جب خوف کو اخلاقیات کی بنیاد سمجھ لیا جائے
علم نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ ایک بچہ جب پرورش کے ابتدائی مراحل میں ہوتا ہے تو اس دوران دو طرح کے احساسات اس کی ذات میں نمایاں ہوتے ہیں اور انہی کی بنیاد پر اس کی ذہنی تشکیل ہو رہی ہوتی ہے۔ ایک تحفظ اور امن کا احساس ہوتا ہے، اور دسرا نامعلوم خوف کا احساس، یہ نامعلوم خوف اس کی ذات میں مبہم شکل کی صورت میں اور خفیف سا ہوتا ہے جو ابتداءََ منفی نہیں ہے، مگر وقت کے ساتھ اور ماحول کے اعتبار سے اس کی خارجی شکلیں متعین ہوتی جاتی ہیں جس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گویا بچے کی ذات کی تشکیل میں دو احساسات کا اہم کردار ہوتا ہے۔ تحفظ کا احساس اور خوف کا احساس۔
یہ دونوں احساس ایک دوسرے کے متضاد ہیں، ان میں سے ایک کا غلبہ دوسرے احساس کو کم کردیتا ہے۔ خاندان اور ماحول کی نوعیت کے اعتبار سے یہ طے ہوتا ہے کہ بچے کی ذات میں کونسا احساس زیادہ پختہ ہوتا ہے اور وہی اس کی ذہنی تشکیل میں کردار ادا کرتا ہے۔ ایک معتدل اور اچھی تربیت کا خاصہ یہ ہے کہ وہ بچے کے اندر زیادہ سے زیادہ تحفظ و امان کے احساس کو تقویت دے، اس مقصد کے لیے ضروری اہتمام اور وسائل کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ یہ اہتمام اور اس کے لیے ضروری وسائل کی فراہمی گھر کی چاردیواری میں، تعلیمی اداروں، مساجد و مدارس، معاشرے اور ریاستی سطح پر، ہر جگہ ممکن ہونی چاہیے۔ تاکہ بچے کا اپنی ذات، سماج اور ریاست کے ساتھ باہمی اعتماد کا اور پرامن تعلق تشکیل پاسکے۔
اور اگر ایسا نہ ہو اور بچے کو ہر سطح پر خوف کی متنوع خارجی شکلوں کا سامنا کرنا پڑے تو اس کا اپنی ذات، سماج اور ریاست کے ساتھ تعلق باہمی اعتماد کا اور پرامن تشکیل نہیں پاسکتا۔ بلکہ اگر اس کے ماحول کی مجموعی ذہنیت یہ ہو کہ ’خوف‘ اخلاقیات کی بنیاد ہے جس کے توسط سے خیر اور اچھائی ممکن بنتے ہیں تو ایسے ماحول میں نہ یہ تعلق صحت مند رہتا ہے بلکہ وقت کے ساتھ فرد کو بہت سارے حقوق اور بہت ساری اقدار سے دستبردار ہونا پڑتا ہے جن میں بنیادی انسانی اقدار بھی شامل ہوسکتی ہیں۔
جب نظام اور ماحول کے اندر مجموعی انسانی اخلاقیات کی بنا خوف کے عنصر پر استوار ہو تو فرد کی زندگی محض اپنی بقا کی کوشش اور عزت کے ساتھ روزی روٹی کی سعی میں گزرجاتی ہے، اس میں بہت کم ایسے مواقع ہوتے ہیں کہ جس میں فرد ایجاد، دریافت اور معنویت کی زندگی کے لیے جدوجہد کرسکے یا اس جدوجہد میں کامیاب ہوپائے
ایسے ماحول میں جہاں تحفظ اور امان کا احساس موجود نہ ہو وہاں ہر جگہ آزادی کا تصور ایک گناہ بنایا جاتا ہے۔ پھر اس سے آگے جب ایک ایسا نظام پختہ ہوجائے کہ جس میں آزادی کے اٹھائے قدم کامیابی سے ہمکنار ہونا مشکل ہوں تو دستبرداری اور خاموشی ایک روایت بن جاتی ہے۔ ایک ایسی مجبوری جو زندہ رہنے کی واحد ضمانت ہے۔ اجتماعیت اور طبقات کے سہارے لیے بغیر عزت کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہوتا ہے اور مستقبل بھی موہوم رہتا ہے۔ ہمارے ماحول میں خوف کو اخلاقیات کی بنا سمجھا جاتا ہے۔ بچے کو اس کا سامنا پہلے گھر کے اندر ہوتا ہے۔ پھر تعلیمی ادارے میں میں بھی اسی کا پرتو غالب ملتا ہے۔ مذہبی تصور بھی اس پر قائم ہے۔ سماج اور فرد کا تعلق بھی طاقت کی حیثیت طے کرتی ہے۔ ریاست مقدس ہے جو سب سے بالا نظر آتی ہے اور اپنے طریقے سے ڈراتی ہے۔
خوف نہ صرف یہ کہ اپنی ذات کے ساتھ تعلق کو غیرصحت مند بناتا ہے بلکہ اس کی وجہ سے دنیا کے ساتھ بھی باہمی اعتماد کا تعلق قائم نہیں ہوسکتا۔ ایک فرد اپنے ماحول میں بھی بیک وقت کئی اجتماعتیوں کے ساتھ منسلک ہوکر اپنے سے الگ کئی دیگر اجتماعتیوں کے خلاف گتھم گتھی ہوتا ہے اور اسی طرح وہ باہر کی دنیا میں بھی اپنی جگہ نہیں بنا سکتا کیونکہ دوسروں کے ساتھ رواداری اور بے خوفی کے عناصر کے بغیر ایک صحت مند تعلق بنانے کی اس میں صلاحیت نہیں ہوتی نہ اس کی تربیت ہوتی ہے۔
پھر جب خوف اور اس کے اثرات کے بارے میں سوچ ختم ہوجائے اور اسے بخوشی قبول کرلیا جاتا ہو تو ایسے میں بالادست کے ساتھ تعلق تسلیم ورضا اور تقدس کا بن جاتا ہے جس کے ہر حکم پر سرتسلیم خم کیا جاتا ہے اور اس کی ہر بات پر جان لڑائی جاسکتی ہے۔ ایک ایسے سماج کا تصور کتنا بھیانک ہوگا کہ جس میں ہر فرد بیک وقت کئی بالادست اجتماعتیوں کے اس طرح ماتحت ہو کہ وہ بغیر سوچے سمجھے ان کا ہر حکم بجالانے کو تیار ہو اور وہ اس کے لیے گناہ ثواب اور عزت ذلت کے معیار بن گئے ہوں۔ یہ متعصب اجتماعیتیں خاندانی، نسلی، سیاسی، مذہبی، فرقہ وارانہ، جغرافیائی اور سماجی نظریاتی سمیت کئی اور بھی ہوتی ہیں۔ ریاست بھی اپنے آپ میں سب سے بالادست اور خوف کی علامت ایک ادارہ ہے۔ پھر ہم میں سے ہر ایک انفرادی طور پہ بھی کسی نہ کسی کے لیے بالادست بنا ہے جو دوسرے کی آزادی سلب کرتا ہے اور اسے اپنے خوف میں دبا کے رکھنا چاہتا ہے۔جب نظام اور ماحول کے اندر مجموعی انسانی اخلاقیات کی بنا خوف کے عنصر پر استوار ہو تو فرد کی زندگی محض اپنی بقا کی کوشش اور عزت کے ساتھ روزی روٹی کی سعی میں گزرجاتی ہے، اس میں بہت کم ایسے مواقع ہوتے ہیں کہ جس میں فرد ایجاد، دریافت اور معنویت کی زندگی کے لیے جدوجہد کرسکے یا اس جدوجہد میں کامیاب ہوپائے۔
غیرمحسوس طریقے سے ہمارے خاندانی نظام کا مخصوص ڈھانچہ، تعلیمی ادارے، مذہبی طبقہ، ریاست اور ہر وہ شعبہ جو رائے عامہ ہموار کرتا ہے یہ سب مل کر فرد کو اپنی ذات، حقوق اور آزادی سے دستبردار ہونے پر مجبور کرنے میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں
ہمارے ماحول میں خوف علامتی تشدد کی صورت ہر لحظہ موجود ہوتا ہے۔ یہ خوف غیرمشروط محبت، اطاعت اور وفاداری کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس غیر مشروط تعلق کا مطلب سوائے اس کے اور کیا ہے کہ فرد اپنی سوچ اور ذات سے دستبردار ہوجائے۔ والدین بچے کو اطاعت نہ کرنے پر کسی چیز سے ڈراتے ہیں جو علامتی تشدد ہے، اساتذہ بھی مارپیٹ کے خطرے سے یا کسی اور شے سے ڈراتے ہیں، مذہبی اور مذہبی سیاسی خوف بھی اپنی کئی حیثیتوں میں علامتی تشدد کی حیثیت میں موجود ہے۔ سیاسی استبداد سب سے زیادہ علامتی تشدد کا استعمال کرتا ہے۔ یہ علامتی تشدد حقیقی صورت میں بھی آئے روز متشکل ہوتا رہتا ہے۔ غیرمحسوس طریقے سے ہمارے خاندانی نظام کا مخصوص ڈھانچہ، تعلیمی ادارے، مذہبی طبقہ، ریاست اور ہر وہ شعبہ جو رائے عامہ ہموار کرتا ہے یہ سب مل کر فرد کو اپنی ذات، حقوق اور آزادی سے دستبردار ہونے پر مجبور کرنے میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں۔
خوف کو اخلاقیات کی بنا نہیں بنانا چاہیے۔ یہ اپنے اثرات میں محض تشدد اور انتشار کو جنم دیتا ہے۔ یہ فرد کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی ذات کا اپنے ہاتھوں سے گلا گھونٹے۔ یہ سچ کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ صحت مند تعلقات بنانے میں حائل بنتا ہے۔ اور فرد کو منافق بنے رہنے پر مجبور کرتا ہے۔
فیس بک پر تبصرے