پاکستان کو سیاسی اجتہاد کی ضرورت ہے

586

پاکستان کی منقسم سیاست ایسے دوراہے پر آن پہنچی ہے کہ کاروبارِ حکومت اور امورِ ریاست مخالفانہ بیان بازی، الزامات اور وضاحتوں سے بھری پریس کانفرنسوں ، جلسے جلوسوں، قصیدوں یا ہجو سے بھرے ٹاک شوز تک محدود نظر آتے ہیں۔ 23 کروڑ کا ملک تادیر اس ہمہ وقت سیاسی بخار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

وقت آگیا ہے پاکستان میں سیاسی اجتہاد کیا جائے اور ملک کے سیاسی کلچر کو عصرحاضر کی ضرورتوں کے مطابق ڈھالا جائے۔ ڈھیروں تاریخی واقعات، غلطیاں، ابن الوقتی کی توجیہات موجود ہیں اور قومی سفر فکری بارودی سرنگوں اور بے عملی کے سپیڈبریکر کے سامنے تھما ہوا نہیں تو سست روی کا شکار ضرور نظر آتا ہے۔ لہذا اب سوال یہ ہے کہ سیاسی زوال کے اس سفر کے سامنے فل سٹاپ کیسے لگایا جائے؟ کیا نیا عمرانی معاہدہ کیا جائے؟ عمرانی معاہدہ تو دستور ہے جسے قوم اور قیادت پڑھنا تو درکنار ہاتھ تک نہیں لگاتی۔ فقط سیاسی اور قانونی جادوگر اس کی من پسند توجیہ اور تشریح پر لگے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے دائروں کا سفر ہے کہ منزل کا احساس تک نہیں۔

کیا کوئی نیا عمرانی معاہدہ منقسم سیاست میں ممکن بھی ہے کہ نہیں، کیونکہ ہم سے تو آج اتفاقِ رائے سے ایک اچھا لوکل گورنمنٹ کا نظام تک نہیں بن پارہا۔ سیاسی نفرتوں کے موسم میں تیزابی لہجے قوم کو کوئی دانشمندانہ راستہ نہیں بتا سکتے۔ لہذا اسی آئین کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا اور اپنا فوکس اس کے عمومی مفاد، خصوصاََ بنیادی حقوق، معاشی وسماجی انصاف کے بارے میں شقوں پر کرنا ہوگا۔ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے مابین اختیارات کی جمہوری تقسیم کو یقینی بنانا ہوگا۔ ابھی تک ہم قومی ہاڈویئر کو آئینی سافٹ ویئر سے انصاف اور دانش کے ساتھ نہیں چلا پائے بلکہ ایک عجیب قسم کے شوق تھانیداری اور ذوقِ ٹھیکیداری کے مرض میں مبتلا ہیں۔ اب تو یہ بیماری اتنی وبائی ہوچکی ہے کہ ہر چیز کی چولیں ہل رہی ہیں۔

باوجود تمام تر کمزوریوں کے سیاسی جماعتیں ہی قوم کو خواب دکھاتی ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے کہ آچ سیاسی مخالفت ذاتیات کے بیانہ تک محدود ہوچکی ہے

کیا یہ سیاسی اجتہاد اہل سیاست کریں گے؟ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی صورتحال خاصی ابتر ہے۔ انہیں ملک کے سیاسی سٹاک ایکسچینج میں درج ذاتی اور خاندانی کمپنیاں کہا جا رہا ہے جن کا زیادہ تر کام اپنے اپنے قائدین کے مقدمات اور پاک بازی کا دفاع کرنا ہے۔ کمزور جمہوریت کے ناتواں سیاسی کلچر میں سیاسی جماعتیں اس سے بڑھ کر کر بھی کیا سکتی ہیں؟ باوجود تمام تر کمزوریوں کے سیاسی جماعتیں ہی قوم کو خواب دکھاتی ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے کہ آچ سیاسی مخالفت ذاتیات کے بیانہ تک محدود ہوچکی ہے۔ صورتحال جو بھی ہو آخر کار سیاست میں دشمنی دائمی نہیں ہوتی۔ آج کے حریف کل کے حلیف بنتے رہتے ہیں اور آج کے حلیفوں کو بھی کل حریف بننے سے نہیں روکا جاسکتا۔ لہذا کسی کو تو نفرتوں کا یہ حصار توڑنا ہوگا اور ایک وسیع تر سیاسی اتفاقِ رائے کی طرف بڑھنا ہوگا۔ آج اس حوالے مکمل خاموشی ہے۔ شاید کل کوئی دانشمند اس سناٹے میں کوئی عقل کی آواز بلند کرنے میں کامیاب ہوجائے۔

ویسے تو پاکستان میں اداروں کے مابین بامقصد ڈائیلاگ کی بھی بات ہوتی رہتی ہے کہ جمود کا شکار ہوتے نظام کو دلدل سے نکلا جائے لیکن اس بابت بھی پہل کون کرے۔ نیز آئین کی چھتری تلے اس کا کوئی میکنزم بھی موجود نہیں۔ نتیجتاََ ادارے ایک دوسرے سے بات کرنے کی بجائے اکثر ایک دوسرے پر بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

بند راہوں، بند کھڑکیوں اور بند دروازوں کی اس بستی میں آگے کیسے بڑھا جائے۔ علامہ اقبال نے اپنی کتاب اسلامی فکر کی تشکیل جدید میں پارلیمان کو آنے والے وقت میں اجتہاد کا پلیٹ فارم قرار دیا تھا۔ کیا آج پارلیمنٹ اپنا یہ کردار ادا سکتی ہے؟ اگر بے وقعت ہوئی آج کی پارلیمان کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ وہاں فقط سیاسی کشیدگی کا دور دورا ہے۔ لیکن آخر کار یہی پلیٹ فارم ہے سیاسی اجتہاد کا، یہیں سے نیا سیاسی کلچر ابھرے گا، یہیں جمہوری روایات مضبوط اور مستحکم ہوں گی۔ ہمیں اِدھر اُدھر بھٹکنے کی بجائے اس بات کا جلدازجلد احساس وادراک کرلینا چاہیے اور پارلیمنٹ کو سیاست کا مرکز اور قومی امیدوں کا محور بنا لینا چاہیے، کہیں دیر نہ ہوجائے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...