پاکستان میں ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے حملوں میں اضافہ کیوں؟

664

ضیاء الرحمان ایک تجربہ کار صحافی ہیں اور حالاتِ حاضرہ پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ عالمی سیاست، سکیورٹی اور انسانی حقوق ان کے موضوعات ہیں۔ زیر نظر مضمون میں افغانستان میں طالبان حکومت کے تناظر میں پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان جو افغان طالبان سے الگ ایک عسکری گروپ ہے، اس کے پاکستان میں حملوں کی شدت کے خدشات اور صورت حال پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ضیاء الرحمن نے متعدد ایسے عوامل گنوائے ہیں اور ان کا تجزیہ کیا ہے جو اس صورت حال کے پس پردہ محرکات ہو سکتے ہیں۔ (مدیر)

 

افغانستان میں افغان طالبان کے قبضے اورحکومت کی تشکیل دینے کے بعد جہاں دنیا بھر میں شدت پسند تنظیموں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے، وہیں پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان کی پاکستان کی حدود میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہاہے۔

افغان طالبان کی پیش قدمی کے بعد ہی پاکستان کے اعلیٰ حکام اورسیکیوریٹی ماہرین اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ اس سے ملک میں کالعدم ٹی ٹی پی جیسی کالعدم مذہبی شدت پسند تنظیموں کو تقویت مل سکتی ہے جوملک کے اندر شدت پسندی اوردہشت گردی کے واقعات میں دوبارہ اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ 2014 میں پاکستانی فوج کی جانب سے شروع کردہ آپریشن ضرب عضب کے دوران ٹی ٹی پی کمزورہوچکی ہے جبکہ ان کی قیادت اورعسکریت پسند، افغانستان کے سرحدی صوبوں کنڑ اورننگرہار چلے گئے تھے۔ ماہرین اورپاکستانی سکیورٹی ماہرین ان خدشوں کابھی اظہار کررہے تھے کہ ٹی ٹی پی کے شدت پسند مہاجرین کی شکل میں پاکستان واپس آسکتے ہیں۔

افغان طالبان کی افغانستان میں فتوحات کے بعد پاکستان میں ٹی ٹی پی کی جانب سے بھی ان کی کارروائیوں میں اضافے سے ماہرین کے خدشات درست ثابت ہوتے نظر آرہے ہیں۔ یہ تیزی بالخصوص جولائی میں نظر آنا شروع ہوئی جب افغان طالبان نے اپنی پیش قدمی کی رفتار میں اضافہ کیا اور افغانستان پر مکمل قبضے کے بعد پاکستانی طالبان کی جانب سے حملوں کے دعووں میں مزید تیزی آ گئی ہے۔ ٹی ٹی پی نے جولائی اور اگست میں بالترتیب 22 اور 32 دہشتگرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی جن میں سے زیادہ تر نفاذِ قانون کے اہلکاروں پر ہوئے جبکہ ماہ ستمبر کے پہلے دوہفتوں میں حملوں کی یہ تعداد 22 تک پہنچ گئی تھی۔ یہ حملے زیادہ تر خیبرپختونخوا اوراس میں حال ہی  میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع اوربلوچستان کے پختون اکثریتی آبادیوں میں ہورہے ہیں۔ البتہ ان حملوں کی تعداد کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ پانچ ستمبر کو ٹی ٹی پی نے کوئٹہ میں ایک خود کش بم حملے کی ذمہ داری قبول کی جس میں چار پاکستانی فوجی ہلاک اور کم از کم اٹھارہ زخمی ہوئے۔ سکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کی فتوحات ٹی ٹی پی کی واپسی کے لیے حوصلہ افزا ہیں۔

کراچی میں انسدادِدہشتگردی کے ایک پولیس اہلکار نے کہا، “بلا شبہ افغانستان میں طالبان کی فتوحات نے ٹی ٹی پی کا حوصلہ بلند کیا ہے اور گروہ کی قوت میں اضافہ ہوا ہے۔ ” انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ میں تشددکی کارروائیوں میں اضافہ تو صرف ابتدا ہے۔ انہوں نے پیش گوئی کرتے ہوئے کہا کہ اس صورتحال میں پاکستان میں دہشتگرد حملوں میں اضافہ ہو نے کا امکان ہے۔

ناراض دھڑوں کی ٹی ٹی پی میں شمولیت

افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا سے قبل ہی پاکستان کے مختلف علاقوں میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی جسے ماہرین ٹی ٹی پی کے موجودہ مرکزی امیر مفتی نورولی کا ناراض دھڑوں کی ناراضیاں ختم کرکے انہیں تنظیم میں واپس لانے کے ساتھ ساتھ ملک میں فعال القاعده اور لشکرِ جھنگوی سے وابستہ گروہوں کوبھی ٹی ٹی پی میں شامل کرنے سے جوڑ رہے ہیں۔

اگست 2020 سے ٹی ٹی پی میں ناراض دھڑوں کی واپسی کی کوششیں کامیاب ہونا شروع ہوئیں جب تنظیم کے دو اہم دھڑے جماعت الاحرار اورحزبِ الاحرار نے ٹی ٹی پی میں دوبارہ شمولیت کا اعلان کر کے مفتی نور ولی کی قیادت پر اعتماد کا اعلان کیا۔ کچھ ہفتے بعد ٹی ٹی پی کے شہریار محسود کا دھڑا بھی ٹی ٹی پی میں شامل ہو گیا۔ ٹی ٹی پی کے ناراض دھڑوں کے ساتھ ساتھ القاعدہ کے دو اہم پاکستانی گروہوں نے باقاعدہ طور پر ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی ہے جن میں سے ایک گروہ حال ہی میں ہلاک ہونے والے القاعدہ برِصغیر کے نائب امیر استاد احمد فاروق کے قریبی ساتھی کمانڈر منیب کا ہے۔ دوسرا گروہ القاعدہ سے وابستہ امجد فاروقی گروہ ہے جو ماضی میں جنرل پرویز مشرف اور سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملوں میں بھی ملوث رہا ہے۔

لشکرِ جھنگوی کے عثمان سیف اللہ کرد کا گروہ بھی ٹی ٹی پی میں شامل ہوا جس کی سربراہی اب مولوی خوش محمد سندھی کر رہے ہیں جو ماضی میں حرکت الجہاد اسلامی نامی شدت پسند گروہ کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ نومبر میں بھی شمالی وزیرستان سے دو جنگجو دھڑے ٹی ٹی پی میں شامل ہوئے ہیں۔ ان میں ایک گروہ مولوی علیم خان کا ہے جو شمالی وزیرستان کے اہم طالبان کمانڈر حافظ گل بہادر کے ڈپٹی کمانڈر بھی رہ چکے ہیں جب کہ موسیٰ شہید کارواں گروپ کے نام سے شمالی وزیرستان میں فعال طالبان گروہ بھی ٹی ٹی پی میں شامل ہو چکا ہے۔

اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی 21 جولائی کو جاری کردہ ایک رپورٹ میں ٹی ٹی پی کے حوالے سے لکھا گیاہے کہ گروہ میں ناراض دھڑوں کی واپسی اورنئے گروہوں کی شمولیت کے بعد ٹی ٹی پی کے سرحد پار حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے جبکہ شدت پسند گروہ کے مالی وسائل بھی بھتوں، اسمگلنگ اور ٹیکسوں کے ذریعے اضافہ ہوا ہے۔

ٹی ٹی پی قیدیوں کی رہائی

افغانستان میں بھی افغان اور اتحادی افواج نے جہاں متعدد ٹی ٹی پی رہنماؤں کو ہدف بنایا اور انہیں قتل کیا، وہیں سینکڑوں کی تعداد میں ٹی ٹی پی کے جنگجو گرفتار بھی ہوئے جوملک کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ افغان طالبان کے افغانستان پرقبضے کے بعد افغان طالبان نے ہزاروں قیدیوں کو رہا کیا، جن میں سے اکثریت ٹی ٹی پی رہنماؤں اور دیگر ارکان سمیت خطرناک عسکریت پسندوں کی تھی۔  ان میں ٹی ٹی پی کے سابق ڈپٹی امیر مولوی فقیر محمد ہیں، جنہوں نے ضلع باجوڑ میں ٹی ٹی پی کی قیادت کی اور القاعدہ رہنما ایمن الزواہری کے ساتھ قریبی تعلقات کے حامل ہیں۔ افغان پولیس اور انٹیلی جنس اہلکاروں نے 2013 میں فقیر محمّد کو صوبہ ننگرہار سے پکڑا۔ ٹی ٹی پی نے 16 اگست کو فقیر محمّد کی رہائی کے بعد ان کی ایک تصویر جاری کی اورانہیں اور متعدد دیگر عسکریت پسندوں کو ان کی رہائی پر مبارکباد دی۔ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کی بڑی تعداد میں افغانستان کی جیلوں سے رہائی کو بھی پاکستان میں حملوں میں اضافے کا ایک سبب قرار دے رہے ہیں۔

نئے امیر کی پالیسیاں

ماہرین کا کہناہے کہ جہادیوں کے افغان طالبان کی پیش قدمیوں کے حوالے سے حالیہ بیانیے ٹی ٹی پی کی فکری تقویت کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ جس سے ان کے صفیں دوبارہ مضبوط ہو رہی ہیں۔ ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کامطالعہ کرنے والے ایک محقق کا کہناہے کہ ’’اس بیانیے کے تحت اگر افغان طالبان امریکہ جیسی عالمی طاقت کو عسکری میدان میں مزاحمت پر مجبور کر کے مذاکرات کی میز پر لاکر اس سے اپنے مطالبات منوا سکتے ہیں تو یقینا ٹی ٹی پی بھی اپنے دشمن یعنی ریاست پاکستان کو شکست دے سکتی ہے‘‘۔

یہی بیانیہ ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کے بیانات سے بھی ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے جس کا اظہار اس نے پچھلے سال شدت پسند گروہ میں مختلف دھڑوں کے ساتھ ساتھ مختلف پاکستانی ریاست مخالف جہاد ی تنظیموں کا تحریک طالبان پاکستان میں انضمام کے موقع پر کیا۔

ان کے بقول، ’’ٹی ٹی پی کی قیادت اپنے کارکنوں کو اس نقطہ پر توجہ دینے کے لیے زور دیتی ہے کہ جیسا کہ افغان طالبان نے اتحاد و اتفاق اور اسلامی اصولوں کی پاسداری کی تو اس کو ایک بڑے دشمن پر کامیابی نصیب ہوئی اور اگر وہ لوگ بھی افغان طالبان کے نقش قدم پر چلیں تو اس معاملہ میں تو یقینا ان کو بھی پاکستانی ریاست کے خلاف اپنی لڑائی میں کامیابی ملے گی‘‘‘۔ مفتی نور ولی محسود نے جولائی میں سی این این کے ساتھ ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران افغان طالبان کے اقتدار میں لوٹنے کی ستائش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ “ہماری لڑائی صرف پاکستان سے ہے اور ہم پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جنگ میں ہیں۔ “تاہم نور ولی محسود نے تسلیم کیا کہ یہ گروہ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کا انتظام اپنے ہاتھ میں لینے اور انہیں “خودمختار”  کرنے کے خواہاں ہیں۔

ایک ہی سکے کے دو رخ

ٹی ٹی پی کا پاکستانی حکومت کے خلاف نقطہ نظر اور افغان طالبان کے پاکستان کے ساتھ دیرینہ تعلق کو دیکھ کرعمومی طورپریہ رائے پائی جاتی تھی کہ ایک وقت آئے گا کہ دونوں گروپوں کے درمیان پاکستانی ریاست کے معاملے پر شدید ٹکراؤ ہوگا۔

ٹی ٹی پی کے اہم رہنما مکرم خراسانی نے ٹی ٹی پی اورافغان طالبان کے تعلقات کے حوالے سے اپنے حالیہ مضمون میں لکھاہے کہ ’افغان طالبان کے ترجمانوں کے پورے انٹرویو میں سے صرف ایک جملے کو پاکستان میں سراہا جا رہا ہے کہ ’افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی‘ جس سے یہ ظاہرہوتاہے کہ پاکستانی ریاست کو سب سے بڑا یہی خطرہ لاحق ہے‘۔

ٹی ٹی پی کے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ عمرمیڈیا میں شیئرکردہ اس مضمون میں ٹی ٹی پی رہنما کہتے ہیں کہ ’’آئے روز تجزیوں میں اس بات کا بھی ذکر کیا جاتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو پناہ گزین کا روپ دھارے پاکستان میں داخل ہوسکتے ہیں تو ان کے لیے عرض ہے کہ ابھی تو افغانستان سے نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہی نہیں ہوا اور پاکستان میں روزانہ حملے ہورہے ہیں اور حملوں میں تیزی بھی آگئی ہے‘‘۔

ان کے بقول، ’’امارت اسلامی ایک جہادی تحریک ہے اور ان کی جدوجہد اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے تھی۔ امارت اسلامی کا نعرہ وہی ہے کہ کچھ بھی ہو نظام اسلامی ہوگا اور نظام اسلامی میں سرحدات کا تعین نہیں ہوتا ج چنا نچہ مسلمانوں کا جہاں بس چلے علاقے فتح کریں گے اور اس میں اسلامی نظام نافذ کریں گے‘‘۔

جہادی تنظیموں کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ افغان طالبان، ٹی ٹی پی اورالقاعدہ نظریاتی طورپر ایک جیسے ہی منشور کے ماننے والے ہیں جو وہ عالمی سطح پر جہادی تحریکوں کو پھیلانے اور ان کے قیام اور استحکام کے لیے ایک دوسرے کی معاونت کرتے ہیں۔

پاکستان کی حکمت عملی

ایک جانب پاکستان طالبان قیادت پر زورڈال رہی ہے کہ وہ سرحدی صوبوں کنڑ اورننگرہار میں ٹی ٹی پی کے اڈے ختم کریں البتہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کا اسلام آباد کے کہنے پر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے کا امکان نہیں ہے۔ افغان طالبان نے فروری 2020 میں امریکہ کے ساتھ ایک معاہدے میں کسی بھی بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں یا افراد کی طرف سے افغان سر زمین کے استعمال کو روکنے پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم، القاعدہ کے ارکان، ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے ارکان اگست میں افغانستان پر قبضہ کرتے وقت طالبان کے ہمراہ لڑتے ہوئے دیکھے گئے تھے۔ دوسری جانب حکومت کی جانب سے ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کے لیے معافی کے اعلان کے منصوبے پربھی کام کیا جا رہا ہے۔

صدر پاکستان عارف علوی نے ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستانی طالبان اگر اپنے نظریات چھوڑ کر پاکستان کے آئین اور قانون کے ساتھ چلنا چاہیں تو حکومت ان کے لیے معافی کا اعلان کر سکتی ہے۔ اسی طرح کا ایک اور بیان دیتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر ٹی ٹی پی کے اراکین شدت پسندی کی کارروائیاں چھوڑ دیں اور ہتھیار ڈال دیں تو حکومت ان کو معافی دے سکتی ہے۔

سکیورٹی ماہرین کاکہناہے کہ حکومت عام معافی کا اعلان کرکے ٹی ٹی پی کے ان جنگجوؤں کوملک میں واپس لانا چا ہ رہی ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے افغانستان کے سرحدی صوبوں میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے  ہیں۔ سوات، جنوبی وزیرستان، باجوڑ سمیت خیبرپختونخوا کے کئی اضلاع میں فوجی آپریشنوں کے سبب ہزاروں کی تعداد میں ٹی ٹی پی کے اراکین اپنے خاندانوں کے ہمراہ نقل مکانی کرنے پرمجبورہوئے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...