ہمارا طریقہ تدریس ،ٹمٹاتے دیے، رٹہ فیکشن کا نظام

1,014

تعلیم کا حصول ایسا خواب ہے جس کی تعبیر روشنی ہے۔ روشنی کا یہ سفر جاری رہے تو مسافرکو تھکان تو محسوس ہوتی ہے مگر منزل کو قریب آتا دیکھ کر تھکان و مشقت کو بھول جاتا ہے ۔ تعلیم کوبرسات سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے جو پھوٹنے والی کونپلوں کی آبیاری سے لے کر انسانی  ارتقاء کے تمام مراحل میں تمانیت کا احساس دلاتی ہے۔ علم اور اس کا طریقہ حصول نافع ہوگا ،تو تحقیق و جستجو اور شعور فہم  کے راستے کھلیں گے ،اور اسرار رموز کے پردے بھی ہٹنا شروع ہوجائیں گے۔ کسی بھی انسان کی زندگی تعلیم کے بغیر بھی گزر سکتی ہےلیکن وہ سوچنے ، سمجھنے اور تحقیق و جستجو کے مزاج سے عاری ہوگا، اور اس کی زندگی کا سفر ایک جگہ منجمد رہے گا ۔ گویا کہ تعلیم کی بدولت انسانی ذہن  میں جہاں سوچنے سمجھنے، غور وفکر کی صلاحیت بیدار ہوگی، وہیں وہ تحقیق و تخلیق کی جانب بھی مائل ہوسکے گا۔

تعلیم کے  بے شمارشعبہ جات ہیں، ہر شعبے کے کئی مناہج اور اسلوب مقررہیں ،ہرمنہج اور اسلوب ہی اپنی جگہ ایک اہمیت رکھتا ہے ۔ تعلیم کے   ہر شعبے میں مہارت کی ضرورت رہتی ہے اور مہارت اسی وقت پیدا ہوتی ہے  کہ جب اس تعلیم کا مقصد اور اہداف واضح ہوں ۔ اسی طرح جہاں دینی تعلیم کا تخصص ایک حیثیت رکھتا ہے وہیں، عصری تعلیم کے ہر شعبے بھی مہارت کے میدان میں اپنی حیثیت آپ ہوتے ہیں۔

یوں تعلیمی نصاب کا ہر مضمون ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، لیکن کچھ مضامین انتہائی مشکل ہوتے ہیں۔ جب مشکل مضمون کو بھی رٹہ فیکشن کے اندازسے پڑھایا جائے گا، تو بچہ اس مضمون کو پڑھنے میں کوفت محسوس کرے گا اور دلچسپی ختم ہوجائے گی۔ استاد کے لیے اپنے کسی مضمون کوپڑھانا بھی کسی مہارت اور فن سے کم ہر گزنہیں ہوتا ہے۔ مضمون چاہے کتنا ہی مشکل کیوں نہ ایک ماہر استاد کی مہارت سے بچے میں اس مضمون سے محبت، شوق اوردلچسپی پیدا ہونے لگتی ہے۔

عہد حاضر میں تعلیم کے اس میدان میں جس بات کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، وہ نصاب کے بعد طریقہ تدریس ہے۔ لیکن جب ہم تنقید و تنقیص سے بالا تر ہو کر اس بات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اس دور جدید میں بھی ہمارا ایسا سرکاری تعلیمی نظام ایسا ہے، جسے “رٹا فیکشن ” یعنی طوطے کا نظام کہا جاتا ہے ۔ جوکہ کسی بھی طور پر بھی تحقیق و تخلیق کی نہ بنیاد بنتا ہے اور نہ اہلیت  ابھارتا  ہے۔ بلکہ یکسر تحقیق و جستجو اور  شعور و فہم کی استعداد سے ہی ماورا نظر آتا ہے۔ کیونکہ یہاں عمومی طور پر استاد پڑھانے سے زیادہ اس میں  فخر محسوس کرتا ہے کہ اسی سرکاری نوکری مل گئی ہے۔ جس میں  کچھ گھنٹے آنا ہے اور اپنے مضمون  کے اسباق با آواز بلند کسی بچے  سےپڑھوانا، دہرانا اور رٹہ کی طرح بچوں کو یاد کرانا ہوتا ہے۔

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی ہر حکومت ہی رٹہ فیکشن پر مبنی اس تعلیمی نظام کے لیے اربوں کا بجٹ مختص کرتی ہے۔ جس کا کم وبیش عمومی طور پر 70 فیصد بنیادی استعمال صرف تنخواہوں کی مد میں مختص ہوتاہے۔ اس ناقص تعلیمی صورتحال کے سبب یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کم و بیش تین  دہائی قبل  سے پرائیویٹ نظام تعلیم متعارف ہوتا چلا آرہا ہے۔ جس کا نصاب اور طریقہ تدریس بھی انفرادی حیثیت رکھتا ہے اورجو وقت کے ساتھ جدید تقاضوں کے مطابق ڈھلتا رہتا ہے ۔

آج دنیا کے نظام تعلیم  کی اساس میں رٹا فیکیشن کا تصور ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ بنیادی تعلیم کا محور اس طرح ڈیزائن کیا جارہا ہے،  جس میں موضوع کی اہمیت کے ساتھ  اس کی تفہیم بھی واضح ہو سکے۔ استاد کے پڑھانے کا طریقہ تدریس،  مفہوم اور مقصد کی بنیاد پر  قائم ہوگا  تو اس ضمن میں سمجھانے کاا سلوب بھی  آسان رہے گا اور  بچہ مفہوم سمجھ کر جب جواب اپنے الفاظ میں پرونے کی کوشش کرے گا ،تو یقیناً اس کی ذہنی استعدا دکا بخوبی اندازہ لگایا جاسکے گا۔ یہ طریقہ تدریس  جدید تعلیمی ادارے آکسفورڈ اور کیمبرج سے ماخوذ ہیں۔ جو حالات کے پیش نظر اپنے نصاب اور طریقہ تدریس  کا وقت بوقت جائزہ لیتی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جدید طریقہ تدریس میں  پروجیکٹ بیس تعلیم کا نیا تصور متعارف کروایا گیا ۔  کلاس میں  چندطلبہ  پر مشتمل گروپ بنائے جاتے ہیں اور انہیں اسی مضمون پر اپنے اپنے انداز سے لکھنے  اور پیش کرنے کو کہا جاتا ہے۔ ہر موضوع کے مختص گھنٹے، اوقات  مقرر کیئے جاتے ہیں ۔ اس نظام کی بنیاد میں طریقہ تدریس کے مختلف مناہج ہیں جو طالب علم کی استعداد کو ابھارنے میں معاون ثابت  ہوتے ہیں۔ یہاں کامیابی اور ناکامی کو تصور موجود نہیں ہے ۔ یہاں نمبروں کی نہ تودوڑ لگتی اور نہ ہی کسی کو پہلی، دوسری اورتیسری پوزیشن کا  حق دار ٹھرایا  جاتا ہے۔ کلاس میں طلبہ کی تعداد ایک خاص معیار کے مطابق مقرر ہوتی ہے۔

پاکستان میں بڑھتی آبادی کے پیش نظر سرکاری رٹہ فیکشن تعلیمی اداروں کے علاوہ بے شمار پرائیویٹ تعلیمی ادارے( جن میں کچھ دینی اور عصری ادارے شامل ہیں) جو نقل کی بنیاد پر قائم ہوتے جا رہے ہیں ۔ جوآکسفورڈ اور کیمبرج کے نصاب پر تنقید بھی کرتے ہیں مگر اسی طرز پر کچھ رد بدل کے ساتھ  اپنا  نصاب  مرتب اور اُن ہی کے طریقہ تدریس کو بھی بطور نقل  اپنایا ہوا ہے ۔اس عمل کو اگرایک مثبت اور خاموش  تقلید کہہ دیا جائے تو کچھ  حرج کی بات نہیں ۔

ہمارے اسی معاشرے میں  جہاں عصری سرکاری  اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے اپنا اپنا ایک نظام تدریس رکھتے ہیں۔  وہیں دینی مذہبی تعلیمی ادارے بھی کثرت سے موجود ہیں ۔ جن میں  وہی سرکاری روش پر مبنی  طریقہ تدریس نافذ ہے۔ جس کے سب الا ماشاء اللہ  استعداد کا پیدا ہونا محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ہی دینی اداروں کے مقابلے میں بھی نئے طرز کے جدید  دینی تعلیمی ادارے قائم ہو تے جا رہے ہیں ، جن میں عصری علوم  کی نہ صرف  بھر پورآ میزش کو قبول کر لیا گیاہے  بلکہ ان میں بھی  آکسفورڈ اور کیمبرج طرز کے نصاب اور طریقہ تدریس کو اختیار کرنے میں فخر محسوس کیا جاتا ہے۔  جو قدرے بہتر طرز عمل ہے۔

آج یکساں نصاب تعلیم کی بھی بات چل رہی ہے  ۔جس کے تین مراحل ہیں، پہلا مرحلہ پہلی تا پانچویں،دوسرا مرحلہ مڈل اورتیسرا مرحلہ جماعت بارہویں تک ہے۔ ابھی تو پہلے مرحلے کا کا م مکمل ہوا ہے اور دوسرے پر کام جاری ہے۔یقیناً  یہ ایک مثبت اور خوش آئند قدم ہے ۔بنیادی تعلیم میٹرک اور انٹر کے بعد طالب علم کی  دلچسپی اورخواہش پر منحصر ہے کہ وہ آگے کس میدان جانا چاہتا ہے۔  میں اس حوالے سے پہلے بھی لکھ چکا ہوں ، کہ بنیادی نصاب کا تعلیمی ڈھانچہ اور طریقہ تدریس مضبوط اور مستحکم ہوگا کہ تو ہم اس پاکستان کو ایک اچھی اور بہترین نسل دے سکیں گے ۔ ہمارے نصاب تعلیم میں جب تک  ذہنی و فکری استعداد کی اہلیت، تحقیق و تخلیق کی جستجو،  امن و سلامتی کا تصور،  تاریخ سے سبق ،  سیرت سے آگاہی،  قومی حب الوطنی ،انسانی ہمدردی،عصری مسائل اور ان کا حل، جدید سائنسی معلومات ،ادب ، تقابل ادیان ،تہذیب   دینی واخلاقی، سماجی و قومی  قدروں  کی اہمیت ، استعداد  بڑھانے کے طریقہ، لیڈر شپ کی اہمیت،  حب الوطنیت، ہمارے ملک کے معدنی ذخائر  اور  سیاحتی مقامات سے آگاہی، قومی ہیروز کا تعارف اور کارنامے، مختلف ممالک کی تاریخ اور جغرافیہ، ہمارے ادیب و شعرا کا تعارف،  سائنسی خدمات و ایجادات، انسانی خدمت کے اداروں کا تعارف، ہمارے سماجی مسائل، الیکٹرونک میڈیا کا کردار، سوک سینس ،تہذیبوں کا تعارف، مختلف زبانیں سیکھنے کی اہمیت وغیرہ جیسے اہم مضامین ہی طالب علم کی استعداد اور فہم  کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔کیونکہ ہمیں دینی علوم سے لے کر عصری علوم میں بھی  ہر میدان کے ماہر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

کسی بھی بنیادی تعلیمی ادارے کے نظام میں دو امور اہم اور غور طلب  ہیں۔ پہلا نصاب اور دوسرا طریقہ تدریس ہے۔ نصاب درست ہو اور طریقہ تدریس  کمزور ،تب بھی خامیاں رہ جاتی ہیں اور اگر  طریقہ تدریس  بہترین اور متاثر کن ہو  اور نصاب کمزور ہو، تب بھی ممکنہ احداف تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔  گویا نصاب اور طریقہ تدریس   دونوں ایک دوسرے کے لیےلازم و ملزوم ہیں۔ یقیناً ان سب امور کی انجام دہی میں، جب تک  بہترین استعداد کے حامل اساتذہ  تیار  نہیں کیے جائیں گے، تب تک بنیادی مقاصد کے حصول میں ناکامی رہے گی ۔ ضروری ہے کہ جواپنے مضمون میں مہارت اور مکمل  اہلیت رکھتے ہوں،ان کی جدید طریقہ تدریس کے منہج  پر تربیت ہو  ۔ کلاس میں طلبہ کے سامنے موثر تدریسی حکمت  عملی اور تراکیب کو سمجھتے ہوں  ،پراجیکٹ  میتھڈ یعنی بحث و مباحثہ، گروپ ڈسکشن، عدم دلچسپی کے رویے سے نمٹنا، سوال کی گنجائش کو ابھارنا، آن لائن جدید طریقے ، ویڈیوپریزنٹیشن کا طریقہ کار،   موضوع پرتقابلی جائزہ ، مثالوں سے وضاحت ، بچوں کے نفسیاتی مسائل کو سمجھنے والے ہوں اور د دیگر اسلوب سے آگاہی  رکھتے ہوں تو ایسے  اساتذہ  نہ صرف  طالب علم  بلکہ ادارے کے لیے  بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔

عہد حاضر جوکہ علوم میں جدیدہ کا دور کہلاتا ہے ۔جس نے تعلیم کے ہر شعبے میں مہارت کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں ۔ جدید تعلیم میں  سائنسی ٹیکنالوجی کی بدولت، جہاں انسان کو بے شمار آ سائشیں اور سہولیات میسر آرہی ہیں، وہیں انسانی مشقت اور محنت کا عنصر بھی اجتماعی سے انفرادی ہوتا جا رہا ہے۔ یعنی دس  بندوں کا کام ایک فرد باآسانی کرلیتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی  نےہوا میں معلق بلند بالا  عمارتوں کے جال ، زمین  اور زیر زمین سانپ کی طرح  رینگتی اور   دوڑتی  ٹرینیں، فضا میں اڑتے پرندوں کی  طرح جہاز  و ہیلی کاپٹر، آسمان کی بلندیوں کو چھو لینے والے اور خلا میں معلق تیز رفتار راکٹ ، جدید طبی آلات اور انسانی بیماریوں  کے علاج  میں زندگی کے بچاوکی دواؤں سے لے کر نت نئی  طبی مشینوں کی ایجادات،  پہاڑ وزمین کی تہوں میں چھپے خزانوں کی بر آمدگی اور ہزاروں لاکھوں میل کی دوری سے ساؤنڈ اور ویڈیواور آئی ٹی ٹیکنالوجی میں   آواز اور حرکت کردہ تصویر کی منتقلی  نے  بھی انقلاب برپا  کرکے رکھا ہوا ہے۔آج تعلیم کے میدان میں یہ بھی علوم کا بہتا سمندر ہے ،جس میں جو غوطہ لگائے گا  وہی سیر ہوجائے۔

ہم جب تک  اپنے نظام  تدریس میں  پانچ اور دس سالہ  گیس پیپرز سے تیاری ، سند یافتہ نقال اور اسناد کےخریدار، اداروں میں  مزدوری کا ذہن بنانے ،   زیادہ سے زیادہ نمبرز کی خواہش اور پوزیشن  کی دوڑ سے آزاد نہیں ہونگے، گویا  تب تک ہم رٹہ فیکشن  کی اس  پرانی پٹری پر چلتے رہیں،  جہاں تخلیقی ذہانت  گیٹ بند   ہو جائیں گےاور  تعلیمی اسناد کی دوڑ کی ریس جاری رہے گی ، جس کے سبب تخلیقی کاروباری ذہن  سے زیادہ نسلوں کو نوکر بنانے کی اہلیت زیادہ سامنے آ سکے گی ۔ ان سب کی درستگی  اسی وقت ممکن ہوسکے گی کہ جب ہم اپنے  روایتی ٹمٹاتے دیے   رٹہ فیکشن کے نظام کی جدید روشنی سے پچاس یا سو سال منصوبہ بندی نہ کرلیں کہ ہم نے، کس قسم کی نسل کو ملک ملت کی خدمت لیے تیار کرنا ہے ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...