آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان میں سیاسی حقوق کی صورتحال

633

2018ء اور 2019ء میں کشمیر کے حوالے سے شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹوں میں آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان میں سیاسی حقوق کی صورتحال کا جونقشہ کھینچا گیا تھا اس کی ہیئت آنے والے سالوں میں بہتر کی بجائے بد تر ہوتی محسوس ہو رہی ہے ۔ اس کا اظہار ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی گزشتہ سال کی رپورٹ سے بھی ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ 2020ء میں کشمیر پر اپنی سالانہ رپورٹ بوجوہ شائع نہیں کر سکا تاہم اگر یہ رپورٹ شائع ہوتی تو امکان تھے کے اس مرتبہ بھی دونوں متنازعہ خطوں میں سیاسی اور شہری حقوق کی صورتحال پر کئی نئے سوالات اٹھتے۔ ان رپورٹوں میں متنازعے خطے کی دونوں انتظامی اکائیوں میں گورننس کے نظام، اختلافی آوازوں کو دبانے، معلومات تک عدم رسائی، وسائل میں  حق نہ ملنا، میڈیا پر سنسرشب اور بندشوں کو تنقید کانشانہ بنایا گیا تھا۔

2018ء میں شائع ہونے والی رپورٹ میں آزاد جموں و کشمیر گلگت بلتستان کے انتظامی ڈھانچے اور آئینی اختیارات پر کئی سوالات آٹھائے گئے تھے ،تاہم پہلی اور دوسری رپورٹ کے درمیانی عرصہ میں بتایاگیا کہ آزاد جموں وکشمیر کے عبوری آئینی ایکٹ 1974ء میں تیرہویں ترمیم اور گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کے نفاذ کے ذریعے بظاہر آئینی اختیارات مقامی اسمبلیوں کو منتقل کیے گئے ہیں۔ لیکن حقیقت میں ان آئینی تبدیلیوں کے ذریعے بہت سے اختیارات واپس اسلام آباد منتقل ہونے کے علاوہ شہری آزادیوں پر پہلے سے عائد بندشیں سخت کر دی گئیں۔ خاص طور نئے آئینی اور قانونی بندوبست میں اظہار رائے کی آزادی، تنظیم سازی کے حق اوراختلاف رائے کی آزادی پر بندشوں کو مزید سخت کر دیا گیاہے۔ اور اس کے اثرات دونوں خطوں میں بتدریج محسوسں کیے جانے لگےہیں۔

اگرچہ کئی مقامی، قومی اور بین الاقوامی ادارے گلگت بلتستان کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر وہاں شہری حقوق کی صورت حال پر نظر رکھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اس حوالے سے اپنی رپورٹیں اور جائزے پیش کرتے ہیں،مگر آزاد کشمیرمیں صورت حال یکسر مختلف ہے۔ علاقے کی حساسیت کے پیش نظر مقامی سطح پر انسانی حقوق پر نظر رکھنے والا کوئی ادارہ یا آزاد صحافتی ادارہ اب تک پنپ نہیں پایا اور علاقائی، قومی یا بین الاقوامی اداروں کی رسائی محدود ہونے کی وجہ سے اس علاقے میں شہری حقوق کے حوالے سے قابل اعتبار معلومات دستاویزی شکل میں خال خال ہی ملتی ہیں۔

انتخابی عمل پر اعتراضات

آزادجموں و کشمیر میں رواں سال قانون ساز اسمبلی کے عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ نو تشکیل شدہ الیکشن کمیشن نے سال کے وسط میں ہونے والے انتخابات کی تیاریاں شروع کر رکھی ہیں تاہم ان انتخابات سے قبل آئینی اور قانونی بندشوں کو مزید سخت کر کے اختلافی نظریات کے حامل ایسے گروہوں اور جماعتوں کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کو یقینی بنایا گیا ہے جو متنازعہ خطے کے پاکستان سے الحاق کے بجائے ایک خود مختار ریاست کے قیام کے دعویدار ہیں۔ اگر چہ اس سے قبل یہ پابندیاں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند امیدواروں پر انفرادی طور پر لاگو کی جاتی تھیں،تاہم اس مرتبہ آئینی تبدیلیوں اور قانون سازی کے ذریعے انہیں سیاسی جماعتوں پر لاگو کر کے یہ بندشیں مزید سخت کر دی گئی ہیں۔

قوم پرست جماعتوں کی رجسٹریشن پر پابندی

2018ء میں ہونے والی تیرہویں آئین ترمیم کے نتیجے میں آزاد کشمیر میں نافذالیکشن قوانین میں کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ آزادجموں وکشمیر الیکشن ایکٹ 2020ء کے نفاذ کے بعد آزادجموں وکشمیر میں پہلے سے رجسٹرڈ سبھی سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن منسوخ کر دی گئی تھی۔ نئے الیکشن قوانین کے تحت اب آزاد جموں و کشمیر میں صرف وہی سیاسی جماعتیں رجسٹریشن حاصل کر کے انتخابات میں حصہ لے سکتی ہیں جو اس خطے کے پاکستان کے ساتھ الحاق پر یقین رکھتی ہوں۔

آزاد کشمیر کے عبوری آئین 1974ء  کی دفعہ 28 کے تحت تشکیل پانے والے الیکشن ایکٹ 2020ء میں سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کے وقت پوچھے جانے والے سوالات میں یہ سوال بھی شامل ہےکہ کیا پارٹی الحاق پاکستان اور نظریہ پاکستان پر یقین رکھتی ہ؟ ۔ دفعہ 28 کی ذیلی دفعہ 4 کے تحت پارٹی رجسٹریشن کی منسوخی کی وجوہات میں لکھا ہے کہ ”پارٹی کی رجسٹریشن منسوخ کی جائے گی اگرپارٹی نظریہ پاکستان اور نظریہ الحاق پاکستان کے خلاف کام کر رہی ہے نیز پاکستان کی سالمیت، پاکستان اور آزاد کشمیر کی عدلیہ و مسلح افواج کے خلاف تضحیکانہ رویہ اختیار کر رہی ہے۔“

نئے الیکشن ایکٹ کے تحت اب تک چالیس کے قریب سیاسی جماعتوں نے ازسر نو رجسٹریشن کے لیے درخواستیں دی ہیں جن میں سے اب تک 32 جماعتوں کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے۔ اور میں کوئی بھی ایسی قوم پرست سیاسی جماعت شامل نہیں جو ریاست جموں وکشمیرکی خود مختاری کی حامی ہو۔  13 ویں ترمیم سے قبل آزاد کشمیرمیں نافذ پولیٹکل پارٹیز ایکٹ 1987ء میں ایسی کوئی شرط نہیں تھی جو کشمیر کی خود مختاری کی حامی سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن میں رکاوٹ ڈالے۔ 2020ء سے قبل آزادجموں وکشمیر الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ 51سیاسی جماعتوں میں کئی جماعتیں ایسی تھی تھیں جو کشمیر کے پاکستان یا ہندوستان سے الحاق کے بجائے خودمختار ریاست کے قیام کی حامی تھیں۔

تاہم انفرادی سطح پر یہ پابندیاں انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار  پر پہلے سے عائد تھیں اور انہیں کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت نظریہ الحاق پاکستان  پر یقین رکھنے کے حلف نامے پر دستخط کرنا پڑتے تھے۔ اگر الحاق پاکستان پر یقین سے انکار کر دیا جائے تو کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے جاتے ہیں۔ کشمیر کی خودمختاری کی حامی جماعتوں کے امیدوار اس حلف نامے پر سرخ روشنائی پھیر دیا کرتے تھے جس کے باعث ان کے کاغذات نامزدگی ہمیشہ مسترد ہوتے رہے۔ الیکشن قوانین میں یہ شق سابق وزیراعظم سردار عبدالقیوم خان نے 1974ء میں اپنے دور حکومت میں اسمبلی کی منظوری سے شامل کروائی تھی۔ حالانکہ اس سے قبل 1960ء کے انتخابات کے لیے پاکستان کی جانب سے دیے گئے الیکشن رولز میں کوئی ایسی شرط شامل نہیں تھی۔  اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت جموں وکشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور آئین پاکستان کی  دفعہ 257 اس کی تائید کرتی ہے اس متنازعہ علاقے کے مستقبل کا فیصلہ ریاست کے عوام نے کرنا ہے۔ اس کے باوجود آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ان خطوں کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے علاوہ کسی دوسرے آپشن پر بات کرنا پاکستان مخالف تصور کیا جاتا ہے۔  قانون دانوں کے بقول مخصوص نظریات کے حامل افراد، گروہ یا جماعت کو اس نوعیت کی شرائط کے تحت انتخابی عمل سے باہر رکھنا اقوام متحدہ کی قراردادوں سے انحراف اور بنیادی انسانی حقوق کی نفی ہے۔

نئی سیاسی جماعتوں کے قیام میں قانونی رکاوٹیں

حالیہ دنوں میں آزادجموں و کشمیر کابینہ نے الیکشن قوانین میں مزید ترامیم کی بھی منظوری دی ہے۔ اگر مجوزہ ترامیم اسمبلی سے پاس ہو جاتی ہیں تو آئندہ آزاد جموں و کشمیر میں سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کے لیے دو لاکھ روپے کی فیس ادا کرنا ہو گی اور رجسٹریشن کے لیے ضروری ہے کہ اس جماعت کے مرکزی، ضلعی اور مقامی عہدیداروں کی کل تعداد دو ہزار یا اس سے زیادہ ہو۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا اس کا اطلاق پہلے سے رجسٹرڈ جماعتوں پر بھی ہو گا یا یہ شرائط صرف نئی رجسٹریشن کے خواہشمند جماعتوں پر ہی لاگوں ہوں گی۔

جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے، آزادکشمیر کی کئی سیاسی جماعتیں اور گروہ وفاقی حکومت اور پاکستان کی قومی سطح کی سیاسی جماعتوں کی آزاد کشمیر کے انتخابات میں مداخلت کے خوالے سے بھی آواز اٹھا رہے ہیں۔ ماضی میں بھی یہ آوازیں اٹھائی جاتی رہی ہیں تاہم اس حوالے سے کوئی خاص پیش بندی ممکن نہیں ہو سکی۔ چونکہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں قانون ساز اسمبلیوں کے عام اتنخابات کا وقت پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مختلف ہے اس لیےعام تاثر یہی ہےکہ وفاق میں برسر اقتدار جماعتیں انتظامی اختیارات اور مالیاتی وسائل کے استعمال کے ذریعے ان خطوں کے انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ گذشتہ سال کے آخر میں ہونے والے گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات میں بھی وفاقی حکومت کی مداخلت پر کئی سوالات اٹھائے گئے اور آزادکشمیرقانون سازاسمبلی کے آمدہ انتخابات کےبارے میں بھی یہی تاثر ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اثر ورسوخ استعمال کر کے انتخابات جیتنے کی صلاحیت کےحامل امیدواروں کو اپنی جماعت میں شامل کر رہی ہے۔

نوجوانوں کےلیے سیاسی عمل میں شمولیت کی محدودگنجائش

انتخابی عمل میں نوجوانوں کی شمولیت کے مواقع اور بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کے سبب نئی نوجوان قیادت سامنے نہ آنے کی وجہ سے بھی ان خطوں کے عوام میں ایک سیاسی بے چینی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اگر چہ گلگت بلتستان میں اس مرتبہ کئی نئے چہرے انتخابات میں سامنے آئے اور کامیابی حاصل کی تاہم آزادکشمیر میں اکثریت انہی امیدواروں کی ہےجو کئی دہائیوں سے سیاسی افق پر نمایاں ہیں اور ہر پانچ سال کے بعد پارٹیاں بدل کر پھر سے انتخابی عمل میں شامل ہوتے ہیں اور کامیاب ہو کراسمبلی میں آ جاتے ہیں۔

1991ء کے بعد آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات منعقد نہیں ہو سکے۔ بلدیاتی انتخابات نہ ہونے اور طلبا یونینز پر پابندی کی وجہ سے نئی سیاسی قیادت سامنے نہیں آ رہی اور اس خلا کو پرکرنے کرنے کے لیے سیاسی جماعتیں دولتمند شخصیات یا بڑی برادریوں کو سہارا لےرہی ہیں۔ اس وقت سیاسی افق پر وہی لوگ نمایاں ہیں جن کا تعلق کسی بڑی برادری سے یا یا پھر وہ دولتمند ہیں۔

 

اگرچہ وزیراعظم راجہ فاروق حیدر گذشتہ انتخابات سے قبل طلبہ یونیز سے پابندی اٹھانے اور بلدیاتی انتخابات منعقد کروانے اور سیاسی جماعتوں میں نوجوانوں کے لیے 35 فیصد نمائندگی کا کوٹہ مختص کرنے کا وعدہ کرتے رہے ہیں مگر عملاً اس پر کوئی ٹھوس اقدامات نہیں ہوسکے۔ طلبا یونیز پرسے پابندی ہٹانے کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے باوجود اب تک ان یونیز کے انتخابات منعقد نہیں ہوئے۔ بلدیاتی نظام بحال نہ ہونے کی وجہ سے ملکی تعمیر و ترقی کی رفتار سست ہوئی ہے۔ نوجوان سیاسی قیادت کے فقدان کا سامنا رہا ہے اور منصوبہ سازی کے عمل میں مقامی قیادت کی عدم شمولیت کے باعث ترقیاتی عمل کے اثرات مقامی سطح تک نہیں پہنچ پائے ۔ نوجوانوں کے کئی گروپ سرگرم ہیں کہ رواں سال ہو نے والے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے انتخابی منشور میں بلدیاتی نظام کی بحالی کو یقینی بنائیں تاکہ نوجوانوں کو سیاسی تربیت کے مختلف مراحل طے کر کے قومی سطح کے سیاسی عمل میں شمولیت کاموقع ملے۔ کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی کا سوچ بھی نہیں سکتا، جب تک وہ اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل نہیں کرتا،اور معاشرے کے تمام طبقوں اور علاقوں میں یکساں طور پر سہولیات کی فراہمی کا انتظام نہیں کرتا۔

غیر سرکاری تنظیموں کی حوصلہ شکنی

فروری 2020ء میں حکومت آزادکشمیر نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے علاقے میں کام کرنے والی چھوٹی بڑی 424 غیر سرکاری تنظیموں کی رجسٹریشن منسوخ کردی تھی۔ 2015ء میں نیشنل ایکشن پلان کےنفاذ کے بعد سے اس علاقے میں غیر سرکاری تنظمیں مشکلات کا شکار ہیں۔ قوانین میں ابہام اور اداروں کے درمیان اشتراک و تعاون کی کمی کی وجہ سے غیر سرکاری تنظمیوں کی رجسٹریشن میں کئی پیچیدگیاں حائل ہیں جو اس خطے میں عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کو تنظیم سازی کے حق سے محروم کر رہی ہیں۔ 2015ء سے اب تک بمشکل ہی کوئی تنظیم رجسٹریشن حاصل کر سکی ہو گی۔ پہلے سے رجسٹرڈ تنظمیوں کو اپنے منصوبے جاری رکھنے، ملکی و غیر ملکی ڈونرز سے مالی و فنی معاونت حاصل کرنے، بنک اکاونٹ کھولنے اور چلانے جیسے امور میں حال رکاوٹوں کو دور کرنے کے بجائے حکومت نے اس شعبہ پر پابندیاں مزیدسخت کر دی ہیں۔ 2015ء سے قبل نوجوانوں کی ایم بڑی تعداد اس شعبہ سے سے منسلک تھی تاہم نیشنل ایکشن پلان کے نفاذکے بعد اس شعبہ سے منسلک لگ بھگ سبھی افراد بے روزگار ہو گئے۔ مالیاتی دباو کے نتیجے میں کئی تنظیمین غیر فعال ہو کر دیوالیہ ہو گئی اور پھر حکومت نے بیک جنبش قلم ان تنظیموں کی رجسٹریشن بھی منسوخ کر دی۔ ان تنظیموں کی رجسٹریشن کی منسوخی سے نہ صرف نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع محدودہو گئے ہیں بلکہ علاقے کے معاشرتی اورمعاشتی ترقی کے عمل میں بھی رخنہ پڑاہے اور سب سے بڑھ کر اس خطے میں ہونے والی بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے والی اکا دکا آوازیں بھی خاموش ہو گئی ہیں۔ انسانی حقوق کی صورت حال پر نظر رکھنے، ان کا ریکارڈ مرتب کرنے یا ان پر آواز اٹھانے کےلیے اس وقت کوئی بھی باقاعدہ ادارہ ،تنظیم یا تھنک  ٹینک موجود نہی،اگر ہے بھی تو عملاً غیر فعال ہے۔

اختلافی نظریات پر تعزیریں

گزشتہ سال گلگت بلتستان کے علاقے ہنزہ میں ہونے والے طویل دھرنے کے بعد حکومت نے نو سالوں سے قید بابا جان اور دوسرے قوم پرست راہنماوں کو آزادکر دیا ہے۔ بابا جان اور ان کے متعدد ساتھیوں کو 2011ء میں فسادات اور املاک کو نقصان کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔ اور ان پر دہشت گردی سمیت دیگر سنگین جرائم کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے۔ بابا جان کی جماعت عوامی ورکز پارٹی اور دوسری قوم پرست جماعتوں کا کہنا رہا ہےکہ بابا جان اور ان کے ساتھیوں کا اصل جرم ریاست کے بیانیے سے اختلاف اور مقامی وسائل اورزمیں پر عوامی حق ملکیت کا مطالبہ کرنا ہے۔  سیاسی قیدیوں کا معاملہ گلگت بلتستان میں ہمیشہ سے سنگین نوعیت کا رہا ہے کہ ایف سی آر جیسے قوانین کو ریاست نے ہمیشہ اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا ۔

آزادکشمیرمیں کشمیر نژاد برطانوی شہری تنویر احمدکئی ماہ سے جیل میں ہیں اور ان پر الزم ہے کہ انہوں نے پاکستانی پرچم کی توہین کی ہے۔ قوم پرست جماعتوں کے احتجاجی مظاہروں پر پولیس کا لاٹھی چارج اور کارکنوں پر بغاوت کےمقدمات قائم ہونا بھی ایک معمول ہےتاہم تنویر احمد کےعلاوہ فی الوقت آزادکشمیرمیں کوئی اور سیاسی قیدی موجود نہیں۔

البتہ ریاستی بیانیہ سے اختلاف رکھنے والے سیاسی کارکنان، گروہوں اور جماعتوں پرکریک ڈاون اور بغاوت کے مقدمات اکثر و بیشرقائم ہوتے رہتے ہیں۔ 05 اگست2019ءکو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیرکی خصوصی آئینی حیثیت میں تبدیلی کے خلاف قوم پرست جماعتوں کے احتجاجی مظاہروں، لانگ مارچ اور دھرنوں کے دوران پولیس کے ساتھ تصادم میں کئی کارکن زخمی اورمظفرآباد میں ایک راہگیر جاں بحق بھی ہواتھا۔ ان احتجاجی مظاہروں میں درجنوں کارکنوں کو پولیس نے گرفتار بھی کیا اور ان کے خلاف مقدمات  قائم کیےگئے تاہم بیشتر مقدمات بعد ازاں غیر مشروط طور پر ختم کر دیے گئے۔

اکتوبر 2020ء میں حکومت آزادکشمیر نے فیصلہ کیا کہ آئندہ بغاوت کا کوئی براہ راست مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا بلکہ اس  کے لیے کابینہ کی باقاعدہ منظوری لازم ہو گی۔ اسی طرح توہین مذہب ےمقدمات کے اندراج کے لیے بھی ڈی آئی جی اورمتعلقہ ضلع کے مفتی پر مشتمل کمیٹی کی سفارشات کو لازمی قراردیا گیا۔

سنسر شب اور نئے سوشل میڈیا قوانین

آزاد کشمیر میں رواں سال کے آغاز میں نافذ ہونے والے کریمنل لاء (ترمیمی) ایکٹ 2020ء کے اندر پاکستان میں نافذ سائبر قوانین  کوبھی شامل کر لیا گیا ہے اور اب انتظامیہ کے پاس اختیار موجود ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی معلومات کی سوشل میڈیا کے ذریعے تشہیر پر پابندی عائد کر دے۔ کریمنل لاء ترمیمی ایکٹ 2020ء کے نفاذ کے بعد آزاد کشمیر کے مختلف اضلاع میں سماجی کارکنوں، صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کے خلاف الگ الگ نوعیت کے مقدمات درج کیے گئے۔ ان قوانین کے نفاذ کے ساتھ ہی انتظامی افسران اور پولیس اہلکاروں نے ذاتی مقاصد کے لیے ان کا استعمال شروع کر دیا۔ ضلع نیلم میں مقامی ڈپٹی کمشنر نے ایک ایسے نوجوان کارکن پر فوج اور ریاست کے خلاف نفرت انگیزی کا مقدمہ درج کیا جو درحقیقت ضلع میں بد انتظامی اور کرپشن کے حوالے سے مہم چلا رہا تھا۔ ضلع کوٹلی میں ایک سب ڈویژنل مجسٹریٹ  نے سوشل میڈیا پر اپنے تایا کے جنازے کی اطلاع دینے والے شہری کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ دیگر شہروں میں بھی صحافیوں اور کارکنوں کو سوشل میڈیا کے استعمال پرمقدمات کا سامنا رہا۔ ڈان سے منسلک صحافی طارق نقاش کو ایک ٹویٹ کی بنیاد پر توہین عدالت کی کاروائی کا سامنا ہے۔

آزاد جموں کشمیر کی حکومت پہلے ہی پریس فاؤنڈیشن نامی ادارے کے قیام اور اس کے اختیارات کو بتدریج بڑھا کر میڈیا پر سینسر شپ کا ایک غیر مرئی حصار قائم کر چکی ہے اور اب کریمنل لا ترمیمی ایکٹ 2020 کے ذریعے سوشل میڈیا پر اظہار رائے پر بھی بندشیں بھی لگ چکی ہیں۔ اس قانون پر عملدرآمد کے لیے پولیس تمام اضلاع میں ‘سوشل میڈیا سرویلنس سیل’ قام کر چکی ہے جن کا بظاہر مقصد جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس، مذہبی و سیاسی منافرت پھیلانے والے مواد اور جھوٹی خبریں پھیلانے والوں پر نظر رکھنا ہے تاہم بعض کارکنوں کا خیال ہے کہ حکومت اس اقدام کے ذریعے اختلافی بیانیے کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ وکلاء کے ایک گروپ نے سوشل میڈیا صارفین کے خلاف استعمال ہونے والے کریمنل لا ترمیمی ایکٹ 2020 نامی اس قانون کو مقامی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے اور عدالت نے ان کی پٹیشن باقاعدہ سماعت کے لیے منظور بھی کرلی ہے۔

​​​آئینی ماہرین کا خیال ہےکہ آزادکشمیر کے آئین میں 13ویں ترمیم کے بعد سائبر کرائم اور مواصلاتی آلات کے استعمال سے متعلق قوانین بنانے کا اختیار وزیر اعظم پاکستان کو منتقل ہو گیا ہے اور اس نوعیت کے قوانین وزیر اعظم پاکستان وفاقی کابینہ کے ذریعے بنا سکتے ہیں جبکہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ان قوانین کو کریمنل لاء ایکٹ کا حصہ بنایا۔ جب تک یہ قوانین آئینی طریقہ کار کے تحت بنا کر ان پر عمل درآمد کے لیے باقاعدہ اتھارٹی کا قیام عمل میں نہیں لایا جاتا اور ان میں سے انسانی حقوق سے متصادم شقیں نکالی نہیں جاتیں، یہ قوانین غیر آئینی ہوں گے۔

معلومات تک رسائی کا حق

آزاد کشمیر کے عبوری آئین میں تیرہویں ترمیم کے نتیجے میں اگرچہ معلومات تک رسائی کے حق کو آئینی تحفظ دے دیا گیا تاہم اس پر باقاعدہ قانون سازی ابھی تک نہیں ہو سکی۔ معلومات تک رسائی کے قانون کی عدم موجودگی میں شہریوں خاص طورپرنوجوانوں کو سرکاری امور سے متعلق معلومات کے حصول میں مشکلات رہتی ہیں۔ سرکاری نوکریوں، ترقیاتی فنڈزکے اجراء اور استعمال جیسے امور پر معلومات تک عام آدمی کو رسائی نہ ہونے کے سبب شہری کئی بنیادی معاملات  سےنابلد رہتے ہیں جبکہ سرکاری افسران مبینہ بدعنوانیوں کو خفیہ رکھنے کے لیے معلومات فراہم کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ وکلاء اور صحافیوں کے ایک گروپ نے معلومات تک رسائی کا قانون بنانے اور اسے نافذ کرنے کےلیےآزاد کشمیر ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن بھی دائر کر رکھی ہے جبکہ کابینہ نے حالیہ اجلاس میں اس قانون کےمجوزہ مسودے کی منظوری دیدی ہے تاہم اس مسودے تک عوامی رسائی کا امکان فی الحال نظر نہیں آرہا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...