محلے میں پاپڑ بیچنے والا سبّی کا نوجوان کانٹیننٹل ہوٹل میں اپنے پراڈکٹس کی نمائش کرنے میں کیسے کامیاب ہوا؟
سکول میں سوال کرنے کی پاداش میں نکالے جانے والے بلوچستان کے ضلع سبی سے تعلق رکھنے والے نوجوان زندگی کے بہت سے تلخ حقیقتوں کا سامنا کرتے ہوئے بلوچی ٹریڈیشنل شاپ کا مالک کیسے بن گیا؟ عمران خان ہاڑا کا تعلق پاکستان کے گرم ترین ضلع سبی سے ہے، وہ کہتا ہے کہ میں بچپن سے معاشرے کی ہر شے پر سوال اٹھاتا آرہا ہوں ، انہی سوالوں کی وجہ سے میں جماعت نہم سے آگے تعلیم حاصل نہیں کرسکا ، میں سوال کرتا تھا کہ ہم جو فزکس اور دوسرے نصاب میں پڑھ رہےہیں۔ وہ عملی زندگی میں ہمیں کیوں نظر نہیں آتا ، روزانہ ایسی نوعیت کے سوالوں کی وجہ سے مجھے سکول سے چھٹی کرنا پڑتی ۔ استاد نے میرے سوالوں سے تنگ آکر تو مجھے سکول سے نکال دیا۔ میں ایک سیلف میڈ بندہ تھا میں نے کبھی بھی ہمت نہیں ہاری۔ نئے جوش اور جذبے کےساتھ محنت مزدوری کا راستہ اپنایا، میں نے اپنے محلے الہ آباد سبّی کی چھوٹی سی گلی میں چاول چھولے اور پاپڑ بیچنا شروع، کیے ، روزانہ محلے کے گلیوں میں میں جب بھی آواز دیتا تھا تو محلے کے بچے زور سے پکارتے تھے کہ “ پاپڑ والا چھوٹو” آگیا “ چھوٹو اس لیے کہ میں قد سے چھوٹا لگتا ہوں۔ مجھے مزید آگے بڑھنا تھا پھر میں یہ کام چھوڑ کر محلے کی فارمیسی میں روزانہ 10 روپے اور مہینے میں 300 روپے کے عوض میں کام کیا، پانچ سال تک میں اسی فارمیسی میں کام کرتا رہا۔
مجھے انگلش سیکھنے کا بہت شوق تھا میرے بھائی نے مجھے مزید آگے پڑھنے کے لیے میری مدد کی میں نے انگلش اسپیکنگ کورس کرلیا اور اس کے ساتھ ساتھ میں نے آٹھ زبانیں سیکھیں۔ اس وقت میں آٹھ زبانوں میں روانی سے بات چیت کرسکتا ہوں۔
شرارت کی وجہ سے مجھے گھر سےچھوڑناپڑا میں کوئٹہ میں ماموں کے پاس آگیا وہاں میں نے ڈسپنسر کا کورس کیا ، کورس مکمل کرنے کے بعد ڈیڑھ سال تک کام کیا ،
کوئٹہ میں بہت سے لوگ ملے جو منفرد سوچوں کے حامل تھے کچھ سماجی تنظمیوں میں رضاکار کچھ فلاحی کاموں میں پیش پیش مجھے کوئٹہ نے زندگی کو ایک نئے زوائے سے دیکھنا سکھایا چونکہ غور و فکر کرنا سوال کرنا میری عادت میں شامل تھا میں نے آن لائن کاموں کے بارے میں جب تحقیق کی تو مجھے معلوم ہوا کہ ای کامرس کے زریعے ہم گھر بیٹھے پوری دنیا میں اپنی اشیاء فروخت کر سکتے ہیں اب مجھے تلاش تھی ایسی چیزوں کی جنکو میں فروخت کر سکوں انہی دنوں میری ملاقات تحصیل لہڑی کے دوستوں سے ہوئی ان میں سے ایک کے جیب میں ایک خوبصورت بٹوا تھا میں نے اس دوست سے بلکل ویسا بٹوا میں نے طلب (پیسوں پہ)کیا جوکہ تین ماہ تک مجھے نہیں ملا پھر میں نے بٹوا بنانے والے کاریگروں کے نمبر ڈھونڈے پہلی دفعات سے اُدھار دو بٹوے منگوائے
مجھے
ای کامرس کی طرف آنا تھا
لوگوں نے مجھے گاؤں کے دستکاری سامان کو سٹی اور مارکیٹ تک پہنچانے کا مشورہ دیا تو ، میں نے وزٹ کیا سبّی میں جہاں جہاں ( ہنڈی کرافٹ) کشیدہ کار تھے میں نے اُن سے بات کی اور فیس بُک پہ اور سوشل میڈیا کے دیگر ذریعے سے مارکیٹنگ کرتا رہا بلوچی ٹریڈیشنل شاپ کے نام سے فیس بک پہ پیج بنایا اور اس طرح کاروبار میں کافی پیش رفت ہوئی ، مئی 2016 میں شروع کے چھ ماہ میں میری سیل ایک لاکھ تک پہنچ گیا، تو میں نے یہ پیسے گھر والوں کو دیا تو گھر والے مجھ پر شک کررہے تھے وہ کہتے تھے کہ تم لوگوں کیساتھ انٹرنیٹ پہ فراڈ کررہے ہو ہم آپ کے پیسے نہیں لیں گے ، میرے لیپ ٹاپ چھین لیا اور انٹرنیٹ کا کنکشن کٹوا دیا گیا میں نے ہمسائے کا ( وائی فائی) استعمال کیا ، آن لائن کاروبار جاری رکھا آرڈر ملتے رہے تو پھر میں نے سامان گھر میں پیک کرنا شروع کیا تو اگلے چھ ماہ میں میری سیل اس سے ڈبل ہوگئی تو پھر آہستہ آہستہ گھر والوں کا بھروسہ مجھ پر بحال ہوگیا اُن کو یقین ہوگیا کہ میں کسی سے کوئی فراڈ نہیں کر رہا بلکہ انٹرنیٹ کا مثبت استعمال کر کہ کاروبار کررہا ہوں اسی طرح میرا اعتماد بحال ہوگیا انہوں نے میرا انٹرنیٹ کنکشن بحال کروا دیا۔ اپنی محنت اور حوصلے کی وجہ سے سبّی (الہ آباد) سے ہوتے ہوئے آج ایک کانٹیننٹل ہوٹل ( سرینا کوئٹہ ) میں بلوچی ٹریڈیشنل شاپ کے پروڈکٹس کا نمائش کررہا ہوں یہی میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔
فیس بک پر تبصرے