” رنگروٹ دا قتل”: ایک عمدہ ترجمہ
پیرو ۔۔۔ 1950 کی دہائی۔۔۔ ایک نوجوان ایئر مین کا شمالی صحرا میں موجود ایئر فورس کے اڈے کے قریب بیہمانہ قتل ۔۔۔۔تفتیش، لفٹیننٹ سلوا اور آفیسر لیتوما کے سپرد ۔۔۔۔۔ اعلی افسران کا عدم تعاون اور اڈے کے کمانڈنگ آفیسر کی مسلسل مداخلت قاتل تک پہنچنے میں مزاحم ۔۔۔۔۔ لیکن سلوا اور لیتوما، حقیقت کو آشکار کرنے کے مکمل پرعزم۔۔۔۔ انیس دن کی تفتیش۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔؟؟؟
“پیلمینو مولیرو کو کس نے مارا؟” ماریو ورگاس یوسا کا ایک دل چسپ اور فن کارانہ مہارت سے لکھا گیا ناول جس میں یوسا قانون، انصاف اور سماجی مساوات سے متعلق ہمارے تصورات، جنہیں ہم نے اپنے تئیں جرم کے تدارک کی علامتیں سمجھ رکھا ہے، کا پردہ چاک کر کے ہمیں دکھاتا ہے کہ ایک کرپٹ سماج میں کسی ایمان دار شخص کی زندگی کتنی کٹھن ہوتی ہے۔
حمید رازی نے اس اہم ناول کو ” رنگروٹ دا قتل” کے نام سے پنجابی زبان میں متعارف کرایا ہے۔ اس کتاب کی خاص بات رازی صاحب کا ترجمے کی معرفت، مطالبوں، ہیئت، تکنیک اور موضوعی جہتوں سے باخبر ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ” رنگروٹ دا قتل” میں اس بد سلیقگی کا شائبہ تک نہیں جو عموماً، ترجمے کے بنیادی تقاضوں سے نا آشنا حضرات کی کتابوں کا شناختی حوالہ ہوتی ہے۔
ترجمہ ایک پیچیدہ فن ہے۔ ایک اچھا مترجم، متن کی وفاداری کا حلف اٹھا کر، تخلیق کار کے خاص اندازِ سخن اور مخصوص طرزِ اظہار کو برقرار رکھتے ہوئے، اس کی تحریر کی جمالیاتی قدریں، ادبی محاسن اور کیفیات ہدفی زبان میں منتقل کرتا ہے۔ اپنی شخصیت کو تخلیق کار کی شخصیت میں ڈھالتا ہے۔ یہی وہ جا ہے جہاں مترجم کو ایک فن کار کا درجہ ملتا ہے۔ حمید رازی چوں کہ فکشن نگار بھی ہیں سو تخلیقی عمل کی کٹھنائیوں اور اپنے تخیل کو فنی تجربے میں ڈھالنے کے عمل کی بہتر تفہیم کی بدولت ” رنگروٹ دا قتل” میں وہ کسی بھی لمحے مترجم کے فن کارانہ سنگھاسن سے نیچے نہیں اترے اور اس ترجمے کی صورت میں پنجابی ادب کو ایک گراں قدر تحفہ پیش کیا۔
ترجمہ تہذیبوں کے درمیان ایک ایسا فکری مکالمہ جو اذہان کے ساتھ ساتھ زبان کو بھی وسعت عطا کرتا ہے۔ حمید رازی نے پنجاب اور لاطینی امریکہ کے درمیان ” رنگروٹ دا قتل” کے زریعے ایک ایسے ہی فکری مکالمے کا کامیاب اہتمام کیا ہے جس نے پنجابی زبان میں بدیسی خیالات لا کر اس کی قوتِ اظہار میں نت نئے امکانات پیدا کیے ہیں ، نئی نئی تشبیہات اور تازہ استعاروں سے اس کی اثر آفرینی بڑھائی ہے اور اسے نئی لسانی جہتوں اور نئے مزاجوں سے روشناس کرایا ہے۔
حمید رازی نے یوسا اور ” رنگروٹ دا قتل” کے قاری کے مابین براہ راست تعلق پیدا کر دیا ہے لہذا اسے پڑھتے وقت قاری کو مترجم کا وجود نہیں کھٹک رہا، یہ ایک کامیاب ترجمے کی شہادت ہے۔
کہا جاتا ہے کہ: ” ترجمہ آزادی اور دیانت داری کا مقامِ اتصال ہے۔” حمید رازی نے اس فرمان کا پورا دھیان رکھتے ہوئے ترجمے کی حرمت کی مکمل پاسبانی کی ہے اورایک دیانت دار مترجم کی طرح متن کے آئینے میں اپنا نہیں، تخلیق کار کا عکس دیکھا ہے۔
ترجمے کا کسی زبان کے ادب میں جان ڈالنا، مترجم کے اپنی تہذیب سے گہرے تعلق سے مشروط ہوتا ہے۔ مترجم کی جڑیں اپنے کلچر اور تمدن میں جس قدر گہری ہوں گی؛ اسی قدر گہرائی اور گیرائی سے وہ بدیسی ادب کو اپنی زبان میں منتقل کرے گا۔ حمید رازی کے پانوں اپنی دھرتی میں پیوست ہیں، ان کے تخیل کی کونپلیں اپنی زمین سے پھوٹتی ہیں۔ ” رنگروٹ دا قتل” میں جس طرح لاطینی امریکہ کے سماج اور طور طریقوں کی شناخت و بازیافت پنجابی زبان میں کی گئی ہے، وہ اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ مترجم نہ صرف اپنی ثقافت کے رنگ میں رنگا ہوا ہے بل کہ اپنی دھرتی کے باسیوں کے مزاج اور لسانی رواج سے بھی مکمل آگاہ ہے۔
“رنگروٹ دا قتل” ایک رواں، مانوس اور قابلِ مطالعہ ترجمہ ہے جس میں حمید رازی نے اپنے تہذیبی و تمدنی لوازمات، پنجابی زبان کی وضع، روایت، صرف و نحو، محاوروں، مرادفات اور لفظوں کی نشست و برخاست، قاری کی شعوری سطح اور ادراک اور اپنے سماج کی خُوبُو کا خاطر خواہ خیال رکھا ہے۔ اور سب سے اہم بات کہ اس دوران وہ متن، مصنف اور غیر تہذیب سے منحرف نہیں ہوئے۔
پنجابی زبان کو اپنے قابلِ فخر سپوت کی بے لوث مساعی، اپنے ادب میں یوسا کے لسانی پیرائے اور اسلوبیاتی نظام کی آمد اور لاطینی امریکہ کے ساتھ ایک اور رابطے پر مبارک باد۔
فیس بک پر تبصرے