ) کے نزدیک توہین کا ارتکاب معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ سزائے موت کا اطلاق مسلمان اور ذمی دونوں پر ان کے جرم کی نوعیت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

-۲-

اصول فقہ کی تشکیل نو

فقہی اختلافات کا مندرجہ بالا جائزہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ فقہا تفصیلات کے بارے میں بہت زیادہ محتاط تھے۔ اس لیےمفتی اور قاضی کے لیے واضح فیصلے پر پہنچنا بہت مشکل تھا۔ ابن تیمیہ کی رائے میں قانون واضح اور دو ٹوک ہونا چا ہیے۔ قانونی ضابطے میں قواعد، اصطلاحات، طریق استدلال اور شواہد بالکل واضح ہوتے ہیں۔ابن تیمیہ نے أصول فقہ کے چار ماخذ قرآن، سنت، اجماع صحابہ اور اعتبار بتائے ہیں[19]۔ قیاس پر یونانی منطق قیاس کا اثر ہونے کی وجہ سے وہ صحیح أصول نہیں رہا۔ ا بن تیمیہ نے اس کی جگہ اعتبار کا أصول تشکیل دیا ہے۔ ایک اور اصول استحلال کا اضافہ کیا ہے تاکہ حرام کو حلال قرار دینے کی ممانعت کو اجاگر کیا جائے۔

الصارم المسلول علی شاتم الرسول

جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، امام ابن تیمیہ کی کتاب الصارم المسلول علی شاتم الرسول اصول فقہ کی نئی تشکیل پر مبنی ہے۔ اس کا انداز استدلال یونانی منطق کے اسلوب سے ہٹ کے ہےمجموعی طور پر، کتاب کا استدلال یہ ہے کہ پیغمبر کی توہین سنگین جرم ہے جس کی سزا صرف موت ہے، قطع نظر اس کے کہ مجرم مسلمان ہو یا غیر مسلم۔ مجرم توبہ کرلے یا اسلام قبول کر لے سزا معطل نہیں ہوتی۔ اس کتاب کا مقصد سب و شتم کے جرم کی نوعیت، اس کی سزا کےتعین اور اس کے شرعی جواز کو کسی فقہی اختلاف میں الجھے بغیر لاگو کرنا تھا۔ اس لیے مبا حث کی ترتیب ضابطے کی طرح ہے۔کتاب کا موضوع توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم احکام ہیں۔ یونانی اثرات سے بچنے کے لیے امام نے احکام کے استنباط کے اصولوں، قرآن، سنت، قیاس اور اجماع جن میں أصول اور ماخذ میں فرق واضح نہیں رہا تھا، نئی تشکیل دی ہے۔ قرآن و سنت ماخذ ہیں تاہم ان سے استنباط کے طریقوں میں یونانی علوم مثلاً علم معانی، بلاغت، اور مابعد الطبیعیات کے اثرات سے منطق کا عمل دخل بڑھ گیا تھا۔قیاس کا أصول نےجو ابتدا میں تشبیہ، تمثیل یا نظیر کے تصور سے وابستہ تھا، قطعی اور ظنی کی بحث شامل کرکے قرآنی آیات اور احادیث نبویہ سے استنباط پر بھی یہی پابندیاں لگا دی تھیں۔ امام نے استنباط اور اعتبار کے أصول تشکیل دے کر قرآن اور سنت کی مصدر اور ماخذ کی حیثیت کو مستحکم کیا۔اجماع کو اجماع صحابہ میں محدود کرکےتقلید کی حدود واضح کیں۔

کتاب کےآغاز میں توہین رسالت کے احکام کو چار قانونی ضابطوں کے طور پر بیان کردیا گیا ہے۔ان کی تشریح کے لیے کتا ب کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اور ہر ضابطے کی شرح مندرجہ ذیل چار مراحل میں ترتیب دی گئی ہے:

۱۔    امام ابن تیمیہ پہلے فقہی اختلافات کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ ان میں اتفاق رائے پیدا کر سکیں۔ ا س کے لیے وہ اجماع کے أصول کی تشکیل نو کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔

۲۔   اس کے بعد وہ آیات قرآنی اور احادیث کا جائزہ لیتےہیں جس میں استنباط کے أصول کی تشکیل نو کی اہمیت بیان کرتے ہیں اور اس کی تطبیق کو مثالوں سے سمجھاتے ہیں۔

۳۔   اس کے بعد وہ قانونی ضابطے کی تدوین کے مقصد سےقیاس کی جگہ نو تشکیل ا عتبار کا أصول پیش کرتے ہیں۔

۴۔   آخر میں وہ قانون کے نفاذ میں استحلال کے تصور کی اور بطور أصول فقہ وضاحت اور اہمیت کو بیان کرتے ہیں۔ تکرار سے بچنے کے لیے اس مختصر مضمون میں ہم صرف پہلے ضابطے کی شرح سے مثالیں دے رہے ہیں۔

 ۱۔ توہین رسالت کے احکام کے چار ضابطے

۱۔   مسلم ہو یا کافر، جو شخص بھی توہین رسالت [سب النبی صلی اللہ علیہ و سلم] کا ارتکاب کرے اس کے لیے سزائے موت واجب ہے۔

۲۔    توہین رسالت کے مرتکب کے لیےسزائے موت متعین ہے۔ اس کو غلام بنانا، معافی دینا، یا فدیہ لے کر رہا کرنا جائز نہیں۔

۳۔   مسلم ہو یا کافر، توہین رسالت کے مرتکب کے لیے سزائے موت لازم ہے، اس کو توبہ کی دعوت نہیں دی جا سکتی۔

۴۔    ہر گاہ کہ ارتداد کا ہر ارتکاب سب و شتم کے زمرے میں نہیں آتا، تاہم سب و شتم کا ہر ارتکاب جس پرسزائے موت لازم آتی ہے وہ ارتداد شمار ہوتا ہے۔

۲۔ فقہی اختلافات اوراجماع

ابن تیمیہ نے اجماع صحابہ کو قانونی اختیار اور اتھارٹی کے حتمی ماخذ کے طور پر پیش کیا۔ عموماً اجماع سے مراد امت مسلمہ کا اتفاق لیکن فقہی مذاہب کی تشکیل کے دور میں فقہی مذاہب کےا ئمہ کے عمومی اتفاق اور خاص طور پر کسی فقہی مذہب کے فقہا کے اتفاق کو اجماع کا نام دیا گیا۔ فقہ کی  نشو و نما میں اجتہاد اور اختلاف رائے کا کردار بہت اہم ہے۔ فتوی اورعلمی تصنیف و تالیف کی حد تک بھی مفید تھا۔ تاہم عدالتی اور ریاستی اداروں کے قیام کے بعد بطور قانون فقہی اختلافات نے ریاست کی مشکلات میں اضافہ کردیا۔ چنانچہ فقہا نے ایک جانب فتاوی کے ایسے مجموعے ترتیب دینا شروع کیے جس پر فقہا کا اتفاق ہو۔ دوسری جانب مختصر کے عنوان سےفقہی احکام کے خلاصے تحریر کرنا شروع کیے۔امام ابن تیمیہ نے مختصر کا اسلوب اختیا ر کرتے ہوے فقہی اختلافات پر زور دینے کی بجائے تالیف کا علمی طریقہ استعمال کیا۔اعتراضات کو یکجا کرکے، ان کے تحلیلی تجزیے کے بعد فروعی اور اصولی میں فرق کرتے ہوے متفقہ احکام حاصل کیے۔ اس عمل سے اجماع کے تصور کی تشکیل نو ممکن ہوئی۔ ہم اس أسلوب کو مثال سے واضح کرتے ہیں۔

ابن تیمیہ نے لکھا کہ تین صدیوں میں مختلف فقہی مذاہب سے تعلق رکھنے والے مندرجہ ذیل سرکردہ فقہا کا وہی موقف ہے جو پہلے ضابطے میں درج ہے : لیث بن سعد (م ۱۷۵ ھ)، مالک بن انس (م ۱۷۹ ھ)، محمد بن ادریس الشافعی، احمد بن حنبل (م ۲۴۱ ھ)، اور ابوداؤد سلیمان بن اشعث السجستانی (م ۲۸۶ ھ) نے اس موقف پر سب کے اجماع کا ذکر کیا ہے۔۔ ابن تیمیہ نے ان فقہاء کے بیانات کے ذکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ چاروں مکاتب فکر کے بانیوں اور دیگر فقہا کی متفقہ رائے ہے۔

اس کے بعد ابن تیمیہ دوسرے فقہا کا ذکر کرتے ہیں جو اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے مثلاً امام ابوحنیفہ اور حنفی مکتب کے مطابق، مسلمان کے لیے موت کی سزا ارتداد کے لیے تھی، توہین رسالت کے لیے نہیں۔ غیر مسلم کو کفر کے کلمات کے اظہار پر سزا نہیں دی جا سکتی تھی کیونکہ اس کے کفر کے باوجود اسے تحفظ حاصل تھا۔ کفر کے الفاظ کے اظہار کو بھی فقہ حنفی میں معاہدہ تحفظ کی خلاف ورزی میں شمار نہیں کیا گیا۔ یہ سزا صرف عوامی سطح پر معاہدے کی خلاف ورزی یا معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کی صورت میں دی گئی تھی۔مالکی فقہا میں محمد بن سحنون، ابوبکر محمد بن ابراہیم ابن المنذر النیشاپوری (م ۳۱۹ ھ)، اور قاضی عیاض، اور شافعی فقہا میں اسحاق بن راہویہ (م ۲۳۹ ھ)، ابو بکر الفارسی (م ۳۵۰ ھ) اور ابو سلیمان حمد بن محمد الخطابی (م ۳۸۹ ھ) نےاجماع العوام، اجماع المسلمین، اور اجماع الامہ کی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔

تفصیل پر غور کیا جائے تو ابن تیمیہ نے جو حتمی نتیجہ نکالا ہے فقہا کی بیان کردہ تفصیلات سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ مثلاً ابن المنذر نے اسے اجماع نہیں بلکہ اکثریتی رائے بتایا ہے۔امام شافعی نے اپنے قول کی تفصیلات میں وضاحت کی ہے کہ معاہدے میں متعدد جرائم کا ذکر ہے جن کے ارتکاب کی سزا دی جائے گی۔ تاہم معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد اسلام قبول کرنے پر اسے موت کی سزا نہیں دی جائے گی۔ ابوبکر الفارسی نے وضاحت کی ہے کہ ‘اجماع’ سے مراد یا تو ابتدائی اسلام کی پہلی دو نسلوں یعنی صحابہ کرام اور تابعین کا اتفاق ہے، یا اس میں اگر بعد کے فقہا کو شامل کریں تو اس کا مطلب اس بات پر اتفاق ہے کہ سزائے موت صرف مسلمان کے لیے ہے، اور اس کا اطلاق صرف توہین رسالت پر ہے، توہین صحابہ اس میں شامل نہیں۔غیر مسلم کے لیے سزائےموت پر اجماع نہیں۔

ابن تیمیہ نے ابو سلیمان الخطابی کا قول نامکمل نقل کیا ہےکہ ‘میں کسی ایسے مسلمان کو نہیں جانتا جس نے موت کی واجب سزا سے اختلاف کیا ہو’، الشفاء میں قاضی عیاض نے مکمل بیان نقل کیا ہے جس میں یہ جملہ شامل ہے کہ ‘اگر وہ مسلمان ہوتا۔ ‘اس سے واضح ہوتا ہے کہ خطابی کا قول مسلم مجرم سے متعلق اجماع کا ہے، غیر مسلم سے نہیں۔ اسی طرح ابن تیمیہ نے محمد بن سحنون کا قول بیان کرتے ہوے یہ وضاحتی جملہ نقل نہیں کیا کہ ‘جو اپنے ارتداد اور عذاب الٰہی میں شک کرتا ہے وہ ارتداد کا ارتکاب کرتا ہے’۔ مکمل جملے سے واضح ہوتا ہے کہ ابن سحنون مسلمان مجرم کی بات کر رہے ہیں، غیر مسلم کی نہیں۔ اسی طرح اس نے اسحاق بن راہویہ کے قول میں سے یہ وضاحتی جملہ نقل نہیں کیا کہ ’’مسلمان والدین کے ہاں پیدا ہونے والے مسلمان مجرم کو سزائے موت دی جانی چاہیے، لیکن اگر وہ کافر پیدا ہوا اور اسلام قبول کر لیا، تو اسے واپسی کی دعوت دی جائے‘‘۔

ابن تیمیہ نے حوالے کا یہی طریقہ حنبلی [ ابو القاسم عمر حسین الخیرقی (م ۳۳۵ ھ) قاضی ابو یعلی محمد بن الفراء(م ۵۲۶ ھ)] فقہا کے اقوال کو نقل کرتے ہوئے کیا۔ شافعی فقہا غیر مسلم، خصوصاً ذمییوں کے بارےمیں بہت محتاط تھے۔ ڈکیتی، قتل، مسلم خواتین کے ساتھ زنا، یا جاسوسی کے جرائم کو معاہدے کی خلاف ورزی شمار نہیں کرتے تھے۔

سوال یہ ہے کہ ابن تیمیہ نے ان تفصیلات کو نظر انداز کیوں کیا؟ یہ امکان کہ قید کے دوران اصل کتاب ان کے پاس نہیں تھی اور وہ محض حافظے پر اعتماد کر رہے تھے قابل قبول نہیں۔قرین قیاس یہی ہے کہ قاضی عیاض کی طرح ابن تیمیہ ان تفصیلات اور اختلافات کو اہم نہیں سمجھتے تھے۔اس کی تائید امام شافعی کی تجویز پر تبصرے میں ملتی ہے۔۔ امام شافعی نے الام میں تجویز کیا تھا کہ غیر مسلموں کے ساتھ معاہدے میں یہ شرائط شامل ہونی چاہییں کہ ‘اگر تم میں سے کوئی خدا، اس کے رسول کہ، اس کی کتاب کے بارے میں بات کرے، یا خدا، قاضی یا اسلام کا ذکر نامناسب طریقے سے کرے تو امت مسلمہ کی طرف سے کوئی تحفظ حاصل نہیں ہوگا، اور یہ معاہدہ منسوخ ہو جائے گا۔”ابن تیمیہ کے نزدیک معاہدے میں صرف بنیادی أصول کافی ہیں تفصیلات شامل کرنے کی ضرورت نہیں۔

۳۔ کتاب و سنت اور استنباط

احکام کے فقہی استنباط کے لیے تعلیل کی بجائے امام ابن تیمیہ قرآن و سنت کی عبارات کو قطعی مقدمات کی حیثیت دے کر براہ راست حکم یا ضابطہ ترتیب دیتے ہیں۔۔ حکم کے استنباط کے لیے یونانی بلاغت اور معانی کی بنیاد پر ان آیات کی الگ الگ تشریح کی بجائے ان آیات میں استعمال ہونے والی تمام مختلف اصطلاحات کا مجموعی تجزیہ پیش کرتے ہیں۔

قرآنی آیات

ابن تیمیہ پندرہ قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہیں جن میں توہین کے مرتکبین کو تین زمروں،مرتد (2:217) منافقین (2:217؛ 4:65؛ 9:58، 61، 64-6، 101؛ 33:53، 57-8، 60-1) اور غیرمسلم [ 24:4، 63-4؛ 58:5، 20] میں تقسیم کیا ہے۔ غیر مسلموں میں بت پرست (9:7-8)، اہل کتاب (9:29-32)، ذمی (9:12-14) اورمنکرین (9:61-63؛ 58:5، 20-1؛ 33:57) کو شامل کیا ہے۔ ان مختلف زمروں کی شرعی حیثیت کی تفصیلات میں فقہا فرق کرتے ہیں لیکن ابن تیمیہ نے ان کا جائزہ توہین رسالت تک محدود رکھا ہے۔

وہ فقہی استنباط کے لیے جزئی تفصیلات کی بجائےتوہین رسالت کی کلی اور مجموعی تفہیم کا طریقہ تجویز کرتے ہیں۔ابن تیمیہ قرآن میں الفاظ کے متبادل اور مترادف استعمال کے شواہد اور نظائر کے مجموعی جائزے سے ان آیات کسے جرم و سزا کا مفہوم متعین کرتے ہیں۔ یہ طریق استنباط مندرجہ ذیل تین شواہد پر مبنی ہے:

۱۔    پہلی شہادت یہ ہے کہ مذکورہ قرآنی آیات میں توہین رسالت کے ضمن میں مندرجہ ذیل اعمال کو منع کیا گیا ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے” اونچی آواز میں بولنا “، “نبی کو جھٹلا نا”،”بہتان لگانا، “تکلیف دینا”، “نقصان پہنچانا”، “گالی دینا”، “تو ہین کرنا”، “نافرمانی کرنا “،” حکم کی خلاف ورزی کرنا”،  “ان کے خلاف ہتھیار اٹھانا” اور” اعلان جنگ کرنا”۔ ان سب احکام میں بنیادی بات پیغمبر کو تکلیف پہنچانے کی “مجرمانہ نیت “ہے۔دوسرے ان آیات میں ان جرائم کی سزا کے لیے مندرجہ ذیل الفاظ استعمال ہوے ہیں : “عذاب الہی”،” خدا کا انتقام”، “انتقام”،” خدا کی ” لعنت”، “رسوائی”، “اعمال کا بیکار ہوجانا” – ان سب کا مجموعی مفہوم موت ہے۔ اسی طرح معاہدے کی خلاف ورزی کے جرم سے متعلق آیات میں مندرجہ ذیل الفاظ استعمال ہوئے ہیں: “عہد کی خلاف ورزی”، “قسمیں توڑنا”، “طعنہ زنی”، “گھر سے نکالنا”، “لڑائی میں پہل “۔ یہ سب” توہین” کے مترادفات ہیں۔ ان آیات میں بھی” سزا “کے لیے مندرجہ ذیل الفاظ استعمال ہوے ہیں:” لڑو”، “جنگ کرو”، ا”نجام ذلت اور رسوائی “جو سزا کے مفہوم ہیں۔ نتیجے کے لیے ” شفا،”،”سینے میں ٹھنڈک” اور “غصہ ٹھنڈا” کے  الفاظ آئے ہیں جن کا تعلق” جزا “کے مفہوم سے ہے۔

۲۔    دوسری شہادت یہ ہے کہ جرم، سزا اور جزا کے لیے مذکورہ مختلف آیات میں ان الفاظ کے استعمال کا پیرایہ نہ صرف ایک ساہے بلکہ باہم اس طرح مربوط ہے کہ پہلا شرط یا سبب ہے اور دو سرا اس کا نتیجہ۔

احادیث

امام ابن تیمیہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے پندرہ احادیث اور نظائر کا حوالہ دیا ہے جن میں مجرم کے لیے سزائے موت کا ذکر ہے، چاہے وہ غیر مسلم ذمی ہی کیوں نہ ہو۔ ابن تیمیہ نے ان احادیث اور واقعات کو تین زمروں میں تقسیم کیا ہے۔

وہ احادیث جن سے واضح ہو تا ہے کہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی یا انہیں ایذا پہنچائی اس کی نیت درحقیقت قتل کی تھی۔

بعض صورتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رحم کرنے کی عادت سے مجرم کو معاف کر دیا۔

سنت نبی کے بارے میں صحابہ کا اتفاق کہ معاہدے کے تحت لوگوں کو مسلمانوں کے مذہب پر تنقید کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو ان کی سزا موت ہے

ابن تیمیہ نے وضاحت کی ہے کہ جن واقعات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے توہین کے مرتکب غیرمسلم کو سزا ئے موت نہیں دی، وہ خاص وجوہات کی بنا پر استثنائی تھی۔ یا تو مجرم نے گرفتاری سے پہلے توبہ کر لی تھی، یا وہ غیرمسلم ذمی نہیں تھا یا ذمی تھا لیکن اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ ابن تیمیہ نے ایسے استثنا کی دس مثالیں دی ہیں۔

احادیث میں احکام کے جائزے کے بعد ابن تیمیہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر سیرت النبی اور احادیث سے اصولاً یہی ثابت ہوتا ہے کہ توہین رسالت کی سزا موت ہے۔

۴۔ اعتبار

بہت سے فقہا کے ہاں حکم مرتب کرتے وقت نصوص میں کسی متعین معنی یا مفہوم پر انحصار کے أصول کو اعتبار کہا جاتا ہے[20]۔ شریف جرجانی نے اعتبار کو عین قیاس لکھا ہے۔[21] أصول فقہ کی متعدد کتابوں میں اعتبار کو قیاس کی وہ قسم بتا یا ہے جس کا شریعت نے حکم دیا ہے[22]۔ اس کے لیے وہ مندرجہ ذیل آیت کا ذکر کرتے ہیں: فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الأْبْصَار[23]۔ اس آیت کے مطابق اعتبار سے مراد کسی معاملے کے فیصلے کے لیے اس کی نظیر یا مثال کی طرف رجوع کرنا ہے[24]۔ قیاس کے أصول کے ثبوت لیے بھی قرآن کریم کی اسی آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اس طریق استنباط کے لیے اعتبارقرآنی اصطلاح ہے۔

ابن تیمیہ نے اعتبار کے أصول کے لیے قرآن کریم،سنت نبوی اور اجماع صحابہ سے ثبوت کے لیے مندرجہ ذیل نظیر پیش کی ہے۔ دو شخص ایک جھگڑے میں فیصلے کے لیے نبی کریم کے پاس آئے۔ آپ نے ان میں سے ایک کے حق میں فیصلہ دیا۔ دوسرا اس فیصلے پر راضی نہیں ہوا۔ اس نے کہا حضرت ابوبکرکے پاس چلتے ہیں۔ حضرت ابوبکر نے ان کی پوری بات سن کر کہا کہ تم دونوں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلے کے پابند ہو۔ دوسر ے نے کہا ہم حضرت عمر کے پاس چلتے ہیں۔ حضرت عمر نے تفصیل سنی اور پوچھا کیا ایسا ہی ہے؟اس شخص نے کہ، ہاں میں اس فیصلے کو نہیں مانتا۔حضرت عمر تلوار لائے اور اس شخص کا سر قلم کردیا۔ تب یہ آیت نازل ہوئی[25] : فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا۔[26]

ابن تیمیہ قرآن اور حدیث کی نصوص اور صحابہ کے اقوال کی تشریحات کے لیے اعتبار کے أصول سے مدد لیتے ہیں۔جن میں ان کا اپنا مخصوص طریقہ استدلا ل ہے۔ جس کی بنیاد الفاظ اور معانی کے باہمی رشتے اور مختلف آیات کے الفاظ کے معانی میں باہمی ربط اور تسلسل کی بنیاد پر مجموعی اور مشترک مفہوم اور معانی طے کرتے اور ان سے حکم کا استنباط کرتے ہیں۔اس طرز استدلال کو انہوں نے اعتبار کا نام دیا ہے جو قیاس کا متبادل ہے۔ یہ منطقی قیاس سے بالکل الگ ہے۔ جو جزئی کی بجائے تعبیر کےکلی مقاصد کو بنیاد بناتا۔

توہین رسالت کے حوالے سے ابن تیمیہ نےمثال کے طور پر مندرجہ ذیل آیات سے استنباط کے لیے جو مختلف سورتوں سے تعلق رکھتی ہیں اعتبار کا أصول اپنایا ہے۔ ہم نے آسانی کے لیے متعلقہ حروف کو نشان زد کردیا ہے۔

  • إِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَلائِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوا فَوْقَ الأعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ۔ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ شَاقُّوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَمَنْ يُشَاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ [قرآن، الانفال: ۱۲ -۱۳]

اس وقت کو یاد کرو جب کہ آپ کا رب فرشتوں کو حکم دیتا تھا کہ میں تمہارا ساتھی ہوں سو تم ایمان والوں کی ہمت بڑھاو میں ابھی کفار کے قلوب میں رعب ڈالے دیتا ہوں، سو تم گردنوں پر مارو اور ان کے پور پور کو مارو۔ یہ اس بات کی سز ا ہے کہ انہوں نے اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کی۔ اور جو اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے سو بے شک اللہ تعالی سخت عذاب دینے والا ہے۔ [اردو ترجمہ مولانا محمد جونا گڑھی]

  • وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ، أَلا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ، قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مؤمنين ويذهب غَيْظَ قُلُوبِهِمْ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ [قرآن: التوبہ، ۱۲-۱۵]

اگر یہ لوگ عہد وپیمان کے بعد بھی اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم بھی ان سرداران کفر سے بھڑ جاو۔ ان کی قسمیں کوئی چیز نہیں، ممکن ہے کہ اس طرح وہ بھی باز آ جائیں۔تم ان لوگوں کی سرکوبی کے لیے کیوں تیار نہیں ہوتے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ دیا اور پیغمبر کو جلا وطن کرنے کی فکر میں ہیں اور خود ہی اول بار انہوں نے تم سے چھیڑ کی ہے۔ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اللہ ہی زیادہ مستحق ہے کہ تم اس کا ڈر رکھو بشرطیکہ تم ایمان والے ہو۔ ان سے تم جنگ کرو اللہ تعالی انہیں تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا، انہیں ذلیل و رسوا کرے گا، تمہیں ان پر مدد دے گا اور مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے کرے گا اور ان کے دل کا غم و غصہ دور کرے گا اور وہ جس کی طرف چاہتا ہے رحمت سے توجہ فرماتا ہے۔ اللہ جانتا بوجھتا حکمت والا ہے۔[ترجمہ مولانا محمد جونا گڑھی]

  • وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيم[التوبہ،۶۱ ] .

اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کان کا کچا ہے۔آپ کہ دیجیے کہ وہ کان تمہارے بھلے کے لیے ہے۔ وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمانوں کی بات کا یقین کرتا ہے اور تم میں سے جو اہل ایمان ہیں یہ ان کے لیے رحمت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو جو لوگ ایذا دیتے ہیں ان کے لیے دکھ کی مار ہے [ترجمہ مولانا محمد جونا گڑھی]

  • أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ يُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ذَلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيمُ [التوبہ، ۶۳ ]

کیا یہ نہیں جانتے کہ جو بھی اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کرے گا اس کے لیے یقیناً دوزخ کی آگ ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہنے والا ہے، یہ زبر دست رسوائی ہے۔ [ترجمہ مولانا محمد جونا گڑھی]

  • إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهاُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا [الأحزاب: ۵۷]

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لیے نہایت رسوا کن عذاب ہے۔ [ترجمہ مولانا محمد جونا گڑھی]

یہ بات اہم ہے کہ ابن تیمیہ نے قیاس کے منطقی استدلال) کی جگہ جس میں دو مقدمات ترتیب دے کر انہیں سے نتیجہ حاصل کیا جاتا ہے اعتبار یعنی’غور’ کا انتخاب کیا۔ اج کے دور میں اس طرز استدلال کو تکنیکی طور پر ہرمینیوٹک یا معنویاتی استدلال کہا جاتا ہے۔ یہ منطقی قیاس یا سلوجزم یا تعلیل اور تحلیل سے زیادہ وسیع اور براہ راست نصوص کی تفہیم سے تعلق رکھتا ہے۔اسول فقہ میں روایتی قیاس سلوجزم پر مبنی ہے۔

۵۔ استحلال

استحلال سے مراد کسی حرام یا ممنوع چیز یا عمل کو حلال قرار دے لینا۔امام ابن تیمیہ نے استحلال کے اصول کا ذکر دو حوالوں سے کیا ہے۔ ایک تو فروعی استحلال ہے جس میں فرعی تبدیلی کرکے فعل کو حلال سمجھ لیا جاتا ہے، دوسرے حکم کے دینی اور شرعی مقاصد کو نظر انداز کرکےحرام کو حلال قرار دینا۔ امام کے نزدیک دونوں میں نیت صحیح نہیں۔ دونوں صورتوں میں مرتکب کو معلوم ہے کہ فعل حرام ہے۔ ابن تیمیہ کے اس أصول پر بہت کم لوگوں کی نظر ہے۔ البتہ یوسف راپو پورٹ نے اس پر روشنی ڈالی ہے کہ اس کا تعلق مجرم کی نیت سے ہے جس میں وہ جرم کی نوعیت میں تفریق کرتا ہے [27]۔ابن تیمیہ نے یہ مسئلہ غیر مسلم ذمی کے حوالے سے اٹھایا ہے جس کے عقائد مسلمانوں کے نزدیک کفریہ ہیں۔لیکن معاہدے کے مطابق ان کا علانیہ اظہار جرم ہے کیونکہ یہ جھگڑے اور فساد کا باعث ہے۔ ذمی کے لیے یہ اظہار مذہبی لحاظ سے حلال لیکن معاہدے کے لحاظ سے جرم ہے۔ مسلم فقہا میں اس جرم کی سزا میں اختلاف ہے۔ بعض فقہا کے نزدیک اگر سب ا لنبی کرنے والا اسے حلال سمجھ کر کر رہا ہے تو کفر ہے ورنہ فسق[28]۔

امام ابن تیمیہ اس فعل کو استحلا ل کا جرم قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے سزائے موت کے قائل ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ جن جرائم کے بارے میں لوگ فطری طور پر سخت سزا کی توقع رکھتے ہیں ان پر قانونی طور پر کوئی سزا مقرر نہ کرنا جائز نہیں[29]۔ کیونکہ مجرم یہ جرم دینی مقصد کی بجائے فساد کی نیت سے کر رہا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایمان اور نفاق دونوں کی جڑیں دل میں ہوتی ہیں۔ ان کا اظہار قول اور فعل سے ہوتا ہے۔ اس طرح اظہار اصل کی فرع ہے[30]۔۔ ابن تیمیہ کے نزدیک استحلال دراصل اس اعتقاد کا نام ہے کہ کسی کی توہین جائز ہے۔ اللہ نے جس بات کو حرام کیا جب اسی کے بارے میں کسی شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ وہ حلال ہے تو یہ کفر کا ارتکاب ہے [ اعتقاد ان السب حلال۔ فانما لما اعتقد ان ما حرمہ اللہ تعالی کفر][31]۔

-۳-

دور جدید میں ابن تیمیہ کے اصول فقہ کی ازسر نو تشکیل کی ضرورت

اصول فقہ کی تاریخ پر سرسری نظر ڈالنے سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی نظم میں بڑی تبدیلی کے ساتھ ہی أصول فقہ کی تشکیل نو کی ضرورت پڑتی رہی ہے۔ پہلی تشکیل کی ضرورت اس وقت پڑی جب عباسی دور کی ابتدا میں خلیفہ منصور نے محسوس کیا کہ ریاست میں قانون کے یکساں نفاذ کے لیے فقہ کی تدوین کی ضرورت ہے۔ عباسی دور کے وسط میں فقہی مذاہب کے استحکام کے بعد فقہ کی تشکیل نو ہوئی۔ تاہم ان أدوار میں فقہ کی تدریس، تدوین اور فتاوی ریاست کے دائرہ کار سے باہر تھے۔ دین اور ملک میں فرق شروع ہو چکا تھا لیکن دونوں کی حیثیت جڑواں بھائیوں کی مانی جاتی تھی۔ قاضی کا ادارہ قائم ہو چکا تھا اور اس منصب پر علما اور فقہا فائز ہوتے تھے۔ تاہم تقرر خلیفہ اور والی کرتے تھے۔

ابن تیمیہ کے عہد [۶۶۱ -۷۲۸] تک ریاست کے ڈھانچے میں بہت سی تبدیلیاں آ چکی تھیں۔مصر میں فاطمی اور عراق میں خلافت عباسیہ کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ دونوں خلافتوں کے آخری أدوار میں خلیفہ کا منصب برائے نام رہ گیا تھا اور ریاست کی اصل طاقت فوجی امرا کے ہاتھ میں تھی جو سلطان کے لقب سے حکومت کرتے تھے۔ اس طرز حکومت کو فقہا نے تسلیم کر لیا تھا۔ کہ أصول فقہ میں دین اور شریعت کے متوازی سیاست کا أصول شامل ہو چکا تھا۔ ابن تیمیہ کی کتاب کا عنوان السیاسۃ الشرعیہ اسی کشمکش کو ظاہر کرتا ہے۔ ان سیاسی انقلابات کے زیر اثر ریاست، عدالت اور قانون کے اداروں کی نئی تشکیل ہوئی۔ ابن تیمیہ نے انہی تبدیلیوں کو سامنے رکھتے ہوے اصول فقہ کی تشکیل نو کی۔جس میں فقہا کی جگہ ریاست کو زیادہ با اختیار بنا یا گیا۔

دورجدید میں ریاست کا ادارے میں بہت تیزی سے تبدیلیاں آئی ہیں۔پچھلی دو صدیوں میں ریاست کی طاقت کا دائرہ پہلے سے کہیں زیادہ وسیع ہو ا ہے۔ قانون اور حکومت کے تصورات بدلے ہیں۔قومی ریاست اور قومی قوانین کے بعد اب بین الاقوامی قوانین، اور حقوق انسانی کادور ہے تو قومی ریاست کے اقتدار اعلی کی بجائے عالمی ریاست اور اقتدار اعلی کی روشنی میں ریاست کی حاکمیت کی برتری کی حدود از سر نو متعین ہورہے ہیں۔ یہ اور بہت سے حقائق اور عوامل ایک مرتبہ پھر نئی تشکیل کا تقا ضا کر رہے ہیں۔

تشکیل نو کی بات ہو رہی ہے تو توہین رسالت کے حوالے سے تین مسائل خصوصی توجہ چاہتے ہیں۔

۱۔   ابن تیمیہ کے عہد میں خصوصاً اور عالمگیر جنگوں کے بعد اکیسویں صدی أوائل تک دنیا دو قطبی تقسیم تک مسلسل حالت جنگ میں رہی ہے۔ ابن تیمیہ نے بھی أصول فقہ کی تشکیل نو دائمی حالت جنگ کا تصور کے پس منظر میں پیش کی۔ارتداد اور توہین رسالت کو جنگی جرائم میں شمار کرنے سے ابن عابدین اور اکثر دوسرے فقہا کی متبادل آرا نظر انداز ہو گئیں جو ان جرائم کے ارتکاب کو دینی زاویے سے قابل اصلاح سمجھتے تھے۔آج کی گلوبل دنیا جنگ کی بجائے بین ااقوامی معاہدوں، عالمی قوانین اور عالمی عدالتوں کا زمانہ ہے۔ مسلم اور غیر مسلم دنیا بھر میں ہر ملک میں اس کے شہری کی حیثیت سے رہ رہے ہیں۔ ذمی ہونے کا تصور باقی نہیں رہا۔اس صورت حال میں امن اورباہمی تعاون کی بنیاد پر أصول فقہ کی از سر نو تشکیل کی ضرورت ہے۔

۲۔    قومی سطح پر ہی نہیں اب توہین رسالت کی قانون سازی بین الاقوامی سطح پر بھی لازمی ہو گئی ہے۔ توہین رسالت، اب توہین مذہب کا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ اسلامو فوبیا توہین مذہب کی ایسی صورت اختیار کر گیا ہے جو لوگوں کو حقوق انسانی میں شامل مذہب کی آزادی کے بنیادی حق سےہی محروم نہیں کر رہا بلکہ ریاستی سطح پر بھی جان و مال اور شہریت اور دوسرے انسانی بنیادی حقوق بھی چھین رہا ہے۔ اب ضروری ہو گیا ہے کہ توہین مذاہب کو جرم قرار دے کر مذاہب کے تحفظ کو مذہبی آزادی کے بنیادی حقوق میں شامل کیا جائے۔

۳۔          تحفظ مذاہب کے ضمن میں توہین رسالت اور توہین مذاہب کے غلط الزامات کو بھی قابل سزا جرم قرار دیا جائے۔ تا کہ ہر انسان کی قانون کی حکمرانی اور انصاف کے عالمی ماحول میں جینے کا خواب حقیقت بن سکے۔

[1] ابن تیمیہ، الرد علی المنطقیین، بیروت: دار المعرفہ، بدون تاریخ النشر

[2] Laoust, Henri. “Contribution à une étude de la méthodologie canonique de Taki-d-Din Ahmad B. Taimiya traduction annotée.” PhD diss., Paris, 1939.

[3] امام غزالی، المستصفی، بغداد، مکتبہ المثنی، ۱۹۷۰، جلد ۱، ص ۵

[4] ابن تیمیہ، الصارم، ص ۳۷۱ ۔

[5] المستصفی، جلد۱: ص ۳۷ -۴۲

[6] تفصیل کے لیے دیکھیے

Muhammad Khalid Masud, “Qiyas”, in Zafar Ishaq Ansari, Ismail Ibrahim Nawwab (Eds.), The Different Aspects of Islamic Culture, Foundations of Islam (Paris: UNESCO, 2016), Vol. 1: 601-23.

[7] فقہ اسلامی دین اور ریاست  کی یکجائی یا علیحد گی ایک مستقل بحث رہی ہے۔ اس تجزیے کے لیے ملاحظہ ہو

Muhammad Khalid Masud,  “ ‘Religion and State are Twin Brothers’: Classical Muslim Political Theory”, Ali Salman, Muhammad Hashim Kamali, Mohammed Azam Mohamed Adil (Editors), Democratic Transitions in the Muslim World (Kuala Lumpur: IAIS and ILN Malaysia, 2018), pp. 3-23.

 [8]احمد بن تیمیہ، السیاسۃ الشرعیہ فی اصلاح الراعی والرعیہ۔   بولونیا، ۲۰۰۱۔

Gian Maria Piccinelli,  Il Buon Governo dee’Islam di Ibn Taymiyya, Bologna: Centro Interdiparmentale di Scienze dell’Islam,’Re Abdulaziz’ dell’Universita di Bologna, 2001

[9] Hallaq, Wael B. Ibn Taymiyya against the Greek Logicians. Oxford: Clarendon Press, 1993.

[10] ابن تیمیہ، الرد علی المنطقیین، بیروت: دار المعرفہ، ص ۳ ۔

[11] ایضاً

[12] تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن عبد السلام بن عبد الله بن أبي القاسم بن محمد ابن تيمية الحراني الحنبلي الدمشقي، الصارم المسلول على شاتم الرسول، المحقق: محمد محي الدين عبد الحميد، الحرس الوطني السعودي، المملكة العربية السعودية۔

[13] Hallaq, Wael B. A history of Islamic legal theories: An introduction to Sunni Usul al-Fiqh. Cambridge University Press, 139-40. Rapoport, Yossef, “Ibn Taymiyya’s Radical Legal Thought: Rationalism, Pluralism and Primacy of Intention”, in Rapoport, Yossef and Shahab Ahmed (Eds). Ibn Taymiyya and His Times.(Oxford, 2010), 190-226.

[14] Rapoport, Yossef, “Ibn Taymiyya’s Radical Legal Thought: Rationalism, Pluralism and Primacy of Intention”, in Rapoport, Yossef and Shahab Ahmed (Eds). Ibn Taymiyya and His Times.(Oxford, 2010), 190-226.

[15]  یہ مضمون مندرجہ ذیل مطبوعہ مقالے کا خلاصہ ہے۔ تفصیلی حواشی  اور حوالوں کے لیے ملاحظہ ہو

Muhammad Khalid Masud, “Reading Ibn Taymiyya’s al-Sarim: Hermeneutic Shifts in the Definition of Blasphemy” in Muhammad Khalid Masud, Kari Vogt, Lena Larsen, Christian Moe (Eds), Freedom of Expression in Islam, Challenging Apostasy and Blasphemy Laws, London: Bloomsbury, 2021, pp.75-98.

[16] ابن کثیر، البدایہ و النھایہ۔ بیروت : دار التراث العربی،۱۹۸۸ ، جلد ۱۳، ص ۳۹۶

[17] ابن اثیر الجزری، تاریخ حواسث الزمان۔۔۔، بیروت: المکتبہ العصریہ، ۱۹۹۸ ، ۲۰۲-۵

[18] ابن تیمیہ، الصارم المسلول، ص ۲ ۔

[19] ابن تیمیہ، الصارم، ص ۱۱، ۵۳۶ ۔

[20] الموسوعۃ الفقھِۃ الکیتیہ، کویت: وزارۃ االاوقاف ۱۴۲۷ ھ، ۵: ۲۰۱

[21] التعریفات، ۲۴۔ الموسوعۃ الفقھِۃ الکیتیہ، ۵: ۲۰۱

[22] الموسوعۃ الفقھِۃ الکیتیہ، ۵: ۲۰۱

[23] القرآن، الحشر، ۲۔ پس اے آنکھوں والو، عبرت حاصل کرو۔ [ترجمہ مولانا محمد جونا گڑھی]

[24] شوکانی، ارشاد الفحول، ص ۲۰۰، الموسوعۃ الفقھِۃ الکیتیہ، ۵: ۲۰۱

[25] ابن تیمیہ، الصارم، ۳۸ ۔

[26] القرآن، النساء، ۶۵ ۔ سو قسم ہے پروردگار کی، یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں [ترجمہ: مولانا محمد جونا گڑھی] ۔ اس آیت کے شان نزول میں مختلف واقعات بیان ہوے ہیں۔

[27] Rapoport, Yossef, “Ibn Taymiyya’s Radical Legal Thought: Rationalism, Pluralism and Primacy of Intention”, in Rapoport, Yossef and Shahab Ahmed (Eds). Ibn Taymiyya and His Times.(Oxford, 2010), 190-226.

[28] ابن تیمیہ، الصارم، ۵۱۴ ۔

[29] ابن تیمیہ، الصارم، ۲۷۹ ۔

[30] ابن تیمیہ، الصارم، ص ۳۴ ۔

[31] ابن تیمیہ ۔ الصارم، ص ۵۱۶ ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...