پاکستان میں آرکائیوز کا کلچر

477

ہم تاریخی ریکارڈ محفوظ کرنے والی سوسائٹی نہیں ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری اجتماعی یادداشت ضعف کا شکار ہے۔ تاریخی واقعات کی حقیقی دستاویزات کی عدم یا پھر ادھوری دستیابی کے باعث من گھڑت افسانے اب سچ لگتے ہیں۔ پاکستان میں ادارہ جاتی تاریخ لکھنے کا رجحان بھی بہت کمزور ہے، تاہم چند لوگوں کی آب بیتیاں مل جاتی ہیں جنہیں میں اکثر بعد از ریٹائرمنٹ ادھوری کہانی شمار کرتا ہوں۔

زندہ قوموں میں ہمیں ان کے قومی آرکائیوز ایک مضبوط ادارے کی شکل میں کام کرتے نظر آتے ہیں جو تاریخی دستاویزات کو محفوظ کرتے چلے جاتے ہیں جوکہ ایک مسلسل عمل ہے اور پھر مؤرخ انہی کی مدد سے اپنی قومی تاریخ کا مستند بیانیہ بناتے ہیں۔ پاکستان کی کہانی کیا ہے؟ یہ کہانی یقیناََ برصغیر کی تاریخ سے جڑی ہے اور ہمیں لوگوں کے ذاتی عملی ذخائر اور کتب خانوں کے علاوہ انگریزوں کے دور میں اِس مقصد کے لیے قائم کیے گئے ادارے ملتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت ہمیں دیگر وسائل کی طرح متحد انڈیا کے قومی آرکائیوز کا بہت کم حصہ ملا، حالانکہ پارٹیشن کونسل نے فیصلہ دیا تھا کہ پاکستان کی حکومت کو ان آرکائیوز کے معائنے اور اپنی دلچسپی کا ریکارڈ حاصل کرنے کا حق ہوگا۔ ستم ظریفی یہ رہی کہ اس حوالے سے بہت کم عملدرآمد ہوا۔

قیامِ پاکستان کے تین ماہ بعد کراچی میں پہلی پاکستان ہسٹری کانفرنس کا انعقاد 27 نومبر سے لے کر یکم دسمبر 1947ء تک کو ہوا اور کانفرنس کے صدر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے تاریخی ریکارڈ اور آرکائیوز کمیشن کی قرارداد پیش کی جوکہ منظور بھی ہوئی۔ بعدازاں نومبر 1951ء میں اِس کمیشن کے علاوہ ڈائریکٹوریٹ آف لائبریریز اینڈ آرکائیوز کا قیام بھی عمل میں آیا۔ یہاں یہ تذکرہ بھی بے جا نہ ہوگا کہ اُس وقت صوبائی سطح پر پنجاب اور اور خیبرپختونخوا(اُس وقت کے صوبہ سرحد) میں بالترتیب 1923ء اور 1946ء سے آرکائیوز کے ڈیپارٹمنٹ موجود تھے، جبکہ سندھ اور بلوچستان میں ایسے ڈیپارٹمنٹ 1976ء میں قائم ہوئے۔ برطانوی راج میں تو ضلعی سطح پر ’’ڈسٹرکٹ گزٹ‘‘ کی بھی روایت تھی۔ برسوں کی بے عملی کے بعد ہم نے 1975ء میں آرکائیول میٹریل کے تحفظ اور ایکسپورٹ کنٹرول کا ایکٹ بنایا ۔ اِسی سال تاریخی نوادرات کے تحفظ کا قانون بھی بنا۔ 1974ء میں کابینہ ڈویژن میں ’’قومی دستاویزات مرکز‘‘ کا قیام بھی ہوا۔ تاہم قومی اور تاریخی اہمیت کے مواد کے تحفظ کے لیے قومی آرکائیوز ایکٹ 1993ء میں بنا۔ ان قوانین پر کتنا عمل ہوا؟اسلام آباد میں قائم نیشنل آرکائیوز کا دورہ کریں تو معلوم ہوگا کہ کم وسائل کی بدولت آج بھی یہ کام سرکار کی آخری سے بھی آخری ترجیح لگتی ہے۔

اگر ہم ریاست کے تینوں ستونوں کے آرکائیوز کلچر کا مختصراََ جائزہ لیں تو پارلیمنٹ کی کہانی دکھ بھری ہے

اگر نیشنل آرکائیوز ایکٹ 1993ء پر اس کی روح مطابق عمل ہوتا تو 20ویں صدی میں ہونے والے واقعات کی تمام دستاویزات اب تک ’’ڈی کلاسیفائی‘‘ ہوچکی ہوتیں، کیونکہ اِس قانون کی شق نمبر 8 اس کا حکم دیتی ہے۔ نیشنل آرکائیوز بورڈ موجود ہے یا نہیں اِس قانون کے مطابق ادارہ کی سالانہ رپورٹ حکومت کو دی جاتی ہے یا نہیں، یہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے مائندسیٹ کے تحت آج بھی سربستہ راز ہیں۔

اگر ہم ریاست کے تینوں ستونوں کے آرکائیوز کلچر کا مختصراََ جائزہ لیں تو پارلیمنٹ کی کہانی دکھ بھری ہے۔ اگرچہ پارلیمنٹ کے ایوان میں ہونے والی  کاروائی پارلیمانی مباحث کی کتابوں میں محفوظ ہے تاہم اُس رجسٹر کا سراغ کہیں بھی نہیں ملتا جس پر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے دستورساز اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سے دستخط کیے تھے۔ پارلیمنٹ آف پاکستان میں آج بھی پارلیمانی آرکائیوز کا کوئی باقاعدہ شعبہ نہیں۔ تاہم آج سینٹ آف پاکستان کا میوزیم اور گلیء دستور موجود ہیں جو تاریخ کی کہانی سناتے ہیں۔ اعلی عدلیہ نے سپریم کورٹ میں میوزیم قائم کیا جہاں عدالتی تاریخ کی دستاویزات اور نوادرات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ انتظامیہ کے حوالے سے قومی مرکز دستاویزات کابینہ ڈویژن میں قائم ہوئی ہے۔ حال ہی میں ایک باقاعدہ آرمی انسٹی ٹیوٹ آف ملٹری ہسٹری قائم کیا گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان، مسلح افواج اور دیگر اداروں کے میوزیم بھی قائم ہوچکے ہیں۔

اِس ساری صورتحال میں جس چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے وہ ایک مربوط قومی آرکائیوز کلچر ہے۔ نیز ریسرچ اور ریفرنس کے لیے ان تاریخی وسائل کی دستیابی ناممکن نہیں تو کٹھن ضرور ہے۔ ڈیجیٹل عہد میں تو یہ کام باآسانی آن لائن بھی ہوسکتے ہیں۔ تاہم مسئلہ تو یہ ہے کہ کیا ہم مستند تاریخ کا سامنا کرنے کو تیار ہیں؟ کیا ہم ماضی میں رونما ہونے والے واقعات کی دستاویزات پبلک کرنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا ہم ان کی روشنی میں ہونے والی تحقیق اور تدریس کو ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ شاید یہی سوال ہیں جن سے گھبرا کر ’’مستند آرکائیوز کلچر‘‘ کی طرف ہماری توجہ بہت کم ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...