پاک ترک تعلقات کا نیا مرحلہ
اپریل 2017ء میں انتخابی مہم کے دوران ترکی کی حاکم جماعت ’جسٹس اینڈ ڈویلپٹمنٹ پارٹی‘ نے ملک کے ٹی وی چینلز پر ایک اشتہار دیا جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ اردغان کی سربراہی میں ترکی نے مسلم دنیا میں بے حد مقبولیت اور پذیرائی حاصل کی ہے۔ اشتہار میں ترکی کے ایک جوڑے کو دکھایا گیا تھا جو پاکستان کے اندر ایک ہوٹل میں کچھ کھاتا ہے، اس کے بعد ویٹر کھانے کا بل لے کر آتا ہے جس کے پیسے ادا کردیے گئے ہوتے ہیں۔ جوڑا حیرانی سے ویٹر کی جانب دیکھاتا ہے تو ویٹر کہتا ہے کہ ’’آپ لوگوں کا بل اردغان نے چکا دیا ہے‘‘۔
پاکستان اور ترکی کے تعلقات پاکستان بننے کے وقت سے ہی بہت اچھے اور دوستانہ رہے ہیں۔ مشکل وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ روابط زیادہ تر سیاسی اور اقتصادی نوعیت کے رہے ہیں۔ تاہم صدر اردغان کے دورحکومت بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات میں پہلے سے زیادہ قربت دیکھنے کو آئی ہے۔ اردغان اب تک ترکی کے سربراہ کے طور پہ پاکستان میں 9 دورے کرچکے ہیں اور 3 بار پاکستان کی پارلیمنٹ میں خطاب بھی کرچکے ہیں، پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ایسا کسی اور غیرملکی سیاسی سربراہ کے لیے نہیں ہوا۔ پاک ترک تجارتی تعلقات اس وقت اپنے عروج پر ہیں۔ 2008ء میں ترک برآمدات کا حجم 130 ملین ڈالر کے لگ بھگ تھا جو 2019ء تک 600 ملین ڈالر تک پہنچ گیا۔ جبکہ دونوں ملکوں کا باہمی اقتصادی حجم 800 ملین ڈالر تھا۔ اس وقت ترکی چین کے بعد دوسرا ایسا ملک ہے جس سے پاکستان سب سے زیادہ اسلحہ خرید رہا ہے۔ پچھلے ہفتے ترکی کے وزیرخارجہ نے کراچی میں اپنے ملک کے نئے سفارت خانے کا افتتاح کیا جو فی الحال ترکی کا دنیا میں سب سے بڑا فعال سفارت خانہ ہے۔
مزیدبرآؒں دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی تعلقات کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوا ہے۔ ترک ڈرامے پہلے بھی ترجمے کے ساتھ پاکستان میں دکھائے جارہے تھے۔ مگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اس سلسلے کو سرکاری سطح پر دونوں ممالک کے مابین ثقافتی تعلقات کے نئے مرحلے کی صورت پیش کیا ہے۔ وزیراعظم نے پہلے دو ترک تاریخی ڈراموں کی تشہیر کی جو سرکاری ٹی وی پر دکھائے بھی جارے ہیں، اور اب باقاعدہ وزیراعظم ہی کی سربراہی میں ایک نیا تاریخی ڈرامہ بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جو تحریک خلافت کے دوران اِس خطے کی ترک سلطنت میں رہی دلچسپی اور کردار کو ظاہر کرے گا۔
ترکی کو مغربی ممالک سے تنقید اور تنہائی کا سامنا ہے اور مشرق وسطی میں بھی اس کا کردار سخت متنازعہ ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے جس طرح ترکی ایک اہم ملک ہے اسی طرح ترکی کے لیے پاکستان جیسے بڑی آبادی والے اور ایٹمی طاقت کے حامل ملک کی شکل میں وقیع اقتصادی منڈی اور سیاسی حلیف موجود ہے ہے
پاک ترک تعلقات میں پختگی خوش آئند ہے۔ ترکی نے کشمیر کے معاملے پر کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا۔ ایف اے ٹی کے معاملے میں بھی ساتھ کھڑا ہوا۔ پچھلے ہفتے ترکی، آذربائیجان اور پاکستانی وزارء خارجہ کا ’اعلان اسلام آباد‘ بھی اس تعلق کی ایک پیش رفت ہے جو پاکستان کے لیے بہتر مواقع لاسکتا ہے۔ ترکی افغان حکومت اور سماج میں پسندیدہ ترین ملک ہے، یہ پاکستان کے لیے مفید ثابت ہوگا۔ اعلان اسلام آباد میں افغانستان کی امن کے لیے کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے اسے سراہا گیا، ممکنہ طور پہ مستقبل میں اس نئے اتحاد میں افغانستان بھی شامل ہوسکتا ہے۔
ماہرین پاک ترک روابط کے اس نئے سلسلے کو خطے میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں اور ابھرنے والے مختلف نئے اتحاد کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق بالخصوص پاکستان کے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات متأثر ہوئے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان بھی نئی صف بندیوں میں اپنی جگہ کے تعین کی سعی میں ہے۔ کشمیر کے معاملے پر بااثر خلیجی ریاستوں کی سردمہری پر پاکستان نے تنقید کی جس کے بعد حالات مزید بے اعتمادی کا شکار ہوئے۔ پاکستان نے یہ ظاہر کیا کہ اگر اس کے اہم ترین مسئلے پر خلیجی ریاستیں اس کا ساتھ نہیں دیتیں تو وہ متبادل راستے دیکھے گا۔ مگر اپنے معاملات میں 2015ء کے یمن مسئلے کے بعد سے یہی تأثر خلیجی ریاستوں کا بھی ہے کہ ان کے لیے پاکستان کے ساتھ تعلق وتعاون دفاعی نوعیت کا ہے، اگر پاکستان ان معاملات میں ان کے لیے سودمند نہیں ہے تو تعلقات کا کیا فائدہ؟ خلیجی ممالک میں پاکستان کے بارے رائے عامہ یہی بن گی ہے کہ پاکستان نے انہیں اچھا صلہ نہیں دیا۔ جب وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے او آئی سی سے نارضی کا اظہار کیا تو انڈیپنڈنٹ عریبک کے ایڈیٹر انچیف عضوان الحمری نے لکھا کہ پاکستانی میڈیا کا طرزعمل سمجھ سے بالاتر ہے، ان سے پوچھا جائے کہ یمن مسئلے میں آپ نے ہمیں کیا جواب دیا تھا۔ سعودی دفاعی تججزیہ کار اور سابق فوجی افسر اسماعیل خوجہ نے یہاں تک کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام اور بہترین میزائل بنانے میں پاکستان نے اس کی مدد کی ہے جن سے آج ایران ہمیں دھمکاتا ہے۔
صدر اردغان کا ترکی نئے مسلم بلاک کے سربراہ کے طور پہ خود کو پیش کرتا ہے۔ پاکستان کا ترکی کے ساتھ نمایاں طور پہ کھڑا ہونا اسے مسلم ممالک میں مزید مضبوط بنائے گا۔ وزیراعظم عمران خان بھی ’امت مسلمہ‘ کا بہت ذکر کرتے ہیں اور اس کے حقوق کے لیے باتیں کرتے ہیں۔ صدراردغان کے بڑے پلیٹ فارم سے انہیں بھی ’مسلم امت کا درد رکھنے والا رہنما‘ بن کر پیش کرنا زیادہ آسان ہوگیا ہے
سعودی عرب اور پاکستان کے مابین تعلقات مکمل طور پہ ختم نہیں ہوسکتے، اس کے لیے دونوں کے اپنے اپنے تقاضے اور ضرورتیں ہیں۔ تاہم جس باہمی توازن میں اب فرق آیا ہے یہ اس طرح بحال ہونا بظاہر مشکل ہے۔ خلیج میں بھارت کے اثرورسوخ میں وقت کے ساتھ مزید اضافہ ہوگا۔ گزشتہ ماہ بھارتی آرمی چیف کا سعودی عرب اور امارات کا دورہ اس کا واضح اشارہ ہے۔ اس کے علاوہ عمان نے بھی ایک معاہدے میں بھارت کو دقم کی سمندری گزرگاہ اور اس کے پانیوں کو استعمال کرنے کی اجازت دی ہے، جو بحرہند اور بحیرہ عرب کو لگتی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ مصالحت ایک اور پیش رفت ہے۔ سعودی عرب نے مشرق وسطی کی نئی صف بندیوں کے تناظر اور ترجیحات کے مطابق اپنے تعلیمی نصاب میں بھی تبدیلیاں لائی ہیں۔ نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق دیگر مذاہب کے خلاف منفی جذبات ابھارنے والے مواد کو مکمل طور پہ حذف کیا جارہا ہے اور غیرمسلم معاشروں کے ساتھ ہم آہنگی پر مواد شامل کیا جائے گا۔
خطے میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں میں پاکستان کے پاس بلاشبہ مواقع موجود ہیں۔ اگر ترکی کے ساتھ تعلقات میں قربت کا مطلب ترکی بلاک کا حصہ بننا ہو تو اس میں پاکستان کے مفادات کے حساب سے کوئی مانع موجود نہیں ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ پاکستان کے بذات خود ترکی کی حد تک تعلقات بنیادی طور پر سیاسی و تجارتی نوعیت کے اور غیرآئیڈیالوجیکل ہونے چاہئیں۔ ترکی کے لیے پاکستان اس وقت انتہائی اہم ملک ہے۔ اسے مغربی ممالک سے تنقید اور تنہائی کا سامنا ہے اور مشرق وسطی میں بھی اس کا کردار سخت متنازعہ ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے جس طرح ترکی ایک اہم ملک ہے اسی طرح ترکی کے لیے پاکستان جیسے بڑی آبادی والے اور ایٹمی طاقت کے حامل ملک کی شکل میں وقیع اقتصادی منڈی اور سیاسی حلیف موجود ہے ہے۔
صدر اردغان کی اپنے داخلی اقتصادی اور خارجہ مسائل کی وجہ سے ملک کے اندر عوامی مقبولیت میں کمی آرہی ہے۔ ان پر یہ اعتراض ہے کہ وہ ملک کے اندر توجہ دینے کی بجائے باہر پاؤں پھیلانے میں مصرف ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں خارجہ سطح پر ان کے نمایاں اقدامات یہ ہیں: شام میں تین بڑے آپریش کیے۔ لیبیا کی خانہ جنگی میں فریق ہیں اور وہاں لڑاکے بھیج رکھے ہیں۔ مشرقی بحیرہ روم میں فوجیں اتاری ہوئی ہیں۔ شمالی عراق میں کردستانی عسکری تنظیموں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ اس کے علاوہ ترکی کی قطر، افغانستان، صومالیہ اور بلقان میں فوجیں موجود ہیں۔
اگر پاکستان کی ترکی کے ساتھ موجودہ قربت اساسی حیثیت میں کشمیر اور بھارت مسئلے پر احسان مندی کی وجہ سے ہے جس کا ادراک صدر اردغان کو بخوبی ہے، تو کیا بدلے میں ترکی کے اسی نوع کے متنازعہ خارجی مسائل میں اس کے ساتھ نہیں کھڑا ہونا پڑے گا؟
صدر اردغان کا ترکی نئے مسلم بلاک کے سربراہ کے طور پہ خود کو پیش کرتا ہے۔ پاکستان کا ترکی کے ساتھ نمایاں طور پہ کھڑا ہونا اسے مسلم ممالک میں مزید مضبوط بنائے گا۔ وزیراعظم عمران خان بھی ’امت مسلمہ‘ کا بہت ذکر کرتے ہیں اور اس کے حقوق کے لیے باتیں کرتے ہیں۔ صدراردغان کے بڑے پلیٹ فارم سے انہیں بھی ’مسلم امت کا درد رکھنے والا رہنما‘ بن کر پیش کرنا زیادہ آسان ہوگیا ہے۔
نیا مسلم بلاک تشکیل دینا یا مسلم ممالک کا مشترکہ تعاون اچھا قدم ہے جس پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کن بنیادوں پر خود کو آگے لے کر جارہا ہے۔ کشمیر مسئلے پر ترکی کا ساتھ خوش آئند ہے اور پاکستان اس کے لیے صدر اردغان کا احسان مند ہے جس کا احساس صدراردغان کو بخوبی ہے۔ مگر کیا نئے بلاک کا حصہ بننا صرف کشمیر حمایت کی قیمت پر اور بھارت کو محور بنا کر ہے؟ اگر پاکستان کی ترکی کے ساتھ قربت اساسی حیثیت میں صرف کشمیر اور بھارت مسئلے پر احسان مندی کی وجہ سے ہے تو بدلے میں ترکی کے اسی نوع کے خارجی مسائل میں بھی اس کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا۔ اگر نئے خارجہ اتحاد میں بھی پہلے کی طرح بھارت اور کشمیر محور ہیں، یا اس میں بھی آئیڈیالوجیکل تناظر کا پلڑا زیادہ بھاری رہتا ہے تو اس کا پاکستان کو کیا فائدہ ہوگا؟ پاکستان مشرق وسطی میں خود کو غیرجانبدار رکھنے کا دعوی کرتا آیا ہے۔ مگر حال ہی میں اس نے شام میں ترک مداخلت کی حمایت کی ہے۔ کیا وہ ترکی کے دیگر خارجہ متنازعہ معاملات پر بھی اس کے ساتھ کھڑا ہوگا؟
پاکستان کو اپنی ذات اور اپنی شناخت کی تلاش کی ضرورت ہے اور یہی چیز اسے ایک طاقتور اور باوقار مقام عطا کرے گی۔ ہمارے اپنے سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل اہم ہیں جنہیں حقیقیت پسندی کی نظر کے ساتھ دیکھنے اور سلجھانے کی ضرورت ہے اور انہیں تریجح ملنی چاہیئں۔ دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات میں بھی اپنے مفادات اور مسائل کو مدنظر رکھنے کی زیادہ حاجت ہے۔ نئے نئے بیانیے اور نئی نئی ثقافتی شناختیں ہمارے وجود کو مضمحل کر رہے ہیں۔ ہم ایک تھکی ہاری اور کئی بحرانوں کا شکار قوم مزید کتنا آئیڈیالوجیز کے سراب کو سچ مان کر خود کو ہلکان کریں گے۔
فیس بک پر تبصرے