پاکستان کی مختلف اکائیوں کے ایک دوسرے کے بارے غلط فہمیوں پہ مبنی تاریخی تناظر

ڈاکٹر یعقوب بنگش

478

قومی ہم آہنگی محدود تصوارت کے خول میں پروان نہیں چڑھائی جاسکتی، اس کے لیے آزادانہ فکر کو راہ دینے اور ماضی و حال کی تاریخ کے حوالوں سے لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاریخ سماج کی شخصیت سازی میں ایک بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ اس کے بارے میں مکمل طور پہ من گھڑت تصورات کی تشکیل سماج کو کمزور اور کھوکھلا بنا دیتی ہے۔

جب پاکستان اور تاریخ کے موضوع پر بات ہوتی ہے تو اس میں عموماََ سب سے پہلے یہ تصور سامنے آتا ہے کہ اگر یہاں کے لوگوں اور طلبہ کو تاریخ کے حوالے سے حقیقی چیزیں بتائی اور پڑھائی جائیں گی تو اس سے ملک کی سالمیت کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں، حالانکہ یہ بات دست نہیں ہے۔ تاریخ کسی بھی معاشرے اور ملک کی سالمیت کے لیے کبھی خطرہ نہیں بنتی بلکہ اس کے برعکس اس کا درست اور حقیقی پہلو ہی سماج کو پراعتماد و طاقتور بناتا ہے۔ تاریخ کو اوجھل رکھنے کی کوشش تو کی جاسکتی ہے لیکن اس کا حقیقی پہلو چھپایا نہیں جاسکتا، اس لیے اگر لوگوں کو صحیح تاریخ کا علم ہوگا تو انہیں کبھی دھچکا نہیں لگے گا اور وہ ان غلطیوں سے سیکھیں گے جو ماضی میں دہرائی گئی تھیں۔ اس سے معاشرہ استحکام کی جانب بڑھے گا۔

قومی ہم آہنگی اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے کہ جب حقائق کو پس پردہ نہیں رکھا جائے گا اور شہریوں کو درست معلومات تک رسائی حاصل ہوگی۔ لوگ اس وقت ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جب وہ آزادی کے ساتھ ماضی اور حال کی تاریخ پر گفتگو کر سکتے ہوں۔ ہم سب اکائیوں کا تاریخ کے متعلق اپنا نقطہ نظر ہے، جس طرح ایک پنجابی پاکستان کی تاریخ کو دیکھتا ہے ایک بلوچ یا پٹھان اس طرح نہیں دیکھتا، لہذا جب تاریخ کے متعلق آزادانہ بات چیت کرنے اور اس میں مکالمہ کرنے کی آزادی نہیں ہوگی تو ملک کی متنوع اکائیاں ایک دوسرے کو سمجھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھیں گی، یایہ انہیں اس کا موقع ہی نہیں ملے گیا۔ لہذا قومی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے بھی تاریخ کی درست نشاندہی اور اس کے مختلف پہلووں کاآزادانہ جائزہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ہم سب اکائیوں کا تاریخ کے متعلق اپنا اپنا نقطہ نظر ہے، جس طرح ایک پنجابی پاکستان کی تاریخ کو دیکھتا ہے ایک بلوچ، سندھی یا پٹھان اس طرح نہیں دیکھتا۔ ہم سب نے ایک دوسرے کے متعلق خاص تاریخی Myth بنا رکھی ہے جس میں  مجموعی طور پہ بدگمانیوں کا عنصر ہوتا ہے

ملک کی مختلف اکائیاں ایک دوسرے کے ساتھ عوامی سطح پہ کئی طرح کی بدگمانیاں رکھتی ہیں، اس کی بڑی وجہ ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہ کرنا ہے، تاریخ کے بارے میں ایک دوسرے کے ساتھ مکالمہ نہ کرنا ہے۔

پاکستان میں حالت اس قدر دگرگوں ہے کہ ملک کی اعلی تعلیمی جامعات بھی ایک دوسرے کے ساتھ خاص ربط نہیں رکھتی ہیں۔ مثال کےطور پہ پنجاب یونیورسٹی کے کسی بھی ڈیپارٹمنٹ میں چلے جائیں وہاں طلبہ یہ تو فخر سے بتائیں گے کہ ہمارا یورپ کی فلاں یونیورسٹی کے ساتھ  تعلیمی ربط ہے یا اس یونیورسٹی کے ساتھ ایک مشترکہ پراجیکٹ چل رہا ہے ۔ لیکن اس یونیورسٹی کا بلوچستان یا پشاور یونیورسٹی کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہوگا۔ ایسے ہی پشاور، سندھ یا بلوچستان کی جامعات کا حال ہے۔ اگر ملک کے اعلی تعلیمی ادارے ایک دوسرے کے ساتھ باہم مربوط نہیں ہیں تو عام افراد ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح تعلق رکھتے ہوں گے، یا ان میں ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے کتنا تجسس پایا جاتا ہوگا۔

پاکستان میں قومی ہم آہنگی کے مقصد میں رکاوٹ بننے والے عوامل میں صرف سماجی تاریخ کی تروڑ مروڑ ہی شامل نہیں ہے بلکہ اس میں مذہبی تناظر کا محدود تصور بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ نہ صرف یہ کہ ہماری سماجی تاریخ اکائیوں کو متحد نہیں کرسکی بلکہ اس کے ساتھ مذہبی تاریخ کے مخصوص زاویے بھی لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کرتے ہیں۔ مسالک و فرقے ایک دوسرے کے متعلق خاص تاریخی Myth رکھتے ہیں جن میں مجموعی طور پہ بدگمانیوں کا عنصر کارفرما ہوتا ہے۔ خود کو صحیح اور دوسرے کو غلط پیش کیا جاتا ہے اور ان تصورات کو حتمی خیال کیا جاتا ہے جس پہ کوئی بات نہیں ہوسکتی۔

نوٹ: یہ مضمون پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے زیرانتظام اساتذہ کی تربیتی ورکشاپ میں دیے گئے ڈاکٹر یعقوب بنگش کے لیکچر سے ماخوذ ہے

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...