کھنگورا
کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے کہ کھنگورا کیا چیز ہے؟ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ تو نے کبھی کھنگورا کا ذکر نہ سنا ہو۔لیکن کبھی تو نے سوچا کہ بزرگ روایتی اقدار کی ہر لمحہ حفاظت کیسے کرتے تھے؟
نوجوانوں سے کیا شکوہ اب تو ہم سبھی اس وقت کو بھولتے جارہے ہیں جب بزرگ گھر میں داخل ہوتے تو ایک کھنگورے سے گھر کی کایا پلٹ جاتی۔ بچے با ادب ہو جاتے۔ عورتیں دوپٹے اوڑھ لیتیں۔ گھر میں خاموشی چھا جاتی۔ روایت سے رو گردانی کی درستی کے لئے بزرگوں کا ایک کھنگورا کافی ہوتا تھا۔ گھر کے جھگڑے ایک بزرگانہ کھنگورے سے ختم ہو جاتے۔ آج یہ حالت ہے کہ جھگڑے ختم ہی نہیں ہو پا رہے۔ چھوٹے بڑے کی تمیز ختم ہوتی جارہی ہے۔ بچے بڑوں کے منہ آنے لگے ہیں اور بیویاں خاوندوں کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ طلاق ، گھریلو تشدد اور خود کشی کے واقعات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے عدالتیں بھی تنگ آگئی ہیں۔
ہم بہت تدبر اور غورو خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ سب کچھ کھنگورے کی سنی ان سنی کر دینے کی وجہ سے ہے ۔ آج کل پاکستان میں کھنگورا بہت ہی بے کسی اور بے قدری کی زندگی گذار رہا ہے ۔ ڈاکٹر اس کا سبب کو وڈ ۱۹ بتاتے ہیں کہ کرونا کی وجہ سے بزرگوں کے پھیپھڑے متاثر ہیں اس لئے کھنگورا کمزور ہوتا جارہاہے۔ ڈاکٹروں کی اس تحقیق سے ہمیں مکمل شرح صدر نہیں ہوا۔ حکما کی تحقیق عمیق کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ کھنگورا کھانسنے کی ایک مخصوص کیفیت کا نام ہے جو گلا صاف کرنے کے لئے طاری کی جاتی ہے۔ عام طور پر گلو کار اور کلاسیکی گائیکی کے ماہرین اپنے فن کی ابتدا میں رسم کے طور پر کھنگارتے ہیں ۔لیکن یہ کھنگار گلے پر قدرت اور گلو کاری کے کمال کے اظہار کے لئے ہوتی ہے ۔ اسے کھنگورا نہیں کہ سکتے۔ کھنگار اور کھنگورے میں تمیز قائم رکھنے کے لئے برسوں ریاض کرا یا جاتا ہے۔کھنگورا اللہ کی دین ہے۔بزرگوں پر اللہ کا خاص کرم ہوتا ہے کہ انہیں یہ مہارت کسی ریاضت کے بغیر حاصل ہوتی ہے۔ دیوان غالب میں اس کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ بڑھاپے میں عناصر میں اعتدال نہیں رہتا، بلغم کی فراوانی ہو جاتی ہے تو کھنگورا آسانی سے تشکیل پا جاتا ہے ۔بلغمی مزاج کے لوگوں کے لئے تو کھنگورا فطری عمل ہوتا ہے۔ وہ بات بے بات کھنگورا مارتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بھی کھنگورے کی حیثیت کمزور ہو گئی ہے۔
ہم اس تحقیقی مقالے کو بزرگانہ کھنگورے تک محدود رکھنا چاہیں گے۔ کھنگورا بزرگانہ شان و شوکت کی علامت ہے۔ معمولی سے ایہم سے بھی نکلا کھنگورا بھی موثر ہوتا ہے۔ جو لوگ کھانسنے کو بزرگوں کی ضعیفی پر محمول کرتے ہیں بھر پور بلغمی کھنگورے کی زد میں تو نشان عبرت بن جاتے ہیں۔ جو خوش بخت بزرگوں کے مقام کو سمجھتے ہیں ان کے لئے کھنگورا دبدبے کی شان کا اظہار ہے۔ کھنگورے کا کمال یہ ہے کہ اس کی تعمیل ڈنڈے، چھڑی اور کسی بھی قسم کے ہتھیار کی محتاج نہیں ہوتی۔
پاکستان میں اس بات کا تو اعتراف کیا جا رہا ہے کہ سوشل میڈیا نوجوان نسل کو گمراہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ اکثر ذمہ دار دانشور بھی یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ یہ کیا دھرا این جی او کا ہے جن سے وابستہ خواتین ہیں اپنی مرضی کرنے لگی ہیں۔ ماہرین سماجیات و معاشیات کی رائے میں آبادی کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں نوجوان اکثریت میں ہیں اور بزرگ اقلیت میں ۔ اس لئے بزرگانہ کھنگورے کے ساتھ بھی اقلیتوں والا سلوک ہو رہا ہے۔۔زمام ا قتد ار ذی وقار کے نزدیک یہ در آمدہ مغربی لبرلزم ہے جو نوجوانوں کے ناپختہ ذہنوں کو گمراہ کر رہا ہے۔
ہمیں ان تشخیصات سے اتفاق نہیں۔ ہمیں تو گلہ ہے کہ سب لوگ ادھر ادھر کی مار رہے ہیں۔ اصل بات کی طرف نہیں آتے۔ اصل مسئلہ کھنگورا ہے۔ یہ مسلمہ امر ہے کہ کسی بھی مسئلے کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے اس کی ماہیت کا ادراک لازم ہے۔ جیسے اہمیت اور ماہیت میں حرفوں کے ہیر پھیر سے معنی بدل جاتے ہیں اور کسی بات کی چس پڑ جائے تو سچ لگنے لگتی ہے۔ ایسے ہی دیکھی بھالی حقیقت کو نظر انداز کرنے کے لئے بات سے بات نکالی جاتی ہے۔کھنگورے کی اہمیت کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنے کے لئے مغرب، این جی او اور ہمسایوں کو زور زور طعنے دیے جارہے ہیں۔ہماری تحقیق کے مطابق یہ” سسی روندی یاراں نو ں، لے لے نام بھراواں دے” والا معاملہ ہے۔دکھ اپنوں نے دیے ہیں ، طعنے کسی اور کو دئے جا رہے ہیں۔
کھنگورے کی بے قدری کے لئے مغرب کو مطعون کرنا اس کے زخموں پر نمک چھڑکنا ہے۔ انگریزی میں کھنگورے کے لئے ایہم جیسا مہمل لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ کھنگورے کا با وقار کردار ادا کرنے کے لئے انگریزی کا ایہم بالکل پھسپھسا لگتاہے۔کہاں بلغم سے بھر پور زناٹے دار کھنگورا اور کہاں میسنا اور سہما سہما ایہم۔ اصل میں انگریز ی کا ایہم ” معاف کیجئے گا” ، “میری مراد” اور” یعنی ” کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ اس معذرت خواہانہ لفظ میں کا وہ طنطنہ کہا ں جو اٹھتے پاوں میں زنجیر ڈال دیتا ہے۔ انگریزی کا ایہم پورے کا پورا جملہ معترضہ سمجھا جاتا ہے۔
رہی بات ہمسایہ ملکوں خصوصاً بھارت کے پراپاگنڈے کی تو اس کا معاملہ بھی سسی کے رونے والا ہے۔ ہمسایہ ملک میں جاری حالیہ ترین تحقیق کے مطابق راجپوتوں کی ایک گوت کھنگورا کہلاتی ہے۔ اس وجہ تسمیہ کی تاریخ یہ بتائی جاتی ہے کہ پنجاب میں مغلوں کے زمانے میں ایک خان حکمران نے گورو تیغ بہادر کی وفا داری اختیار کرتے ہوے سکھ مت اختیار کر لیا۔پورا قبیلہ سکھ بنا تو خان گورو یعنی گورو کے ماننے والے مشہور ہو گئے۔ بعد میں یہ کھنگورا کہلائے۔ ان کے گاوں کے نام بھی کھنگورا پڑ گئے۔ پنجاب کے بہت سے علاقوں میں کھنگورا نام کے قبیلے اور گاوں پائے جاتے ہیں۔
ہمیں یہ تحقیق بے حد مشکوک نظر آتی ہے۔ بظاہر لگتا ہے یہ پاکستان کے خلاف کسی قسم کی مہم کی شروعات ہیں۔ اسی لئے اس تحقیق میں پاکستان کے ایک گاوں کا نام بھی شامل کردیا گیا ہے جو نارووال میں میاں کھنگورا کے نام سے مشہور ہے۔ صحیح صورت حال تو نارووا ل کے لوگوں کو معلوم ہو گی لیکن ہمیں یہ ساری کہانی جعلی ہے۔ انڈیا جب سے بھارت بنا ہے خے کھے میں فرق مٹ گیا ہے۔ انڈین فلموں میں خوشی، کھشی اور غم گم میں تبدیل ہو گئے۔ خان گڑھ کے نام کے کئی گاوں اور شہر ہیں جن کو اب کھان گڑھ ، کھانگڑ، کھنگر بولتے ہوں گے۔ اور یہی کھنگورا بھی کہلاتے ہوں گے۔کھنگورا کی وجہ تسمیہ کو خان گورو سے جوڑنا بھی دور کی کوڑی لانا ہے۔
ڈاکٹر گور دیو سنگھ سدھو نے ۲۰۱۷ میں “کھنگورا لقب اورلٹارا گاوں کی تاریخ ” کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی جس میں اس وجہ تسمیہ کا کہیں ذکر نہیں۔ ڈاکٹر سدھو کے مطابق کھنگورا ایک قدیمی راجپوت گوت ہے جو اپنی اصل میں چندربنسی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ شری کرشن بھی چندر بنسی راجپوت تھے۔ سب کو معلوم ہے کہ تاریخی طور پر شری کرشن کا سکھ مت سے تعلق قائم کرنا ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے کھنگورا کی یہ وجہ تسمیہ کہ یہ وہ خان قبیلے ہیں جنہوں نے مغل دور میں سکھ مت قبول کیا بے پر کی اڑان ہے۔ ڈاکٹر سدھو لکھتے ہیں کہ کھنگورا قبیلے کے ایک راجہ اسمی کنور نے غزنی فتح کیا اور وہاں بادشاہت قائم کی۔محمود غزنوی کو معلوم ہوتا تو وہ ملتان کی بجائے امرتسر کا رخ کرتا۔ بات صرف اتنی ہے کہ کھنگورا راجپوتوں نے گورو گوبند سنگھ کے زمانے میں سکھ مت قبول کیا۔ بھارتی پروپاگنڈ ا عام طور پر اپنی تاریخ کا غصہ اپنے جغرافیے پر نکالنے تک محدود رہتا ہے ۔تاہم مودی سرکار سے بعید نہیں کہ یہ سسی کا رونا ہو ۔
کھنگورے کے ناقدین عموماً اسے صنفی امتیاز کا شاخسانہ بتاتے ہیں اور صنفی مساوات کے قیام کے لئے خواتین میں کھنگورے کو رواج دے رہے ہیں۔ سادہ لوح خاوند شکایت بر لب ہیں کہ وہ بھی گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ لیکن کھنگورے کی ہمت نہ ہونے کا اعتراف نہیں کر پاتے۔ اس کی وجہ سے ایک افسوس ناک رجحان پیدا ہو رہا ہے جس میں کھنگورے کو خواتین سے نسبت دے کر رومانویت پیدا کی جارہی ہے۔ اس کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ کھنگورے کا اصل کردار بدلا جا رہا ہے۔
پاکستانی شاعری میں کھنگورا خواتین سے منسوب ہو کربے باکی کا استعارہ بنتا جا رہا ہے۔پنجابی میں تو اس میں للکار کی کھنک بھی سنائی دیتی ہے ۔
اودے کولوں لنگدی، کھنگورا وی سی مار یا کہنی وی سی ٹکرائی، چنی نو ں اتاریا
ابا میرا تک لیندا، میں نو ں ڈر پانیے چوڑیے نی چوڑیے، کھسماں نوں کھانیے
[ تو اس کے پاس سے گذری تو کھنگورا بھی مارا تھا، کہنی بھی ٹکرائی تھی، دوپٹہ بھی سرکایا تھا۔
مجھے ڈرانے والی ‘ میرا باپ دیکھ لیتا تو کیا ہوتا، تو سچ مچ کی چوڑی ہے، جو خاوند کو بھی ڈرا کے رکھتی ہے]
سرائیکی شاعری میں تو کھنگورا ہلاکت خیز ہتھیار بن جاتا ہے۔
تینڈا غیریں اچ بہے کیں کھنگورا مارنڑ او کھنگورا نا ہا میکوں گولی ماری وے
[غیروں میں بیٹھ کے ، تو نے کھنگورا مارا وہ کھنگورا نہیں، گولی تھی جو تو نے مجھے ماردی]
سچی بات یہ ہے کہ ہمیں بزرگانہ کھنگورے کی اہمیت اور حیثیت بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے خواہ مخواہ کی روک ٹوک کہ کر نظر انداز کرنا کھنگورے کی اہمیت سے انکار ہے۔ بزرگانہ ” اوں ہوں” مکمل جملہ منعیہ ہے ۔ اس کو بولتے وقت آواز ناک اور سینے سے ہو کر آتی ہے تو اس کی بلندی روک ٹوک کا فرض کما حقہ سر انجام دیتی ہے ۔
فیس بک پر تبصرے