صدیق عالم کا ناول “چینی کوٹھی”: ایک اچھوتا تجربہ

1,208

کچھ تخلیق کار ایسے سیاحوں کی طرح ہوتے ہیں جو بار بار ایک ہی مقام کوکھوجتے رہتے ہیں۔ ایسے مسافروں کا ہر سفر اسی ایک استھان کی دریافت کا عنوان بن جاتا ہے۔ لیکن کچھ ادیب ایسے جہاں گردوں کی مانند ہوتے ہیں جو رہِ یار کو قدم قدم یادگار بناتے ایسی منزلوں کی جستجو میں آگے بڑھ جاتے ہیں جو ان کے نقشِ پا سے امر ہونے والی ہیں۔ جہانِ نو کو شعورِ مسافرت دینے والے ایسے ہی جہاں نوردوں میں ایک نام صدیق عالم کا بھی ہے جو کہیں رکے بغیر اپنا ہر قدم یادگار بناتا، تخیل کے نرالے جہان تلاشتا، نت نئی منزلوں کے تجسسس میں اپنا تخلیقی سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔

صدیق عالم کی ہر تخلیق کے وضعی رشتے اس کی دیگر تحریروں سے مختلف ہیں یہی وجہ ہے کہ اس کی ہر تصنیف ایک نئی تنقیدی بصیرت کا مطالبہ کرتی ہے۔ طریقِ کار، اسلوب، ہئیت اور زبان کے حوالے سے جتنے فنی تجربات صدیق عالم کے فکشن میں نظر آتے ہیں اس کی مثال معاصر اردو ادب میں بہت کم ملتی ہے۔ جادوئی حقیقت نگاری ہو یا وجودیت، فنتیسیا ہو یا معروضی حقیقت نگاری، ڈرامائی تکنیک ہو یا علامت نگاری، باز کشی (flashback) ہو یا بعد کشی (flashforward)، پیش سایہ افگنی (foreshadowing) ہو یا داخلی کلامی؛ اس کے قلم کی خسروی بہ ہر طور اقلیمِ ادب پر قائم رہتی ہے۔
صدیق عالم کا ناول ” چینی کوٹھی” مطبوعہ ” آج”؛ بھی اردو فکشن میں اپنی نوع کا ایک نیا تجربہ نظر آتا ہے۔ عمدہ کردار نگاری، پلاٹ کی فن کارانہ دروبست، انوکھی جزئیات نگاری، ڈرامائی معروضیت، انسانی فطرت سے ہم آہنگ نقطہء نظر جو خودساختہ اخلاقی آدرشوں کی گھن گرج سے منزہ ہے؛ اس تصنیف کے وہ مابہ الامتیاز ہیں جو ادب کے سنجیدہ قارئین کی خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔

“چینی کوٹھی” کی کہانی انسان کی وجودی کش مکش اور اپنی اصل کی طرف مراجعت کی پیہم خواہش کا تخلیقی بیانیہ ہے کہ اس دوران وہ اپنے اندرونی انتشار، ہیجان، تشکیک، حزن اور سماجی زندگی اور فطرت کے تضادات سے مفاہمت اور مزاحمت کرتے کیسے لمحہ لمحہ مرتا ہے۔

ناول کی کہانی کا راوی ایک متمول وکیل ہے جس کا باپ اور دادا بھی شعبہء وکالت سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ وہ ایک آٹھ سالہ بچی کی جبری آبرو ریزی کا مقدمہ بہ طور وکیلِ صفائی لڑتا ہے اور یہ جانتے بوجھتے کہ ملزم نے یہ گھناؤنی حرکت کی ہے؛ پیشہ ورانہ اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ڈاکٹر کو خرید کر استغاثہ کے خلاف اس کا بیان دلواتا ہے اور ملزم کی نامردی کا جعلی سرٹیفکیٹ حاصل کرکے اسے بری کراتا ہے اور ازاں بعد اپنے عمل پر کچھ دیر پچھتاوے کا شکار بھی ہوتا ہے۔

وکیل مذکور اپنی ایک مؤکل عائشہ کو پسند کرتا ہے اور اس سے شادی کرنے کا متمنی ہے۔ عائشہ کا بیٹا نادر اس تعلق سے سخت نالاں ہے۔ وہ اپنے رشتے داروں کی مدد سے وکیل مذکور پر حملہ کرکے اسے بری طرح مضروب کرتا ہے۔ نادر پر مقدمہ چلتا ہے لیکن وکیل؛ عائشہ کی درخواست پر کسی طرح اسے سزا سے بچا لیتا ہے۔ اس کے باوجود نادر کے غیض کی آگ بھڑکتی رہتی ہے اور ایک روز وہ عائشہ کو قتل کر کے خودکشی کر لیتا ہے۔

بلیاں پالنے کے شوقین سب انسپکٹر، وکیل کے منشی کاکو اور ملازم میر کی ذیلی کہانیاں بھی مرکزی کہانی اور چینی کوٹھی کی پراسراریت کے دم بدم؛ بات سے بات اور افعال سے افعال کا پیوند لگائے، ایک دوسرے سے مربوط واقعات کے فطری تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں۔

ناول میں بیان کردہ شہر؛ نوآبادتی نظام کا سیلاب گزر جانے کے بعد اس کی باقیات سے اپنے تمدن کے خدوخال ابھارتے سماج کا عکاس ہے۔ یہ اس معاشرت کا نمایندہ ہے جو نوابادیاتی اور آزاد سماج کے دوراہے پر کھڑی، اخلاقی اور روحانی بحران کا شکار ہے، جہاں ایک نیا تمدن نئےانسانی مسائل لے کر آ رہا ہے۔ مٹتی ہوئی تہذیب کے مابعد اثرات سے آلودہ نوخیز مدنیت؛ طوفان کے بعد کا وہ ہیجان ہے جس سے یہ شہر اور اس کے مکین نبردآزما ہیں۔ یہ آشوب ان کے رویوں کا ماخذ بھی ہے اور توضیح بھی۔

فاضل ادیب نے اپنے ناول میں نوآبادیاتی نظام کے آثار کے متوازی؛ ایک آزاد سماج کے ارتقاء سے پیدا ہونے والی کش مکش، طبقاتی تصادم و آویزش اور اختلال و انتشار کو بڑی معروضیت اور حقیقت پسندی کے ساتھ پیش کیا ہے اور اس کے لیے بڑی ذہانت سے ایک وکیل کا کردار منتخب کیا ہے جو کالونیل دور کے استعماری عدالتی نظام کا جزوِ لاینفک ہے۔

قانونی اصطلاحات، ججوں، عدالتی اہلکاروں، پراسیکیوٹر اور وکیلِ صفائی کے عمومی طور طریقوں، دورانِ مقدمہ وکلاء کی پیشہ ورانہ بد اطواری، گواھان کی خرید و فروخت اور عدالتی نظام کی خرابیوں کے متعلق مصنف کا قانونی اور سماجی شعور بہت پختہ ہے۔ میرے علم کے مطابق صدیق عالم کبھی بھی پریکٹیسنگ لائر نہیں رہے۔ اس کے باوجود قانون، روزمرہ پریکٹس اور فوجداری ٹرائل کی باریکیوں سے متعلق ان کی آگاہی بہ طور وکیل میرے لیے حیران کن ہے۔ لیکن بہ طور قاری جس چیز نے مجھے زیادہ متاثر کیا وہ مصنف کی فکشن کے نظم و ضبط کی پابندی ہے کہ وہ اپنے قانونی اور سماجی شعور کو صحافتی طریقے سے نہیں بل کہ آرٹ کے سلیقے سے فرد کا تجربہ بناتا ہے۔

” آپ کو پورا یقین ہے آپ نے لڑکے کو موقع واردات پر دیکھا تھا؟ آپ نے کہا وہاں گھپ اندھیرا تھا؟ وہ اپنے کاغذ سے پنسل اٹھا کر میری طرف دیکھتا ہے.”

“ہاں۔ مگر جنہیں آپ پہلے جانتے ہیں انھیں اندھیرے میں پہچاننا ممکن ہوتا ہے”۔(صفحہ نمبر 99)

یہ مکالمہ ناول نگار کے قانونی فہم اور عدالتی نظائر سے آگاہی پر دال ہے۔ قانون کے مطابق مانوس افراد mistaken identity کا عذر نہیں لے سکتے خواہ وقوعہ اندھیرے ہی میں کیوں نہ ہوا ہو۔

صفحہ نمبر 100 سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں جہاں وکیل تفتیشی افسر کو وقوعے کا motive عائشہ اور اپنا تعلق بتاتا ہے:

” وہ ایک بیوہ عورت ہے، میں اکتا کر کہتا ہوں۔ اب اسے پبلک میں مت پھیلا دیجیے گا۔ بیچاری پہلے ہی بہت پریشان ہے۔ ایک نئی مصیبت اس کے سر آ جائے گی۔ اس کے رشتے دار یہی تو چاہتے ہیں۔”

“مگر مقدمہ چلے گا تو حملے کا motivation تو سامنے آئے گا ہی، وہ کہتا ہے۔ لوگوں کو تو دھیرے دھیرے اس بات کا علم ہونا ہی ہے سر۔”

“یہ دیکھنا پبلک پراسیکیوٹر کا کام ہے، میں کہتا ہوں، تم اپنے کام سے کام رکھو۔”

” بس میں تو یونہی کہہ رہا تھا سر، وہ جھینپ کر کہتا ہے”

” یونہی کہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں نے صحیح فرد کا نام بتا دیا ہے۔ تھوڑی سختی سے پیش آؤ گے تو باقی کے لوگوں کے بارے میں تمھیں لڑکے سے جانکاری مل جائے گی۔ رہی موٹیویشن تو اسے ڈھونڈھنا تمھارا کام ہے۔ اور آئندہ یہاں آنے کی ضرورت نہیں۔ میں جتنا جانتا ہوں میں نے بتا دیا ہے۔ باقی تم ٹی آئی پریڈ کروا لینا۔”

مصنف کو اس امر کا مکمل ادراک ہے کہ فوجداری مقدمہ میں حملے کا motive part بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر ملزم مقدمہ میں نامزد نہ ہو لیکن ایف آئی آر میں اس کا حلیہ دیا گیا ہو تو Test identification parade ہی کے ذریعے اپرادھی کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔

یہ بھی دیکھیے:

” عدالتوں میں جن حاکموں کی تقرری ہوتی ہے وہ سارے کے سارے باہر کے لوگ ہوتے ہیں جنہیں مقامی زندگی کا کچھ خاص پتا نہیں ہوتا۔ وہ اس شہر میں اپنے تبادلے کو سزا کے طور پر دیکھتے ہیں، جیسے انھیں کالا پانی بھیج دیا گیا ہو۔ میں عصمت دری کے واقعے کے چند اہم نکتوں پر روشنی ڈالتا ہوں، سرسری طور پر ان کی خامیوں کی طرف اشارہ کرتا ہوں اور جب میں جیب سے رومال نکال کر چہرے سے پسینہ صاف کرتے ہوئے اپنی کرسی پر بیٹھتا ہوں تو جونیئر وکیل، ملزموں کے رشتے دار، نیز عدالت کے کارندے تعریفی نظروں سے میری طرف تاک رہے ہیں۔ ہر جگہ کی طرح اس جگہ بھی پاٹ دار آواز کی بڑی قدر ہے۔ پبلک پراسیکیوٹر لاتعلق سا اپنی جگہ بیٹھا ہے۔ سرکار نے اس کی تنخواہ مخصوص کر رکھی ہے۔ اب وہ ایک خودکار مشین بن چکا ہے۔” ( صفحہ نمبر 33)

” آنریبل مجسٹریٹ کو سرکاری وکیل کی بحث میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ میز پر پڑے ہوئے پیپر ویٹ سے کھیل رہے ہیں۔ پبلک پراسیکیوٹر جو کہہ رہا ہے وہ ان کا ہزاروں بار سنا ہوا ہے اور جب تک ان کی ترقی نہیں ہو جاتی یا اس جگہ سے تبادلہ نہیں ہو جاتا،شاید انھیں سنتے ہی رہنا پڑے۔” ( صفحہ نمبر 33)

ماتحت عدالتوں کے ماحول، ججوں کے دورانِ مقدمہ عمومی رویوں، پولیس افسران کے طرزِ فکر اور پبلک پراسیکیوٹر کے طور طریقوں اور مقدمات میں اس کی عدم دل چسپی کی وجوہات سے متعلق مصنف کا عمیق مشاہدہ اور اس کا بے عیب بیان؛ ترقی پذیر سماج میں نظامِ انصاف کی ابتر حالت کی ایک ایسی بامعنی پیش کش ہے جو اپنے مروجہ مفہوم سے معنی کی ترسیل میں کسی قسم کی الجھن پیدا نہیں ہونے دیتی۔

صفحہ نمبر 54 سے 56 پر ڈاکٹر پر جرح میں بھی ماتحت عدلیہ میں ہونے والے کریمینل ٹرائل کا بہت عمدہ اور قابلِ اعتبار نقشہ کھینچا ہے۔ علاؤہ ازیں جونئیر وکلاء کی عمومی اپروچ کا بیان بھی حقیقت کی اعلی پیش کش ہے:

” میرے ابا کی وراثت کو کچھ دنوں تک ان کے جونئیر سنبھالتے رہے۔ یہ ایک نئی پود تھی۔ اپنے کیرئیر کے سلسلے میں بےحد چوکنی اور بے صبر، کیونکہ انھیں امیر بننے کی جلدی تھی۔ انھوں نے اپنا ضمیر شیطان کو بیچ دیا تھا۔”

بچی کی آبرو ریزی کے مرتکب شخص کی برہت کے بعد وکیل اور عائشہ میں یہ مکالمہ بھی دیکھیے جہاں مصنف نے ایک پیشہ ور وکیلِ صفائی کے خیلات و افکار کی بہترین تصویر کشی کی ہے:

” یہ ایک آٹھ سالہ بچی کے ریپ کے معاملہ تھا”

” آخر میں میرا مؤکل بے قصور پایا گیا”

” تو الزام جھوٹا تھا”. عائشہ پھر سے چائے بنانے لگی۔

“نہیں”۔ میں جواب دیتا ہوں۔ ” بچی کا سچ مچ ریپ ہوا تھا”

” لوگ جھوٹ نہیں کہتے کہ تم سارے وکیل جہنم جاؤ گے۔” پیالی بڑھاتے ہوئے وہ میری طرف دیکھتی ہے۔ ” تمھیں ایسے آدمی کی مدد نہیں کرنی چاہئیے تھی۔”

” تو تمھارا خیال ہے مجھے جج کی جگہ لے لینی چائیے تھی”. میں کہتا ہوں۔ ” ہر مقدمہ جھوٹ اور سچ کے درمیان ایک جنگ ہے۔ سچ کو پوری طرح سامنے لانے کے لیے جس تیزاب کی ضرورت ہے، وہ تیزاب ہم وکیلِ صفائی ہیں۔ ورنہ انصاف یک طرفہ ہو گیا ہوتا۔ قانون ایک آندھی مشین کی طرح لوگوں کو ہلاک کرتا پھرتا۔” ( صفحہ نمبر 85)

” لیکن جب ایک بار تمھیں یہ پتا چل جاتا ہے کہ تمھارا مؤکل قصوروار ہے تو تم اس کا دفاع کیسے کر پاتے ہو؟”

” مقدمے کے خاتمے تک پہنچتے پہنچتے مجھے یہ محسوس ہوا تھا”

اگر تمھاری آنکھوں کے سامنے یہ ریپ ہوا ہوتا تو بھی تم وکیلِ صفائی کی حیثیت سے یہ مقدمہ لیتے۔”

” نہیں۔ اس وقت میری حیثیت ایک چشم دید گواہ کی ہوتی۔ ایک اچھے وکیل یا جج یا ایک سرکاری افسر کے لیے لازمی ہے کہ وہ باہر کی چیز ہو۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ مقدمے کے ساتھ جذباتی طور پر منسلک ہو جائے۔ اس سے سو فیصد انصاف کے اسقاط کا امکان ہے۔”

اس ناول کا ایک موضوع نظامِ انصاف کا کھوکھلا پن بھی ہے اور یہ کہ عدلِ قطعی محض ایک سراب ہے۔ یہ ایک حد تک قانون سے متعلق مارکسی نقطہء نظر کی تائید بھی ہے کہ قانون سرمایہ دار/ بالادست کےاستحصالی ہتھکنڈوں میں سے ایک ہے اور قطعی انصاف صرف انسان کی ایک غیر حقیقی خواہش کا نام ہے:

” کسی جرم کا ارتکاب ہوتا ہے تو یہ کہنا کیوں مشکل ہو جاتا ہے کہ اس کی ابتدا کہاں سے ہوئی تھی؟ دنیا کو صرف اس کے خاتمے پر کھڑا انسان دکھائی دیتا ہے۔ شاید پولیس اور عدالت کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ اس انسان سے کام چلائے۔ شاید انسانوں کی بَلی دینے کی روایت اب بھی قائم ہے جس سے سارے سماج پر آنے والی مصیبت ٹَل جاتی ہے۔ اور یہ اس کی سب سے جدید شکل ہے۔” ( صفحہ نمبر ایک 187)

ہمارے بیشتر ناول نگاروں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جب تک اپنی معلومات کی زنبیل مکمل طور پر جھاڑ نہ لیں؛ ان کی تسلی نہیں ہوتی۔ ایسے ادیبوں کے ناولوں میں سیاست سے جغرافیہ، طب سے فلسفہ، طبیعات سے نفسیات، علم الحیوان سے علم الابدان، علمِ رمل سے علمِ جفر، پامسڑی سے ہسٹری، تفتیش سے تشخیص، حیاتیات سے کونیات تک ہر چیز موجود ہوتی ہے اگر کچھ نہیں ہوتا تو وہ زندگی کے خمیر سے اٹھتی ایسی کہانی ہے جو آپ کو اپنے حسنِ سادہ سے ورغلائے۔ اردو کے کچھ ناول تو ایسے معلومات افزا ہیں جنہیں پڑھ کر آپ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ، سانحہء کارساز، بے نظیر کی شہادت کا واقعہ اور سکاٹ لینڈ یارڈ کی تفتیشی رپورٹ تک سے کما حقہ آگاہی حاصل کر سکتے ہیں۔ ناول سربسر تخیلاتی وقوعہ ہوتا ہے، مصنفین کا اپنے ناولوں میں ایسی معلومات استعمال کرنا تخلیقی عجز کا بَیٌن ثبوت ہے۔ اور ستم یہ کہ اکثر ناولوں میں زبان اتنی مزین اور شاعرانہ ہے جیسے ناول نہیں کوئی سخنِ آسمانی لکھ رہے ہیں۔ ان معائبِ سخن کی موجودگی میں ادبی خواص سے عدم پذیرائی کا شکوہ، چہ معنی دارد۔ بیان خطیبانہ اور مواد عامیانہ ہوگا تو سنجیدہ قارئین کا ایسی تحریروں سے متعلق رویہ باغیانہ ہونا عین منطقی ردعمل ہے۔

صدیق عالم، تاہم اردو کے ایسے ناول نگاروں میں شامل ہیں جنہیں ناول کی صنف کا بھرپور فنی شعور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ناولوں کو صحافتی دباؤ، خطابت کی تبخیر، تاریخیت کا غیر فکشنی اُپھارہ، فلمی جذباتیت کا وفور، بےجا لفاظی کا غرور اور علمی بدہضمی جیسے ناقابلِ علاج امراض لاحق نہیں ہیں۔ وہ اپنی تحریروں کے حسنِ سادہ کو خواہ مخواہ کی مشاطگی, پُرتکلف عبارت آرائی اور گراں بار تصنع سے داغ دار نہیں کرتے۔” چینی کوٹھی” بھی سادہ، صاف شفاف اور سلجھی ہوئی زبان میں لکھا گیا ایک ایسا ناول ہے جس میں مصنف اپنی فنی مہارت سے مرکزی کہانی اور اس کے متوازی چلتی ہوئیں زیلی کہانیوں میں ایک ایسا ترتیبی عنصر پیدا کرتا ہے جو ان کے بکھرے ہوئے نقوش میں ربط و تنظیم لا کر انھیں ایک مکمل تصویر میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اور کمال یہ کہ اس عمل کے دوران ناول نگار قاری پر ازیت ناک فلسفیانہ لیکچر بازی اور بے ربط معلومات کے تازیانے برسا کر اس کی کھال بھی نہیں ادھیڑتا۔

مصنف نے ” چینی کوٹھی” میں علامتوں سے ایک پورا نثری نظام مرتب کیا ہے کیوں کہ اس کے پاس عمدہ زبان بھی ہے اور تجریدی فکر کی اہلیت بھی یہی وجہ ہے کہ وہ علامتوں کا استعمال بڑی فن کارانہ مہارت سے کرتا ہے۔ عدالت کی عمارت کا یہ منظر ملاحظہ ہو:

” عمارت کے چاروں کونوں میں لوہے کی گھماؤ دار سیڑھیاں ہیں جو انگریز کے دور میں ڈھالی گئی تھیں اور آج بھی اپنی جگہ مضبوطی سے قائم ہیں جبکہ دونوں چوبی زینے جو آزاد ہندوستان میں بنائے گئے تھے، ان کی چُولیں ہلنے لگی ہیں اور لوگوں کے چڑھتے اترتے وقت وہ بُری طرح احتجاج کرتی نظر آتی ہیں۔” ( صفحہ نمبر 25)

مصنف کی باریک بینی ہر جملے پر معانی کی پرتیں چڑھاتی جاتی ہے۔ چاروں کونوں میں بنی انگریز دور کی لوہے کی سیڑھیوں کی مضبوطی اور آزاد ہندوستان میں بنانے گئے دو چوبی زینوں کی کم زوری دراصل نظامِ عدل کی قوت اور ضعف کا بیان ہے۔ لوگوں کے چڑھتے اور اترتے وقت زینوں کی چُولوں کی احتجاجی آوازیں ہمارے نظامِ انصاف کی ناکامی کا نوحہ ہے۔ آزاد سماج کے عدل کے ایوانوں میں امیدوں کی گٹھڑیاں اٹھائے آنے والے سائلین وہاں نیائے کی پکار نہیں، انیائے کی پھنکار سنتے ہیں اور خالی ہاتھوں اور بھری آنکھوں کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوتے ہیں۔

” چینی کوٹھی” میں مذکور دریا جو مون سون کے موسم کے سوا سارا سال خشک رہتا ہے دراصل راوی کی زندگی کا آئینہ دار ہے جو ایک روکھی پھیکی زندگی گذار رہا ہے۔ عائشہ کے وصل و قرب میں گذرا وقت ہی وہ فصلِ بہاراں ہے جو راوی کے وجود کے خشک دریا میں طغیاتی لاتی ہے۔ دریا کے دونوں اطراف آبادی ہے ایک جانب کہانی کا مرکزی کردار؛ وکیل رہائش پذیر ہے اور دوسری طرف عائشہ کا گھر ہے۔ وکیل مذکور کے علاقے کی فضا بڑی مغموم اور افسردہ ہے جب کہ دریا پار اس قصبے کا ماحول، جہاں عائشہ مقیم ہے یکسر مختلف دکھایا گیا ہے۔ یہ متناقض فضائیں بھی ناول کے مرکزی کردار پر پوری طرح منطبق ہوتی ہیں۔ ناول کی کہانی کا راوی وکیل بھی خواب اور بیداری کے دو کناروں کے درمیان بہتا ہوا ایک دریا ہے۔ بیداری کے کنارے اس کی پیشہ ورانہ زندگی ہے جسے معمول کی مصروفیات کی پھپھوندی لگ چکی ہے جب کہ دوسری جانب عائشہ ہے؛ ایک ایسا خواب جس میں راوی پوری زندگی گزار سکتا ہے:

” ہمارے شہر میں ایک دریا بہتا ہے جس کے دونوں کناروں پر درختوں کے گھنے جھنڈ ہیں یا اونٹ کٹاروں سے ڈھکی بنجر زمینیں جو سانپوں اور بچھوؤں کے مسکن ہیں۔ اس دریا کا پاٹ کہیں کہیں آدھے میل کے رقبے تک پھیل گیا ہے جو برسات کے چند مہینے چھوڑ کر باقی سارا سال ریگستان کی طرح سوکھا پڑا رہتا ہے، سوائے پانی کی لکیروں کے جو ریت کو جگہ جگہ چھری کی طرح کاٹتی ہوئی بے ترتیبی سے آگے بڑھتی رہتی ہیں اور کبھی کبھار خود اپنے خلاف بہتی نظر آتی ہیں۔”

دریا کے اندر ریت کو جگہ جگہ سے کاٹتی پانی کی بے ترتیب لکیریں جو کبھی کبھار اپنے خلاف بہتی نظر آتی ہیں؛ خواب اور بیداری کے تناقض سے جنمتی وہ کش مکش ہے جو راوی کے وجود کو شکست و ریخت کا شکار کرتی ہے۔

یہ سطور بھی دیکھیے:

” شاید اس دریا سے گزرنا آسان ہے،” میں ایک آہ بھر کر کہتا ہوں،” مگر اس سے لوٹنا مشکل ہے۔”

” تم تو ہر بار لوٹ جاتے ہو۔”

” کیا واقعی میں لوٹ جاتا ہوں؟ کیا میں صحیح معنوں میں کبھی یہاں سے گیا بھی ہوں۔” ( صفحہ نمبر 24)

چینی کوٹھی اپنے مفہوم اور اظہار میں زندگی کی علامت نظر آتی ہے۔ راوی کا بچپن ہی سے اس کا بھید پانے کا اشتیاق دراصل انسان کی رازِ حیات جاننے کی خواہشِ پیہم کا مظہر ہے۔ راوی چینی کوٹھی کے سربستہ راز جاننے کا آرزومند ہوتے ہوئے بھی پورے ناول میں اس کے اندر قدم رکھنے کا حوصلہ مجتمع نہیں کر پاتا۔ حیات کا سِرٌِ نہاں جاننے کی لگن میں دربدر بھٹکنے والے شاید نہیں جانتے کہ زندگی کی ساری کشش اس کی پراسراریت میں ہے اور جس دن اس کا راز افشا ہو گیا؛ یہ یکسر بےلطف ہو جائے گی۔ اور کامنا یہ بات جانتی ہے۔ راوی سے اس کا مکالمہ ملاحظہ کیجئے:

” اس کوٹھی کو دیکھ رہی ہو؟ میں بچپن سے اس گھر کے اندر داخل ہونے کی چاہ لیے گھوم رہا ہوں، مگر کبھی داخل ہونے کی ہمت نہ جٹا پایا۔ اس عورت کی طرح جس کے لیے میرے اندر شدید بے چینی ہوتے ہوئے بھی میں اس سے دور رہنے پر مجبور ہوں۔”

” شاید آپ کے لیے یہی صحیح ہے.” وہ چینی کوٹھی کی چھت پر لایعنی نظر ڈالتی ہے۔ ” میں نے محسوس کیا ہے کہ آپ کے اندر چیزوں تک پہنچنے کی بڑی تڑپ ہے لیکن آپ کے لیے اس سے بہتر اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ اس چیز تک کبھی نہ پہنچیں ورنہ آپ کا سارا خواب ٹوٹ جائے گا۔ آپ ایک ایسے انسان ہیں جو خواب کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ آپ کبھی اس کوٹھی میں داخل ہونے کی کوشش نہ کریں ورنہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔” ( صفحہ نمبر 104)

زندگی کا بھید پانے کی آرزو دراصل اس کی بے معنویت میں معنی تلاش کرنے کی جستجو ہے۔ شاید جس رازِ حیات کو پانے کی لگن میں انسان دن رات تڑپتا ہے وہ سِرے سے کوئی راز ہو ہی نہ۔

” ایک نہ ایک دن میں اس چینی کوٹھی کے اندر داخل ہو جاؤں گا اور اس راز کو سلجھا لوں گا جس کا تعلق چینی کوٹھی سے ہے۔ مگر میں نہیں جانتا کہ وہ راز کیا ہے یا سرے سے ایسا کوئی راز ہے بھی کہ وہ میرے زہن کے اندر پروان پا رہا ہے۔” ( صفحہ نمبر 45)

مندرجہ بالا علامتوں کی تاویل، ضروری نہیں کہ مصنف کے مدعا کے عین مطابق ہو۔ ادبی علامت میں معنی و مفہوم کا حتمی تعین ممکن ہی نہیں ہوتا۔ ٹی ایس ایلیٹ نے ادیب کے علامتی اظہار اور قاری کی تفہیم کی عدم مطابقت سے متعلق بڑی عمدہ بات کہی ہے:

“علامت قاری اور تخلیق کار کے مابین ایک قائم بالذات شے رہتی ہے اور کسی نہ کسی طور اس کا دونوں سے رابطہ رہتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ یہ رابطہ قاری کے ساتھ بھی ویسا ہی ہو جیسا تخلیق کار کے ساتھ ہے۔ علامت مصنف کے خیال کو ظاہر اور قاری کے ذہن کو اس اپنی جانب منتقل کر سکتی ہے لیکن اس اظہار و انتقال میں مطابقت ہونا لازمی نہیں۔”

قاری اور مصنف کے درمیان علامت کے اظہار اور فہم میں تطابق پیش کردہ خیال کی دیگر تاویلات اور توجیحات کا راستہ روک لیتا ہے جب کہ اس بابت عدم مطابقت ہو تو وہی علامت اس خیال یا موضوع کو مختلف پیرایوں میں نِت نئے تاثرات کے ساتھ پیش کرتی ہے۔

انسان زمین پر بسنے والی دیگر انواع کے مقابلے میں نسبتاً ایک نووارد پرجاتی ہے۔ یہ شروع ہی سے، نتائج کی پراہ کیے بغیر قدرتی وسائل کو اپنے نفع اور سکون کے لئے استعمال کرتا آیا ہے۔ جنگلات کا مسلسل کٹاؤ، ، جانوروں اور پودوں کی صفحہء ہستی سے مٹتی ہوئی انواع ، صنعتی ترقی کی ماحولیاتی تباہ کاریاں، جان لیوا آلودگی، آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے قدرتی آفات، مسلسل بڑھتا ہوا درجہء حرارت اور موسمیاتی تبدیلیاں؛ زمین کے نام نہاد مالک یعنی حضرتِ انسان ہی کے ” کارنامے” ہیں۔ نیچر اس کے ردعمل میں بیماریوں، وباؤں اور قدرتی آفات کے زریعے ہم سے انتقام لینے لگی ہے جس نے انسان، حیات اور زمین کے تحفظ کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ان مسائل نے باشعور انسانوں کو فطرت اور زمین کے ساتھ اپنے رشتے کے حوالے سے فکر مند کر دیا ہے۔ اس تناظر میں یہ سوالات کہ کیا زمین انسانوں کے بنا بھی آباد رہ سکتی ہے؟ یا انسان فطرت کے ساتھ رہنے کا کوئی نا کوئی طریقہ تلاش کر لے گا؟ بڑی اہمیت اختیار اختیار کر گئے ہیں۔ ” چینی کوٹھی” کے کردار انسان کے بارے میں کیا نقطہء نظر رکھتے ہیں, آئیے دیکھتے ہیں:

“آج میں جان گیا ہوں کہ ہم انسانوں نے اس دنیا پر خواہ مخواہ اپنا وجود مسلط کر رکھا ہے اور ہم اس کے علاوہ اپنے انسان ہونے کا اور کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکتے کہ اس دنیا سے اپنا منحوس سایہ اٹھا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رخصت ہو جائیں۔ یہ بِلیاں مجھے اسی بات کی یاد دلاتی ہیں کہ ہم انسان اور کچھ نہیں اس زمین پر tresspassers ہیں۔” ( صفحہ نمبر 135)

” اور گدھے فلسفیانہ تساہل کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں جن کی ضرورت اب دھوبیوں کو نہیں رہ گئی مگر جو بلا ضرورت اپنی نسل برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ مگر اب وہ دن دور نہیں جب ہر اس چیز کی طرح جس کی انسان کو ضرورت نہ رہ گئی ہو، یہ گدھے بھی دھیرے دھیرے غائب ہو جائیں گے۔” ( صفحہ نمبر 12)

ان سطور میں صدیق عالم کا حساس دل دھڑک رہا ہے۔ وہ انسان کے ہر چیز کو اپنے فائدے کے نقطہء نظر سے دیکھنے پر ناخوش نظر آتا ہے۔ اس کی فطرت پسند طبیعت اشیاء کو اپنے قدرتی ماحول میں دیکھنا چاہتی ہے اور اس میں انسانی مداخلت کی قطعاً حامی نہیں۔

” بات یہ ہے کہ مجھے اس طرح کے اجڑے ہوئے باغ پسند ہیں جہاں پیڑ پودے خود سے اُگ آئے ہوں، آزادی کے ساتھ جیتے ہوں اور کسی کلہاڑی کا احسان لیے بغیر مر جاتے ہوں۔” ( صفحہ نمبر 102)

صدیق عالم کے فکشن کا ایک وصف اس کی باکمال منظر نگاری بھی ہے۔ وہ لفظی ترتیب اور تراکیب سے ناصرف منظر کو متحرک کر دیتا ہے بل کہ اس میں معنوی کیفیت بھی پیدا کرتا ہے۔ وہ منظر کی اصلی اور حقیقی جزئیات کے علاوہ اپنی قوتِ متخیلہ کی مدد سے اس کی مثالی جزئیات بھی بیان کرتا ہے:

” میری نظر بے ساختہ لیمپ بریکٹ کی طرف اٹھ گئی۔ اس سے پلاسٹک کی ایک چینی لالٹین بجلی کی ایک تار کے زریعے لٹک رہی تھی جو کسی سرخ غبارے کی مانند ہوا کے زیرِ اثر ایک طرف اڑی چلی جا رہی تھی۔ لالٹین کی سرخ روشنی کے سبب، جو آس پاس کی چیزوں پر تھرک رہی تھی، ایسا لگتا تھا جیسے چوبی پھاٹک اور اس سے لگی دیواروں پر خون کی بارش ہو رہی ہو۔ دونوں ستونوں کے بیچ کواڑ کے چھوڑے خلا میں ٹارچ کی روشنیوں کے ان گنت حلقے گردش کر رہے تھے۔ یہ ٹارچ آپس میں مل کرجل کر عجیب تاریک اور دھندلے انسانی سائے بنا رہی تھی، سائے جو آپس میں گڈ مڈ ہو رہے تھے ایک دوسرے کو آڑا ترچھا کاٹ رہے تھے، ایک دوسرے کے اندر پیوست ہو رہے تھے، ایک دوسرے سے باہر آ رہے تھے۔ ان میں سے کچھ سائے چھتریاں سنبھالے، گاڑیوں کے دروازے کھول اور بند کر رہے تھے۔”. ( صفحہ نمبر 9)

یہ بھی دیکھیے:

” دریا اپنے دونوں کناروں تک لبالب بھر چکا ہے۔ اس میں ناؤ چلنے لگی ہے۔ بلکہ ایک ناؤ پر تو بادبان بھی لٹکا دیا گیا ہے جو کسی حاملہ عورت کے پیٹ کی طرح پھول رہا ہے۔” ( صفحہ نمبر 170)

” وہ بیمار رہنے لگے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ہمارا گھر ڈاکٹروں اور آیاؤں کی پناہ گاہ بن چکا تھا۔ ابا اپنے کمرے میں کسی مرجھائی ہوئی سبزی کی طرح پڑے رہتے۔” ( صفحہ نمبر 27)

اس ناول میں مصنف نے پیش سایہ افگنی ( foreshadowing) کی تکنیک استعمال کی ہے اور ناول کی بنت اور پلاٹ کے دروبست میں اس تکنیک کے ڈسپلن کا پورا دھیان رکھا ہے۔ کہیں کسی واقعے میں پیش آمدہ وقوعے کی پیش بینی ملتی ہے تو کہیں کسی کردار کا مکالمہ کسی واقعے کے ظہور پزیر ہونے کی پیش گوئی کرتا ہے۔ کرداروں کی خصلتوں ( traits) سے لے کر بیانیے اور مکالموں کے استعاروں اور تشبیہات میں پیش آمدہ واقعات کی دھمک سنائی دیتی ہے جو قاری کی دل چسپی کو انگیخت دے کر اسے بے چینی سے صفحات پلٹنے پر مجبور کرتی ہے۔

صدیق عالم نے اپنے افسانوں میں میجیکل رئیلزم کی صنف کا بڑی مہارت کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ ” ڈھاک بن”  غالباً اردو کا پہلا افسانہ ہے جس میں اس صنف کو پوری فنی تفہیم کے ساتھ برتا گیا ہے۔ ” چینی کوٹھی” میں بھی مصنف نے اپنی اس فنی روایت کو برقرار رکھا ہے اور جادوئی حقیقت نگاری سے کہانی پر تحیر کی پرتیں چڑھا کر اس کی معنوی تہ داری اور معنی آفرینی دو چند کر دی ہے۔

” اس بار بلیوں کے کمرے میں لوگ آپس میں زور زور سے باتیں کر رہے تھے۔ میں دبے پاؤں چلتے ہوئے دروازے پر آیا اور اس کے کواڑ کھولے بغیر اس پر اپنا داہنا کان لگا دیا۔  اندر سے واقعی انسانی آوازیں سنائی دے رہی تھیں جن میں بچے بوڑھے مد عورتیں سبھی شامل تھے۔ مگر یہ ایسی آوازیں نہ تھیں جنہیں مکمل انسانی کہا جا سکے۔
” میں اب بھی کتا ہوں ہم اس پر حملہ کر سکتے ہیں۔” ایک بھاری گلے کی آواز ابھر رہی تھی۔
” ہمیں صرف اس پنجڑے سے باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈنا ہوگا۔ پھر ہم سارے پنجڑے کھول سکتے ہیں۔”
وہ کوئی بھی ہو ٹھیک کہہ رہا تھا کیوں کہ پنجڑے صرف باہر سے بند تھے جن کے پھانسے ان کے حلقوں میں ڈلے ہوئے تھے۔
” تم اس طرح ہمیں بغاوت پر آمادہ نہیں کر سکتے۔” ایک نسوانی آواز ابھری جیسے وہ صبر کا مادہ کھو رہی ہو۔ ” وہ ہمارا کتنا خیال رکھتے ہیں۔”
” کیا تم اس قید کی زندگی سے خوش ہو؟” موٹے گلے کی آواز پھر سے ابھری۔ ” چوبیسوں گھنٹے پنجڑے میں بند، یہی زندگی چاہتی ہو تم؟ کیا ہم اسی دن کے لیے پیدا ہوئے تھے؟”
میرے خدا، میرا سینہ کانپنے لگا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ بلیاں انسانوں کی طرح آپس میں باتیں کر رہی ہوں۔” ( صفحہ نمبر 127)
سب انسپکٹر کے بلیوں کو پنجروں سے آزاد کرنے کے بعد صفحہ نمبر 133 پر بِلٌوں کے یہ مکالمے بھی دیکھیے:
” کچھ بھی کہو، ہمیں یہاں نہیں آنا چاہئیے تھا۔ یہ جگہ اچھی نہیں ہے۔”
” اس گھر میں اب ایک بھی پنجڑہ نہیں۔”
” پنجڑے کبھی بھی خریدے جا سکتے ہیں۔”
” تم اس نمک کو کیسے بھول سکتے ہو جو ہم نے کھایا ہے۔ میرا یقین کرو، یہ انسان بدل چکا ہے۔”
” انسان کبھی نہیں بدلتے۔ صرف ضرورت کے مطابق اپنا چہرہ بدلتے ہیں۔ ہم اس گھر میں نہیں رہ سکتے۔”
راوی کے سب انسپکٹر کی قبر پر آنے اور وہاں بلیوں کا اجتماع دیکھنے کا یہ منظر بھی ملاحظہ ہو:
” قبر پر بہت ساری بلیاں بیٹھی تھیں یا چل رہی تھیں۔ کئی بلیاں جھاڑیوں سے نکل کر قبر کی طرف بڑھ رہی تھیں اور کئی واپس جھاڑیوں کے اندر لوٹ رہی تھیں۔ ہم دونوں کو دیکھتے ہی بلیاں تتر بتر ہونے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے قبر خالی ہو گئی۔
” یہ بلیاں۔۔۔ کیا ان کا اسی جگہ ٹھکانہ ہے؟” میں حیرت سے افتخار کی جانب دیکھتا ہوں۔
” میں جب بھی یہاں آیا ہوں انھیں اسی جگہ پایا ہے۔ گورکن نے انھیں بھگانے کی بہت کوشش کی، مگر بیکار۔” افتخار نے فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔ ” ان کی تعداد کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے مگر مجھے یاد نہیں میں نے ان کے بغیر ان کی قبر کو دیکھا ہو۔”
ہم قبرستان میں دس منٹ رہے ہوں گے۔ فاتحہ پڑھ کر ہم واپس ہو رہے تھے جب ہم نے بلیوں کو ایک دو کی تعداد میں جھاڑیوں سے نکل نکل کر قبر کی طرف واپس آتے دیکھا۔
” کیا یہ ان کی پالی ہوئی بلیاں ہیں؟” میں نے پوچھا۔
” نہیں، میں ان بلیوں کو پہچانتا ہوں،” افتخار نے جواب دیا۔ ” یہ دوسری بلیاں ہیں۔” ( صفحہ نمبر 138)
ناول کی زبان سادہ لیکن پُر تاثیر، سلجھی ہوئی اور اپنے ماحول اور کہانی سے مربوط ہے جس میں جناتی اصطلاحات کی ازیت ناک بوجَھلتا نہیں انسانی احساسات کی تسکین دہ کومَلتا ہے۔ یہ صدیق عالم کے زبان و بیان کا اعجاز ہی تو ہے کہ ناول کا مرکزی کردار ذہنی کیفیات کے انتہائی مشکل اور اذیت ناک مرحلوں سے اس سہولت سے گزرتا ہے کہ ناول میں باطنی سفر ایک نئے نرم و گداز آہنگ کی پہچان کراتا ہے:
” پانی کی لکیریں مختلف فاصلوں پر چمک رہی ہیں۔ میں دوبارہ چلنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ریت میرے تلووں کے نیچے چرمراتے ہوئے میرے رگ و پے میں سما رہی ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے میرا وجود اس ریت سے بھر رہا ہے اور کسی بھی وقت یہ میرے کانوں اور نتھنوں سے باہر آنا شروع کر دے گی۔ آسمان میں ایک غیر معمولی طور پر بڑا چاند کافی نیچے آ کر چمک رہا ہے۔ یہ چاند اتنا بڑا ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ میں کبھی اس کے نیچے سے باہر نکل پاؤں گا بھی۔” ( صفحہ نمبر 96)
” کچھ دیر چلنے کے بعد مجھے احساس ہوتا ہے کہ ہم ایک دائرے میں چل رہے ہیں اور بار بار ایک ہی جگہ لوٹ آتے ہیں اور شاید اب میں اس دائرے سے کبھی باہر نہیں آ پاؤں گا کیونکہ شروع میں اس دائرے کے اختتام پر ہوتے ہوئے بھی اب نہ اس کا کوئی آغاز ہے نہ خاتمہ۔ دھیرے دھیرے دائرے کی رفتار بڑھنے لگی ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے ایک بھنور کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ لالٹینوں نے تنوں،پتوں اور جھاڑیوں کو لہکا دیا ہے اور ایسا لگ رہا ہے وہ بھی ہمارے ساتھ چکر لگا رہے ہیں۔ میرے خدا، کیا میں ان آتماؤں کے ساتھ ایک دائمی گردش کا حصہ بن چکا ہوں۔ میں اس دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر ہر بار دائرہ مجھے واپس اپنے اندر کھینچ لیتا ہے۔” ( صفحہ نمبر 98)
مصنف کی روشن نثر اور دل فریب اسلوب کے یہ مظاہر بھی دیکھیے:
” تو ایسے لوگ بھی دنیا میں ہیں جو جانوروں سے امید لگائے بیٹھے ہیں اور یہاں یہ حال ہے کہ انسان ہاتھوں سے نکلے جا رہے ہیں۔” ( صفحہ نمبر 14)
” عائشہ مجھے پسند تھی اور میں اسے شادی کی پیشکش کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ مگر دن نکلتے جا رہے تھے اور اسی دوران اس کا بڑا لڑکا چودہ برس کا ہو چکا تھا اور مجھے اچھی نظروں سے نہیں دیکھتا تھا، میرا مطلب ہے وہ اپنے باپ کی نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگا تھا۔”
” واپسی پر وہ کچھ دور تک میرا پیچھا بھی کرتا۔ مگر میں نے اس کی طرف کبھی توجہ نہ دی۔ میرا دل کہتا، یہ اور کچھ نہیں، اس کے بڑے ہونے کے آثار ہیں۔” ( صفحہ نمبر 21)
” کتے چینی کوٹھی کے دروازے پر بہت دیر سے شور مچا رہے ہیں۔ میری عمر اس وقت کیا ہوگی؟ یہی کوئی چودہ سال اور میں سوچ رہا ہوں، بغیر مالک کتے، انھیں کہیں بھی شور مچانے کا حق ہے۔”  ( صفحہ نمبر 44)
” ڈاکٹر کھاؤ ہے، بالکل ہی گدھا۔ چھوٹی زات کا۔ ریزرویشن کے بل پر ڈاکٹر بن گیا ہے۔”  مجھے کاکو کا یہ رویہ کاکو کا یہ رویہ اچھا نہیں لگتا۔ مگر کیا کیا جائے کہ وہ زندگی سے ہارا ہوا آدمی ہے۔ اس کے پاس تشفی کے لیے صرف اپنی اونچی زات ہی رہ گئی ہے۔” ( صفحہ نمبر 52)
” کسی بھی انسان کی زندگی پوری طرح اس کی اپنی نہیں ہوتی۔ اس کے تار بہت ساری زندگیوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ شاید یہی اس کا سب سے بڑ االمیہ ہے کہ وہ خود کو الگ سے جینے کے قابل نہیں پاتا۔” ( صفحہ نمبر 169)
” یہ آوازیں ہی ہیں جن کے زریعے ہمیں اپنی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔” ( صفحہ نمبر 190)
صدیق عالم حقیقت کو طے شدہ عقائد کے آئینے میں نہیں بلکہ اپنے تجربے کی روشنی میں دیکھتا ہے۔ تجربہ جو ایک ارتقائی عمل ہے۔ ” چینی کوٹھی” میں کئی مقامات پر مصنف محبت اور نفرت سے متعلق ہمارے طے شدہ نظریات کو چیلنج کرتا نظر آتا ہے۔ ناول کا ایک کردار کامنا جو ایک غیر معمولی عورت ہے کا راوی کے ساتھ یہ مکالمہ ملاحظہ کیجئے:
” بہت پیار کرتی ہو اپنے شوہر سے؟ اتنا ڈھیر سارا سیندور میں نے بہت کم عورتوں کو لگاتے دیکھا ہے۔”
” وہ میرے لیے ایک لازمی چیز ہیں۔” کامنا کہتی ہے اور میں چونک پڑتا ہوں۔
” کیا کہا تم نے؟ پھر سے کہنا۔”
” میرے ہیسبنڈ میرے لیے ایک ضرورت کی چیز ہیں۔ ہم ایک ضرورت کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔”
” اور تمھارے بچے۔”
” ایک لڑکا ہے۔ بڑا ہو کر الگ ہو چکا ہے۔”
” تمھیں اپنے شوہر سے پیار نہیں۔”
” زندگی میں پیار کا ہونا ضروری تو نہیں؟” کامنا سویٹر کو اپنے سے تھوڑا دور لے جا کر اس کے ڈیزائن کا جائزہ لیتی ہے۔” ہمیں اس دنیا میں کچھ وقت ہی تو گزارنا ہے۔ ایک دوسرے کو سہارا دینا ہے۔ آدمی باقی کا جھنجھٹ کیوں مول لے۔ ہم اس زندگی سے مطمئن ہیں۔”
” تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔ زندگی میں پیار کا ہونا ضروری نہیں؟ کیسے آدمی ایک دوسرے کے ساتھ ساری عمر گزار سکتا ہے بغیر پیار کیے یا بغیر نفرت کیے، صرف ایک دوسرے کی ضرورت کی خاطر ؟ انسانی زندگی کتنی لمبی ہے۔ جانوروں تک میں کچھ نہ کچھ معاملہ آ جاتا ہے۔ ہم تو انسان ہیں۔”
” زندگی میں اس سے اچھا انتظام اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ آپ آزما کر دیکھ سکتے ہیں۔” وہ شرارت سے مسکرا رہی ہے۔ ” صرف اپنے کام سے کام رکھنا اور اگلے دن کا انتظار کرنا، اگر خوش قسمتی سے وہ دن آ جائے، اور یہ سوچنا کہ ہمارے درمیان صرف ایک پیشہ وارانہ وفاداری ہے نہ کہ خوامخواہ کے جذباتی معاملات۔ اس سے ناصرف مشکلات پیدا نہیں ہوتیں بلکہ بہت ساری مشکلوں کا حل نکل آتا ہے۔ کسی کے مرنے کے بعد آنسو نہیں بہانے پڑتے اور اگر بہانا پڑے تو آنسوؤں کی مقدار صحیح رہتی ہے۔”
” اور تمھارا لڑکا؟” میں ششدر ہو کر اس کی طرف دیکھ رہا ہوں۔ ” تم اسے کس طرح دیکھتی ہو؟”
” اس سے میرا خون کا رشتہ ہے۔ اور خون لفظوں کا محتاج نہیں ہوتا۔ وہ اپنی بات ان کے بغیر ہی کہہ ڈالتا ہے۔” ( صفحہ نمبر 102، 103 )
میں اس ناول کے وجودی پہلوؤں اور دیگر محاسن پر بھی بات کرنا چاہتا ہوں لیکن مضمون کی طوالت آڑے آرہی ہے سو ان پر بات پھر کھبی سہی۔
لیکن جاتے جاتے ‘ خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گِلہ بھی سن لے۔ ناول کا وہ حصہ جہاں راوی زیادتی کا شکار ہونے والی بچی پر جرح کرتا ہے اپنے کردار کے پس منظر میں کم زور محسوس ہوا۔ راوی کو ایک تجربہ کار وکیل دکھایا گیا ہے جب کہ دورانِ جرح اس کے سوالات اس دعوے کے نقیض ہیں۔ وہ leading questions کی بجائے جن کا جواب صرف ہاں یا نہ ہی میں دیا جا سکتا ہے اور جو گواہ کو قابو میں رکھنے کا بہترین طریقہ ہے؛  ایسے سوالات کرتا ہے جس سے گواہ کو وضاحت کا موقع ملے۔ اس مقام پر وکیل کا پیشہ ورانہ کردار خاصا کم زور لگا۔ اسی طرح کچھ مقامات پر بےجا لفظی تکرار ( صفحہ نمبر 71،72 میں چائے،  صفحہ نمبر 61 میں مقدمے، صفحہ نمبر 169 میں گولی اور صفحہ نمبر 170 میں موت)  نے بیان کا مزا کِرکِرا کیا اور ایسا لگا جیسے لذیذ بریانی کھاتے ہوئے کوئی کنکری دانتوں تلے آگئی ہو تاہم کھانے کی بھرپور لذت آپ کو یہ معمولی کوفت یاد بھی نہیں رہنے دیتی۔ یہ معمولی اسقام ناول کے مجموعی تاثر پر قطعاً اثر انداز نہیں ہوتے لیکن ان کی نشان دہی نقد و نظر کا بنیادی مطالبہ ہے۔
” چینی کوٹھی” اپنی کہانی،  تکنیک، ہئیت، اسلوب، منظر نگاری، فضابندی، زبان و بیان اور کردار نگاری کے حوالے سے ایک عمدہ ناول ہے جو اپنی پیش کش کے اعتبار سے اردو فکشن میں ایک اچھوتا تجربہ ہے جو ایک ہی وقت میں کئی رجحانات اپنے پلاٹ میں سموئے ہوئے ہے۔ یہ ناول فارم کے لحاظ ہی سے نہیں بل کہ موضوعاتی سطح پر بھی انسانی تجربات اور آج کے بدلتے انسان، سماجی، سیاسی، فکری اور معاشی روابط کی فن کارانہ صورت گری ہے۔ اردو فکشن میں نئے رجحانات کی کمی کا گِلہ کرنے والے یہ ناول ضرور پڑھیں، امید ہے ” چینی کوٹھی” ان کی شکایتیں ختم نہیں تو کم ضرور کر دے گا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...