بدلتا نیوزی لینڈ؛ کرائسٹ چرچ مساجد پر حملہ کے دو سال

اسما اظہر، عاصم مختار، رضوان اکبر علی

635

“میرے افغانستان سے تعلق پر مجھے بارہا دہشت گرد پکارا گیا۔ مجھے خوشی ہے کہ تم نے مجھ سے نہ صرف یہ خطاب لے لیا بلکہ یہ ثابت کر دیا کہ دہشت گردی کا کوئی رنگ، نسل، یا ملک نہیں ہوتا۔”

میر واعظ کے یہ تاریخی الفاظ، پرنم آنکھوں اور ہونٹوں پہ کپکپاہٹ کے ساتھ پل بھر میں پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل کی آواز بن گئے۔

دو سال قبل نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں 15 مارچ 2019 کو دہشت گرد نے النور مسجد اور لین ووڈ مسجد میں اس وقت داخل ہوکر فائرنگ کی تھی جب بڑی تعداد میں نمازی، نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد میں موجود تھے۔ 27 اگست 2020 کو نیوزی لینڈ کی عدالت نے آسٹریلوی نژاد برینٹن ٹیرنٹ کو بغیر پیرول کے عمر قید کی سزا سنادی۔ اس سزا سے دہشت گرد کو کسی بھی صورت معافی کا حق حاصل نہیں ہوگا۔

نیوزی لینڈ میں مسلمان کمیونٹی کو ایک اعتدال پسند اور پر امن اقلیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ نیوزی لینڈ میں مسلم کمیونٹی ساٹھ ہزار کے پاس جو کل آبادی کا صرف 1.3 فیصد بنتا ہے جو دنیا کے 80 ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ وکٹوریہ یونیورسٹی آف ویلنگٹن کی ایک تحقیق کے مطابق اسلام سب سے پہلے 1769 میں نیوزی لینڈ پہنچا. 1850 میں مسلم تارکین وطن نے خاندانی آباد کاری کا آغاز کیا.

سرکاری دستاویزات کے مطابق سال 1840 اور 1874 کے اہم ادوار کا ذکر ہے جہاں سے مسلمانوں کو پہلے ایک گروہ کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ ابتدائی مسلمان بنیادی طور پر برطانوی ہندوستان سے آئے تھے۔ 1874 کی سرکاری مردم شماری میں 17 مسلمان، جن میں اوٹاگو میں 16 اور آکلینڈ میں ایک میں رہنے والے شامل تھے۔ ان پرانی دستاویزات میں مسلمان اور اسلام کو مہومیتن، محمدیڈن، موہمدن ازم یا محمدنزم لکھا گیا ہے۔

کرائسٹ چرچ پر ہونے والا دہشت گردی کا حملہ ہمیں نیوزی لینڈ میں اسلام کی آمد کے موقع پر اس شہر کی اہم حیثیت کی یاد دلاتا ہے۔ نیوزی لینڈ میں ابتدائی بین المذاہب سرگرمی میں مسلمان شامل تھے۔ اخبار روزنامہ اسٹار میں یکم مئی 1902 کی اشاعت میں ایک مسلمان شخص وزیرا کے لئے ایک تعزیتی پیغام شائع ہوا. جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح پورٹ ہلز کان سے پتھر لے کر کرائسٹ چرچ کیتھیڈرل کی تعمیر میں انہوں نے مدد کی تھی۔ یہ نیوزی لینڈ میں عیسائیت کی تاریخ میں مسلمانوں کی ابتدائی شراکت سمجھا جاسکتا ہے۔ اس تعزیتی پیغام کو وزیرا کی عیسائیت کی علامت کی تعمیر میں شرکت کی عوامی تعریف کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

کرائسٹ چرچ شہر کی دو بڑی مساجد میں ہونے والے دہشتناک واقعے نے پورے ملک کو ہلا دیا۔ اس سانحے کی ہولناکی اور نیوزی لینڈ کے پر امن معاشرے کو اس طرح سمجھیں کہ 2016 میں 58 افراد اور 2017 میں صرف 48 افراد پورے نیوزی لینڈ میں قتل ہوئے۔ پورے سال کے برابر تعداد کا بیس منٹ میں ہو جانا یقیناً کسی بھی ملک کے عوام اور انتظامیہ کے لیے نہایت بڑا سانحہ ہے۔

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن  کی طرف سے جرات مندانہ موقف اپنانے اور متاثرین کی دل جوئی کی تعریف دنیا بھر میں کی گئی۔ وہیں ان کا اصل امتحان گن کنٹرول کے قوانین بنانے کے موقع پر تھا۔  ابتدائی تحقیقات میں یہ ثابت ہوا تھا کہ دہشتگرد نے بہت ہی آسانی کے ساتھ آتشیں اسلحہ حاصل کیا تھا۔ امریکا کی طرح نیوزی لینڈ میں بھی گن لابی بہت مضبوط ہے اور سخت بندوق کے قوانین کو متعارف کروانے کی سزا سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں دی جاتی رہی ہے۔ نیوزی لینڈ میں ڈانیڈن شہر میں 1990 کے اراموآنا قتل عام کے بعد سے بار ہا کوششوں کے باوجود طاقتور شکار اور اسپورٹنگ لابی کے سامنے کامیاب نہ ہو سکا۔ پچھلی دو دہایوں سے کی گئی کوششوں کو بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا-

کرائسٹ چرچ کے حملوں کے فورا  بعد، 21 مارچ 2019 کو، وزیر اعظم آرڈرن نے فوجی طرز کے نیم خودکار ہتھیاروں پر پابندی عائد کرنے کا عندیہ دیا- انھوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ کے گن کنٹرول قوانین کو مضبوط بنایا جائے گا، اب وقت آ گیا ہے مشکل فیصلے لینے کا- اگرچہ اس تجویز پر مزاحمت ہوئی لیکن نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ نے 10 اپریل 2019 کوفوجی طرز کے نیم خودکار ہتھیاروں پر پابندی عائد کردی- گن اصلاحات کا بل 119-1 کی بھاری اکثریت پارلیمنٹ سے منظور ہوا۔

 

حکومت نے ممنوعہ  اسلحہ رکھنے والوں کو  کے لئے عام معافی اور ١س ١سلحے کو خریدنے کا اعلان کیا- اس بل کی منظوری کے بعد، ممنوعہ آتشیں اسلحہ رکھنے والوں کے خلاف مقدمہ اور 10 سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے. نیوزی لینڈ گورنمنٹ نے  ٢٠١٨ تک 246،952 آتشیں اسلحہ لائسنس جاری کیے تھے ۔ حکومت نے  بندوق مالکان سے ممنوعہ بندوقیں خریدنے کے لئے  168 ملین مختص کیے- ا سلحہ خریدنے والی اسکیم کا پہلا مرحلہ دسمبر 2019 کے آخر تک جاری رہا، اس دوران تقریبا 60،000 ممنوعہ بندوقیں اور 298،000 ممنوعہ پارٹس اکٹھے کیے گئے – اس وقت گن بائ بیک اسکیم کا تیسرا مرحلہ جاری ہے اور موجودہ عام معافی یکم اگست 2021 ء تک جاری رہے گی۔

 

نیوزی لینڈ کی منفرد جغرافیائی حدود نے اسے خصوصی طور پر دہشت گردی کے مسائل سے محفوظ رکھا ہے۔ تاہم مقامی مائوری آبادی اور سفید قومیت پسندوں کے درمیان ایک نہ ختم ہونیوالا تناؤ ہمیشہ سے موجود رہا ہے- نسلی اور مذہبی تعصب کی ایک باریک تہہ معاشرے میں موجود ہے جو وقتاً فوقتا معاشرتی رد عمل کے طور پر نظر آتی رہتی ہے۔ یہئ وجہ ہے کہ 15 مارچ کے اس واقعہ کو دنیا بھر کے میڈیا نے تعصب کا شاخسانہ  قرار دیا ہے جسے دبانا آنیوالی نسلوں کے لیے ایک زہر قا تل ثابت ہوگا۔ وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن  نے 15 مارچ کرنے واقعے کے بعد معاشرتی اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے مسلمانوں کے ثقافتی اور مذہبی امتزاج کو مد نظر رکھتےہئے ایک نیا ماڈل متعارف کرایا۔ اس تغیراتی نظیر نے ساری دنیا کو دیکھنے اور سیکھنے کے لئے بہت کچھ چھوڑ دیا ۔ نیوزی لینڈ کی فضاؤں میں گونجتی اذان اور اللہ اکبر کی صدائیں اس بات کی واضح دلیل تھیں، کہ مسلمان اور غیر مسلم سب برابر ہیں اور سربراہ مملکت نے قول و فعل میں تضاد کے بغیر اس مسلم مخالف  جذبات اور اسلامو فو بیا کے خلاف ڈٹ کے کھڑے ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

عوامی سطح کے اقدامات کے طور پر، 22 مارچ 2019 ایک ہفتے بعد نہ صرف سرکاری طور پر اذان نشر کی گئی بلکہ مسجد النور کے سامنے ہیگلے پارک میں نمازِ جمعہ کے اجتماع میں وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کے علاوہ ہزاروں غیر مسلم افراد اور خواتین نے حجاب میں شرکت کی۔ کرائسٹ چرچ میں مساجد کے حملے کے بعد سے اب تک معاشرتی رویوں میں ایک ملی جلی سی تبدیلی آئی ہے۔ جہاں سرکاری سطح پر نسلی امتیاز کے خلاف سخت سے سخت اقدامات کئے جا رہے ہیں وہیں عام شہری کو بنیادی طور پہ دوسری نسلوں سے ثقافتی آشنائی اور مذہبی ہم آہنگی کے لئے مہم چلائی جا رہی ہیں۔

 

دسمبر ٢٠٢٠ میں کرائسٹ چرچ مساجد پر دہشت گردوں کے حملے کی تحقیقات کے لئے قائم رائل کمیشن آف انکوائری نے اپنی رپورٹ جاری کی گئی. اور ساتھ ہی رائل کمیشن انکوائری لیڈ کوآرڈینیشن وزیر کو بھی تعنیات کیا گیا.

اس رپورٹ میں انسداد دہشت گردی، آتشیں اسلحے کی لائسنسنگ، سماجی ہم آہنگی اور مظالم سے متاثرہ افراد کے لئے معاونت کے بارے میں 44 سفارشات پیش کی گئیں۔ اس میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ نفرتوں اور مظالم کی منصوبہ بندی سے متاثرہ جرائم کے لئے نئے قوانین تشکیل دیئے جائیں۔ حکومت نے تمام سفارشات کو “اصولی طور پر” قبول کرلیا ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ مزید بحث کا ایک نقط آغاز ہے۔ نیو زی لینڈ حکومت نے انٹیلی جنس اور پولیسنگ کی ناکامیوں پر بھی معذرت کی۔ لیکن، انسانی حقوق کے نقطہ نظر سے، ابھی بھی متعدد چیزوں پر نظرثانی کی جاسکتی ہے. تاہم، یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ رائل کمیشن آف انکوائری رپورٹ ایک اہم سنگ میل ضرور ہے مگر یہ صرف ایک ابتدا ہے۔

مارچ 15 کے حملوں کے بعد نیوزی لینڈ کے تقریباً ہر شعبہ زندگی میں ہونیوالے نسلی امتیاز کو نہ صرف رپورٹ کیا گیا بلکہ اس پر کاروائی بھی کی گئی جو کہ آئندہ آنے والی نسلوں اور نیوزی لینڈ میں نسلی رواداری کے نظام کو فروغ دینے کئے بہت ہی خوش آئیں ہے۔ حال ہی میں نسلی امتیاز پہ کئے گئے تجزیے کے مطابق نیوزی لینڈ میں سب سے ذیادہ شکایات ایشیائی نسل کے لوگوں درج کرائیں جنہں یہ سلوک اپنے کام کی جگہ پر برداشت کرنا پڑا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ نسلی امتیاز کی سب سے پوشیدہ اور پیچدہ قسم ساختی امتیاز یا ادارہ پرست امتیاز ہے۔ اس قسم کے نسلی امتیاز کے بارے میں حال ہی میں ریس ریلشنز کمیشن نیوزی لینڈ نے اس بات پہ بھی زور دیا ہے کی کام کی جگہ پہ دوسری نسلوں کے لوگوں کے ساتھ ساختی، اداراتی اور خاموش پر جارحانہ سلوک نیوزی لینڈ میں ایک جاری مسلے کی طرح موجود ہے جو کام کرنے والے لوگوں کو منصفانہ اور جائز حق نہیں لینے دیتی۔ اس قسم سے متاثرہ افراد نہ صرف اپنی انفرادیت اور اعتماد کھو دیتے ہیں بلکہ ادارے کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...