سیاسی جماعتوں کے جلسے جلوسوں پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ اور ہمارا قانون

427

سیاسی مالیات ، یعنی سیاسی جماعتوں کی جانب سے کئے گئے اخراجات ، ان خرچوں کی نہ کوئی حد ہےاور اگر ڈھونڈنے نکلو تو نہ ہی کوئی سراغ. .

جمہوریت نے پاکستان میں اب کچھ ایسا رنگ نکالا ہے کہ جس میں، ناچ گانا ہے، بڑے بڑے خوشنما اسٹیجوں پر انواع اقسام کے کھانے تقسیم کئے جا رہے ہیں اور عوام کا ایک جم غفیر اس تماشے کا حصّہ ہے.

وہ لوگ جو خود ان جلسوں میں جانے کی دلچسپی نہیں رکھتے ، وہ اپنے ٹی وی پر اس سرگرمی سے لطف اندوز ہوتے ہیں. کیا ان میں سے ، آپ میں سے، کسی کو ذرا بھی اندازہ ہے کہ ان سیاسی جلسوں پر کس قدر خرچہ آتا ہوگا ؟ اور سب سے بڑھ کر یہ، کہ آخر وہ کون ہیں جن کے پاس ایسے اخراجات کے وسائل موجود ہیں؟

اس حوالےسے اندازے تو بہت سے لوگوں نے لگائے مگر درست تخمینہ لگانا اس قدر آسان نہیں. یہ بات البتہ دل کو نہیں لگتی کہ یہ تمام اخراجات سیاسی جماعتیں محض اپنے ووٹرز ، سیاسی بھائی بندوں اور سربراہان کی جانب سے دے گئے عطیات سے پورے کر رہے ہیں.

پاکستانی سیاسی جماعتوں نے اپنے معاشی وسائل کے معاملے میں کبھی بھی شفافیت کا مظاہرہ نہیں کیا.

بدعنوانی تو ہمیشہ سے ہماری سیاست کا ایک جز رہی ہے ، مگر منتخب وزیر اعظم کی عدالت سے غلط بیانی پر نا اہلی کے بعد معاملات اور بھی سنجیدہ ہو گئے ہیں . مگر زیادہ تر توجہ سیاسی جماعتوں اور نظام کے بجاۓ شخصیات پر مرکوز ہے .

حکومتی جماعت کے مخالفین اکثر حکومت پر عوامی پیسے کو ذاتی سیاسی مقاصد ، جیسے کہ جلسے جلوسوں پر خرچ کرنے کے الزامات لگاتے رہتے ہیں. مگر آج تک کسی نے اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا.

اسلام آباد میں موجود عہدداروں کے مطابق سیاسی جماعتوں کے اخراجات ان کے جمع کے گئے گوشواروں میں لکھے ہوۓ اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہیں . مگر کس حد تک ؟ اسکا اندازہ لگانا مشکل ہے .

ہم نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (انتخابی دفتر پاکستان) سے بھی رابطہ کیا مگر اعلی عہدداروں سے ہمیں کوئی خاص معاونت نہ ملی ، وہ خود قانونی مسائل میں الجھے ہوۓ تھے لہذا یہ ملاقاتیں بےسود رہیں .

ڈان کو یہ بھی بتلایا گیا کہ سیاسی اقتصادیات اور سیاسی جماعتوں کے اخراجات پر باقاعدہ ایک سیل موجود ہے مگر فی الوقت وہ کوئی کام نہیں کر رہا.

ڈان سے ٹیلی فونک گفتگو پر ، الیکشن کمیشن کے قانونی محکمہ کے ڈائریکٹر جنرل جناب محمّد ارشاد صاحب نے یہ بیان دیا کہ سیاسی اخراجات پر ان کی نوکری کے عرصے اور دائر کار میں کبھی ان سے ان اخراجات کے متعلق بنے قوانین پر کسی نے کبھی کوئی راے طلب نہیں کی.

ا یف بی آر ، جس کا کام ہی افراد اور گروہوں کی آمدن اور اخراجات پر نظر رکھنا ہے ، اس کے عہد یداران بھی اس مد میں بے بس نظر آئے ، ان کے مطابق ان کے محکمے کا کام ٹیکس جمع کروانا اور گوشوارے اکٹھے کرنا ضرور ہے مگر سیاسی اخراجات کے بارے میں فیڈرل بورڈ آف ریوینو کے پاس کوئی قوانین موجود نہیں.
ایف بی آر اس بات کی وضاحت میں بھی ناکام رہا کہ آخر سیاسی جماعتوں کو گوشوارے جمع کروانے کے نوٹس کیوں نہیں بھیجے جاتے ، جبکہ یہی محکمہ این جی اوز اور عوامی اداروں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا رہتا ہے

البتہ .ایف بی آر کے سنئیر اہل کار اس خبر سے خاصے مطمئن نظر آیے کہ ٢٠١٧ کے مالیاتی بل میں سیاسی پارٹیوں کے اخراجات کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دینے کی سفارش مسترد کر دی گی ، اس طرح ٹیکس چوروں کو اپنی آمدن چھپانے کے نئے ذرائع مل گئے .

سیاسی کارکنوں سے ملاقات بھی نتیجہ انگیز ثابت نہ ہوئی ، وہ ایسے ہر سوال سے کترا رہے تھے جن سے انکی سیاسی جماعت کا نام خراب ہو.

بالآخر ہمیں ،ایسی تقاریب کے منتظمین، اسٹیج بنانے اور سجانے والے کیٹرنگ اور ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرنے والے حضرات سے رابطہ کرنے کے بعد اخراجات کا تخمینہ لگانے میں کچھ مدد ملی .

پی ٹی آئی . پیپلز پارٹی ، اور مسلم لیگ نواز کے لئے ان جلسوں کا بندوبست کرنے والوں کے مطابق انداز ، ٥٠٠٠ افراد پر مشتمل جلسے کے لئے ، آمد و رفت ، جلسہ گاہ کی تیاری ، حفاظتی اقدامات ، لاؤڈ اسپیکرز اور دیگر انتظامات میں کم از کم ٥٠ لاکھ روپے کا خرچہ آتا ہے اور اگر جلسہ رات کا ہو اور ساتھ میں کھانے کا خرچہ بھی شامل شامل کر دیں تو اخراجات دو گنا ہو جائیں گے.

اگر جلسہ صبح کا ہو تو ایک تہائی سے زیادہ کا خرچہ تو ساؤنڈ سسٹم اور حفاظتی اقدامات پر ہی آ جاتا ہے. اس پر اسٹیج ، آمد و رفت اور بیٹھنے کے انتظامات ، جھنڈوں، اور دیگر چھوٹی موٹی اشیا کے اخراجات الگ .

جبکہ رات میں ہونے والے جلسوں میں ٢٠ فیصد خرچہ تو بجلی، جنریٹر اور بڑی بڑی ایل سی ڈی سکرینز کا ہے.

جلسے جلوسوں کے انتظامات کرانے والے حلقوں میں ، نواز لیگ وقت پر ادائیگی اور بے تحاشا خرچ کرنے کے سبب سب سے مقبول جماعت ہے . تحریک انصاف خرچہ تو مسلم لیگ جتنا نہیں کرتی مگر پیسے کی ادائیگی میں اپنی زبان پر قائم رہتی ہے . پیپلز پارٹی کی شہرت اس معاملے میں کچھ اچھی نہیں ہے

کاروباری حضرات کے مطابق جیسے جیسے شرکت کرنے والوں کی تعداد بڑھتی ہے ، خرچ کرنے والوں کا خرچہ کم ہوتا چلا جاتا ہے . دور دراز اور دیہی علاقوں میں ایک تو آنے جانے ، آمد و رفت کا خرچہ زیادہ ہوتا ہے ، اور گاؤں کے لوگوں کے لئے یہ ایک تہوار کی طرح ہے جہاں پر کھانا لازمی جز ہے اور سیاسی جماعتیں کارکنوں کو ناراض کر کے اپنا ووٹ بینک خراب کرنے کا رسک نہیں لے سکتیں ، یہ اضافی اخراجات شہروں میں نہیں ہوتے .

اخراجات کا تخمینہ لگانا بہر کیف پھر بھی ایک آسان کام ہے ، اصل مشکل تب پیش آتی ہے جب آپ آمدن اور آمدن کے ذرائع ڈھونڈنے نکلتے ہیں . یہ لین دین بینک یا کسی دوسرے معاشی ذریعہ سے نہیں ہوتا، بلکہ ایک ہاتھ دے اور دوسرے ہاتھ لے والا معاملہ ہے. کون ، کس کو ، کب ، کتنا پیسہ ہاتھوں ہاتھ دے رہا ہے اس کا شمار تقریباً ناممکن ہے. ذرائع ڈھونڈنا ، یہ وسائل حاصل کس مد میں حاصل کے گئے ، اس سب کا سراغ بہت مشکل ہے . ان معاملات میں بڑی کاروباری شخصیات اور انکے مفادات شامل ہیں اور اپنے معاشی معملات کو چھپانا ان کے لئے روز مرہ کا معمولی سا کام ہے .

ایک قانونی ماہر کے مطابق . ” موثر سیاست کسی بھی ملک میں پیسے کی ریل پیل کے بغیر ممکن نہیں ، مگر اس ملک کو ایسے قانون اور لا ئحے عمل کی ضرورت ہیں جہاں گوشوارے جمع کروانے اور معاشی شفافیت کو ترجیح دی جائے، چونکہ موجودہ سسٹم میں غیر قانونی ذرائع کو سیاسی اخراجات کے لئے استمعال کرنا بہت آسان ہے.

ایک تجزیہ کار کے مطابق . اگر تمام سیاسی جماعتوں کے صرف جلسے جلوسوں کی مد میں سالانہ اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ رقم اربوں میں شمار ہو ، مگر ان کی جانچ پڑتال کرنے اور ان پر ٹیکس لاگو کرنے کا کوئی طریقہ کار واضح ہے ہی نہیں ، ایسی صورتحال میں کیا کیا جا سکتا ہے.

ا یف بی آر کہ ایک افسر کا کہنا تھا کہ ” پاکستان میں بھی دوسری جمہوریتوں کی طرح سیاسی جماعتوں کو لازمی گوشوارے جمع کروانے پڑیں ، تبھی ٹیکس اور جی ڈی پی کی شرح میں کسی قسم کی بہتری آئے گی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...