میر حاصل خان بزنجو انتقال کرگئے۔
ملک کے معروف سیاستدان سینیٹر میرحاصل خان بزنجو جمعرات کے روز20 اگست کو کراچی کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں 62 برس کی عمرمیں انتقال کر گئے۔ وہ بلوچستان کے معروف قوم پرست رہنماء میر غوث بخش بزنجو کے صاحبزادے اور ملک کے منجھے ہوئے سیاستدانوں میں سے ایک تھے ۔مرحوم نیشنل پارٹی کے سربراہ تھے۔ سینیٹر حاصل خان بزنجو پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا تھے۔ اُن کی یہ بیماری جنوری میں تشخیص ہوئی تھی اور وفات کے وقت ان کی کمیو تھراپی چل رہی تھی ۔ وہ اس بیماری کے علاج کے لئے کافی دفعہ امریکہ بھی گئے۔ وہ گزشتہ ہفتے بدھ کی صبح کیموتھراپی کے لئے کراچی ہسپتال میں داخل ہوئے اور جمعرات کو اُن کا انتقال ہو گیا۔اُن کے ورثامیں ایک بیٹا اور بیٹی ہے۔اُن کی نماز جنازہ جمعہ کے روز 5 بجےان کے آبائی قصبہ نال ،خضدار میں ادا کی گئی جس میں ہزاروں کی تعداد میں ان کے چاہنے والے شریک تھے۔انہیں ان کے والد کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بیان کرتے ہیں کہ میر حاصل خان بزنجو 1958 میں نال میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ زمانہ طالب علمی سے ہی بلوچ سٹو ڈنٹ آرگنائزیشن کے فعال رکن تھے ۔1970 میں بلوچ لیڈر جب حکومت میں آئے توسردار عطااللہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ بنے اور بعد میں ان کی حکومت کو گر ا دیا گیا۔حیدر آباد سازش کیس میں میر غوث بخش بزنجو کو دوسرے بلوچ سرداروں کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا۔میر حاصل خان نے اپنی سیاسی جدوجہد بی ۔ایس ۔او کے پلیٹ فارم سے شروع کی۔ وہ ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں بھی رہے۔ وہ طلبا کی سیاست میں پہلے سے ہی فعال تھے جب انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے 1980 میں لاء اور ایم ۔اے فلسفہ کیاتھا۔
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دوران انہوں نے ایم ۔آر۔ ڈی کے پلیٹ فارم سے جمہوریت کو بحال کرنے کی انتھک کوششیں کیں ۔ اسی دوران وہ کافی مرتبہ جیل بھی گئےاور قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔ میر حاصل 1990 میں اور 1997 میں قومی اسمبلی کی نشست کے لئے منتخب ہوئے جب پاکستان نیشنل پارٹی اور بلوچ نیشنل موومنٹ کا ادغام ہوا۔ میر حاصل اس نئی پارٹی “این ۔پی”کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ بعد میں وہ اسی پارٹی کے صدر منتخب ہوئے۔وہ2009 میں سینیٹر بنےاور 2013 میں دوبارہ سینیٹر منتخب ہوئے۔وہ اپنی وفات تک پارلیمینٹ کے رکن تھے ۔اپنی سیاست کے آخری سالوں میں وہ سینٹ کے چئیرمین کے امیدوار تھے ۔حزب اختلاف کی طرف سے عدم اعتماد کی تحریک چلائی گئی جب ووٹنگ ہوئی توصادق سجرانی کامیاب ہوئےکیونکہ حزب اختلاف نے صادق سجرانی کو ووٹ دیئے۔اس پر میر حاصل نے کہا کہ” ان کو ہرانے کے لئے”سیاسی انجیئنرنگ” کی گئی ہے” کیونکہ ان کی حمایتی جماعتوں کے پاس اکثریت تھی۔ میر حاصل کی جدوجہد خالصتاََفیڈرل اور جمہوری پاکستان کے لئے تھی۔ جہاں ملک کی ساری اکائیوں کو ایک جیسے سیاسی حقوق حاصل ہوں اور ہر ایک شہری کو یکساں برابری اورآزادی میسر ہو۔
ڈاکٹر مالک نے کہا کہ بطور سینیٹر میر حاصل خان بزنجواپنی عمر کے آخری وقت تک جمہوریت اور حقوقِ انسانی کے لئے کوشاں رہے۔
اے این پی سے منحرف سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کا کہنا ہےکہ بطور سینیٹر میر حاصل بزنجو نے اٹھارہویں ترمیم کی کامیابی کے لئے اہم کردار ادا کیا انہوں نے مزید کہا کہ وہ ایک تجربہ کار سیاستدان تھےجنہوں نے امن اور جمہوریت کے لئے جدوجہد کی ۔
وزیرِاعظم پاکستان جناب عمران خان نے بھی ان کی وفات پر گہرے افسوس کا اظہار کیااور ان کے سوگوار خاندان سے تعزیت کی ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی ان کی وفات پر شدید رنج و غم کا اظہار کیا ہےاور ان کے خاندان و احباب سے دلی تعزیت کی ہے۔
بشکریہ:ڈان
مترجم:سید حسن سردار زیدی
فیس بک پر تبصرے