پاکستان کی سیاسی و سماجی تشکیلِ جدید کے لیے سوِک ایجوکیشن کی اہمیت

999

شہریت کی تعلیم کے ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ لوگ اپنے اندر وہ ضروری علم، معلومات، مہارتیں اور میلانات لے کر پیدا نہیں ہوتے جو انہیں اپنے سماج و ملک کے اندر ایک مفید شہری کا درجہ عطا کرتے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ شہری یہ سب کچھ خاندان کی تر بیت، اپنے سماجی مشاہدے، تجربات اور تعلیم و تر بیت کے مسلسل عمل سے سیکھتے ہیں۔ وہ اقدار جن کے ذریعے فرد میں ہم آہنگ سماجی روابط کا احساس جاگزیں ہو، معاشرے کے تنوع اور مختلف ثقافتوں کی پہچان ہوتی ہو، انسانی حقوق کا لحاظ ممکن ہوتا ہواور ایک پرامن معاشرہ تشکیل پاتا ہو، ان اقدار کی تعلیم و تربیت کو سوک ایجوکیشن کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

تہذیبی ارتقا ء کے لیے ضروری اس عنصر کا وجود پاکستان کے تعلیمی اداروں اور عام مقامات میں خال خال نظر آتا ہے۔ ستم ظریقی دیکھیے کہ عوام کی جانب سے ادا کر دہ فیسوں کے سہارے چلنے والے ریاستی ٹیلی وژن اور ریڈیوپاکستان پر بھی اس حوالے سے مکمل خاموشی ہے۔ پاکستا ن میں پرا ئیویٹ الیکرانک میڈیا کا پھیلاؤ ہوا تو پاکستا ن الیکٹرانک میڈ یار یگولیٹری اتھارٹی کی وضاحتی شقوں میں درج کیا گیا کہ یہ چینل اشہتاروں کے سہارے چلیں گے، ایسے میں عوامی حقوق کی آگہی پر کیا پیش کیا جاسکتا ہے اور اس کے لیے کیوں وقت دیا جائے گا۔

اول توسکول کے کمرہ جماعت میں ہر پا کستا نی نہیں پہنچ پاتاباوجود یکہ دستورِپاکستا ن کا آرٹیکل 25ء ہر شہری کو 5 سے 16 سال تک کی عمر میں لازمی اور مفت تعلیم کا بنیادی حق عطا کرتا ہے۔ جو خوش نصیب سکو ل پہنچ بھی جاتے ہیں انہیں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اس میں تعلیمی سو شیالوجی، آ ئین، پارلیمنٹ اور جمہوریت جیسے الفاظ سے اجنبیت ہوتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ نویں سے بارہویں جماعت تک سو کس (شہریت کی تعلیم) ایک اختیا ری مضمون کی صورت موجود ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس مضمون کے تحت شامل کتب میں زیادہ تر جمہوریت کی خامیاں اور آمریت کی خوبیاں پڑھائی جاتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ نوجوانوں کی ایک ایسی پود تیار ہو رہی ہے جو سیاسی حقوق اور شہریت کی اقدار سے نابلد ہے، جسے 18 سال کی عمر میں ووٹ کا حق تو مل جاتا ہے لیکن جہورت کیا ہے؟ آئین کیوں قوم کے لیے چھتری اور امور مملکت چلانے کا پہیہ ہوتا ہے؟ شہریوں اور ریاست کے مابین کیاعمرانی معاہدہ ہوتاہے؟ اس بارے میں نہایت ہی محدود فہم وادراک نظر آتا ہے۔ ماضی میں تعلیمی اداروں کے اندر اسٹوڈنٹ یونینز ہوا کر تی تھیں ان کی وساطت سے طلبہ وطالبات بات کرنے، دلیل دینے، مکالمہ کرنے اور مسائل کا حل تلاش کرنے کے گُر سیکھا کرتے تھے جو انہیں ایک مفید وفعال شہریت کی روح سے آراستہ کرتا تھا، یہ نظام بھی ختم کر دیا گیا۔

ہفت رنگی ایک انمول حقیقت ہے جس کے اعتراف کی کوئی قیمت نہیں تاہم اس کے انکار کی بھاری قیمت ہے جو اکثر ممالک سماجی ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں چکاتے ہیں

شہریت کی صحت مند اقدار سے روشناسی کا یہ راستہ چاردہائیوں سے بند ہے اور اس دوران ایک ایسی نسل پروان چڑھ چکی ہے جو سیاسی شعور نہیں رکھتی۔ انٹرنیٹ کے زمانہ میں ‘ڈیجیٹل شہری’ بن کر ہر کوئی باہمی سماجی روابط کے لیے محض موبائل فون پر ایک کلک کی دوری پہ ہے مگرسوشل میڈیا پر دلائل سے عاری بحشیں نفرت کے پیرائے میں ہوتی نظرآتی ہیں۔ یہ سب کچھ اسلامی جمہوریہ اور وفاقی ملک کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔

یہ درست ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم ایک حد تک اپنے شعبے کے قابل افسر ان، فوجی اور ڈاکٹر و انجینئر تو پیدا کر رہا ہے تاہم اس کی ناکامی یہ ہے کہ وہ اچھے اور مفید شہری بنانے میں ناکام ہو رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جمہوری روایات معدوم ہیں اور معاشرے میں تشدد و ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کے مظاہر جا بجانظر آ تے ہیں۔ نفرتوں کی یہ فضا بربادی کا نوشتہ دیوار ہے۔

شہری و جمہوری اقدار کے پنپنے کی راہ میں معاشرے کی نفسیات میں پختہ ہوچکے فکری مغالطے بھی ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ کسی یکساں شناخت کی جستجو میں سر گرداں سماج کو یہ نہیں پڑھایا اور بتایا جاتا کہ فرد کی بیک وقت ایک سے زیادہ شناختیں بھی ہوسکتی ہیں اور یہ باہم مل کر ایک قوم تشکیل دے سکتی ہیں۔ سماجی علوم کے ماہر بینڈکٹ اینڈرسن نے اپنی کتاب ‘تصوراتی کمیونٹی’ میں لکھا کہ قوم کا ہر فرد دوسرے فرد سے نہیں ملتا تاہم ایک جغرافیے کی حدود میں ایک مشترکہ عمرانی معاہدہ کے تحت رہنے والوں کے خواب، خواہشیں، خوشیاں، مذاہب، کھانے، موسیقی، رقص اور منزلیں مشترکہ ہوسکتی ہیں، جو ان میں قومی ربط کا احساس پیدا کرتی ہیں۔ اسی طرح سماجی شناخت کے حوالے سے کام کرنے والے ماہرین بھی کہتے ہیں کہ ‘فرد دنیا کی سب سے چھوٹی اقلیت ہے’، کیونکہ ہر فرد دوسرے سے مختلف ہے۔ خالق کے لیے یہ ممکن تھا کہ تمام انسانوں کو یکساں یعنی رنگت، ذہانت، مہارت وغیرہ میں ایک جیسا تخلیق کرتا، چونکہ ایسا نہیں ہوا، تو کہا جاسکتا ہے کہ تنوع اور رنگارنگی قدرت کی دین اور اس کا اصول ہے جس کی قدر کی جانی چاہیے۔

پاکستان میں اس حوالے سے مباحث الجھے ہوئے ہیں یادانستہ طور پہ الجھادیے گئے ہیں۔ شناختوں کے تنوع کے تناظر میں یہ خطہ نہایت زرخیر ہے، لوگوں کی مختلف علاقائی پہچانیں ہیں۔ اس کے ساتھ ایک شناخت ‘یک رنگ پاکستانیت’ کی ہے جو سب کو باہم مربوط بھی بناتی ہے۔ا سی لیے پاکستان کو ‘وہ مقام جہاں نسلیں باہم مخلوط ہوں’ قرار دیا گیا ہے۔ امریکہ کے اندر بھی مختلف نسلی و ثقافتی پہچانوں کو مختلف سطح پر ایک دوسرے میں ضم کرکے ایک قوم بنانے کی بات ہوتی ہے، لیکن اس کے ساتھ وہاں ایشیائی امریکی، یورپی، امریکی اور لاطینی امریکی جیسی شناختوں کے نام بھی سننے کو ملتے ہیں۔ ایک ہی نوع کی قوم کے مقابل جو تصور ہے وہ متنوع شناخت کا ہے یعنی سلاد کی پلیٹ کی طرح جس کا ہر جزو نمایاں بھی رہتا ہے اور باہم مل کر ایک نئی شناخت بھی بنالیتا ہے۔

سندھ اور پنجاب کی ہائی کورٹس مفادعامہ کی پٹیشننر میں متعلقہ ٹیکسٹ بک بورڈز کو بنیادی حقوق کے باب کو نصاب کا باقاعدہ حصہ بنانے کا فیصلہ دے چکی ہیں۔ تاہم اس حوالے سے اہم ترین پیش رفت 2018ء میں ‘قو می کمیشن برائے شہری تعلیم ایکٹ’ کی منظوری کی صورت میں ہوئی۔ اس ایکٹ پر عمل درآمدوقت کی ضررت ہے۔ چونکہ اس ایکٹ کا اطلاق فقط اسلام آباد تک ہوتا ہے لہذا یہ اہم ہے کہ تمام صوبے بھی اپنا اپنا سوک ایجوکیشن ایکٹ منظور کریں اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں

پاکستان میں شناخت کے حوالے سے مسلم اُمت کا تصور بھی عرصہ درازے سے زیر گفتگو ہے۔ عالمگیریت کے عہد میں دنیا میں گلوبل شہریت کے تصور کے فروغ کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔ لیکن ہفت رنگی ایک انمول حقیقت ہے جس کے اعتراف کی کوئی قیمت نہیں تاہم اس کے انکار کی بھاری قیمت ہے جو اکثر ممالک سماجی ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں چکاتے ہیں۔
پاکستان میں تو یہ مسئلہ بھی ہے کہ مدرسہ، پبلک اسکول، پرائیویٹ اسکول، اشرافیہ کے تعلیمی اداروں کے مابین کوئی مشترکہ وژن تو درکنار، ہر ایک کا ماحول اور سوشیالوجی بھی مختلف ہے۔ ایک قوم میں کئی قومیں نظر آتی ہیں جوایک دوسرے کو سمجھنے کی بجائے،ایک دوسرے سے نفرت کرتی ہیں اور سب کے غصے کے اظہار کا اپنا اپنا طریقہ ہے۔ حالات اور دوسرے کے حوالے سے اس ناقص تفہیم کے بحران میں سوک ایجوکیشن کی اہمیت مزیدبڑھ جاتی ہے۔

ہمیں بانیان پاکستان کے عطا کردہ وفاقی پا رلیمانی جمہوری نظم پر اتفاق رائے کرتے ہوئے اور اس کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ملک میں آئین و جمہوریت کی تعلیم کو فروغ دینا ہوگا۔ اس ضمن میں آ ئین پڑھانا، قانون کے بارے میں آگہی دینا، مختلف اداروں کے کر دار اور ذمہ داریوں کے بارے میں معلو مات کا رسوخ، میڈیا کے اخلاقی ضابطہ کار کی آگاہی اور اُن دیگر مہارتوں پر توجہ اہم ہے جو ہجوم کو ایک قوم بنادے۔ یہاں یہ تذکرہ بے جا نہیں ہو گا کہ قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان بننے کے بعد نوجوانو ں کو لبرل فلا سفر جان مارے کی کتاب ‘سمجھوتہ’ پڑھنے کا مشورہ دیا تھا۔ یہ کتاب سماجی وسیاسی رویوں میں لچک کے موضوع پر بات کرتی ہے اور باہم مکالمے کے ذریعے تنازعات کو حل کرنے اور جمہوری سمجھوتہ کرنے کا ہنر سکیھنے کی جانب راغب کرتی ہے۔

اگر ہمیں جمہوری مستقبل عزیز ہے اوربیک وقت متنوع مگر متحد قوم کی تشکیل کرنی ہے تواس کے لیے ضروری ہے کہ سوک ایجوکیشن کو نصاب، کتاب اور تعلیمی سو شیالوجی کا لازمی حصہ بنایا جائے۔ اس ضمن میں ماضی میں اگرچہ کچھ کاوشیں ہوئی ہیں تاہم ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ 2009ء کی قومی تعلیمی پالیسی میں ‘سوک ایجوکیشن’ کا لفظ استعمال کیا گیا اور تعلیمی مقاصد کے کے عنوان کے تحت بنیادی حقوق، جمہوری اداروں اور آئین کے بارے میں آگہی کی اہمیت کوواضح کیا گیا تھا۔ اسی طرح 17ویں اسپیکرز کا نفرنس کے اعلامیہ میں سوک ایجوکیشن کی اہمیت پر بات کی گئی جس میں آئین اور پارلیمنٹ کے موضوعات کو نصاب کا حصہ بنا نے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ سندھ اور پنجاب کی ہائی کورٹس مفادعامہ کی پٹیشننر میں متعلقہ ٹیکسٹ بک بورڈز کو بنیادی حقوق کے باب کو نصاب کا باقاعدہ حصہ بنانے کا فیصلہ دے چکی ہیں۔ تاہم اس حوالے سے اہم ترین پیش رفت 2018ء میں ‘قو می کمیشن برائے شہری تعلیم ایکٹ’ کی منظوری کی صورت میں ہوئی۔ اس ایکٹ پر عمل درآمدوقت کی ضررت ہے۔ چونکہ اس ایکٹ کا اطلاق فقط اسلام آباد تک ہوتا ہے لہذا یہ اہم ہے کہ تمام صوبے بھی اپنا اپنا سوک ایجوکیشن ایکٹ منظور کریں اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ ایسا کرنے سے ہم پاکستانی نوجوانوں کو بہتر پاکستان دے سکتے ہیں جس کی تشکیل وتعمیر وہ خود کر یں اور اس کا ثمر خوشگوار مستقبل ہوگا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...