پاکستان کی رُوح

887

پاکستانی شہریت کو اب مذہبیت کے عنصر کی بنیاد پر تولا جا رہا ہے۔ مقتدر اشرافیہ کے نزدیک یہ ایک مثبت رجحان ہے کیونکہ انکے خیال میں اس سے قومی یکجہتی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے بجائے بہتر اخلاقیات اور دیانت داری کو فروغ دینے کے، یہ رجحان تنگ نظری کی افزائش کر رہا ہے۔

مفرور عسکریت پسند احسان اللہ احسان کے ٹویٹ کے جواب پر نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کو سوشل میڈیا پر جس طرح دباؤ میں لانے کی کوشش کی گئی اس سے پاکستان کے سوشل میڈیا صارفین کے ایک بڑے طبقے کی ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے جو ایک ایسی لڑکی کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں جسے دہشت گردوں کی جانب سے دھمکی مل رہی ہے۔ یہ ٹرولز وہی کچھ ظاہر کر رہے ہیں جو انہوں نے مذہبی، سیاسی نظریاتی اور حب الوطنی کی حساسیت و تعصبات کے حوالے سے برسوں اپنے اندر جذب کیا ہے۔ وہ ملالہ کی حب الوطنی پر بھی شک کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ حملے کے بعد اس کا طبی علاج برطانیہ میں کیا گیا تھا اور وہ ادھر تعلیم حاصل کر رہی ہے۔

پاکستان میں اس طرح کی ٹرولنگ کوئی نئی بات نہیں ہے، گزشتہ کئی سالوں میں اس نوع کی بہت ساری مہمات چلائی چلائی گئی ہیں۔ ان ٹرولز میں سے بہت سوں کا نظریاتی اور سیاسی پس منظر و تعارف ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ تشویش کی بات یہ نہیں ہے کہ سوشل میڈیا صارفین کا ایک مخصوص طبقہ کیوں پاکستان میں متوازن آوازوں کے خلاف ان کی ساکھ کو متأثر کرنے والی مہمات چلاتا ہے، اس طرزعمل کو اس مخصوص طبقے کے اجتماعی ردعمل کے طور پہ دیکھا جاسکتا ہے۔ جو بات زیادہ تشویشناک ہے وہ یہ ہے کہ ان مہمات کا جوابی ردعمل یا تو سرے سے نظر ہی نہیں آتا یا پھر بہت کمزور ہے۔ ملالہ کے خلاف چلنی والی سوشل میڈیا مہم کم ظرفی اور بے لحاظی کا نمو نہ تھی، زیادہ تر ٹرول ایک بدنام زمانہ عسکریت پسند کو رعایت دینے کے لیے تیار نظر آئے جس نے سینکڑوں پاکستانیوں کے قتل کی ذمہ داری قبول کی ہوئی ہے۔ کیا اس رویے کا تعلق احسان اللہ کے مذہبی استناد و پس منظر اور ریاست کی جانب سے اسے معافی دیے جانے کی حمایت سے ہے یا پھر ان راسخ تعصبات کا اظہار تھا جو ملالہ اور اس جیسے دیگر افراد کے خلاف پائے جاتے ہیں۔

اس معاملے میں حکومت کا ردعمل ابہام کا شکار تھا۔ وزیراعظم کے ترجمان نے پہلے کہا کہ جس اکاؤنٹ سے ملالہ کو دھمکی دی گئی وہ جعلی تھا، تاہم بعد میں یہ ثابت ہوا کہ اکاؤنٹ جعلی نہیں تھا کیونکہ احسان اللہ نے اس بیان کی تصدیق کردی تھی جس میں ملالہ کو دبے لفظوں میں جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ حکومت نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اس سے جان چھڑا رہی تھی جیساکہ وہ مذہب اور مذہبی گروہوں سے متعلقہ مسائل میں عموماََ کرتی ہے۔

جو بات زیادہ تشویشناک ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کی متوازن آوازوں کے خلاف چلنے والی ان مہمات پر جوابی ردعمل یا تو سرے سے نظر ہی نہیں آتا یا پھر بہت کمزور ہے

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے بطور ایک فلاحی ریاست مستقبل کے حوالے سے اپنے نظریے کے امتثال میں حکومت خود بھی مذہب کو استعمال کرتی ہے۔ وزیراعظم اکثر اپنی تقاریر میں ’ریاستِ مدینہ‘ کا حوالہ دیتے ہیں لیکن ریاست کاری اور طرزِحکمرانی کے بارے میں شدت پسند گروہوں کے بنیادپرست خیالات کا وہ شاذ ہی رد کرتے ہیں۔ اگر حکومت واقعی مدینہ منورہ میں آنحضرتﷺ کے قائم کردہ ریاستی نظم پر یقین رکھتی ہے تو اسے میثاقِ مدینہ کو اپنے وژن کے لیے بطور نمونہ اپنانا ہوگا۔ میثاقِ مدینہ ایک سماجی معاہدہ تھا جو مختلف اکائیوں کے مابین تناؤ کو ختم کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا، اس میں مسلمان اور مدینہ کے یہودی بھی شامل تھے۔

مذہبی عنصر کی طرف میلان رکھنے کا مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ حکومت عام لوگوں کے دینی جذبات کا استعمال کرنا چاہتی ہے یا یہ مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرف سے درپیش سیاسی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمان گروپ) حکمران جماعت تحریک انصاف کی اہم سیاسی حریف ہے جو وزیراعظم عمران خان کی اسلام اور پاکستان سے وفاداری پر شکوک پیدا کرتے ہوئے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے۔ دوسری طرف پنجاب اور سندھ کے اندر مذہبی ووٹ میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے سبب سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو تشویش لاحق ہے۔ جماعت تحریک لبیک پاکستان ابھی بھی ملک کے سیاسی منظرنامے سے بخوبی جڑی ہوئی ہے، اسے 2018ء کے عام انتخابات کے دوران 20 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت ناکام ہوتی ہے تو مذہبی جماعتیں مزید طاقت حاصل کرلیں گی۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں سے اسٹیبلشمنٹ کسی ایسے شفاف سیاسی نظم کے تصور کو فروغ دے رہی ہے جو کسی پاکباز فرد کی سربراہی میں چلے گا۔ اس تصور نے تعلیمی اداروں سے لے کر بلدیاتی ڈھانچوں تک کی سیاسی نرسریوں کی سرگرمیوں کو غیرفعال کرکے ملک کے سیاسی منظرنامے کو زک پہنچائی ہے۔

پچھلے عام انتخابات میں ’تیسری جماعت‘ کے نعرے نے جیسے تیسے اپنا کام کیا، لیکن ریاستی امور میں ابھی تک کوئی بنیادی تبدیلی دیکھنے کو نہیں آئی، حکومت چیلنجز سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے اور گورننس و معیشت کے شعبوں میں کوئی اساسی اصلاحات بھی متعارف نہیں کراسکی۔ تحریک انصاف کی حکومت اگر کچھ بہتری دکھانے میں ناکام ہوتی ہے تو اس سے متوسط اور پسماندہ طبقات میں موجود مایوسی کے اندر اضافہ ہوگا جس کا فائدہ مذہبی سیاسی جماعتیں اٹھائیں گی۔

تحریک انصاف کی حکومت اگر کچھ بہتری دکھانے میں ناکام ہوتی ہے تو اس سے متوسط اور پسماندہ طبقات میں موجود مایوسی کے اندر اضافہ ہوگا جس کا فائدہ مذہبی سیاسی جماعتیں اٹھائیں گی

عام آدمی کے لیے ریاست مدینہ ایک انصاف پسند معاشرے پر مبنی مثالی فلاحی ریاست کا نمونہ ہے۔ مذہبی جماعتوں سے زیادہ اس تصور کا فائدہ کون اٹھا سکتا ہے؟ اور اگر معاملات اس نہج تک پہنچتے ہیں کہ جہاں کوئی اور راستہ باقی نہیں بچتا تو ایسی صورتحال میں اسٹیبلشمنٹ کو مذہبی جماعتوں کے ساتھ اقتدار کی تقسیم میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔ آخرکار تمام مذہبی گروہ مختلف سظح پر اور مختلف مقاصد کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے شراکت دار رہے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کے خیال میں مذہب ہی وہ واحد عنصر ہے جس کے ذریعے قوم کو جوڑا جاسکتا ہے، اگرچہ وہ ریاست کاری کے متعلق اپنے خیالات کا مذہبی جماعتوں سے اظہار نہیں کرتی۔ اس کی اپنی وجوہات ہیں جن کی مختلف ماہرین نے مختلف طریقوں سے توجیہات کی ہیں۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں ہندوستانی تاریخ کے پروفیسر اور کتاب ’’مسلم صہیون: پاکستان بطور ایک سیاسی تصور‘‘ کے مصنف فیصل دیوجی نے اس رجحان کو ذات پات کے نظام کے آئینے میں بھی دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا ایک حالیہ مضمون اس پر روشنی ڈالتا ہے کہ بھارت اور پاکستان میں ذات پات کا نظام اب بھی طاقت کے ڈھانچے کی تشکیل کرتا ہے اور طاقت کی بساط پر اس کا ایک اہم کردار موجود ہے۔ بنیا (تاجر برادری) سخت گیر مذہبیت پر اپنی گرفت رکھتا ہے جس کا براہمن(مذہبی رہنما) کو دعوی ہے۔ طاقت کی حرکیات میں بنیے کا اتحاد چاہے کھشتریہ (سول اور ملٹری بیوروکریسی)، براہمن یا شودرا (مزدور طبقہ) کے ساتھ ہو، یہ بھکتی (یعنی سازگار مذہبی روایت) پر زیادہ توجہ مرکوز رکھتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مشرقی حصے کی علیحدگی کے ساتھ ہی پاکستان میں کھشتریہ شودرا طبقات کا اتحاد ایک حتمی حقیقت بن کر سامنے آیا۔ جبکہ مذہبی طبقے کی کم ہوتی حیثیت نے ان کے لیے یہ راہ کھولی کہ وہ مذہب کے نام پر اقتدار کا دعوی کرنے والے طبقات کے لیے نظریاتی دلال کی حیثیت سے ابھر سکیں۔ شاید وہ عنقریب سول ملٹری بیوروکریسی کے ساتھ اپنا اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ کوئی بھی فرد تصور کرسکتا ہے کہ ایسے ملک کی شکل کیسی ہوگی۔ دعا ہے کہ خوشحال اور ترقی پسند پاکستان کے لیے ملالہ کا خواب تعبیر افروز ہو۔

مترجم: شفیق منصور، بشکریہ: روزنامہ ڈان

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...