8 مارچ۔۔۔۔عورت مارچ
صاحبزادہ محمد امانت رسول
ہر سال 8 مارچ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں کئی سالوں سے یہ دن منایا جارہا ہے۔ گزشتہ سال اس دن پر کچھ خواتین کے ہاتھ ایسے بینرز اور پلے کارڈ دیکھے گئے جس کے بعد ہمارے ہاں اس کی حمایت و مخالفت میں بحث شروع ہو گئی۔ ان کارڈز کی کیا حقیقت ہے۔؟ہمیں نہیں معلوم کہ واقعی یہ کارڈ تھے یا یہ فوٹو شاپ تھے۔ بہرحال پاکستان کی اکثریت نے انہیں ناپسند کیا۔ دنیا میں جہاں بھی کوئی مارچ،جلسہ، جلوس یا کوئی دن منایا جاتا ہے تو ضروری نہیں کہ سب اس میں ہم خیال و ہم مذہب ہوں۔ وہ صرف اسی مقصد کے لیے جمع ہوتے ہیں جو مسئلہ اس وقت درپیش ہوتا ہے۔ اسی طرح عورت مارچ کا مقصد عورتوں کے حقوق کے لئیے آواز بلند کرنا اور ان کے تشخص کا اظہار ہے۔ اس مارچ میں ہر شعبہ،خیال اور سوچ کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ اس میں گھریلو خواتین بھی شریک ہوتی ہیں۔ عورت مارچ میں شرکاء درحقیقت اس کا ردِّ عمل ہے جو معاشرے میں عورت کے ساتھ ظلم روا رکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں کم سنی کی شادیاں آئے روز رچائی جاتی ہیں۔ کم عمر بالغ بچی کا نکاح اس کے باپ،دادا کی عمر کے شخص کے ساتھ کردیا جاتا ہے۔ عورتوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ صنفی تفریق کے مسائل بھی ابھی تک موجود ہیں۔ تعلیم صرف شہروں تک دکھائی دیتی ہے ۔ جب ہم دیہاتوں میں جاتے ہیں،وہاں ایسا ماحول دکھائی نہیں دیتا۔ بحثیت قوم ہمارے یہ مسائل ہیں۔۔
اسلام کی تعلیم کیا ہے؟ اسے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ اس مارچ میں کچھ افراد بد مزگی پیدا کرتے یا اقدار و اخلاقیات کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں تو یہ ان کا عمل ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار تو نہیں کیا جاسکتا کہ جس مقصد کے لیے یہ دن منایا جاتا ہے وہ مقصد اعلٰی و مثبت ہے۔ ہمیں کلی طور پر، مخالفت کرنے کے بجائے مقصد و ہدف کی بات کرنی چاہیے۔ لوگوں میں حقوق و فرائض کا شعور پیدا کرنا چاہیے۔ شوہر، بیوی کے باہمی حقوق و فرائض سے متعلق لوگوں کو بتانا چاہیے۔ خیر و بھلائی کو عام کرنا چاہیے۔اگر منفی اثرات ہیں تو ان کا علاج مثبت اثرات اور مثبت اقدام سے کیا جا سکتا ہے۔ مقابلے میں جلوس نکالنے سے عورتوں کو ان کے حقوق کبھی نہیں ملیں گے۔ہمارے معاشرے میں عورتوں سے ہونے والی زیادتیوں کا حل سنجیدہ اور مثبت کوشش ہے جو مختلف پلیٹ فارم پہ جاری رہنی چاہیے۔
فیس بک پر تبصرے