مسلم گھرانے میں ہم جنس پرست اور ملحد کی پیدائش

426

انسانی زندگی میں بہت سے واقعات و حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔کئی ایسے واقعات ہوتے ہیں جن سے گزرتا کوئی اور ہے لیکن یاد آپ کو رہ جاتے ہیں جب کہ کئی واقعات و حادثات اپنے ساتھ بیتتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔
آج سے تقریباًبائیس سال قبل ایک والد میرے پاس آئے۔وہ اپنے بیٹے کے حوالے سے پریشان تھے کہ اُن کا بیٹا ہم جنس پرست بن گیا ہے۔والد نے بتایا ہم جیسے بیٹی کو گھر سے رخصت کرتے ہیں اور وہ دوسرے گھر میں جاتی ہے ۔اسی طرح کے جذبات کا اظہار بیٹا کرتا تھا کہ وہ فلاں لڑکے کے پاس جاکر رہے گا۔یہ ڈنمارک کا واقعہ ہے۔۔فیملی پاکستان اور شہر لاہور سے تعلق رکھتی ہے ۔مجھے اب یاد نہیں ہے کہ اس وقت میں نے کیا علاج بتایا ۔بہرحال وہ بچہ نارمل ہو گیا ۔مجھ سے ملنے سے انکاری رہا اس شرم سے کہ میں امانت صاحب کا سامنا کیسے کروں؟ ۔یہ بات بھی مجھے اس کے والد نے بتائی۔
میرا خیال ہے والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کا خود خیال رکھیں۔انہیں دیکھتے رہیں اور اگر ایسی کوئی صورت پیدا ہو تو سب سے پہلے تربیت و تزکیہ کا اہتمام کریں۔نوجوان بچے جذبات سے مغلوب ہوتے ہیں۔اکثر ان کے فیصلے جذباتی ہوتے ہیں ۔اگر انہیں سیدھی راہ دلیل اور سچ کے ساتھ دکھائی جائے تو مان جاتے ہیں۔ایسے وقت میں سختی کام نہیں آتی۔دوسری صورت میں فوراً سائیکالوجسٹ کے پاس لے جایا جائے ۔ہمارے آباد گھروں میں تنہائی بڑھتی جارہی ہے۔
سوشل میڈیا کی وجہ سے ہم سوشل نہیں رہے جس وجہ سے ہم اپنے مسائل مصنوعی طریقے سے حل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ایسا بچہ جو اس عادت کا شکار ہو اور وہ انتہاء تک پہنچ چکا ہو تو اس کا حل جلد بازی سے نہیں،نرم مزاجی،دور اندیشی اور وسعتِ نظری سے نکالا جاتا ہے۔ ہم ابھی اُن مسائل سے دوچار نہیں ہیں جن سے ابھی مستقبل میں ہم نے دوچار ہونا ہے ۔اس کا حل یہی ہے کہ ہم ابھی سے لائف سٹائل بدلیں ۔بچوں کو کسی مصنوعی سہاروں کے حوالے کر نے کے بجائے اپنے ساتھ منسلک کریں۔
ایک اور واقعہ ایسے والد کا ہے جن کا بیٹا نو جوانی میں ہی الحاد و دھریت کی طرف راغب ہوگیا ۔اس واقعہ کو کم از کم دس سال بیت چکے ہیں۔والد صاحب اپنے بیٹے کے حوالے سے بہت پریشان تھے۔ انہوں نے جس لجاجت اور بے بسی سے میرے سامنے اس بات کا ذکر کیا تو میں تھوڑا سا مسکرایا، یہ سوچ کر کہ یہ میرے پاس ایسے آئے ہیں جیسے اس مشکل کو میں چٹکی میں حل کردوں گا۔وہ مجھے مسکراتا دیکھ کر پریشان سے ہو گئے ۔میں نے انہیں کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں بلکہ اس پہ اللہ کا شکر ادا کریں کہ آپ کا بیٹا اپنے ذہن سے سوچتا اور مطالعہ کرتا ہے ۔ایسے نو جوانوں کے متعلق پریشان نہیں ہوناچاہئیے بلکہ مطمئن ہونا چاہیئے کہ یہ جذباتی فیصلے اور رائے قائم کر نے کے بجائے غور و فکر کر نے کا ذوق رکھتے ہیں۔اسلام خود دلیل، برہان اور آیات کا مذہب ہے ۔اسلام سے دور ہونے کی وجہ یا تو خود گھر ہوتا ہے یا پھر مذہب پیش کرنے والے ہوتے ہیں۔اکثر اوقات بچوں کو ہم تعلیم کے سلسلے میں ایسے ماحول میں بھیجتے ہیں جس ماحول میں رہ کر مروّجہ مذہبی سوچ حالات و زمانہ کی مطابقت میں دکھائی نہیں دیتی،دوسری طرف نو جوان طبقہ مطالعہ و علم سے اپنا معیار بہتر کر چکا ہوتا ہے۔۔اس کی ایک مثال یہ ہے جامعہ کے ایک طالب علم نے مجھے کہا میرے استاد فرمارہے تھے کہ ایک طالب علم ہمارے پاس آٹھ سال پڑھتا ہے لیکن جیسے ہی وہ یونیورسٹی جاتا ہے تو وہ پینٹ شرٹ پہننا شروع کردیتا ہے ۔اس کے سر سے ٹوپی اتر جاتی ہے،وہ ڈاڑھی بھی چھوٹی کرلیتا ہے ۔ہمارے آٹھ سال کی محنت کچھ دنوں میں ہی ضائع ہوجاتی ہے ۔جب ہم اسلام کے نام پہ طلباءکرام پہ پابندیاں عائد کر تے ہیں جب وہ اس ماحول سے باہر نکلتا ہے تو وہ لبادہ اتارپھینکتا ہے جو اسے مذہب کے نام پہ پہنایا جا تا ہے۔ دوسری بات ہے کہ اس نے جو کچھ پڑھا یا سیکھا اور حاصل کیا اس کا اثر زائل اس لیے ہو گیا کہ اس نے اس کو کسی طرح بھی متاثر نہیں کیا۔اگر یہ سب کچھ حالات و زمانہ کے مطابق ہوتا تو وہ کبھی یہ رد عمل ظاہر نہ کرتا ۔
میں نے نوجوان کے والد کو مشورہ دیا کہ اپنے بیٹے کو اپنے مذہب(جو انہوں نے سیکھا)اور اپنے ماحول کی نظرسے نہ دیکھیں بلکہ اسے دین کے تناظر میں دیکھیں اور دین کے ساتھ اس کے تعلق کو جوڑیں۔ اس کے لیے سب سے بہترین راستہ قرآن مجید ہے ۔قر آن مجید کے فہم کے لیے بہترین تفسیر اور جدید مسائل پہ جید سکالرز کی کتب مہیا کی جائیں۔ایک بات جس پہ ہمیشہ میں نے اصرار و تاکید کی ہے ۔وہ خصوصی طور پر والد کا رویہ اور سلوک ہے۔اولاد کے ساتھ والدین کی دوستی اور قربت بہت سے مسائل کو حل کر دیتی ہے۔
ہر طرح کی کوشش سے پہلے اور بعد۔۔ یہ بات ذہن میں رکھیں دنیا میں آنے والا ہر انسان اپنی شخصیت لے کر پیدا ہوتا ہے ۔آپ اس کی ہدایت و راہنمائی کے لیے ظاہری اسباب مہیا کر نے اور اس کے لیے دعاکرنے کے پابند ہیں۔باقی، اس کا اپنا انتخاب ہوتا ہے کہ وہ اپنے علم و تدبر کے بعد کس راستے کا انتخاب کرتا ہے؟۔
دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو اپنے آباء کے مذھب سے منحرف ہوجا تے ہیں ۔مسیحی مسلمان ہو جاتے ہیں۔کتنے ہندو اسلام قبول کر لیتے ہیں۔اسی طرح بہت سے مسلمان بھی دائرہ اسلام سے نکل جاتے ہیں ۔اگر آپ کے گھر میں ایسے حالات ہیں تو آپ زیادہ سے زیادہ آخری حد تک راہنمائی کی کوشش کریں گے ۔اس کے بعد آپ مکلف ہیں اور نہ جواب دہ ۔۔۔۔اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔۔ آپ سر خرو ہیں کہ آپ نے اپنی طرف سےآخری حد تک محنت کی ہے۔بیٹا عاقل،بالغ ہے،وہ اپنے اعمال و نظریات کا خود ذمہ دارہے ۔میری یہ گزارشات اُن کے کام آئیں۔اُن کے بیٹے کی راہنمائی کے لئے وہ اسلامی سکالرز کی کتب کام آئیں جنہیں عام طور پر گمراہ اور زندیق قرار دیا جاتا ہے ۔وہ نوجوان جو غالب مذہبی فکر اور رویوں کے باعث الحاد و دھریت کی طرف جارہا تھا۔وہ چند “گمراہ” سکالرز کی کتب پڑھ کر اسلام کی طرف راغب ہو گیا۔یہ دونوں واقعات ہمارےخاندانوں کی کہانیاں ہیں۔کوئی کہانی ہم تک پہنچ جاتی ہےاور بہت سی کہانیاں غیرت کے نام پہ دفن کردی جاتی ہیں۔وہ غیرت نام نمود کی بھی ہے اور روایتی مذہب کی بھی۔۔۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...