’مسلم سماج اور سیکولرزم:اسلام کے سیاسی فکر کی تشکیلِ نو‘

320

استعماری عہد کے تلخ تجربے اور اس کے ساتھ خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد مسلم دنیا میں سیاسی نظم اور سماجی اقدار کی بحث تسلسل کے ساتھ جاری و ساری رہی ہے جو اب تک نظری لحاظ سےکسی بھی مسلمان ملک میں نتیجے تک نہیں پہنچی۔ اورجو چیز اس حوالے سے قابل غور ہے وہ  یہ ہے کہ فکری مباحث کا دائرہ زیادہ تر انہی امور ومبادی کے گرد گھوم رہا ہے جہاں سے شروع ہوا تھا۔سماجی اور سیاسی ابتری ایک ناقابل تردید حقیقت ہے تاہم اس کے باوجود فکری زاویے ایک دائرے میں ہی سفر کرتے نظر آتے ہیں۔

اس بحث میں دلچسپ امر یہ ہے کہ سیکولرزم کو عمومی لحاظ سے مسترد ہی کیا جاتا رہا اور اسے تقریباََ بے دینی یا مسلم تہذیب کا مخالف کہا جاتا رہا۔ اب جبکہ مغربی دنیا میں مابعد سیکولرزم کا نظریہ فروغ پانا شروع ہوا ہے تو اسے مسلم دنیا میں دین کی فتح سے تعبیر کیا جانے لگا،اس زاویے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ  وہاں اب مذہب کی صورتحال ویسی پیچیدہ نہیں رہی ہے جیساکہ اس وقت تھی جب سیکولرزم کو متعارف کرایا جارہا تھا ۔ مغرب میں مذہب کی موجودہ حالت ایسی ہے کہ وہ عصری نظام یا جدید اقدار کے ساتھ  متصادم نہیں ہوتا۔ فرق یہ ہے کہ مذہبی اظہاریوں کو سماج میں اب قدامت پسندی نہ کہنے پر زور دیا جارہا ہے اور ان کا سماجی دائرہ کچھ وسیع ہو رہا ہے۔ جبکہ مسلم سماج میں مذہبی امور کا تناظر اور سماج وسیاست کے ساتھ اس کا ربط صحت مند اور معاونت والا نہیں ہے۔ اس لیے مسلم معاشروں میں مذہب و سیکولرزم کی بحث کا تناظر نظری طور پہ چاہے مغربی طرز فکر کے پس منظر میں ہو، تاہم عملاََ یہاں صورتحال اپنی تاریخی پیچیدگی سے باہر نہیں نکلی ہے۔

پاکستان میں  مذہب اور سیکولرزم کے موضوعات پرجن اہل علم نے وقیع کام کیا ہے ان میں ایک نمایاں نام کالم نگار و دانشور خورشید ندیم کا بھی ہے۔ حال ہی میں ان کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس کا عنوان ہے ’’مسلم سماج اور سیکولرزم:اسلام کے سیاسی فکر کی تشکیلِ نو‘‘62 صفحات پر مشتمل یہ مختصر کتاب چار اہم مباحث پر روشنی ڈالتی ہے جن کے نام بالترتیب اس طرح ہیں: (1) سیکولرزم اور مذہب۔(2) سیکولرزم اور سیکولرائزیشن۔(3) سیکولرزم اور پوسٹ سیکولرزم۔(4) مسلم سماج اور سیکولرزم۔

’سیکولرزم اور مذہب‘ کے عنوان کے تحت قائم کیے گئے باب میں مصنف نے تاریخی طور پر سیاسی و سماجی نظم کی تشکیل کے حوالے مذہبی حلقے اور اس کے مقابل عقلیت پسند طبقے کے مابین رہنے والی حریفانہ کشمکش کا اختصار کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔ اس میں صرف دین اسلام کا ہی نقطہ نظر نہیں پیش کیا گیا بلکہ تمام ادیان کے تاریخی کردار پر بات کی گئی ہے۔مصنف کے مطابق جب تک ریاست کی جدید تعریف سامنے نہیں آئی تھی اور سیاسی نظم کی موجودہ شکل  پر اتفاق نہیں ہوا تھا، اس وقت تک مذہب کا سیاسی و سماجی حوالے سے کردار بہت اہم رہا ہے اور اس پر کسی کو کوئی اعتراض تھا۔ چونکہ مذاہب نہ صرف یہ کہ وہ الہامی ہدایت کے نمائندے تھے بلکہ تعلیم و تعلم اور فکرودانش کے اعتبار سے بھی مذہبی حلقے کو برتری حاصل تھی یا کم ازکم اس کا اثر نمایاں تھا۔ اس لیے مذاہب کی اخلاقی تعلیمات اور نئے مسائل کے حوالے سے رائے دینے کا کام مذہبی طبقات کا خاصہ تھا۔ یوں سیاسی اور سماجی دونوں حیثیتوں میں ان کی حیثیت ایک طویل تاریخی مرحلے تک راسخ رہی ہے۔تاہم جب وحی کا سلسلہ بند ہوگیا اور آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی بعثت ہوئی تو اس وقت اللہ تعالی نے یہ پیغام دیا کہ انسان کی رہنمائی کے لیے آسمانی ہدایت اپنے کمال کو پہنچ گئی ہے۔ تاہم اس کے ساتھ دین اسلام کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس میں اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھا گیا، اس کا مطلب یہ تھا کہ انسان کو اپنی عصری ضروریات میں عقل سے رہنمائی کی ضرورت رہے گی۔بالخصوص سیاسی حوالے سے اسلام رہنمائی تو کرتا ہے لیکن اس کے متعین خدوخال نہیں فراہم کرتا۔ یوں دین سے بنیادی امور میں اخلاقی رہنمائی کے باوصف انسانوں کے لیے میدان کھلا بھی رکھا گیا۔

مصنف نے اس باب میں مسیحی اور اسلامی مذہبی نقطہ نظر کے مابین فرق کو بھی بیان کیا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان دونوں مذاہب کی دینی رہنمائی کی حیثیت کے مابین فرق ہے۔ ایک تو یہ کہ مسیحیت کی تعلیمات خالص نہیں ہیں کیونکہ یہ تاریخ اور وحی کے اجتماع کا نام ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں دین اسلام کی روایت محفوظ ہے کہ اس کے متون میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ وحی ہی ہیں۔ اگرچہ مسلم روایت میں عام طور پہ فقہ کو بھی شریعت سمجھ لیا جاتا ہے مگر وہ حقیقت میں شریعت کا جزو نہیں نہ اس کا درجہ رکھتی ہے۔ دوسرا فرق یہ ذکرکیاگیا  ہے کہ مسیحی روایت میں اجتہاد کا عنصر نہیں ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دین اسلام انسانی فکر کو آزادی بھی دیتا ہے۔ یوں اصولی طور پر مسلم سماج میں فکری بحران نہیں پیدا ہونا چاہیے تھا جو کہ اب نظر آتا ہے۔اسی فکری بحران اور جمود کی وجہ سے سیاست و معاشرت کے باب میں پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں۔

کتاب کا دوسرا باب ’سیکولرزم اور سیکولرائزیشن‘ کے عنوان سے ہے۔اس ضمن میں یہ بیان کی گیا ہے کہ انسانی معاشرہ سیاست و معاشرت کے حوالے سے خالص مذہبی رہنمائی سے بعد کے مرحلے سیکولرزم میں کس طرح داخل ہوا ، اس کی وجوہات کیا تھیں اور کس طرح اس نے مذہب کے کردار کو محدود تر کردیا۔مصنف نے اس کے تاریخی پس منظر میں مسیحیت اور تنویری تحریک کے مابین ہونے والی کشمکش  پر روشنی ڈالی ہے کہ مذہب کو پہلا چیلنج یورپ میں پیش آیا جہاں مسیحیت کی بالادستی کو  مسترد کیا گیا اور اس کی جگہ عقل پرستی نے لے لی۔جب سائنس ، تجرباتی علوم اور فلسفہ کے شعبوں میں انسانوں کی دلچسپی بڑھنے لگی اور صنعتی دور کی بنیاد پڑنے والی تھی تو یورپ میں یہ محسوس کیا گیا کہ اب وقت آگیا کہ انسانوں کو مذہب سے رہنمائی کی ضرورت نہیں رہی۔ یہی نہیں بلکہ سمجھا جانے لگا کہ مذہب انسانی ترقی میں ایک رکاوٹ کے طور پہ سامنے آنے لگا ہے۔ جب مسیحی طبقے نے سائنس اور فلسفے کے علماء کے خلاف محاذ کھول دیا اور علوم پرزبردستی قدغن عائد کرنے کی کوشش کی تو اس کے خلاف سخت مزاحمت کی گئی اور نتیجے میں رفتہ رفتہ مذہب کو سماجی اور سیاسی منظرنامے سے بے دخل کردیا گیا اور اس تأثر کو ایک ناقابل تردید حقیقت کے طور پر پیش کیا گیا کہ مذہب بس انسان کا انفرادی معاملہ ہے۔اس نئے نظریے کو سیکولرزم کہا گیا۔

اس باب میں مصنف نے مادیت کے انسانی کے ساتھ تعلق پر بھی بات کی ہے جس سے سیکولرزم اساس پختہ ہوتی ہے اور روحانیت ایک ثانوی چیز بن جاتی ہے۔ ان کے مطابق جب مذہب کے مقابل عقلیت پسندی کا نعرہ بلند ہوا تو اس دوران ’’سماجی ڈارون ازم‘‘ کا نظریہ تشکیل پاگیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ سماجی ترقی اور اس کی بہتری کا دارومدار مادی وجود کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس کے تحت مادی وجود کی بقاء انسان کا وظیفہ بن گیا اور اب وہ انسان یا قوم کامیاب ہو گی جس نے اپنے مادی وجود کا بہتر انتظام کرلیا ۔ یوں دنیا کے وسائل پر قبضے کی مسابقت بھی شروع ہوگئی اور یہ تصور اس قدر پختہ ہوگیا کہ انسان کے لیے اس کا انکار مشکل ہوگیا۔گویا وہ سفر جو علمی شعبے اور سیاست و معاشرت کے باب میں  مذہب کی جگہ لینے کا تھا وہ انسان کی ذہنی کایاکلپ پر یوں منتج ہوا کہ ایک بالکل نیا فرد اور سماج وجود میں آگیا جس کی اقدار یکسر الگ تھیں۔

تیسرے باب میں مابعد سیکولرزم کے موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح مذہب اپنے انفرادی کردار سے اجتماعی کردار کی طرف واپس آنے لگا ہے اور مغرب میں تأثر تقویت اختیار کر رہا ہے کہ  اجتماعی حیثیت میں مذہب کی مکمل بے دخلی درست نہیں تھی۔اس نئے مرحلے کو بعض اہل علم سیکولرزم کی ناکامی سے تعبیر سے کرتے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ دراصل غیرمذہبی معاشرت کی تشکیل کے ردعمل میں ہوا ہے کہ سیکولر سماج کی صورت گری کی کوئی حدود نہیں تھیں  جس کے منفی اثرات مرتب ہوئے اور لوگ واپس مذہب کی جانب رجوع کرنے لگے۔اس سلسلے میں جرمن فلاسفر جرگن ہیبرماس کا کام سب سے نمایاں ہے۔ انہوں نے ہی اس مرحلے کو مابعدسیکولرزم کا نام دیا۔تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہم سیکولر اقدار ترک کریں کردیں  اور واپس مذہب کے غلبے کے دور میں چلے جائیں۔ بلکہ ان کے خیال میں اس بات کی ضرورت ہے کہ مذہب اور سیکولرزم کو کو چاہیے کو وہ دونوں تجدید تعلقات کریں اور ایک دوسرے کے لیے سماج میں جگہ پیدا کریں۔

مصنف نے مابعد سیکولرزم کے مفکرین کے نتائج فکر کو سامنے رکھتے کچھ نکات بیان کیے جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس نئے مرحلے کے بنیادی خصائص و افکار کیا ہیں۔ ان میں سے چند کی تلخیص کچھ اس طرح ہے:

  • سیکولرزم سے مذہب اور اجتماعی زندگی میں علیحدگی مقصود نہیں، تاہم دونوں کے مطالبات مختلف ہیں جن کا ادراک ضروری ہے۔
  • معاشرتی اخلاق کی تشکیل میں مذہب کا کردار باقی ہے جو فطری بھی ہے اور تاریخی بھی ۔
  • سائنس کا یہ حق نہیں کہ وہ مذہب پر اپنی فوقیت جتائے۔
  • سماجی اخلاقیات اور سیاسی نظاموں کے باب میں فکری سطح پر مکالمہ ضروری ہے۔اس میں مذہبی یا غیرمذہبی خیالات میں سے کسی کو دوسرے پر برتری حاصل نہیں۔
  • نہ مذہب کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ معاشرے کی غیرمذہبی بنیادوں کو چیلنج کرے، نہ سیکولرائزیشن کا یہ مطلب ہے کہ وہ کسی مذہب کے فطری کردار کے راستے میں جبر سے کوئی دیوار کھڑی کرے۔

کتاب کے آخری حصے میں ’مسلم سماج اور سیکولرزم‘ کوزیربحث لایا گیا ہے۔سب سے پہلے اختصار کے ساتھ مسلم سماج کے تاریخی ڈھانچے کی شکل کوبیان کیا گیا ہے کہ ماضی میں یہ کیسی رہی ، اس کے بعد دوسرے مرحلے میں خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد کے عہد کا جائزہ لیا گیا ہے کہ مغرب میں سامنے آنے والے ریاست کے جدید تصور کے مقابلے میں مسلم معاشروں نے کس طرح ردعمل دیا۔ مصنف کے مطابق خلافت راشدہ کے عہد میں مذہبی وسیاسی معاملات کے مابین اور ان کے اداراتی مراجع کے مابین کو ئی فرق نہیں نہیں تھا۔ اس کے بعد البتہ سیاست و مذہب کے شعبے تقسیم ہوگئے جس سے مذہبی حلقے کو سماج میں کافی رسوخ حاصل ہوگیا۔مگر جب خلافت عثمانیہ کا سقوط ہوا تو اس کے بعد مسلمانوں میں یہ سوال پیدا ہوا کہ اب کیا کیا جائے؟ ایک طرف خلافت کا تاریخی تصور تھا اور دوسری طرف مغربی نظام تھا۔ مصنف کے مطابق مسلمان معاشروں میں ردعمل میں تین طرح کے نظریات سامنے آئے۔ ایک  تو یہ کہ خلافت  کے احیاء کے لیے سعی کرنی چاہیے۔ دوسرا تصور یہ تھا کہ خلافت کا احیاء ممکن نہیں ہے، تاہم مغربی نظام کو بھی قبول نہیں کرنا چاہیے لہذا مولانا مودودی نے اسلامی ریاست کا تصور پیش کیا۔ یہ تصور مغرب کے مقابلے میں جدید سطح پر اسلامی نظام کی تشکیل کا دعوی کرتا تھا۔جبکہ تیسرا ردعمل یہ تھا کہ سیکولرزم کو قبول کرلیا جائے۔

مگر مسلم معاشروں میں سیکولرزم کو کوئی خاص کامیابی نہیں مل سکی ، بلکہ اسلامی ریاست کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تحریکیں شروع ہوئیں۔مصنف کہتے ہیں کہ اس تصور کی وجہ سے مذہب کا سیاست میں استعمال ہونے لگا جس کی کئی شکلیں تھیں۔پاکستان کے تناظر میں اس سے کئی طرح کے مسائل پیدا ہوئے جن کا خلاصہ یہ ہے:

مذہب و سیاست کے اس ارتباط سے سادہ سیاسی وسماجی مسائل بھی مذہبی بن گئے۔ مثال کے طور پہ جب 1970ء ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا تو جماعت اسلامی نے سوشلزم کو کفر کہہ دیا، یوں ایک انتخابی مہم کفرواسلام کی جنگ بن گئی۔

مذہب وسیاست کے اس تعلق سے ایک مسئلہ یہ بھی پیدا ہوا کہ فرقہ واریت کو ہوا ملی۔اس کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں بنیں اور ملک کی سیاسی فضا مکدر ہوگئی۔

اس سے تیسرا سنگین مسئلہ دہشت گردی کا پیدا ہوا۔ جب کچھ لوگوں کو محسوس ہوا کہ اسلامی ریاست کا قیام ممکن نہیں ہورہا تو انہوں نے ہتھیار اٹھالیے اور جنگ کا ماحول بنا دیا۔ اس سے بالعموم ساری دنیا متأثر ہوئی مگر خود مسلم ممالک کو سخت نقصان اٹھاناپڑا۔

باب کے آخر میں مصنف نے سیکولرزم اور مذہب کی کشمکش کے حوالے سے مسلم دنیا میں پائے جانے والے اضطراب کے خاتمے کے لیے چند فکری نتائج پیش کیے ہیں جن میں سے چند کا خلاصہ اس طرح ہے:

  • اسلام بطور نظامِ فکر، سیکولرزم سے مختلف ہے۔تاہم یہ نکتہ فلسفیانہ اور علمی ہے جس کے عملی مضمرات انفرادی زیادہ ہیں اور اجتماعی کم۔
  • اسلام بنیادی طور پر فرد کا دین ہے۔ اس کا اجتماعی پہلو توسیعی ہے بنیادی نہیں۔
  • خلافت یا اسلامی ریاست کے نام سے کسی سیاسی نظم کا قیام دینی فریضہ نہیں ہے۔ختم نبوت کے بعد مذہب کی تعبیر پر کسی شخص یا ادارے کو کوئی اجارہ داری حاصل نہیں۔ ایک مسلم ریاست اس معاملے میں شہری کو فکری آزادی فراہم کرتی ہے اور ایک سیکولرریاست میں بھی آزادی کا احترام ہوتا ہے۔
  • جبر کا تعلق صرف قانون سے ہے اور نفاذِ قانون کا حق صرف ریاست کے پاس ہے۔
  • معاشرے کی اخلاقی فلاح وبہبود کے لیے ترغیب اور تربیت ہی واحد راستہ ہے۔

یہ نکات اسلام کی فکری برتری کو قبول کرتے ہوئے سیکولرزم کے تجربے سے اخذ ہونے والے مثبت پہلوؤں کو بھی اندر سموئے ہوئے ہیں۔ کتاب کے مذکورہ بالا مختلف زاویوں پر غور کرنے سے مسلم معاشروں میں  اسلام و سیکولرزم کی بحث کسی نتیجے تک پہنچ سکتی ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...