علی اکبر ناطق کا افسانوی مجموعہ “قائم دین” : یو بی ایل ایوارڈ کی ساکھ پر سوالیہ نشان
علی اکبر ناطق کا افسانوی مجموعہ “قائم دین” تقریباً دو سال سے میری لائبریری میں موجود تھا۔ اسے یو بی ایل ایوارڈ اور نقادوں سے سندِ اعتبار ملنا گاہے مجھے اس کے مطالعے پر ابھارتا تھا، لیکن عدالتی مصروفیات اور وقت کی قلت آڑے آتی رہی۔ وبا کے دنوں میں تمام پیشہ ورانہ امور معطل ہوئے تو اس سے متمتع ہونے کا موقع ملا۔ میں نے یہ کتاب سانجھ پبلیکشنز لاہور سے پچاس فیصد رعایت پر مبلغ ڈیڑھ سو روپے میں خریدی تھی۔ بعد از مطالعہ مجھے مشفق خواجہ بے حساب یاد آئے جو کسی ایسی ہی کتاب کو پڑھنے کے بعد گویا ہوئے تھے: ” اس قیمت میں تو یہ کتاب مع مصنف بھی مہنگی ہے۔” عرض ہے کہ یو بی ایل ایوارڈ کے منصفین نے اس ایوارڈ کے ساتھ ساتھ اپنی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان لگا دئیے ہیں۔
بچگانہ بیانیہ, طفلانہ مواد، کچی شراب جیسی مہلک خام نثر، واقعاتی اسقام، ابلاغی ابہام, ناقابلِ یقین کردار, بے مقصد مکالموں کا انبار جو کرداروں میں زرہ برابر جان نہیں ڈالتے اور مصنوعی فضا “قائم دین” کی کہانیوں کا مستقل “حسن” ہیں۔ اپنی انہی گوناگوں صفات کی بدولت یہ کتاب ادب کی تاریخ میں نہیں وقت کے ضیاع کی تاریخ میں یاد رکھی جائے گی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسی کتب دھڑا دھڑ لکھی جا رہی ہیں خدشہ ہے کہ یہ افراطِ ادب ہی کہیں اسقاطِ ادب کا باعث نہ بن جائے۔ جن کتابوں کی مدح میں ہمارے درشنی نقاد جھومتے ہیں ان سے اردو قارئین کے سر گھومتے ہیں۔
آئیں اس “تاریخ ساز” کتاب کے “یکتائے روزگار” افسانوں پر بات کرتے ہیں۔ پہلی کہانی “اچھو بازی گر” ہے۔ اس میں راوی اور اس کا دوست مھانا گاؤں کے ایک سکول میں پڑھتے ہیں جہاں اچھو نامی لڑکا بھی زیرِتعلیم ہے جو جسمانی طور پر مضبوط اور کبڈی، فٹ بال اور قلابازی وغیرہ میں اپنے سکول کی پہچان ہے۔ کرتب باز، ڈھولچی، بازی گر اور چھلانگ باز تو وہ ہے ہی۔ کہانی چونکہ ساڑھے چار صفحات پر مشتمل ہے اس لئے مجبوراً کردار کی مزکورہ خصوصیات ہی پر گذارہ کیا گیا ہے، اگر یہ ایک دو صفحے اور چلتی تو نہ جانے مصنف فرطِ جذبات اور تندیِ خیالات سے اس آٹھویں جماعت کے طالب علم کو اور نہ جانے کیا کیا بنا دیتا۔ بہرکیف اچھو، راوی اور اس کے دوست مھانے کو جا بہ جا تنگ کرتا پایا گیا ہے جو دونوں اس سے بے حد بیزار لیکن مجبور ہیں۔ اچھو پڑھائی میں نالائق ہے ( صفحہ نمبر 9 تیسرا پیراگراف ” پرسوں دیکھا! ماسڑ اشرف نے کیا کہا تھا؟ اچھو تو صرف چھلانگیں ہی لگا سکتا ہے، پڑھنا تیرے بس کا روگ نہیں۔”) لیکن افسانہ نگار کی ندرتِ خیال سے بہرحال کلاس کا مانیٹر بن جاتا ہے جس سے راوی کی زندگی مزید اجیرن ہو جاتی ہے۔ اسی خوف کی فضا میں میٹرک کا امتحان پاس کرکے راوی اور اس کا دوست مھانا، اچھو سے نجات حاصل کر لیتے ہیں جو فیل ہو کر اپنے آبائی کام پر لگ جاتا ہے۔ راوی کو سکول سے فراغت پائے پندرہ سولہ سال گزر چکے ہیں۔ وہ اپنی شادی پر اپنے پچپن کے دوست مھانے کو مدعو کرتا ہے جسے مصنف کہانی کے اختتامی حصے میں قارئین کو نیانے سمجھتے ہوئے اور آخر میں مھانا بتا کر اپنے تئیں حیران کرنے کے لئے سید امان اللہ شاہ کے نام سے لکھتا اور پکارتا ہے ۔ اچھو وہاں جھومر ڈال کر اور ڈھول بجا کر سب کا دل راضی کرتا ہے اور آخر میں پوری زندگی اپنی دُھر بنا کر رکھے گئے راوی اور مھانے کو ماتھے پر ہاتھ رکھ کر سلام کر کے ان سے ہزار ہزار روپیہ وصولتا ہے اور ضرورتاً سید امان اللہ شاہ بنائے گئے مھانے کو پہچان لیتا ہے۔ جس پر مھانا اور قاری مصنف کی خواہش کے احترام میں حیران رہ جاتے ہے۔ مھانے اور راوی کے فرطِ جذبات سے آنسو نکل آتے ہیں اور ساتھ ہی قاری بھی اردو ادب کی حالتِ زار پر رونے لگتا ہے۔
اس افسانے کا بیانیہ کم و بیش تیسری جماعت میں پڑھی ہوئی کہانی “جمیلہ کا گھر” جیسا ہے جو اپنی بنت اور اظہار میں یقیناً اس کہانی سے کہیں بہتر ہے۔
صفحہ نمبر 10 کے دوسرے پیراگراف کی دوسری سطر دیکھئے:
” اس (اچھو) کے چار پانچ چیلے ہم پر ٹوٹ پڑے، زبردستی ہمارا منہ چومنے لگے۔ میرے ہاتھ میں ایک نوکیلی پنسل تھی۔ میں غصے میں آ کے وہی اچھو کے پیٹ میں چبھو دی۔ مھانے نے ایک لڑکے کو دانتوں سے کاٹ لیا۔ نتیجتاً انہوں نے ہماری خوب دھلائی کی۔ جب ہم رونے لگے تو چھوڑ دیا۔”
صفحہ نمبر 13 کی دوسری سطر بھی ملاحظہ ہو:
” اب گاؤں کے اکثر لوگ میرے پڑھا لکھا ہونے کی وجہ سے عزت کرنے لگے۔ میری منگنی بھی ایک پڑھی لکھی اور آفیسر لڑکی سے ہوگئی اور مجھے ایک اچھی ملازمت بھی مل گئی۔ یوں گاؤں میں میری عزت اور وقار میں مزید اضافہ ہوگیا۔”
صفحہ نمبر 13 کی چوتھی سطر میں مصنف رقمطراز ہے:
” شام کے وقت ہم دیگر احباب کے ساتھ بیٹھے مزے سے شادی کی خوشی منا رہے تھے کہ اچھو ڈھول لے کر آگیا اس نے دھوتی اور کرتا پہنا ہوا تھا اور پاؤں میں ٹائر کا جوتا تھا۔”
مزے سے شادی کی خوشی منانے کا جواب نہیں۔ دیکھئیے، مصنف کتنی سخاوت سے ایسے “اعلی” جملے اردو ادب کو دان کر رہا ہے۔
کہانی کا راوی نرگسیت اور خود پسندی کا شکار بھی نظر آتا ہے۔ صفحہ نمبر 13 کی ساتویں سطر اور صفحہ نمبر9 دوسرے پیراگراف کی دوسری سطر بالترتیب ملاحظہ فرمائیے
” میں نے اور سید امان اللہ شاہ نے ٹو پیس سوٹ پہنے ہوئے تھے جو ہمیں خوب جچ رہے تھے۔”
“میں نے یہ بات اپنی خفت مٹانے کے لئے اور اپنے جگری یار مھانے کو تسلی دینے کے لئے کی جو میری ہی طرح نرم و نازک اور خوبصورت تھا۔”
بھئی، سبحان اللہ، کیا بیان ہے لگتا ہے یہ نرم و نازک لونڈے افسانہ نگار کے حجلہِ تخلیق کے بجائے میر تقی میر کے دیوان سے بر آمد ہوئے ہیں۔
اس کتاب کا نمایندہ افسانہ” قائم دین” ہے۔ قائم دین عرف قما ایک مشاق چور اور عمدہ تیراک ہے جو اکثر دریائے ستلج عبور کر کے، ڈیلے کے آٹھ کلومیٹر پر محیط خطرناک جنگل سے گزر کر ( جہاں بقول مصنف “بچھو، سانپ، نیولے اور نہ جانے کون کون سے حشرات الارض رینگتے پھرتے۔ کئی اژدہا لوٹیں مارتے، گیدڑوں سوئروں کی گڑگڑاہٹیں، الوؤں اور چڑبلوں کا شور سماعتیں چھین لیتا. صفحہ نمبر 28) انڈیا کا بارڈر کراس کرتا ہے۔ اور انڈیا سے ڈھور ڈنگر چوری کرکے اسی راستے سے اپنے گاؤں واپس آتا ہے لیکن جنگل کے سانپ، بچھو اور اژدھے وغیرہ فقط اپنی حیوان دوستی اور قمے سے دیرینہ تعلقات کی وجہ سے کبھی مسروقہ بکریوں،بھینسوں اور قمے کو گزند نہیں پہنچاتے۔ چوری کے یہ جانور وہ گاؤں کے لوگوں کو فروخت کرتا ہے اور مرضی کا دام نہ ملنے کی صورت میں اس کا بھائی جلال دین یہ مال لائل پور کی منڈی میں لے جا کر بیچتا ہے۔ قما اپنے ہم مجلسوں کو اپنی وارداتوں کے قصے بھی سناتا ہے۔ بھادوں کے موسم میں گاؤں میں میلہ لگتا ہے اور ہر طرف خوشیوں کا سماں ہے کہ اسی دوران سیلاب ا جاتا ہے جس سے پورا علاقے زیرِ آب آ جاتا ہے۔ قما تیراکی میں اپنی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بےشمار لوگوں کو گہرے پانیوں سے بند تک لاتا ہے۔ گاؤں کے لوگ دو ماہ فوج کے لگائے گئے خیموں میں گزارنے کے بعد دوبارہ اپنے گھروں کو واپس لوٹتے ہیں۔
سیلاب کے بعد ڈیلے کا جنگل اور زیادہ خطرناک ہو چکا ہے لیکن اگلے دس سال قمے کی آنیاں جانیاں جاری رہتی ہیں۔ دسمبر کی ایک انتہائی سرد رات میں ہندستانی علاقے میں تین کلومیٹر اندر جا کر کی گئی گیارہ بھینسوں کی چوری بالآخر اب تک ستوں پی کر سوئے سرحدی محافظوں کو جگا دیتی ہے بقول مصنف ” یہ چوری ایسی نہ تھی جسے نظر انداز کر دیا جاتا۔ دو طرفہ رینجرز میں ایک بھونچال آگیا۔” مصنف فقط پاک بھارت دوستانہ تعلقات اور خطے میں امن قائم کرنے کی نیت سے بار بار ہندوستان کی بارڈر سیکیورٹی فورس ( بی ایس ایف ) کو رینجرز کہتا ہے جس سے دونوں ملکوں کی سرحدوں پر کشیدگی میں کافی کمی آتی ہے۔ بحرحال پندرہ فروری کی رات پاک رینجرز اسے گرفتار کر لیتی ہے اور بقول افسانہ نگار ” دو مہینے تک قمےکو اتنی مار پڑی کہ زمین ہل جاتی تھی۔” اور زمین ہی کیوں، اس افسانے کے واقعات پڑھ کر قاری کا دماغ بھی ہل جاتا ہے۔ بہرکیف رینجرز چھ ماہ تک اس پر بدترین تشدد کرتی ہے اور پھر بقول لکھاری ” مار تو اتنی دی کہ خود رینجر والوں کو اس پر ترس آنے لگا۔ جب وہ کسی طرح بھی نہ مانا تو شراب کا کیس بنا کر سے منڈی احمد آباد تھانے بھیج دیا۔” یہاں قاری کہانی کار کے سماجی شعور پر قربان ہو ہو جاتا ہے یعنی رینجرز نے قمے پر ترس کھا کر اسے حوالے بھی کیا تو پنجاب پولیس کے، جو اپنی “رحم دلی” کے حوالے سے پوری دنیا میں مشہور ہے، اللہ اکبر۔
بہرطور ایسے “معقول” واقعات کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور قمے کے تھانے پہچنے پر قاری کو پتہ چلتا ہے کہ اس کا بھائی جلال دین جس کی گرفتاری کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا، “رقیق القلب” رینجرز کے تشدد سے ہلاک ہو گیا ہے۔ چھ ماہ تھانے میں رکھنے کے بعد بالآخر اسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ تھانے سے پیدل اپنے گاؤں آتے ہوئے وہ بخار کی شدت سے بے ہوش اور پھر پاگل ہو جاتا ہے۔
قمے کو پاگل ہوئے دس سال ہو چکے ہیں۔ وہ اب گاؤں کے لوگوں کو غلیظ گالیاں دینے بلکہ پتھر بھی مارنے لگا ہے۔ جس پر اس کا بیٹا طفیل اسے بالآخر پندرہ کلو وزنی سنگل کے زریعے درخت کے ساتھ باندھ کر دو کلو وزنی تالا بھی لگا دیتا ہے۔ 20 جون 1999 کو وہ اپنی بیوی کے ساتھ حجرہ شاہ مقیم ایک فوتگی پر جاتا ہے۔ اسی دوران بھارت ستلج کا پانی چھوڑ دیتا ہے۔ جس سے علاقے میں سیلاب آ جاتا ہے اور قما درخت سے بندھا، پانی میں ڈوب کر مر جاتا ہے۔
اس افسانے کے واقعاتی اسقام و تناقضات قاری کی طبیعت میں طوفان کے ساتھ ساتھ زہنی ہیجان بھی پیدا کرکے قدم قدم پر اس کے اوسان خطا کرتے ہیں۔
کہانی کے آخری حصے میں سیلاب آ چکا ہے اور گاؤں زیرِ آب آ گیا ہے۔ صفحہ نمبر 33 کے دوسرے پیراگراف کی چودھویں سطر ملاحظہ کیجئے جو ادب میں چودھویں کے چاند کی طرح روشن و تاباں رہے گی۔
” یہاں تک کہ رات دس بجے اچانک پانی کا پہلا گھونٹ اس کے منہ میں داخل ہوا۔ پانی اس قدر زیادہ تھا کہ قائم دین سانس نہ لے سکا۔ بے بسی کے عالم میں اس کے منہ سے ایک زور کی چیخ نکلی۔ جس کی آواز سے پورا اٹھاڑ سہم گیا۔”
ادب کی پوری تاریخ میں آپ کو ایسا دوغلا پانی نہیں ملے گا جو ایک طرف تو قمے کے منھ میں آ کر اسے سانس تک نہیں لینے دیتا اور دوسری طرف فقط مصنف کے احترام اور کہانی کے “ڈرامائی” اختتام کی خاطر، قائم دین عرف قمے کو ایک بھرپور چیخ مارنے کی سہولت مفت فراہم کرتا ہے۔
واقعاتی تضاد کے لئے صفحہ نمبر 26 کی سطر نمبر 10 دیکھئیے:
” قمے نے دوپہر ڈھلتے تک اپنی ڈوبی ہوئی بستی سے بند پر خدا جانے کتنے چکر لگائے اور تھک کر نڈھال ہوگیا۔”
ٹھیک پانچ سطور بعد سطر نمبر 15 میں مصنف قمے کے تھک کر نڈھال ہونے کے وقت میں” بر وقت” ترمیم کر دیتا ہے:
” لیکن انسان آخر انسان ہے۔ دوپہر تک تھک کر نڈھال ہوگیا۔ بیوی نے یہ حالت دیکھی تو روکنے لگی کہ اب نہ کودنا۔”
کہانی کے علاوہ پر چیز افسانہ نگار کے قابو میں ہے۔ وقت و مہ و سال پر تو اس کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ یہ مظلوم اپنے قواعد تیاگ کر مصنف کے ضوابط کی قید میں آ گئے ہیں۔ اس کے کچھ بین ثبوت ملاحظہ ہوں۔
بحوالہ صفحہ نمبر 28 سیلاب کو دس سال گذر چکے ہیں۔ صفحہ نمبر 29 اور 30 میں قائم دین گرفتار ہو کر چھ چھ ماہ کا عرصہ رینجرز اور پولیس کی تحویل میں گزارتا ہے اور اپنی گرفتاری کے ایک سال بعد بروز رہائی پاگل ہو جاتا ہے یعنی اس وقت فلڈ کو آئے گیارہ سال ہو چکے تھے۔ صفحہ نمبر30 کا چوتھا پیراگراف یوں ہے: ” یہ 1998 کی بات ہے۔ قمے کو پاگل ہوئے اٹھارہ سال ہو گئے۔” اس کا مطلب ہے کہ وہ 1980 میں پاگل ہوا اور پہلا سیلاب جو قمے کے پاگل ہونے سے گیارہ سال قبل کا واقعہ ہے 1969 میں آیا۔
اور اب یہ بھی دیکئیے، بحوالہ صفحہ نمبر 32 دوسرا سیلاب بیس جون 1999 کو آیا۔ اسی صفحہ میں فرمایا گیا ہے کہ “لوگوں کو بتیس سال پہلے کا سیلاب یاد تھا۔” اس حساب سے پہلا سیلاب 1967 میں آیا جب کہ مندرجہ بالا واقعات سے اس کی درست تاریخ 1969 بنتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دو سال کا واقعاتی تضاد بھی کسی سیلابی کیفیت میں بہا دیا گیا ہے۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی سرکار۔
اب چوں کہ یہ بات پایہِ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ پہلا فلڈ 1969 میں آیا سو دیکھئیے کہ اس نسبت سے مہ و سال کا کیا حال کیا گیا ہے۔ بحوالہ صفحہ نمبر 27 سیلاب قمے کے گھر میں آگے تین کیکر اور بیری کے درخت بھی بہا کر لے گیا ” لہذا قمے نے بھی بند کے اوتاڑ سے ایک بیری کا پودا لا کر گھر میں لگا دیا” 1999- 1998 میں اسے جس بیری کے درخت سے باندھ دیا جاتا ہے یہ وہی پودا ہے جو اب شجرِ ثمردار بن چکا ہے۔ صفحہ نمبر 31 میں اس کی بابت انکشاف ہوتا ہے:
” پچھلے اکیس برسوں میں بیری کا درخت اس قدر پھیل گیا کہ پورے احاطے کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔”
1999 سے اکیس سالوں کا حساب کریں تو پہلے سیلاب کا واقعہ 1978 کا بنتا ہے۔ یہاں قاری کا سر چکرا جاتا ہے اور اسے اپنی غفلت اور فرسٹ فلڈ کی تاریخ طے کرنے میں عجلت پر غصہ آنے لگتا ہے، اس کا جی چاہتا کہ اپنا سر پھاڑ لے ظاہر ہے مصنف وہاں موجود نہیں ہوتا۔
قما پندرہ فروری کو گرفتار ہوتا ہے۔ چھ چھ ماہ رینجرز اور پولیس کی حراست میں رہنے کے بعد ٹھیک ایک سال بعد غالباً فروری ہی کے مہینے میں رہا ہوتا ہے۔ صفحہ نمبر 30 دوسرا پیراگراف میں افسانہ نگار فرماتے ہیں: ” تھانے سے اس کا گاؤں بائیس کلو میٹر دور تھا اس نے باجرے کے کھیت کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیا۔ بخار سردی کی وجہ سے زیادہ تیز ہوتا چلا گیا۔”
صفحہ نمبر 30 کے تیسرے پیراگراف کی پہلی سطر یوں ہے:
” صبح سات بجے شریف حسین نے قمے کے بیٹے طفیل کو بتایا کہ تیرا باپ خربوزوں کے کھیت میں بے ہوش پڑا تھا۔”
باجرہ گرمی کی فصل ہے جس کی کاشت جون جولائی میں ہوتی ہے اور کٹائی تین چار ماہ بعد۔ اسی طرح خربوزے کی کاشت پنجاب میں مارچ کے وسط کے بعد شروع ہوتی ہے لہذا فروری کے مہینے میں باجرے اور خربوزے کے کھیتوں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ افسانہ نگار زراعت کے میدان اور قارئین کے اذہان میں” انقلاب” لانے پر تل گیا ہے، خدا خیر کرے۔
ٹھہرئیے حضور! ابھی’ مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں’ صفحہ 22 کی آخری سطر دیکھئے:
” قمے نے داستان آگے بڑھاتے ہوئے کہا سوئروں کو پھاڑتا اور سانپوں کو کچلتا ہوا، رات ایک بجے پھجا سئیوں کی بھینی پر پہنچا اور ایک ایک کرکے ساری بھینسیں کھول کر آگے کر لیں۔ مونجی کے کھیت سے ہوتے ہوئے ایک گھنٹے میں بارڈر سے ادھر لے آیا۔”
قمے کا فقط ایک گھنٹے میں مسروقہ بھینسوں کے ساتھ ڈیلے کا آٹھ کلومیٹر پر محیط مہلک جانوروں سے اٹے جنگل کو جہاں گھٹنے گھٹنے پانی بھی کھڑا ہے( صفحہ نمبر 28 دوسری سطر) عبور کر کے ستلج تک آنا۔ اور پھر ستلج کو پار کر کے گاؤں پہنچنا پاکستان سپورٹس بورڈ کے لئے لمحہِ فکریہ ہے کہ اس کی قمے جیسے گوہرِ نایاب پر نگاہ ہی نہ پڑی جو وطنِ عزیز کے لئے اولمپکس میں کئی طلائی تمغے جیت سکتا تھا۔
صفحہ نمبر 29 کی تیسری سطر بھی ہوش ربا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
” دوسری چوری اس نے دسمبر کی انتہائی سرد رات میں کی جس میں وہ پوری گیارہ بھینسیں ہندوستانی علاقے سے تین کلو میٹر اندر جا کر لے آیا تھا۔”
دسمبر کی انتہائی سرد رات میں ستلج کے زمہریری پانی کو دو مرتبہ تیر کر پار کرنا بلا شک و شبہ ثابت کرتا ہے کہ قما سٹیل کا بنا ہوا تھا، اسے ابھی تک بندہِ خاکی سمجھ کر ٹریٹ کرنے والا قاری یہاں اپنی گزشتہ رائے سے فوری رجوع کر کے اپنے سابقہ گناہوں کی معافی مانگتا ہے۔
اس افسانے میں مصنف کا قانونی اور معاشرتی شعور بھی “اوجِ کمال” پر ہے۔ اس کے شعور کا جلال قارئین کے درک و فہم کو پامال کرنے پر تل گیا ہے۔ بحوالہ صفحہ 29 اور 30، رینجرز نے قمے پر شراب کا کیس بنا کر اسے منڈی احمد آباد تھانے بھیج دیا جہاں اسے چھ ماہ زیرِ حراست رکھا جاتا ہے اور پھر بقول افسانہ نگار : ” آخر ایک دن تھانے دار نے اسے بلایا اور تھوڑی بہت سرزنش کر کے چھوڑ دیا۔”
الامان الحفیظ، ایسی تحریر قارئین کے ساتھ ایک بے ہودہ مذاق ہے۔ حضور پر نور! پہلی بات تو یہ ہے کہ رینجرز شراب کا مقدمہ نہیں بناتی، یہ مقدمہ قابلِ دست اندازی پولیس ہے جو ضابطہِ فوجداری کی دفعہ 154 کے تحت فقط پولیس کا اختیار ہے کہ وہ ایف آئی آر درج کرے اور حالات و واقعات کے مطابق دفعات کا اندراج کرے۔ دوسری بات یہ کہ بعد از گرفتاری ملزم، پولیس چوبیس گھنٹے کے اندر اسے علاقہ مجسٹریٹ کے سامنے برائے حصول ریمانڈ پیش کرنے کی قانونی طور پر پابند ہے۔ تیسری بات یہ کہ ریمانڈ کا زیادہ سے زیادہ قانونی وقت جو چودہ روز ہے، ختم ہونے پر ملزم کو تھانے میں نہیں رکھا جاتا بلکہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ چوتھی بات یہ کہ جوڈیشل ریمانڈ پر جانے کے بعد ملزم ضمانت کی درخواست دائر کرتا ہے جو منظور ہونے کی صورت میں اسے جیل سے رہائی ملتی ہے۔ تھانے دار سرزنش کر کے اسے نہیں چھوڑتا۔ اور شراب کے کیس میں تو سرکار، شراب کے عام مقدمات تو پولیس ریمانڈ کی درخواست تک نہیں کرتی اور بالعموم اسی روز ملزم کی ضمانت ہو جاتی ہے۔
صفحہ نمبر 21 کی چوتھی سطر دیکھئیے جہاں قما نور دین کو مسروقہ بھینس فروخت کرنے کے لئے اس کی خصوصیات بتا رہا ہے:
” دیکھ میاں نورہے، پانچ ہزار سے ایک ٹکا نیچے نہیں لوں گا۔اٹھارہ لیٹر دودھ سویرے شام باٹوں سے تول لینا۔ قطرہ کم ہوا تو تھڑے پر مونچھ منڈواؤںں گا۔”
سرکار عالی مرتبت! پنجاب کے دیہاتوں میں دودھ کی پیمائش کا معیار گڑوی یا سیر ہوتا ہے ہاں سکاٹ لینڈ کے دیہاتوں میں لیٹر کہیں تو خدا کی قسم ہم فوراً مان جائیں گے۔ چلیں ہم آپ کے احترام میں یہاں بھی لیٹر کا معیار مان لیتے ہیں لیکن لیٹر کی پیمائش تو درست پیمانے سےکریں، خدارا اسے باٹوں سے نہ تولیں۔ رحم حضور رحم۔
پیارے قارئین مجھے اندازہ ہے کہ مضمون بہت طوالت اختیار کرتا جا رہا ہے لیکن، یہ بندہِ پر تقصیر کیا کرے ‘ جدھر دیکھتا ہوں ادھر ہیں اندھیرے ۔۔۔ سویرا کہاں ہے او بھگوان میرے’ والی کیفیت ہے۔ پھر بھی آپ کے احترام میں آخری حوالہ دے کر اس کہانی پر تبصرہ تمام کئے دیتا ہوں۔ صفحہ نمبر 30 کا دوسرا پیراگراف ملاحظہ کیجئے:
” حوالات سے نکلتے ہی اس نے ہلکی سی انگڑائی لی اور تھوڑی دیر کے لیے تھانے کی بیرونی دیوار کے ساتھ کیکر کے سائے میں بیٹھ گیا۔ یہ سردیوں کی ایک ٹھنڈی دوپہر تھی۔ اس کے اوپر کوئی کپڑا نہ تھا۔”
ان سطور میں جس ” شاندار اور جاندار” طریقے سے انسانی جبلت اور موسمی کیفیت کی بابت اس کے حیاتیاتی ردِ عمل کی تصویر کشی کی گئی ہے وہ یقیناً قابل تعزیر اوہ معاف کیجئے گا “قابلِ تعریف” ہے۔ قما سرد دوپہر میں جب کہ اس کے اوپر کوئی کپڑا بھی نہیں ہے کیکر کی چھاؤں ڈھونڈ کر اگر اس کے نیچے نہ بیٹھتا تو اسے بخار کیسے ہوتا اور اگر بخار شدت اختیار نہ کرتا تو وہ پاگل کیسے ہوتا اور اگر مصنف ہمیں پاگل نہ بناتا اوہ معذرت اگر اسے پاگل نہ بناتا تو کہانی کیسے آگے بڑھتی۔ لکھاری نے فقط ادب اور قارئین کے وسیع تر مفاد میں قمے سے یہ غیر فطری حرکت کروائی ہے۔ ویسے تو قاری قمے کے ہلکی سی انگرائی لینے ہی سے سمجھ جاتا ہے کہ اس کے عزائم خطرناک ہیں۔
اس کتاب کی دیگر کہانیوں کا حال بھی محولہ بالا افسانوں سے چنداں مختلف نہ ہے۔ زبان و بیان کے مسائل، واقعاتی تناقضات، مصنوعی ماحول اور فضا، خام نثر اور تخلیقی بنجر پن ان کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ “بے چارگی” کے شوکت کی بولی ،بغیر کسی وجہ کے، اپنے باپ راؤ عبد الجمیل خان سے یکسر مختلف ہے۔ “جودھ پور کی حد” کی ٹریٹمنٹ میں پوھڑ پن نمایاں ہے۔ ” کمی بھائی” میں راوی حاجی عبد الکریم” کو کبھی صیغہِ واحد اور کبھی صیغہِ جمع میں پکارتا ہے۔ یہی حرکت” مولوی کی کرامت” میں کی گئی ہے۔ ہر کہانی پر تفصیلی رائے دامنِ مضمون کی تنگی کی شاکی ہے۔ وقت میسر ہوا تو کبھی بات ہوگی۔ مختصر یہ کہ اس کتاب کے افسانے ایک ہی دیگ کے چاول ہیں۔ اس کتاب کے عیوب فقط صبرِ ایوب ہی سے برداشت ہو سکتے ہیں اور ظاہر ہے بندہ اوصافِ پیغمبری سے محروم ہے۔ علی اکبر ناطق کے افسانوں میں وہ تمام قباحتیں موجود ہیں جو قلتِ مطالعہ سے جنم لیتی ہیں۔
گاؤں کا ماحول، کردار، زبان، دیہاتی رویے، طور طریقے، عمل ردعمل سب کے سب اپنی بنت اور تاثیر میں فلمی اور مصنوعی ہیں۔ ایسے شہری جو دیہاتی ماحول کو فقط سلطان راہی کی پنجابی فلموں کے حوالے سے جانتے ہیں،ان سے خدشہ ہے کہ وہ شائد اس پر یقین کرلیں لیکن گاؤں کی رہتل سے واقف اذہان کے لئے ان کہانیوں میں بیان کردہ واقعات اور ماحول وغیرہ ایک بے ہودہ مذاق سے بڑھ کر کچھ نہیں۔
یہ کہانیاں شہر کے ماڈرن ریستورانوں میں پکے اس بد ذائقہ ساگ اور مکئی کی روٹیوں جیسی ہیں جسے شہری لوگ لذت کے بجائے محض ان کی شہرت اور ان پکوانوں سے اپنی عدم واقفیت کی کشش کی وجہ سے کھاتے ہیں۔ اپلوں کی ہلکی آنچ پر پکے سرسوں کے لذیذ ساگ اور مشاق ہاتھوں سے گندھے مکئی کے آٹے کی توے سے اترتی گرم گرم روٹیاں کھانے والے تو شائد ان پکوانوں کا پہلا لقمہ ہی تھوک دیں۔ اردو افسانے میں پنجاب کے دیہی تہذیبی شعور کی روایت تہذیبی فتور کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ خدا رحم کرے۔
علی اکبر ناطق کا ناول ” نولکھی کوٹھی” اور افسانوں کا مجموعہ ” شاہ محمد کا ٹانگہ” میری لائبریری میں موجود ہے، میری دلی خواہش ہے کہ مزکورہ کتابوں کا مطالعہ مصنف کی بابت میری رائے تبدیل کر دے۔
ہمارے موسمی نقادوں اور ایوارڈوں کے “منصفین” کی بوالعجبیوں، شعبدہ بازیوں اور فیصلوں نے ہمیں ادبی دنیا میں تماشہ بنا دیا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ عقابوں کے نشیمن زاغوں کے تصرف میں چلے گئے ہیں۔
بقول وارث علوی “اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ جید جاہل ،خفاش منش کندہء نا تراش اور بُزِ اخفش رواقیت کے داعی بن بیٹھے ہیں. سنجیدہ فکشن کا قاری بھوکا مرنے لگا ہے۔ انگریزی وہ پڑھتا نہیں، تراجم ہوتے نہیں، روایتی افسانہ دم توڑ چکا ہے اور پڑھنے کے لیے یا تو بیسٹ سیلرز رہ گئے ہیں یا بے کیف اور بدہیئت تجرباتی یا تمثیلی افسانے۔ چنانچہ وہ ادب پڑھنے کے بجائے دوسری تفریحات تلاش کر لیتا ہے۔”
یو بی ایل ایوارڈ کے منصفین نے ادب پروری کے بجائے ادب دشمنی کا انتخاب کر کے اپنی ساکھ برباد کرلی ہے۔ باغِ ادب کے نگہبان ہی اگر اسے اجاڑنے پر کمربستہ ہو جائیں تو ایسے بدنصیب چمن کو کون بچا سکتا ہے۔
فیس بک پر تبصرے