اقتدار اضطراب میں، قانون اضطرار میں اور انصاف امتحان میں

675

فروری ۲۰۲۰  میں ” لبرلزم    سے  ماورا       عدل و انصاف”      کے  عنوان  سے کنگز کالج  لندن میں منعقد    ایک  مجلس میں شرکت کا موقع ملا تو  ایسا لگا  کہ  لبرلزم کی وجہ سے آج  ہر ملک میں   اقتدار اضطراب میں، قانون اضطرار میں اور انصاف  امتحان میں مبتلا  ہے۔۔موجودہ صدی میں عدل اور انصاف کے موضوعات پر شائع کتابوں کے عنوانات سے بھی  یہی اندازہ ہوتا  ہے کہ   لبرلزم  کے ہاتھوں انصاف امتحان    میں پڑ گیا ہے۔ جون تو ماسی کی  کتاب  “انصاف سے ماورا      لبرلزم”  کا عنوان ہی دہائی دے رہا ہے کہ انصاف مطلوب ہے تو  لبرلزم سے ماورا تلاش کر نا ہوگا۔جارج  میکارتھی  کے  مقالے “لبرلزم کی قید سے آزاد عدل و انصاف، قانون فطرت اور اخلاق کے پابند سماج”  میں انصاف لبرلزم کی قید میں نظر آتا ہے تو  فیصل دیو جی اور ظہیر کاظمی کی مشترکہ تصنیف “اسلام مابعد لبرلزم”  مابعد لبرلزم  کے دور کی بات کر رہی  ہے۔

۲۰۱۹ میں  نیو یارک ٹائمز  میں” امریکی اسلام میں سرایت کرتا     لبرلزم ”         کے عنوان سے مصطفی اکیول نے  لکھا کہ امریکی قدامت پسند جن میں مسلمان بھی شامل ہیں  لبرلزم    کو امریکہ کے لئے  سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ نو گیارہ  کے بعد سے قدامت پسند  دائیں بازو   کے امریکی حلقوں میں خوف ہے کہ لبرلزم کی وجہ سے  شریعت  ، جسے وہ “گُھس  بیٹھی شریعت”          کے نام سے  یاد کرتے ہیں امریکہ میں بہت خاموشی  سے قدم جما رہی ہے۔ وہ    دن دور    نہیں  جب امریکہ  پر شریعت کا تسلط ہو  جائے گا۔  اکیو ل  نے لکھا  ہے کہ امریکہ میں مقیم قدامت پسند مسلمانوں کو اندیشہ ہے کہ لبرلزم  اجتہاد  کے دروازے سے  اسلام میں  داخل ہو رہا ہے  ۔ مغربی ملکوں میں مسلمان    اقلیت  میں  ہیں اس لئے   ان کے مطالبات  فقہ اقلیات کی حد تک تو صحیح  تھے۔ جب سے   ان ملکوں میں اسلامی  ریاست اور شریعت کے نفاذ  کی دعوت  کی بات  شروع  ہوئی ہے   لوگوں کے اندیشے بڑھ گئے ہیں۔ اسلام کی  اس نئی لہر   کو اسلامی لبرلزم   کا نام دیا جارہا ہے جو قابل تشویش ہے۔

مغربی ذرائع ابلاغ    نے  عرب ممالک میں     آمرانہ  بادشاہتوں کے خلاف  بغاوت  کی تحریک  کو عرب  بہار  کا نام دے  کر خوش آمدیدکہا۔ وہ  اسے  جمہوریت کی تحریک  قرار دے کر مغرب کی فتح کا جشن منانے کی تیاریاں  کر رہے تھے۔ لیکن جب   ان ملکوں میں یکے بعد دیگرے اسلامی جماعتیں    بر سر اقتدار آئیں  تو  بہت مایوس ہوے۔ حتی  کہ   ان جماعتوں کو  جنہیں  وہ اسلامزم  کے لقب سے  یاد  کرتے تھے اب انہیں اسلامی لبرلزم   کا نام دیا جا رہا ہے۔کیا اقتدار کا اضطراب، قانون کا اضطرار اور  انصاف  میں پس و پیش  واقعی لبرلزم  کی وجہ سے  ہے؟

اگر ایوان ریاست پر حالیہ حملہ دائیں بازو کے انتہا پسند امریکیوں نے نہ کیا ہوتا    تو  یہ واردات   لبرلزم سے منسوب کی جاسکتی تھی۔   اگر حالیہ واقعات میں  سیاہ فام لوگوں کو اتنی   بے رحمی  سے امریکی پولیس نے  تشدد کا نشانہ نہ بنایا    ہوتا تو یہ کہنا صحیح نہ ہوتا  کہ  نسلی مساوات کے خلاف انتہا پسند سوچ مقتدرہ   اداروں میں    بھی سرایت کر چکی ہے۔  امریکی سڑکوں پر یہ  چبھتا سوال کہ” سیاہ فام    زندگیاں رائگاں کیوں؟”     آج کےلبرل امریکہ سے  ہے  ۔

لبرلزم

یورپ کی تاریخ میں لبرلزم روشن خیالی  کی یورپی تحریکوں سے بالکل  الگ فکری اور عملی تحریک   ہے ۔ یہ تحریک یورپ کی سیاست  میں موروثی   برتری، ریاستی مذہب، مطلق العنان  شہنشاہی سیاسی نظام،  باد شاہ کے الوہی حقوق   ،   اور  قدامت پسندی  کی روایت کے برعکس  انتخاب پر مبنی جمہوریت کے قیام   اور قانون کی حکمرانی کی دعوت لے کر اٹھی۔ معاشی میدان میں اس کا مطالبہ     شاہی اجارہ داری،   تاجرانہ نظام  معیشت، اور تجارت پر پابندیوں کی بجائے  آزاد معیشت کا نظام تھا۔تاجرانہ  نظام معیشت  سے مراد    مراعات، رعایات،    محصولات  اور منفعت  پسند ی  کا  وہ نظام  تھا جو شہنشاہیت  اور استعمار  کے مفادات کی  حفاظت  کرتا تھا۔ جدید        نظام معیشت میں یہ اصطلاح   متوازن معیشت کے لئے بھی   لئے استعمال ہوتی ہے جس کا مقصد   برآمدات میں اضافے اور درآمدات میں کمی  کرکے،    ٹیکس کی شرح میں اضافہ اور نئے ٹیکس لگا کر سرکاری خزانے  میں محفوظ  سرمایے  کو بڑھانا ہے۔جمہوریت کے اعتبار سے برطانوی اور فرانسیسی  لبرلزم میں بھی فرق ہے۔ فرانسیسی لبرلزم  آمریت کا شدید مخالف ہے ۔برطانوی لبرلزم   جمہوریت کی بتدریج توسیع کا قائل ہے۔

لبرلزم   کی بنیادیں  سیاسیات اور اخلاقیات کے فلسفے پر استوار ہیں ۔ اس کے اہم نظریات   میں آزادی،  عوام کی رضامندی پر مبنی حکومت اورقانونی مساوات ہیں۔ ان نظریات کی تعبیرات  میں   اختلاف ہے لیکن  عام طور پر  جن  موضوعات پر اتفاق ہے  ان میں   آزاد معیشت   ، آزاد تجارت،  حکومت کے   اختیارات    کی تحدید، انفرادی حقوق   سرمایہ داری نظام ، جمہوریت،  سیکولرزم،  صنفی  اور نسلی مساوات،   بین الاقوامیت،   مذہبی آزادی اور  تقریر  اور  پریس کی  آزادی بہت اہم ہیں ۔ انفرادی حقوق میں شہری حقوق  اور انسانی حقوق  شامل ہیں۔

لبرلزم  کی آزادی  کی ضرب المثل تعریف   کہ  ایک فرد کی آزادی  کی  سرحد دوسرے فرد کی ناک یعنی عزت اور خود ی پر  ختم ہو جاتی ہے    آزادی  کی حد بندی  کو لازمی قرار دیتی ہے ۔  یہ  تعریف  فلسفی  طرز فکر کی حکمت  کا نتیجہ بھی ہے  اور  سماجی تجربے    کی فراست کا نچوڑ بھی ۔   انسانی علوم کے سارے  میدانوں میں جن میں فلسفہ، مذہب  اور سائنس بھی شامل ہیں آزادی انسانیت  کے تصور کی بنیادی قدر  ہے   جو انسان کو با اختیار  بنا کر  دوسری  مخلوقات سے  ممتاز کرتی ہے۔ لبرلزم کی نظر   میں  آزادی کا  مظہر مساوات ہے   ۔  آزادی ہر فرد کا حق ہے  تو قانون کی نظر میں سب افراد  برابر ہیں۔ مذہب میں جبر قبول نہیں تو ہر شخص   مذہب کے اختیار  کرنے میں ، اس پر عمل میں  اور اس کے اظہار  میں آزادی کا برابر  حق رکھتا ہے۔ تاہم کسی بھی فرد کی آزادی  دوسرے کی آزادی میں مخل نہیں   ہو سکتی۔ لبرلزم  میں    آزادی  اور مساوات  کے اصول   لازم و ملزوم ہیں اس لئے آزادی کی حدود  کا تعین بھی ضروری ہے  ۔ اقتدار اور قانون مختلف وجوہات کی بنا پر فرد کی مطلق آزادی  کے قائل نہیں اس لئے  انصاف کے حوالے سے   آج کل لبرلزم پر   بحث کا محور  لبرلزم  پر پابندیاں ہیں۔  ہمارے خیال میں  اس بے سکونی کی وجہ زندگی  میں روز مرہ  تبدیلیوں اور تنوع    کی  پیدا کردہ غیر مستقلی ہے۔ یہ  بے چینی اس لئے ہے کہ   آزادی کی اس سوچ کی وجہ سے  مستقبل  غیر  یقینی  ب نظر آتا ہے  تو ماضی پر سے بھی  اعتبار    اٹھتا جا رہا ہے۔

اس    الجھا و  کو دور کرنے کے لئے    ہم نے سٹینفورڈ انسائیکلو پیڈیا آف فلاسفی سے رجوع کیا  تو معلوم ہوا کہ     لبرلزم  کی      ایسی تعریف ممکن  ہی نہیں  جس پر سب فلسفی متفق ہوں۔ لبرٹی یعنی آزادی لفظی اصطلاح سے زیادہ  ایک قدر کا نام ہے جس کے معانی کی جڑیں     تاریخ کے طویل سیاق و سباق میں بہت گہرے پانیوں میں چلی گئی ہیں۔ اس کے معانی   فلسفیوں  کے خوابوں  کی گونا گونی میں گم ہیں ،  روز مرہ بدلتی سیاسیات    میں صدیوں  پروان چڑھے ہیں ، طاقتوروں کے ہاتھوں میں مدتوں سے کھیل رہے ہیں ۔ محققین کے نزدیک  اصل مسئلہ  یہ ہے کہ انسانی ذہن  تحدید  کا عادی ہے چاہے وہ فرضی  اور عارضی ہی کیوں نہ ہو۔ تحدیدی طرز فکر سے  مسئلہ وقتی    طور پر تو حل ہو جاتا ہے لیکن حل حتمی اور ابدی نہیں ہوتا۔    بحث اس لئے  جاری رہتی ہے کہ اسے جاری رہنا ہے۔

لبرلزم  کی تحدید  کے مسئلے کو سمجھنے  کے لئے   ہم پہلے اس کے مسلمات  اور رجحانات   میں  اختلافات اور اتفاقات پر نظر ڈالتے ہیں۔

ا۔ مسلمات

مسلمات کے   اعتبار سے جان لاک[۱۶۳۲-۱۷۰۴ ] سے جان  رالز[۱۹۲۱-۲۰۰۲] تک   سب لبرل مفکرین نے اس بات پر زور دیا ہے  کہ  ہر انسان  فطری طور پر آزاد ہے اس پر کسی دوسرے کی مرضی مسلط کرنا جبر ہے ،آزادی نہیں۔ سترہویں صدی  میں تھامس  ہابز[۱۵۸۸ -۱۶۷۹ ]،  جاک روسو [۱۷۱۲-۱۷۷۸] اور  عمانویل کانٹ [۱۷۲۴ – ۱۸۰۴ ]بھی انسانی آزادی کے اصول کو اتنا   بدیہی   مانتے  تھے کہ اس کے  ثبوت  کی ضرورت نہیں  ۔ ان سب کے استدلال  کی بنیاد کبھی نہ بدلنے والے قوانین فطرت تھے  ۔ سب آزادی  کو انسان کا بنیادی حق   مانتے تھے۔ آزادی  کے موضوعات مختلف تھے  اس لئے سب فلسفی موضوع کے اعتبار سے  اس کی حدود   یا حد بندی کے قائل تھے ۔ ہابز سیاست  میں مطلق  العنان حاکمیت   کے حوالے سے مطلق آزادی   کا مطلب ایسا اقتدار   بتاتے تھے جس میں  کوئی اور شریک نہ ہو ۔  اطاعت کے اعتبار سے  بادشاہ اور رعایا  میں فرق کرتے تھے  ان کے درمیان حاکم اور محکوم یا  آقا اور غلام  کا رشتہ مانتے تھے    ۔  روسو   سیاست کو سماجی معاہدہ  بتاتے تھے لیکن   امن کے لئے وہ بھی آزادیوں پر پابندیوں کے قائل تھے۔  جان  رالز کے نزدیک آزادی کی بنیاد   انصاف کے اصول پر ہے  اس لئے ۔ وہ  متناسب آزادی اور متناسب حق کے حوالے سے آزادی پر پابندیوں     کو جائز سمجھتے تھے،  مساوی آزادی ممکن  ہی نہیں ۔

اہل فلسفہ  کے ہاں  آزادی کی قدر مثبت بھی ہے،  منفی           بھی۔ منفی ہو تو  آزادی  ممنوع بھی ہو سکتی ہے محدود بھی۔ فلسفے میں             آزادی    کی تعریف  پر تین پہلووں سے بحث  رہی ہے  :منفی، مثبت یا    جمہوری ۔    آزادی   کے منفی ہونے کے قائل کہتے ہیں  کہ آزادی بعض حالات میں  دو سروں کے لئے بہت نقصان دہ ہو سکتی اس لئے مطلق آزادی  جائز نہیں،   مثبت  کو اختیار کیا جائے اور منفی کو رد کیا جائے۔ اگر آزادی میں دونوں پہلو موجود ہوں تو منفی پہلووں پر پابندی  لگائی جائے  ۔تیسری شکل یہ ہے کہ منفی یا مثبت کا فیصلہ   جمہوری یا اتفاق رائے سے ہو۔ دوسرے الفاظ میں    یہ پابندی تبھی مثبت ہو گی جب سب   کی رضامندی سے اور جمہوری طریقے سے لگائی جائے۔   مشکل اس وقت پیدا ہوئی جب اس فیصلے کا انحصار  طاقت اور جبر   پر  سمجھا گیا۔

۲۔  رجحانات

رجحانات کے اعتبار سے لبرلزم   کی تاریخ میں تین  رجحانات ملتے  ہیں:۱۔اثباتیاتی  لبرلزم ،   ۲۔معاشیاتی لبرلزم ،  ۳۔ انصاف کا داعی لبرلزم۔

اثباتیاتی لبرلزم میں  آزادی  کا مرکزی    نقطہ شخصی یا انفرادی آزادی ہے، اظہار رائے اور عمل کی آزادی ۔ فکری طور پر  اور قوانین کے اعتبار سے یہ   تصور اثباتیت کے فلسفے سے ابھرا جو مابعد طبیعیات اور الہیات کی پابندیوں سے آزادی چاہتا تھا۔ حد بندیوں  کے تقاضے اور فیصلے     قدیم ادوار میں سیاسیات اور قانون کے علاوہ  اخلاقیات،   سماجیات، الہیات اور مابعد طبیعیات کے دائرے میں آتے تھے۔ اثباتیت  اخلاقیات ، الہیات اور    مابعد طبیعیات کو یہ حق نہیں دیتی اس لئے  ان کا عمل دخل ختم ہو گیا ہے۔

تاریخی طور پر  دوسرا رجحان  یعنی معاشی  لبرلزم  متعدد تضادات کا جواب  تھا جو کمیونزم اور سوشلزم سے ٹکراو کے سیاق و سباق میں  ابھرے۔معاشیاتی لبرلزم  میں  آزادی اور حق ملکیت  لازم و ملزوم  تھے۔ لیکن  بہت سی قومی ریاستوں نے قومی مفاد  کے نام پر شخصی اور ذاتی ملکیت   کی آزادی پر پابندیاں لگا کر  ذرائع پیداوار  اپنے  قبضے  میں کر لئے۔ معاشیاتی لبرلزم   نے آزاد معیشت  کے نعرے کو گلو بل  آزاد  معیشت    میں بدلا اور  بین الاقو امی  قوانین  مثلاً  انسانی حقوق  کے  حوالے سے     قومی ریاستوں پر دباو  بڑھایا۔  تو یہ تضادات سامنے آئے۔

سماجی انصاف یا مساوات پر مبنی لبرلزم     تیسرا رجحان ہے۔  اثباتیاتی لبرلزم اور  آزاد معیشت کی نا  کامی  کی وجہ سے لبرلزم سے ماورا عدل و انصاف کی تلاش کے موجودہ دور کا آغاز ہوا ۔ اس دور میں سیاست اور معیشت  کی آزادی کی بجائے  سیاست، قانون اور عدل و انصاف  میں  سماجی اور معاشرتی  فلاح کی ترجیح  کے رجحان  پر بحث کا آغاز ہوا ہے۔

اقتدار

قدیم ادوار میں آزادی اور  غلامی  دونوں   فطری  تصور  کئے جاتے تھے۔ غلامی  کی بجائے آزادی کے  قانونی جواز کی وجہ تلاش کرنا پڑتی تھی۔ اقتدار میں طاقت  کا اقتدار غلامی کے تصور سے وابستہ تھا۔  اسی لئے    غلامی قانونی طور پر تو ختم ہو گئی لیکن   طاقت کا  سیاسی، معاشی اور الہیاتی تصور اقتدار  کی غلامی سے وابستہ رہا ۔عملی ہی نہیں فکری طور پر بھی طاقت  کسی شریک کے بغیر غلبے  کا استعارہ  رہی۔  ریاست کی تعریف ہو یا قانون کی،     طاقت مطلق آزادی  کے تصور پر مبنی تھی۔ حاکمیت  کسی کی محکوم  نہیں ہو سکتی،  قانون  کسی حاکم کے حکم پر مبنی  نہ ہو تو قانون نہیں۔ اقتدار کا یہ جواز الہیات  میں تشکیل پایا۔ جہاں   اقتدار اعلی خدا سے منسوب تھا ۔ انسان نے اقتدار سنبھالا تو   سارے الہیاتی استعارے   قدیم دور  میں بادشاہت کو اور جدید دور میں  ریاست کے ادارے   کو منتقل ہو گئے۔ اثباتیت کے دور میں بھی  استدلال  الہیات سے ادھار لیا گیا۔ ریاست اور  عدالت دونوں  کی طاقت کا انحصار     سزا اور جزا کی اجارہ داری پر رہا۔   لبرلزم  کے لئے مشکل یہ تھی کہ اسے آزادی اور مساوات   اور عدل و انصاف کے صنوبر کا پودا   ، طاقت، غلبے،  نظم و ضبط،  سزا اور جزا ، اطاعت  کی مٹی میں لگانا تھا۔ صنوبر اپنی آزادی پا بہ  گل   رہ  کر ہی کر سکتی تھی لیکن طاقت   کی آزادی کو پا  بہ گل  کرنا ہمیشہ مشکل رہا۔

طاقتوروں نے لبرلزم  کے صنوبر کی  کمزوری سے فائدہ اٹھایا ۔ مغربی    اقوام نے    اپنی سرمایہ دارانہ  اجارہ داری  کو مستحکم کرنے کے لئے گلو بل اکانومی یعنی بین الاقوامی معیشت      کو  لبرل اکانومی  یا آزاد معیشت  کے نام سے پیش کیا ۔  مقصد یہ تھا کہ گلوبل کیپیٹل   کے     سامرانہ اور  خواب ناک نام سے  سرمایہ  بلا قیدو بند ساری دنیا میں  منتقل کیا جا سکے۔ خواب یہ دکھایا کہ   سرمایہ قومی سرحدوں سے نکلا   تو ہر قوم کا سرمایہ ہوگا۔ سامرانہ اس لئے   کہ   ایسی معیشت جس کی اجارہ داری طاقتور اقوام کے پاس ہو،  اس کو مساوی   آزادی      بتا کر کوئی سامری ہی بیچ سکتا ہے۔ اس کی حمایت  میں  جو  دلائل  پیش کئے  گئے   وہ سب لبرلزم  یعنی   آزادی کے بنیا دی حق  کے اصول  یعنی مساوی  آزادی سے کشید کئے گئے تھے  جو ریاستی اقتدار کی  حاکمیت، قانون کی  حکمرانی اور  سماجی انصاف کی تنگنائییوں     سے ما ورا   گلوبل آزاد معیشت کی دنیا تھی۔ طاقت اور اجارہ داری   نےنئی بحث چھیڑ دی کہ آزادی صرف ان لوگوں کا حق ہے جو اس کے اہل ہیں۔ بات افراد سے ہٹ کر طبقات  اور  اقوام   کی اہلیت پر ہونے لگی تو رنگ اور نسل تک جا پہنچی۔

جدیدیت کی سیاسیات  ، قومی ریاست اور آئین     کے نظریات نے فرد کی آزادی اور انفرادی ترقی   کی اہمیت کو تسلیم تو کیا لیکن سیاسی شناخت، قومی ریاست کے ہمہ گیر اقتدار اور  اقتصادیات  کی ترجیحات کے پیش نظر ریاست   اور قانون کو اختیار دیا کہ مجموعی اور قومی مفاد میں افراد کی آزادی پر پابندیاں لگا سکتے ہیں  ۔ یہ صورت حال عام طور پر ہنگامی اور عارضی ہوتی ہے۔ جدیدیت کی سیاسیات نے استعمار اور  عالمی  معاشیات کے حوالے سے افراد سے بڑھ کر اقوام کی آزادی کے حقوق پر پابند یوں  کو جائز قرار دیا۔ گلوبلزم کی سیاسیات اور معاشیات   نے جنگ کے قوانین پر قیاس      کرتے ہوے  بین الاقوامی  قوانین ترتیب  دیے۔  جن میں عالمی  سیاسی کشمکش اور تضادات کو  ایسے تصادم سے تعبیر کیا   جس کو جنگ  میں فتح و شکست یا  ایک فریق کی  آزادی اور مساوات پر پابندیوں  کے بغیر  ختم نہیں کیا جا سکتا تھا۔

شناخت کی سیاسیات  پر مباحث کے دوران مغربی اور علاقا ئی حوالے سے گفتگو میں یہ مان کر کہ لبرل اقدار سے الگ رہ کر جمہوریت قائم نہیں ہو سکتی سماجی انصاف کی طرف کما حقہ توجہ نہیں دی جاسکی۔ حالانکہ روزمرہ کے مسائل کے علاوہ اداروں میں تبدیلیوں کے وقت شہری ہمیشہ سماجی انصاف کی بات کرتے رہے۔ سماجی انصاف کے مبہم تصور کے سیاسی استحصال   کے بالمقابل  ایک تشکیلی اور سیاقی تبدیلی یہ آئی کہ  خواہشات اور عمل کی ایک واضح انفرادی کوشش  بھی سامنے آئی جو ریاست کے دائرہ کار اور قانونی اختیار سے باہر تھی۔ مختصر یہ کہ سماجی انصاف اجتماعی زندگی کے تین دائروں میں یعنی جمہوریت، شناخت اور معاشیات بہت ہی اہم  کردار ادا کر رہا ہے لیکن اس طریقے سے کہ اس کا بہت کم مطالعہ ہو سکا ہے۔

عام طور پر قانون کو  سیاست اور ریاست سے بالاتر بتایا گیا۔ ہونا بھی یہی چاہیے  تھا  لیکن عملاً  ایسا ممکن نہیں رہا ۔  قانون کی قوت نافذہ حکومت کے پاس رہی  بلکہ اس پر اب بھی  اجارہ داری  حکومت کی ہے جو ریاست کا ادارہ ہے ۔  حکومت اور ریاست میں تفریق ہمیشہ مشکل رہی  اس لئے ریاست اور قانون کے درمیان سرحدیں کھینچنا  بھی کبھی ممکن نہیں رہا۔ بین الاقوامی قوانین کے لئے بھی   ریاست کی حاکمیت کا مسئلہ رہا۔  اس کا  حل یہی نکالا گیا کہ طاقتور اقوام   کو یہ قوت نافذہ دی جائے وہ مل جل کر  اس کام کو کریں۔  اس میں اقتدار کمزور قومی ریاستوں کے پاس نہیں رہا۔

اسلامی تاریخ میں سیاسی نظریات  کی  بحث   خار جی  بغاوت  سے   شروع   ہوئی جب انہوں نے سیاسی معاملات  میں تحکیم  پر شدید تنقید  کرتے ہوے اللہ کی حاکمیت کا نعرہ بلند کیا۔ حضرت علی نے اس   طرز فکر کو خطرناک سمجھا اور تنبیہ کی    کہ اللہ کی حاکمیت کے نعرے کے  ا لفاظ صحیح ہیں  لیکن ان کو جو معنی پہنائے   جارہے ہیں وہ حق و باطل میں تفریق مٹا رہے ہیں۔ اسلام کی سیاسی فکر میں اس سوال پر اختلاف ہوا  تو متعدد رجحانات سامنے آئے ایک رجحان یہ  تھا کہ   ریاست کا قیام دینی ضرورت ہے   اور شریعت کا نفاذ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ دوسرا رجحان یہ تھا  کہ ریاست دینی ضرورت  نہیں امامت   دینی ضرورت ہے اور  شریعت   کی پاسبانی علما کا کام ہے۔  امام غزالی کے استاد امام الجوینی   ان رجحانات کے بین بین  اس بات کے قائل تھے کہ  ریاست کا قیام دینی  ضرورت نہیں لیکن امام کی اطاعت دینی لحاظ سے فرض ہے۔ امام  کا تقرر کیسے ہو اس پر بھی اختلاف رہا۔   یہ بحث زیادہ تر علم الکلام  کی کتابوں  میں جاری رہی فقہی کتابو ں کا باب نہ بنی۔ فقہا نے اس موضوع پر  الگ سے کتابیں لکھیں  وہ زیادہ تر امضائی تھیں یعنی  ضرورت کے مطابق   جو عمل ہوتا رہا   وہ  احکام سلطانی  کا حصہ بنتے رہے۔ مثلاً     اموی خلفا نے  خلیفہ کے انتخاب کی بجائے ولی عہد  مقرر کرنا شروع کئے تو    اسے بھی امام کے تقرر کی صورتوں میں شامل کرلیا گیا ۔جواز  یہی تھا کہ امت    کا شیرازہ بکھرنے نہ پائے۔ عباسی دور میں جب  خلیفہ کمزور پڑے تو   طاقتور امرا  نے  اختیارات اپنے ہاتھوں میں لئے  تو خلیفہ کے ساتھ  ان کو بھی امامت میں شامل کر لیا گیا۔  اس نئے ادارے کو سلطان کا نام دیا گیا  کیونکہ قوت نافذہ اس کے پاس تھی۔  طاقت کے ذریعے  اقتدار  میں آنے کے لئے  استیلا   یعنی قبضہ یا  قہر  یعنی زور کی اصطلاح  استعمال ہوئی۔

عباسی دور   کی ابتدا   میں    خلیفہ منصور نے ملک میں یکساں قانون نافذ کرنے  اور عدالتوں  کے قانونی ضابطے کے لئے  امام  مالک سے  اجازت چاہی کہ ان کی مرتبہ کتاب الموطا  کو نافذ  کردیا جائے۔امام رضامند نہ ہوے تو قانو ن  کے دو دائرے بن گئے ایک  بادشاہ کا جاری کردہ قانون دوسرا علما اور فقہا  کی آرا پر مبنی قانون۔ پہلے کو سیاست اورد وسر ے کو  شریعت اور فقہ کا نام دیا گیا۔  شریعت دین کا اور سیاست ملک    کا دائرہ کار   بنی۔  ان دونو کے اختیارات  پر بحث عباسی دور میں شروع ہوئی الدین و الملک تو ء مان، یعنی دین اور بادشاہت دو جڑواں  بھائی ہیں۔

اس بحث میں متعدد رجحانات میں سے  دو بہت اہم ہیں۔ ایک رجحان کے نمائندہ  قدامہ بن جعفر ہیں ، دوسرے کے نظام الملک طوسی۔   قدامہ    عباسی خلیفہ المقتدر باللہ کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں جب خلیفہ  زیادہ طاقتور تھے۔ قدامہ مذہبی اقتدار کے قائل تھے ۔ اس کے مطابق خلیفہ  کے پاس سیاسی اور مذہبی دونوں اقتدار   لازمی ہیں ۔  طوسی  کے زمانے میں  القائم بامراللہ  عباسی خلیفہ تھے۔ اس دور میں خلیفہ کمزور ہو گئے تھے  ، سیاسی طاقت سلجوقی  امرا کے پاس تھی جو سلطان کہلاتے تھے۔ طوسی    سلطان ملک شاہ  کا وزیر تھا۔ اس کے مطابق خلیفہ دینی اور سلطان  سیاسی اقتدار کا حامل  ہوتا ہے۔

خلیفہ اور علما میں اقتدار کی  تقسیم شریعہ اور سیاست کے اعتبار سے جاری رہی۔  آہستہ آہستہ   شرعی  اختیارات  سیاست کی جانب منتقل ہوتے رہے۔ گیارہویں سے بارہویں صدی کے دوران  قومی اور سیاسی  امور  شریعہ کے دائرے سے سیاسہ کو منتقل ہو گئے۔ تیرہویں اور چودھویں صدی  میں  قانون ،  سیاست  کے دائرے میں آگیا ۔مملوک عہد میں مختلف فقہی مذاہب کے قاضی مقرر ہونے لگے۔ مفتی اور قاضی کے اختیارات میں تفریق کے لئے  قاضی سیاسی حکمران کو جوابدہ ہوتے تھے۔ لیکن مفتی  خود مختار رہے ۔   پندرہویں صدی سے سترہویں  صدی میں توازن سیاست  کے حق  میں  بہت  بڑھ گیا۔ شریعت کو   قانونی ضابطوں   کی صور ت میں مرتب کرکے  عدالتوں کے کام کو آسان بنا دیا گیا اٹھارویں  سے بیسویں صدی  میں ریاست کا ادارہ زیادہ مضبوط ہو گیا۔ قانون سازی کا اختیار حکمران کو مل گیا۔  علما  کا اختیار ختم ہو گیا۔

قانون

قومی ریاستیں  جو اقتدار  یا ساورنٹی کے اصول پر قائم تھیں  اپنے کو خود مختار  سمجھتی تھیں۔قانون  کی یہ تعریف کہ   وہ حکِم  حاکم  یا ساورن کی کمانڈ ہے ان کی خود مختاری کی ضمانت تھی۔ قانون کا نفاذ   قانون کے پاس نہیں اس کی  قوت نافذہ  ریاست کی انتظامیہ کے پاس ہے۔ اگر قانون کے پاس رہے تو قانون کی جانبداری  پر حرف آتا ہے۔ بین الاقو امی  قانون میں بھی قومی ریاست کی یہ حیثیت مسلمہ تھی۔  طاقتور قومی   ریاستوں  نے  ایک جانب تو  بین الاقو امی  قانون کی پابندی   کے دباو  سے نکلنے کے لئے  سٹیٹ اف ایکسپشن  یعنی استثنائی صورت حال کا   سہارا لیا۔ ملک کے اندر بھی   قانون کی حکمرانی    کے اصول سے استثنا    جنگ کی صورت حال کے قیاس   پر مانگی گئی ۔ گلو بل معیشت  میں ایک ملک سے دوسرے  ملک میں  سرمائے کی بلا ر وک ٹوک منتقلی کو آسان بنانے  کے لئے   استثنا پر مبنی نئے بین الاقوامی  قانون   بنائے  ، ان میں ایک   ساحل پار   سرمایہ کمپنیوں کا تھا جو کسی بھی  ملک کی حدود میں شمار نہیں ہوتی تھیں۔  ان  کے ایسی ہی دوسری کمپنیوں سے رابطے تھے اور یوں ان کے آپس کے لین دین میں کسی ملک قانون کی پابندی نہیں تھی۔ دوسرے قانون  کا تعلق رشوت یا برائبری   کی نئی قانون تعریف تھی  جو  بین الاقوامی معاشی مفاد   کی خاطر غیر ملکیوں کو رشوت کے قوانین سے مستثنی  کرتی تھیں ۔ ۔معاشیاتی لبرلزم نے مطلق آزادی  کی بجائے متناسب آزادی کا تصور پیش کیا جس میں استثنا کے قوانین    سے ترقی پذیر معیشت کو  بھی فائدے کا وعدہ کیا گیا۔ آزاد معیشت سے   متوازن  خوشحالی کا وعدہ تو   کیا پورا ہوتا۔ ترقی پذیر معیشت  کساد بازاری کا شکار ہوگئی۔ ترقی پذیر  ممالک سے سرمایہ  ترقی یافتہ ملکوں کے بنکوں کو منتقل ہوا تو تیسری دنیا میں معاشی بدحالی آئی۔

جدید ریاست میں طاقت کو تین اداروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ قانون سازی مقننہ  کا اختیار ہے،  قانونی فیصلے عدلیہ کرتی ہے، اس  کا نفاذ   انتظامیہ   کا کام ہے ۔   اس سے یہ تو ہوا کہ قانون  کا آسمانی   ہونے کا  یا ریاست کی  طاقت سے باہر ہے لیکن قانون  مقننہ اور عدلیہ  میں تقسیم ہونے کی وجہ ریاست  زیادہ مضبوط ہوگئی  کہ سزا  اور جزا   کا نفاذ  انتظامیہ  یعنی حکومت کے پاس چلا گیا۔  قانون نے جنگ اور ہنگامی حالات میں   حکومت کو استثنا بھی دے دی۔  جدید  قانونی مفکرین  کا کہنا ہے کہ قانون اب   ایسا میدان  بن چکا ہے جس میں  غلبے کی جنگ لڑی جاتی ہے۔ حقوق ا ور ذمہ داریوں کا تعین  عدالتوں میں کیا جاتا ہے۔ اس  طرح عدلیہ کی اہمیت میں اضافہ تو ہوا ہے  لیکن    قانون کی کامیابی اسی میں ہے  کہ  وہ  طاقت    کے پیچھے حقائق کے پردے میں  رہے۔

مارتی کوسکن نیمی   نے لکھا ہے کہ آج کل قانون کی دنیا  میں استثنا  ایک ایسا قانونی میدان بن گیا ہے  جہاں  ریاستیں  یہ کوشش کرتی ہیں    کہ اسیے قوانین  جو طاقت کے قواعد و ضوابط   طے کرتے ہیں انہیں  اپنے دفاع میں   وقت سے پہلے قدم  اٹھانے کی اجازت ملے۔ انسانی یا قومی مفاد  میں مداخلت  کو روکنے کے لئے پیشگی اقدامات  جیسے  قانونی حیلوں سے وہ  ان قواعد کو بے اثر  کر سکتے ہیں۔ دوسرا طریق کار ہنگامی حالت کا اعلان ہے  جو اب معمول  بن چکا ہے۔ بین الاقوامی  قانون میں بھی باغی حکومتوں  پر  مدافعانہ حملوں  کا جواز ملنا ممکن ہو گیا ہے۔ حالیہ دہشت کے خلاف جنگ میں  بین الاقوامی  کی خلاف ورزی لئے قانونی جواز مل گیا۔

کوسکن نیمی نے  واضح کیا ہے  کہ جدیدیت میں اس  تصور   نےکہ قانون مستقل اور متعین  ہے اس لئے  وہ عالمگیر اور غیر جانبدار ہے اور اس لئے ساری دنیا پر لاگو کیا جا سکتا ہےقانون کو ایسا میدان   بنا دیاہے  جس میں سیاسی مخالفین  غلبے کے تنازعات  نمٹاتے ہیں۔ اپنی حمایت میں قانون کے ضابطے اور قواعد اور اداروں  کے حوالے دیتے ہیں۔ یقین دلاتے ہیں کہ قانون   مخالفین کی کہیں بھی تائید نہیں    کرتا۔ اس صورت حال میں عدالت کے لئے لازمی ہو جاتا ہے کہ وہ قواعد و ضوابط کی بجائے  قانون کے وسیع تر  مو موضوعات اور اصولوں پر غور کرے  جو مسابقت  میں غلبے  کی تائید ملتی ہے۔

اس ضمن میں انسانی حقوق  کے  دو  پہلو بہت کام آتے ہیں:  قانون کو جنگ کے سیاق میں پیش کرنے سے  استثنا ملنا آسان ہے۔ ورنہ  جبری اقدامات  کے لئے قانونی تائید تو مل ہی جاتی ہے۔ بعض اوقات  استثنائی  قوانین کو معمول کی کاروائی بتا کر  یہی مقصد حاصل کر لیا جاتا ہے ۔ تاہم اصول کے لحاظ سے کئے گئے تجزیوں نے جدید لبرلزم  کے مسلمات    کے بارے میں   انتہائی بنیادی سوال اٹھائے ہیں۔ جدید لبرلزم  کا یہ مسلمہ کہ  قانون سیاسیات،  انصاف، عدالتی نظام  اور روز مرہ زندگی میں تفریق کرتا ہے    صحیح نہیں ۔ یہ تفریق بالکل مصنوعی ہے۔ مسلمات کے یوں بے نقاب ہونے سے  اب  پبلک لا یا ریاستی قو انین اور   روز مرہ اور عالمی سیاست  کو  ایسی جگہ لے آئے ہیں جہاں  استثنا ہی قانون  ہے۔

شریعت کی اصطلاح میں  استثنا حالت اضطرار کا نام ہے۔ یعنی ایسی حالت جہاں  استثنا کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ رہے۔  قرآن کریم میں جان بچانے کے لئے  مردار گوشت  کھانے    کی اجازت  دی گئی ہے  لیکن یہ اجازت  اس شرط پر ہے کہ نہ تو  اس حد سے بڑھے جہاں تک اجازت ہے اور نہ اس  کو عادت بنا لے۔  دوسرا اصول  اباحت ہے یعنی اجازت کا ہے۔ اباحت کا اصول  اضطرار اور ضرورت کے اصول سے بالکل مختلف ہے۔    فقہ اسلامی میں مباح  کی اصطلاح احکام خمسہ یعنی شریعت  کے پانچ       درجوں میں سے ایک کا نام ہے  جس کی ایک جانب حلال یعنی  واجب اور مستحب  یعنی پسندیدہ کے مثبت احکام ہیں اور دوسری جانب حرام  یعنی مکروہ اورممنوع  کے  منفی احکام اور مناہی ہیں۔ مباح ان کے بیچ کا درجہ ہے۔   اس درجے   کی اہمیت اور وضاحت  اصول فقہ میں ایک اور  بحث میں ملتی ہے۔

اسلامی قانون کا ایک اہم سوال یہ ہے       کہ  بنیادی اصول  ہر چیز کی حرمت یا ممانعت ہے یا حلت  اور  اباحت ہے۔ دوسرے لفظوں  میں  ایک یہ  اصول ہے کہ ہر چیز اصل میں حرام ہے  جب تک شرع سے اس کا حلال ہونا   ثابت نہ ہو ۔ دوسرا یہ کہ ہر چیز حلال ہے  جب تک شرع میں اسے حرام نہ بتایا گیا ہو۔ دوسرے اصول میں  اباحت کے معنی اجازت  کے ہیں ،منع کے نہیں ۔  اکثر فقہا نے اس  اصول کو آزادی کے معنوں میں لیا ہے۔ یعنی  شرع نے جس چیز کے بارے میں حلال یا حرام  کا حکم نہیں دیا  اس کا فیصلہ کرنے میں انسان آزاد ہے۔ عام طورپر مباح کاترجمہ جائز کیا جاتا ہے۔

امام ابو اسحاق الشاطبی کے نزدیک مباح   کا  اپنے طور پر  کوئی شرعی   حکم نہیں ہے۔ اس  کی وضاحت کے لئے انہوں نے عفو کی  قرآنی اصطلاح کی مثال  بھی  دی ہے۔  جس کے معانی میں معافی، سکوت،  آزادی  اور   قانون میں خالی  جگہ ہے۔  یو ں کہئے    کہ  کسی عمل  کا جھکاو دیکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔ اگر مثبت کی طرف جھکاو ہے تو مستحب ، اگر بہت زیادہ جھکاو ہے  تو واجب ہوگا۔ امام شاطبی  کے  نزدیک    شریعت  انسانی مصلحت پر مبنی ہے۔ اس لئے اس کے احکام  پانچ  مقاصد یا انسانی مصلحتوں کی حفاظت کے لئے ہیں: دین، جان، عقل،  نسل اور مال۔  انہیں پانچ بنیادی انسانی حقوق  بھی کہا جاسکتا ہے ۔ ان کی  حفاظت دو طرح کے احکام سے کی گئی ہے۔   ان کو قائم کرنے کے لئے ہر حق کے لئے ضروری احکام دئے گئے ہیں، مثلاً دین کے قیام کے لئے عبادات کے احکام ہیں۔ منفی طور پر   ہر ایک کی خلاف ورزی پر سزائیں  مقرر کی ہیں ۔  دور جدید سے پہلے قانون کے  نفاذ  کے لئےسیاسی  اور عدالتی نظام  کے بارے میں مسلم دنیا میں کیا بحث رہی اس پر پہلے بات ہو چکی۔

جدید دور میں  نفاذ شریعت  کا مطالبہ  تو استعمار کے دور میں ہی شروع ہو گیا تھا۔  اس دور میں  مذہبی آزادی    کے حق کو مانتے  ہوے    عائلی معاملات میں شریعت  کی  بنا پر شخصی قوانین   کی تدوین اور نفاذ بھی ہوا۔ آزادی کے ساتھ ہی  مسلم  قومی ریاستوں نے قانون سازی شروع کی تو  استعماری دور  کے عائلی قوانین  میں بھی اصلاحات  کا آغاز ہو گیا۔روایت پسند  علمانے   ان اصلاحات کو شریعت کے خلاف قرار دیا۔ حکومت نے جواز پیش کیا کہ یہ  نئی ضرورتوں کا تقاضا ہیں اور  اجتہاد پر مبنی ہیں ۔ مغربی دانشوروں   نے تنقید کی  کہ شریعت  میں عقل کا اختیار نہیں ۔ پاکستان میں ۱۹۶۰ سے ۱۹۷۰  تک عائلی   قوانین میں اصلاحات   کے بعد    ۱۹۷۹  میں سیاسی، آئینی ، معاشی اور عدالتی  تمام قوانین کی مکمل  اسلامی    تشکیل  کا آغاز ہوا جن میں حدود   کا نفاذ  بھی شامل تھا۔ حدود ان   فوجدار ی قوانین کانام ہے جن  میں جرائم کا تعین اور سزائیں    شریعت       کی طے  کردہ مانی جاتی ہیں۔حدود قوانین کا نفاذ اگرچہ تمام اسلامی ملکوں میں نہیں ہوا  لیکن   اس کے باوجود پوری دنیا میں شریعہ ڈیببیٹس  شروع ہو گئے۔  عائلی قوانین میں فقہی مذاہب اور مقامی رسوم ورواج کی بنیاد پر جو     قانونی اختلافات  پہلے سے چلے آرہے تھے وہ  بھی موجود رہے  اب  ریاستی قانون  سازی میں  قومی اختلافات   کے علاوہ   کامن اور سول لا   کے اختلافات کی وجہ سے مزید عدالتی  فیصلوں میں مزید  پیچیدگیا   ں پیدا ہو گئیں۔ تاہم بتدریج    ان کی قانونی حیثیت مستحکم ہو گئی۔ مغرب میں اس     صورت حال کا  اس اعتبار سے خیر مقدم ہوا  کہ  ان میں کسی  نہ کسی حد   تک مغرب سے مماثلت اور رابطہ موجود تھا۔ لیکن  اس میں شریعت اور فقہی   روایت  کے تسلسل کی وجہ  سے مغرب میں یہ تشویش باقی رہی کہ   مسلم  ملکوں میں ایسے قوانین جاری ہیں جو  مذہبی ہیں،  جن کی بنیاد وحی پر ہے اور جو ایسی  قدیم روایت   سے وابستہ ہیں جس کو مغرب میں  قانون  کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔

مغرب  میں شریعت کے  حوالے سے  خطرے   کی باتیں اس وقت شروع ہو ئیں جب مغرب میں آباد مسلم اقلیتوں    نے مذہبی آزادی کے ضمن میں   عائلی معاملات میں  شریعت   کو  ریاستی قانون کا حصہ بنانے کی بات شروع کیانہوں نے اجتہاد کے حوالے سے   مسلم ممالک میں ریاستی قانون سازی   کے رجحانات کو   ماڈرن اسلام اور اسلامی لبرلزم کا نام دیا۔

چارلس کرزمان  کا کہنا ہے کہ مغرب میں بہت سے لوگ    جن میں مسلمان بھی شامل ہیں لبرل اسلام کو اجتماع ضدین  سمجھتے ہیں۔ کرزمان نے اس  دعوے کی تردید کی  ہے مسلم دنیا میں  لبرلزم کے بارے میں منفی تصورات استعماری دور کی دوغلی حکمت عملی  کی پیداوار ہیں۔ تاہم   تیزی سے پھیلتی   اسلامی فکر میں  یہ تحریک جمہوریت، ریاست اور کلیسا میں تفریق،  صنفی مساوات اور اقلیتوں  کے حقوق کی علم بردار  سمجھی جاتی ہے   ۔ یہ تحریک  مغربی لبرلزم کی روایت کے شانہ بشانہ  اٹھی لیکن اس کی پیروکار نہیں ہے ۔ کرزمان کی تحقیق کے مطابق    لبرل اسلام  کے مفکرین نے شریعت کے  تین  قابل ذکربیانیے پیش  کئے ہیں: لبرل  شریعت، سکوتی شریعت اور تعبیری  شریعت  ۔ لبرل شریعت کے  کے دو موضوع ہیں۔ ایک  انسان  میں  نیکی اور بدی   میں فرق کی فطری صلاحیت اور دوسرے  عقل و استدلال  کی اہلیت۔ ایران میں علی شریعتی نے  بشر اور انسان کی دو قرآنی اصطلاحات کو بنیاد بنا کر   انسانی کی حیوانی یا بشری  جبلت   اور انسانی  اختیار کی اہلیت   کے فرق پر روشنی ڈالی۔سوڈان کے   عبد الوہاب آفندی  نے کہا کہ قرآن کریم میں نیکی اور بدی کی پہچان کے ذکر میں اسے  انسان کی فطری    صلاحیت بتایا گیا ہے  اور   اس کی بنیاد پر  انسان کو اختیاری آزادی دی ہے۔اسلامی لبرلزم اسی آزادی  کا نام ہے۔ لبرل   شریعت کا دوسرا موضوع  اجتہاد ہے ۔ جمال الدین افغانی سے لے کر یوسف قرضاوی سب نے  اجتہاد  کو آزادی  کا استعارہ بتایا ہے۔

سکوتی شریعت کے حامی  اس بات پر زور دیتے ہیں  کہ  قرآن و سنت میں ہر مسئلے کا حل اور تمام معاملات پر احکام نہیں ملتے۔ اس کا مقصدیہ ہے    جن مسائل کے بارے میں قرآن و سنت خاموش ہیں  ان  کے حل کا اختیار انسان کو دیا گیا ہے ۔ چونکہ   واضح احکام کی تعداد کم ہے   اور نئے مسائل لاتعداد ہیں اس لئے  شریعت  میں  بنیادی اصول ابا حت ، آزادی ہے  ۔سکوتی شریعت کے بارے میں انڈو نیشیا میں نور خالص مجید اور عراق میں لیث قبہ      نے  تفصیل سے لکھا ہے۔

تعبیری شریعت  کے حامیو  ں کا کہنا ہے کہ  شریعہ وحی اور انسانی تعبیر دونو ں  سے تشکیل پاتی ہے۔ ایران میں عبدالکریم سروش   کا استدلا ل یہ ہے کہ  خالی متن  معنی نہیں دیتا اور نہ ہی اپنے  معانی لے کر چلتا ہے ۔ ہر مسئلے کے سیاق و سباق مختلف ہوتے ہیں۔ شریعت  کی تطبیق کے لئے   سیاق و سباق  کا علم درکار  رہتا ہے تاکہ صحیح تطبیق ہو سکے۔ وحی سے نازل متن کو  تعبیر سے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔  مصر میں  حسن حنفی  تعبیر اور تفسیر میں فرق کرتے ہوے بتاتے ہیں کہ  الفاظ معانی کا ذریعہ ہیں  مصدر نہیں۔ اسی   لئے  الفاظ کے بہت سے معانی ہوتے ہیں۔ تفسیر ان تمام مختلف معانی کے تجزیے کا اور تعبیر  ان میں کسی ایک کا انتخاب کا نام ہے۔ بھارت کے  سید وحید الدین  کا کہنا ہے کہ مذہب کسی ایک جگہ کھڑا نہیں رہتا ۔ مختلف ادوار اور سیاق میں اس کا پیغام زمان و مکان کی رعایت سے مختلف ہوتا ہے۔ اسلام  اس کو سمجھنے کی آزادی پر زور دیتا ہے۔ کرزمان   اس تجزیے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ  ” لبرل اسلام کی مخالفت کے دو محاذوں پر ہو رہی ہے ۔ مسلمان  اسے صحیح اسلام نہیں سمجھتے اور مغرب اسے صحیح معنوں میں لبرل نہیں مانتا۔دونو ں  کا ماننا ہے کہ لبرل اسلام  کا نام  مجموعہ اضداد ہے “۔

عدل وانصاف

ایسا لگتا ہے کہ اکیسویں صدی میں اگر کوئی ادارے بے اعتبار ہوے ہیں تو سیاسی اور قانونی۔ کوئی تصور سوالیہ نشان بنا ہے تو عدل و انصاف کا۔اکثر  اداروں پر یہ الزام  عام ہو گیا ہے کہ وہ اپنی حدود سے تجاوز کررہے ہیں۔

کہیں  ایسا تو نہیں  کہ  عدل و انصاف کی راہ میں   حائل آزادی کا تصور نہیں  بلکہ  اقتدار  کی وہ تعریف   ہے  جو جبر و سزا کی اجارہ داری   اقتدار کے نام کرتی ہے یا قانون کی وہ تعریف ہے جو جزا اور سزا    کو اقتدار   کے احکام   کی پیروی میں محدود  بتاتی ہے اور حقوق اور    فلاح    کوقانون کا   مقصود نہیں  بتاتی۔ ایسا تو نہیں کہ عملی طور پر   انصاف کی تعریف  برابری نہیں  برادری  اور طبقات کے اعتبار سے  کی جاتی ہے   ،   اسی لئے بعض آج بھی سوچتے ہیں کہ کالے اور گورے کیسے برابر ہو سکتے ہیں؟ عوام اور خواص میں مساوات کیسے ممکن ہے؟ آزاد آزاد ہے، غلام غلام ہے۔   تمیز اس فرق کے لحاظ کو کہتے ہیں۔یہ تمیز اٹھ جائے تو    چھوٹے بڑے   برابر ہو جاتے ہیں۔

مسلم معاشروں میں طبقاتی، صنفی اور قدیم و جدید سماجی تفریق سے قطع نظر سب جدید تحریکوں میں سماجی انصاف کا نعرہ مشترک تھا۔ مولاناابو الاعلی مودودی اور علی شریعتی  جیسے   گہرے اثر و رسوخ کے حامل دانشوروں کی تحریروں سے  لے کر مشرق وسطی  میں پھیلتی مزاحمتی تحریکوں اور تیونس کے انقلابی نعروں میں سماجی انصاف کے مطالبات نے  حکومت  کی تشکیل اور کارکردگی کی نئی اقدار اور معیار  اور ذاتی پسند اور ناپسند کی حدود کےنئے اور متناسب  تصورات دئے۔

ارسطو کے ہاں عدل کی تعریف “ مساوی لوگوں کے ساتھ مساوی اور غیر مساوی کے ساتھ غیر مساوی سلوک کرنا انصاف” کہلاتا ہے۔ یہ تعریف منطقی سے زیادہ سماجی اور سیاسی ہے۔ مسلم سیاسی فکر میں ارسطو کی عدل کی  یہی تعریف مسلمہ رہی۔ ارسطو کے مطابق انسان پیدا ئشی طور پر ہی آزاد اور غلام ہوتے ہیں۔ عدل اور ظلم کا مفہوم باہم متضاد اور دوگانہ انداز میں سمجھا گیا۔  اخلاقی اقدار بھی فضائل اور  رذائل، خیر و شر اور نیکی اور بدی کے خانوں میں تقسیم کردی گئیں۔ اسلامی قانونی روایت نے وحی کو علم کا ذریعہ قراردیا لیکن اجتہاد اور استدلال کے لئے قیاس کو اختیار کیا تو یونانی منطق کے طریقہ استدلال کو اپنایا۔ اس طریق استدلال میں دقت یہ تھی کہ فطرت یا عقل  کے برعکس وحی کو مصدر اختیار کرنے سے زبان یا تحریر پر انحصار ہوا۔ یہ اثباتیت کاپہلو تو تھا لیکن زبان اور تحریر کی اثباتیت آڑے  آئی۔

اسلامی فقہی روایت میں اختلاف کو علمی اعتبار دینے سے فہم، تعبیر، استدلال، عمل اور عرف اور عادات میں اختلافات کا اعتبار تسلیم کیا گیا۔ اسی کی بنا پر فقہی مذاہب تشکیل پائے ۔ ان کو تحفظ دینے کے لئے تقلید کا نظریہ سامنے آیا۔ جس کو قضا میں نظری اور عملی طور پر نافذ رکھا گیا۔ اسی طرح فقہ اور شریعت کی طرح خلفا، ملوک اور سلاطین کے اختیارات کو تسلیم کرتے ہوے سیاسہ اور شریعہ میں فرق پر بحث شروع ہوئی تو احکام سلطانیہ کو اسلامی قانون میں اہم مقام ملا۔ سیاسہ نے  سیاسی اقتدار اور اختیارات کو تسلیم کرکے اس تنوع کو قبول کیا جو قوانین کے اس شعبے میں نشو و نما پارہا تھا۔ عدل اور انصاف کے احکام اور اصول سیاست کے شعبے میں مرتب ہوے۔

عدل اور انصاف کے لحاظ سے تیرہویں اور چودھویں صدی کا دور بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ اس دور میں یونانی منطق کا تنقیدی جاٗئزہ بھی لیا گیا اور اس میں استخراجی منطق کے ساتھ استقرائی منطق کے رواج کی وجہ سے سماجی  رواجات اور عرف و عادات کی قانونی حیثیت کا جاٗئزہ لینے کا موقع ملا۔

تجزیہ

بیسویں صدی میں استعمار سے آزادی  ملی اور قومی ریاستوں کا قیام عمل میں آیا تو اقتدار   کو الہیاتی اقتدار سے ممیز کرنے کے لئے اقتدار  کی  تعریف اثباتیاتی  افکار  کی روشنی میں کی گئی      ۔لیکن  ایسا نہ ہو سکا۔ اقتدار کو قانون کی حکمرانی کے اصول کا پابند نہ کیا جا سکا۔  حاکم  حکم کا پابند کیسے ہو سکتا ہے۔ ۔   مسلم ممالک نے   قومی ضرورتوں کے مطابق  آئین، ریاست،  شہری، دیوانی ، فوجداری،  اور  امور خارجہ اور بین الاقوامی قوانین تشکیل دیے  اور اجتہاد کے حوالے سے اسلامی روایت سے وابستہ رہے۔ قومی ریاستی نظام  کو  بنیاد بنا کرآئینی حکومت،   اسلامی ریاست، نفاذ شریعت اور     شرعی  عدالتوں  کے قیام سے جدید نظام کو تو  جواز  دیا  لیکن  شریعت  قومی ریاستوں میں بٹ گئی۔ مغربی دانشور  وں کو  شکایت  رہی کہ  مسلم ملک شریعت سے یونہی  وابستہ رہے تو اسلام اور مغرب  میں مفاہمت ممکن نہیں رہے گی۔دوسری جانب مسلم روایت پسندوں کی نظر میں لبرلزم اور جدید یت مشکوک رہے اگرچہ    صرف چند مسلم ملکوں نے یورپی قوانین کو مکمل طور پر اپنایا   مگر    روایت پسندوں   کو گلہ تھا   کہ مسلم حکمرانوں نے  لبرلزم  کے زیر اثر  شریعت کو ترک کر دیا ہے         ۔       شکوک کی اس فضا میں  اور اصالت اور مرعوبیت    کی بحث میں ایسی فکر ی تحریکیں جو روایت اور جدیدیت کو تصادم کی بجائے  اشتراک   کی جانب  بڑھتا  دیکھ رہی تھیں   نامعتبر ہو گئیں۔

لیونارڈ  بائینڈر نے اسلامک لبرلزم کے  عنوان سے  کتاب  میں اسلامی لبرلزم کو  اجتماع  ضدین بتایا۔ اس کا کہنا تھا کہ اسلامی لبرلزم ممکن ہی نہیں۔     یہ  کتاب  ۱۹۸۸ میں شائع ہوئی   ۔ اس دوران’  اسلام مکمل ضابطہ حیات ‘ کی تحریک کامیاب ہو چکی تھی۔اسلامی  ماڈرنزم اور لبرلزم کے مقابلے میں     اس تحریک کو  بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور سیاسی اسلام کے نام سے یاد کیا گیا۔ بائنڈر  اسلامی ماڈرنزم اور اسلامی لبرلزم دونوں کو  حقیقی نہیں سمجھتے۔    ان کے نزدیک اسلامی روایت عقلی استدلا ل کی بجائے وحی اور حکم الہی پر ا ستوار ہوئی ہے۔ جدید دور کے   سیاسی اور قانونی  نظام  اس اصول پر زیادہ دیر نہیں چل سکتے۔  وہ جدید دور میں اسلام اور مغرب کے مابین مکالمے  کے امکان کے مواقع دیکھ رہے تھے۔  بنیاد پرست اور سیاسی اسلام  کی تحریکوں سے یہ امکان ختم ہونے کا خطرہ تھا۔     اس کتاب میں بائنڈر نے ایڈورڈ سعید کی استشراق پر کتاب  کو جدید مارکسی تنقید ،  سید قطب کی فکر کو بنیاد پرست، سمیر امین کو عرب نشاۃ ثانیہ کی نقیب   ، طارق بشری کو نئی  عوامی مقبولیت  اور نجیب محفوظ   کو تجرباتی حقیقت، اور  محمدارکون  اور عبداللہ العروی کو ساختیاتی   تنقید  سے متاثر بتایا ہے  ان سب کا آغاز  مغربی فکر میں ہوا۔اسلامی لبرلزم   میں جمہوریت اور سیاسی آزادی  کے نظریات یورپ    اور اسلام کے مابین مکالمے کا نتیجہ ہیں۔ مغرب میں لبرٹی  یا آزادی اورحریت ، اور اسلام میں اصالت یا  رجعت پسندی یعنی بنیاد  کی طرف رجوع  دونوں   میں ایسی    معاشرت یا سول سوسائٹی  کا تصور مشترک ہے  جو  کسی کی غلامی  اور تقلید سے آزاد اور عوام  کے اختیار سے اقتدار کی اقدار  پر مبنی ہو۔

مغربی مفکرین  کو صحیح تجزیے میں مشکل یوں پیش آئی  کہ جدیدیت   کو یورپی جدیدیت   سےمنسوب کرکے  محدود  کر دیا  گیا  ۔ جدیدیت کا  پیمانہ مغرب ٹھہرا   تو استعمار کو بھی جواز مل گیا۔ استعمار نے  جدیدیت میں  فرد کی خود مختاری اور آزادی  کو تنوع  اور اختلافات کا  سبب قرار دے کر غیر معتبر ٹھہرایا۔یورپ میں  لبرٹی  اور ایکویلیٹی  یعنی حریت یا آزادی اور مساوات  کو نئی روشنی کے نظریات  کے طور پر پیش کیا   اورغیر یورپی اقوام کی اکثریت نے  اسے اپنا بھی لیا ۔لیکن اکثر یورپی  ذہن یہ قبول نہ کر سکے کہ  عوام اور غیر یورپی معاشرے  جدیدیت کو اپنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ فریڈ آگسٹینو  کو تشویش تھی کہ جمہوریت   کے حوالے سے عوام کو فیصلہ سازی میں شامل  کیا جا رہا ہے۔ یورپی جدیدیت نے افراد اور ریاستوں   کی درجہ بندی  کو ضروری قرار دیا۔ جان رالزتمام    انسانوں، افراد یا گروہوں    کو  معتبر   کا درجہ نہیں دیتے۔ وہ محض مغربی اقوام   کو معتبر اور باقی سب  کو نامعتبر  سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کو مہذب  مانتے ہیں لیکن ان پر بھی مکمل اعتبار نہیں کرتے۔

اعتبار کی بحث میں یہ مفکرین اس تضاد  پر غور نہیں کرتے   کہ یورپی  استعمار    نے  آزادی کے قابل قدر نعروں کے باوجود غلاموں کی تجارت اور غلامی  کی  سیاست کو    جدیدیت کے دور میں بھی   عملاً   جاری رکھا۔  غلاموں کی تجارت تو  قانونی  طور پر  امریکہ میں ۱۸۶۳  میں ختم ہوئی۔  لیکن استعمار  کی غلامی   ۱۹۶۰  کے بعد بھی جاری رہی۔   برطانوی استعمار نے آزادی کے اعلان کے  پہلے مرحلے  میں آزاد قوموں کو بھی  ڈومینین  کا درجہ   دیا  جس  کی رو سے  آزادی  کی صورت میں بھی  وہ اقوام  اس وقت  تک برطانیہ کے ماتحت رہیں جب تک   انہوں نے  اپنا آئین  مرتب  نہیں کیا۔ آئین کے بعد بھی  یہ اقوام استعماری  دور کے سیاسی، قانونی اور کامن لا اور سول لا  عدالتی نظام کو جاری رکھنے کی پابند رہیں۔

قدامت پسند معاشرتی نظم و ضبط اور  سیاسی  امن اور سکون  کو ترجیح دیتے ہیں اس لئے وہ معاشرت، سیاست، اور مذہب کی بنیاد پر آزادی پر پابندیوں  کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک آزادی ہمیشہ محدود ہوتی ہے۔

 

پہلے ذکر ہوا کہ  لبرلزم  پر عدم اعتماد  اور اختلاف اور تنوع سے خوف  دور جدید  کا سب سے بڑا نفسیاتی  مسئلہ ہے۔  اس  مسئلے کا صحیح   تجزیہ  سماجی علوم سے ممکن ہوا جنہوں نے  تنوع     کی  اہمیت کو سمجھا۔  علم  نفسیات نے سماجی تنوع کو مطالعے کا موضوع بنایا۔   ماہرین نفسیات نے تنوع کے  خوف کو سمجھنے  کی کوشش کی  تو ماہرین نفسیات  اس نتیجے پر پہنچے   کہ  خوف کی انسانی جبلت     در اصل بقا  کا تقاضا تھا۔ ابتدائی دور میں انسان ہر   انجانی اور مختلف چیز کو اپنی  جان کے لئے خطرہ سمجھتا تھا    ۔ اسی قدیم جبلت کے سبب آج  بھی لوگوں کو تنوع سے ڈر لگتا ہے۔ ماہر نفسیات  رچرڈ کرسپ  نے لکھا کہ  مغرب میں خوف کی یہ نفسیاتی تعبیر بہت مقبول  رہی۔  لیکن   رچرڈ کرسپ  کے مطابق  یہ نتیجہ بھی  سیاسیات سے متاثر تھا   جو تنوع کی بجائے یکسانیت، عالمگیر اور غیر متبدل   اقدار کو ترجیح دیتے تھے۔ کرسپ کی تحقیق  کے مطابق انسان  نے بقا کے لئے تنوع کو ہمیشہ خطرہ نہیں  سمجھا۔ انسان  نے تنوع    میں برابر دلچسپی لی  کیونکہ انسان کو   تنوع میں طاقت کا سر چشمہ دکھائی دیا  اور مسائل کا حل بھی۔  بقاکی جنگ کی نفسیات کے مقابلے   میں  تنوع سے خوف  در اصل  دوگانہ اور تضاد کیجدلیاتی منطق کی پیداوار ہے جو  ہر انجانی چیز کو دشمن  بتاتی ہے۔ تنوع کو زبردستی  مثبت اور منفی کے خانوں میں  ڈال کے حقائق کے برخلاف  نتائج فراہم  کرتی ہے۔  یہ غلبے اور اقتدار کی نفسیات ہے  جو  تعاون اور  شراکت  سے ڈراتی ہے۔ماہرین سیاسیات تنازعات اور تضادات پر توجہ مرکوز رکھنے کی وجہ سے دنیا میں صرف تصادم کو  دیکھ پاتے ہیں اور مستقبل میں بھی جنگوں اور تنازعات کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ جدلیات کے  ماہرین کا خیال ہے کہ تضادات خود بخود مسائل کے حل کی طرف لے جاتےہیں۔ اس لئے ان سے ڈرنے کی بجائے   انتظار کرنا چاہیے۔ تضاد  ات خود بخود  مصالحت کی طرف بڑھتے ہیں۔  لیکن  جدید دور میں  تنوع اور اختلافات کی کثرت کے سامنے سب اپنے کو بے بس محسوس  کرتے ہیں۔ وہ فرد کی آزادی سے خائف ہیں۔ انفرادیت کو سماج اور گروہی مفادات لئے مضر سمجھتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تنازعات، جنگوں اور تصادم سے نکل کر آگے دیکھیں۔ لبرلزم کے فلسفے کو غلبہ پسندوں اور جنگجو سوچ سے باہر نکال کر فرد کی  آزادی اور تنوع  کے احترام  کو رواج  دیں تبھی اس خوف سے آزادی مل سکے گی۔

ہمیں لگتا ہے کہ اس بحث میں  لبرلزم  کی تحریک  اور آزادی کا تصور  خلط ملط ہو گئے ہیں چبھن یہ ہے  کہ  لبرلزم   آج بھی اس     بے لگام اقتدار  کے سامنے بے بس ہے  جو  ہمیشہ آزادی پر پابندیاں لگا کر  غلامی کے دور کی واپسی کے لئے کوشاں  ہے۔  سوچنے کی بات ہے کہ ایسا کیوں ہے؟

اگر ایسا ہے تو ہمیں   آزادی کی تعریف پر پھر سے غور کر نا ہوگا۔ جدید دور میں اکثر ایسا ہوا ہے  کہ ہم  نے ایک  تصور کو مفید سمجھ کر اپنایا۔ عملی طور پر اس میں مشکلات پیش  آئیں اور ہم  اس تصور سے ہی بد ظن ہو گئے۔       یہ طرز فکر    تجربے سے سیکھنے کا موقع نہیں دیتا۔ ہم  ایک کے بعد دوسرے تجربے  میں لگ جاتے ہیں۔  وہ ناکام ہوجائے تو تیسرے کو آزمانے چل پڑتے ہیں ۔ یہ  طرز عمل  بسا اوقات  ہمیں ایک انتہا سے دوسری انتہا کی جانب  بھی لے جاتا ہے۔ اس کی وجہ بھی یہ سوچ ہے  کہ ہر تصور یا مفید ہوتا ہے یا نقصان دہ۔    حالانکہ عین ممکن ہے کہ اس تصور کے سارے پہلووں پر ہماری نظر نہ ہو یا  ہمارے تجربے میں ناکامی کے  اسباب وہ نہ ہوں   جو ہماری نظر میں ہیں۔ تجربہ  سے انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ اس  لئے    اپنے ہرتجربے    کو قیمتی سمجھنا ، اس پر غور وخوض سے  تجزیہ کرنا، اپنے تجربے کا مکمل جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ یہی نہیں دوسروں کے تجربات سے  بھی  سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ خوش قسمتی  سے آج کے دور میں    علوم   میں ترقی تجربات اور  ان کے تفصیلی اور مسلسل تجزیات  اور ان کی اشاعت سے ہوئی ہے۔  اس لئے  تجربوں اور تجزیات پر مبنی  تحریروں اور کتابوں  کے مطالعہ     سے اپنے تجربے کو وسعت دے سکتے ہیں۔

 

 

 

 

 

SOURCES

  1. Akyol, Mustafa. “The creeping liberalism in American Islam.” The New York Times, Feb18 (2019).
  2. Binder, Leonard. Islamic liberalism: A critique of development ideologies. University of Chicago Press, 1988.
  3. Cavanaugh, K.A., “Narrating Law”, Ellis, Mark S., Anver M. Emon, and Benjamin Glahn, eds. Islamic Law and International Human Rights Law. Oxford University Press, 2012.
  4. Crisp, Richard. The social brain: How diversity made the modern mind. Hachette UK, 2015.
  5. Devji, Faisal, and Zaheer Kazmi, eds. Islam after liberalism. Oxford University Press, 2017.
  6. Gaus, Gerald, Shane D. Courtland, and David Schmidtz, “Liberalism”, The Stanford Encyclopedia of Philosophy (Fall 2020 Edition), Edward N. Zalta (ed.), URL = <https://plato.stanford.edu/archives/fall2020/entries/liberalism/>.
  7. Giorgio, Agamben, and Attell Kevin. “State of exception.”  The University of Chicago(2005).
  8. Kazmi, Zaheer. “The limits of Muslim liberalism.” Los Angeles Review of Books (2014).
  9. Koskenniemi, Martti. “International law and hegemony: a reconfiguration.” Cambridge Review of International Affairs17, no. 2 (2004): 197-218.
  10. Kurzman, Charles. “Liberal Islam: Not a Contradiction in Terms.” ISIM Newsletter2, no. 1 (1999): 41.
  11. Masud, Muhammad Khalid. “Religion and State Are Twin Brothers: Classical Muslim Political Theory.” Islam And Civilisational Renewal274, no. 6071 (2018): 1-18.
  12. McCarthy, George E. “Justice Beyond Liberalism: Natural Law and the Ethical Community in Hegel.” In Marx and Social Justice, pp. 72-126. Brill, 2017.

Tomasi, John. Liberalism beyond justice: Citizens, society, and the boundaries of political theory. Princeton University Press, 2001.

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...