کرونا عہد میں سوشل ورک (تیسری قسط)

829

آزمائش کے لمحوں میں دوسروں کے کام آنا انسانی جبلت ہے۔ پاکستانیوں کی اس حوالے سے شہرت بے مثال خیرات کرنے والوں کی ہے ۔ کرونا کی وباء آئی تو ہم نے دیکھا کہ سبھی اپنے تیئں کچھ نہ کچھ کرتے نظر آئے ۔ راشن کی تقسیم ایسے مواقع پر خوب ہوتی ہے اور منظم نظام نہ ہونے کے باعث سڑکوں پر پیشہ ور راشن وصول کرنے والوں کی اچھی خاصی تعداد نظر آئی ۔ بعض کو تو اتنا کچھ مل گیا کہ سوشل میڈیا پر ویڈیوز آئیں  کہ وہ راشن کے تھیلے دکانوں پر واپس بیچنے کی کوشش کررہے تھے۔ حکومت نے بھی احساس (سابقہ بے نظیر سپورٹ پروگرام )کا پرچم تھاما اور ہر حقدار خاندان کو ساڑھے بارہ ہزار روپے دیئے ۔ جو خاندان تو چند افراد پر مشتمل تھےان کا کچھ گزارہ ہوگیا اور جن کے اہل خانہ زیادہ تھے ان کا بھی کچھ نہ کچھ ہوہی گیا ۔

اس صورتحال سے چند سوالات ابھرتے ہیں کیا چیریٹی (خیرات) کا ”ون سائز فٹ آل “طریقہ کار ٹھیک ہے غالباََ نہیں ۔ اول تو یہ کہ اس وباء کے موسم میں خطِ غربت اور غربت کی کھائیوں کے آس پاس بستے لوگوں کی راشن سے بڑھ کر اور بھی ضرورتیں تھیں۔ اگر کوئی منظم طریقہ کار ہوتا توشائد کچھ لوف حفاظتی ماسک بانٹ دیتے اور کچھ سینی ٹائزر و خشک خوراک بانٹ دیتے ۔ دوسرا یہ جس نادرا کے ڈیٹا بیس سے مستحقین کی جانچ پڑتال ہوئی اسی سے خاندان کے سائز کی معلومات لے کر کسی کو زیادہ اور کسی کو کم حسب ضرورت امداد کی جاسکتی تھی۔ ساڑھے بارہ ہزار اچھی رقم تھی تاہم حکومت نے ہی کم ازکم ماہانہ اجرت ساڑھے سترہ ہزار روپے طے کررکھی ہے۔

میں ذاتی طور پر ریاست اور حکومت کی جانب سے چیریٹی کی بجائے کلیئرٹی ماڈل کا قائل ہوں اور اس کے لئے بڑی واضح پالیسی اور حکمت عملی کی ضرورت تھی۔ وباء کے ساتھ اب یہ ہمارا چوتھا مہینہ ہے اور ابھی تک ڈیلی ویجرز اور دیہاڑی دار مزدوروں کی کھوج ہی جارہی ہے۔ ان فارمل اکانومی میں مزدوروں کو ٹھیکے داروں کے ذریعے کام پر لیاجاتا ہے کسی باقاعدہ کنٹریکٹ کا تو ہمارے ہاں کلچر ہی نہیں ہے ۔ تو کیا نادرا کے ڈیٹا بیس کے ذریعے ضرورت مندوں کی فہرست نہیں بنائی جا سکتی تھی۔ خیر! جو ہونا تھا وہ ہوچکا ۔ اب سُنا ہے کہ دس لاکھ کی ٹایئگر فورس بن چکی ہے لیکن ابھی تک ان کے فٹ پرنٹ ریلیف کے کاموں میں خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔ یو نین کونسل ، پاکستان میں وہ یونٹ ہے جسے ہر گلی کی غربت اور سفید پوشی کا علم ہوسکتا تھا ۔ پنجاب میں تو یہ یونٹ ختم کردیا گیا ہے اور جہاں ہے وہاں بھی اس کی گراس روٹ سطح پر افادیت سے استفادہ نہیں کیا جارہا۔ پاکستان میں بوائز اسکاؤٹس اور گرلز گائیڈز 1947 سے ،انجمن ہلال احمر 1947 سے، قومی رضاکار اور سول ڈیفنس کا محکمہ 1952 سے موجود ہے لیکن کیا کیا جائے ہمیں ہر مشکل گھڑی میں نئے نئے ادارے بنانے کا شوق ہے تاکہ کریڈت کسی اور کو نہ مل جائے۔ 1973 میں تو ہم نے نیشنل ڈویپلمنٹ وولنٹیئرز کا ایکٹ بنایا کہ ہر طالبعلم کو ڈگری تب ملے گی جب وہ لازمی کیمونٹی سروس کرچکا ہو۔ مارشل لاء آیا تو 1980 میں یہ ایکٹ اور یہ سلسلہ ختم کردیا گی ۔ 2005 کا زلزلہ آیاتو ہم نے پاکستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی اور صوبائی اتھارٹیاں بنائیں ۔ اس موقع پر نیشنل وولنٹیئرز پروگرام ایک بار پھر شروع ہوا جو وزارت امور نوجوان کے صوبوں کو منتقل ہوجانے کے بعد ختم ہوگیا ۔ سِوک ایجوکیشن کا تصور ہماری کتاب اور نصاب میں نہیں لہذا اس بار پھر ہمیں ٹایئگر فورس کھڑی کرنا پڑی ۔ خیر نام ہی پر سیاسی اختلاف ہوگیا  کہ یہ تو آنے والے لوکل گورنمنٹ الیکشن کی تیاری ہے ۔ ویسے بھی رضاکارانہ کام کوئی سوئچ آن اور سوئچ آف نہیں ہوتا اور اس وباء میں احتیاطی تدابیر کی فہرست بھی طویل تھی ،بغیر تربیت کے  رضاکارانہ کام مشکل تھا  ۔

آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ پاکستان میں عرصہ دراز سےسرکاری سطح پر  نیشنل کونسل برائے سوشل ویلفیئر بھی قائم ہے  اور 50ء کی دہائی سے درجن بھر یونیورسٹیوں میں سوشل ورک کا ڈیپارٹمنٹ ماسٹرز اور پی ایچ ڈیز بھی کرواتا ہے ۔ صوبوں میں سوشل ویلفیئر کے ڈیپارٹمنٹس بھی قائم ہیں لیکن کیا کیا جائے ہم پہلے سے دستیاب ادارہ جاتی وسائل کو حکمت عملی بناتے وقت شمار تک نہ نہیں کرتے ۔ حکومتی کوششوں کےساتھ ساتھ غیر سرکاری تنظیموں اور کیمونٹی تنظیموں کا بھی اچھا خاصا نظام تھا جو رجسٹریشن کے نئے ضابطوں اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی شرائط کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں ۔ اکثر بین الاقوامی ادارے تو یہاں سے اپنی موجودگی بھی ختم کرگئے۔ وباء کے دنوں میں اس سیکٹر کی کمی محسوس کی گئی۔ اور وزارت برائے اقتصادی امور نے کہا جو این جو اوز کرونا کے حوالےسے کام کریں گی اور انہوں نے این او سی کی درخواست دے رکھی ہے انہیں اجازت ہے۔ بھئی غیر سرکاری ادارے اینٹ بہ اینٹ بنتے اور برسوں میں مضبوط اور فعال ہوتے ہیں۔اس ہنر کا کوئی سافٹ ویئر یا ایپ نہیں ۔ یہ تجربے سے عبارت ہے۔

اس ساری کہانی کا لب لباب یہ بنتا ہے کہ ہمیں چیریٹی ، سوشل ورک ، سماجی خدمت جوبھی کہیئے کا ایک مربوط اور مستقل نظام بنانا ہوگا۔ اور ویلفیئر کے تمام ممکنہ شعبوں پر توجہ دینا ہوگی جیسا کہ اس وباء میں ہمیں ٹیلی تعلیم ، ٹیلی صحت وغیرہ پر فوکس کی ضرورت محسوس ہوئی دوسرا یہ کہ اس حوالے سےکام کرنے والے تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے درمیان رابطہ اور تعاون بڑھانا ہوگا۔ نارمل دنوں میں ماضی کے تجربات کی روشنی میں مستقبل کی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ ویسے لگتا ہے کرونا عہد نے جو کچھ سکھایا ہے وہ شائد عرصہ تک نارمل ہواس لئے اس کے ساتھ زندہ رہنے کے لئے ہمیں بہت کچھ کرنا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...