کیا مولانا ابوالاعلیٰ مودودی پاکستان کے مخالف تھے؟

742

مولانامودودی کا نام پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسے سیاستدان اور عالم دین کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ جن کے نظریات کے بارے میں آج تک ان کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان ایک ایسی کشمکش جاری ہے جو شاید کبھی ختم نہ ہو سکے۔ان کے ناقدین کی ان کے بارے میں رائے ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف تھے وہ قائداعظم کو کافر اعظم کہتے تھے۔پاکستان کو ناپاکستان کے نام سے پکارتے تھے۔مولانا کے حامیوں اور مخالفین نے ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے۔لیکن ایک بہت ہی دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا نے خود پر ہونے والی تنقید سے ہمیشہ صرفِ نظر کیا اور اس کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔لیکن ان کی وفات کے بعد ان کی جماعت نے ان پر ہونے والے اعتراضات کے جواب میں ایک مفصل کتابچہ شائع کر دیا۔یہ کتابچہ ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔مولانا سید ابوالاعلی مودودی ۲۵دسمبر ۱۹۰۳ میں اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ان کے والدسید احسن حیدرآباد میں وکالت کرتے تھے۔وہ سر سید کے عزیز تھے۔اس لیے وہ مدرستہ العلوم علی گڑھ کے ابتدائی دور کے طالب علموں میں سے تھے۔26جنوری 1967کو ماہرالقادری کے نام اپنے ایک خط میں مولانا لکھتے ہیں کہ :

’’برادرم ماہر صاحب ۔۔۔!!!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
عنا یت نامہ ملا۔جو حضرات میرے اور جماعت اسلامی کے خلاف دل کا بغض نکالتے ہیں ان کا معاملہ میں نے اللہ کے حوالے کر دیا ہے،اس کے لیے ان کی ساری تحریریں پڑھتا ہوں اور اللہ کی عدالت کے سپرد کر کے اپنے کام پر لگ جاتا ہوں۔میری عاقبت درست کرنے کے لیے جو کام ضروری ہیں وہی اتنے زیادہ ہیں کہ دوسرے کسی کام میں ایک لمحہ بھی صرف کرنا مجھے تضیع وقت نظر آتا ہے ۔یہ حضرات اپنی عاقبت سے غافل ہیں،اوراپنی عاقبت ہی کے لیے خلاف بولتے ہیں اورلکھنے کو مفید سمجھتے ہیں تو دونوں صورتوں میں اپنے وقت اور محنت کا مصرف تجویز کرنے کی انھیں پوری آزادی ہے۔میں انشاء اللہ ان کی کبھی مزاحمت نہیں کروں گا۔کم از کم میری تو یہ خواہش بھی نہیں ہے کہ میرے رفقاء اور دوستوں میں سے کوئی ان کی مزاحمت کرے۔مجھے پورا یقین ہے کہ جو حیثیت فی الواقع مجھے اللہ نے دی ہے اسے کوئی چھین نہیں سکتا اور جو حیثیت اللہ ہی نے مجھے نہیں دی کوئی بھی مجھے دلوا نہیں سکتا ۔بہر حال اگر ان لوگوں کی زیادتیوں کو دیکھ کر کسی کو غضب اور غصہ لاحق ہو ہی جائے تو میں اسے اللہ ہی کی خاطر نصرتِ حق سے باز رہنے کے لیے بھی نہیں کہتا۔خصوصاً جبکہ اللہ سے اجر کی امید پر یہ کام کر رہا ہوں۔‘‘

اب آتے ہیں مولانا پر پہلے الزام کی جانب کہ انھوں نے قیامِ پاکستان کی مخالفت کی تھی۔مخالفین کے اس الزام کا جواب جماعت کے رہنماؤں نے بارہا     دیا ہے۔خرم بدر کی مو لفہ کتاب ’’سید مودودی کی سیاسی زندگی‘‘ مطبوعہ 1988 میں پروفیسر خورشید اپنے مضمون ’’مولانا مودودی اور تحریک پاکستان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عمل کے ایک خط کے جواب میں مولانا نے لکھا تھا:
’’
آپ حضرات ہر گز یہ گمان نہ کریں کہ میں کسی قسم کے اختلافات کی وجہ سے حصہ لینا نہیں چاہتا۔ دراصل میری مجبوری یہ ہے کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ حصہ لوں تو کس طرح؟ ادھوری تدابیر میرے ذہن کو بالکل اپیل نہیں کرتیں۔ نہ داغ دوز ی (Patch Work) سے ہی مجھ کو کبھی دلچسپی رہی ہے۔اگر کُلی تخریب اور کُلی تعمیر پیش نظر ہوتی تو میں بہ دل و جان اس میں ہر خدمت انجام دینے کے لیے تیار تھامیرے لیے یہی مناسب ہے کہ ا س با ب میں عملًاکوئی خدمت انجام دینے کے بجائے ایک طالب علم کی طرح دیکھتا رہوں کہ سوچنے والے اس جزوی اصلاح و تعمیر کی کیا صورتیں نکالتے ہیں اور کرنے والے اسے عمل میں لا کر کیا نتائج پیدا کرتے ہیں ؟اگر فی الواقع انھوں نے اس طریقے سے کوئی بہتر نتیجہ نکال دکھایاتو وہ میرے لیے انکشاف ہو گااور ممکن ہے اس کو دیکھ کر میں مسلک کلی سے مسلک جزوی کی طرف منتقل ہو جاؤں۔(ترجمان القران۔جولائی ۔اکتوبر1944)‘‘۔

مولانا مودودی پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ وہ قیام پاکستان کے خلاف تھے اس الزام کا جواب ان کی تنظیم سے وابستہ لوگوں نے بارہا دیا ہے لیکن اس الزام کی حقیقت کیا ہے اس کا ذکر سردار شوکت حیات خان نے اپنی کتاب ’’گم گشتہ قوم (ایک مجاہد آزادی کی یاداشتیں ) اشاعت اول دسمبر 1995 زیر اہتمام جنگ پبلشرز میں یوں کیا ہے :
’’
جب میں پٹھان کوٹ پہنچا تو قائداعظم نے مولانا مودودی سے ملنے کے لیے حکم  فرمایا تھا ۔وہ چوہدری نیاز کے گاؤں سے متصل باغ میں رہائش پذیر تھے ۔مولانا بنیادی طور پر دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے تھے جو اس وقت انڈین نیشنل کانگریس کے حامی تھے۔ جب میں نے انھیں قائداعظم کا پیغام پہنچایا کہ وہ پاکستان کے لیے دعا کریں اور ہماری حمایت کریں تو انھوں نے جواباً کہا کہ وہ کیسے ناپاکستان (ناپاک جگہ )کے لیے دعا کر سکتے ہیں۔ مزید برآں پاکستان کیسے وجود میں آسکتا ہے ۔جس وقت تک تمام ہندوستان کا ہر فرد مسلمان نہیں ہو جاتا ۔جماعت اسلامی کے قائد کی بصیرت اور نظریہ یہ تھا۔ پاکستان کے متعلق مولانا مودودی کا نظریہ ہمیشہ بڑا مخالفانہ تھا۔
میاں طفیل محمد اپنی کتاب ’’جماعت اسلامی کی دستوری جدوجہد‘‘مطبوعہ نومبر 2001زیر اہتمام ادارہ معارف اسلامی منصورہ لاہور۔کے صفحہ نمبر 19 پر لکھتے ہیں:
’’
مہاجرین کی دیکھ بھال اور امداد کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ اکتوبر ۱۹۴۷میں راجہ غضنفر علی اور تحریک پاکستان کے بعض دوسرے رہنماؤں کے بیانات اخبارات میں آئے کہ اگر پاکستان کو ہم نے ایک اسلامی ریاست بنایا اور یہاں شرعی قوانین نافذ کیے تو ہندوستان میں ہندو رام راج نافذ کرکے وہاں مسلمانوں کا رہنا نا ممکن بنا دیں گے۔نیز پاکستان میں اسلامی قوانین کے مطابق لوگوں کے ہاتھ کاٹنے اور ان کو سنگسار کر نے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تو ہماری لنگڑوں لولوں کی قوم ہندوستان کا مقابلہ کیسے کرے گی۔‘‘
گویا مولانا مودودی نے مسلم لیگ پر مسلط ہونے والی سرمایہ داروں اور جاگیر داروں پر مشتمل لیڈر شپ کے بارے میں 1940سے1946تک جن خدشات کا اظہار فرمایا تھا وہ حرف بہ حرف سامنے آنے لگے تھے۔میاں طفیل مذکورہ کتاب کے صفحہ نمبر 36اور 37 پر لکھتے ہیں کہ18 مئی 1948 کوریڈیو پاکستان کی طرف سے مولانا مودودی صاحب کو اسلامی ریاست پر ایک مکالمے کے لیے بلایا گیا ۔اس مکالمے میں مولانا نے سارے اعتراضات کو صاف کر دیاجو اس مکالمے میں اٹھائے گئے تھے۔ارباب حکومت کو اس بات کا اندازہ ہو اکہ علمی اور فکری میدان میں جو گولہ بارود وہ اسلامی نظام کو اُڑانے کے لیے تیار کیے بیٹھے تھے وہ کچھ کام نہیں دے سکتا ۔ان میں سے بعض شتر مرغوں نے ریت میں سر چھپا کر اسلامی طوفان کا مقابلہ کرنے فیصلہ کیا چنانچہ جماعت اسلامی پاکستان کو سیاسی جماعت قرار دے دیا گیا ۔ملازمین کو جماعت کے لٹریچر ،اخبارات،رسائل ہر چیز سے دور رہنے کی ہدایات جاری کی جانے لگیں ۔سرکاری دفاتر میں اسلامی رحجان رکھنے والے ملازموں کی خصوصیت کے ساتھ نگرانی ہونے لگی۔جس سے ملازمین کے ہر طبقے میں جماعت کا تعارف ہو گیا۔
جماعت اسلامی اور حکومتوں کے درمیان سرد جنگ جاری رہی لیکن یہ انتہا کو اس وقت پہنچی جب خواجہ ناظم الدین کے دور میں پنجاب میں مارشل لاء نا فذ کر دیا گیا اور مولانا کو گرفتار کر کے ملٹری کورٹ میں ان پر مقدمہ چلایا گیا ۔مولانا کو 27اور28 ،1953کی درمیانی شب گرفتار کیا گیا مولانا سے 28 مارچ سے 3 مئی 1953تک لاہور کے شاہی قلعہ میں پوچھ گچھ ہوئی۔مولانا مودودی پر مارشل لاء ضابطہ نمبر ۸ بشمول تعزیرات پاکستان نمبر 153(رعایا کے درمیان منافرت پھیلانا )اور نمبر 124 (حکومت کے خلاف بغاوت پر ابھارنا) کے تحت مقدمہ چلایا گیا ۔فوجی عدالت میں مقدمہ ۹مئی کو ختم ہو گیا ۔۱۱مئی کی شب ان کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ ان کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے ایک پمفلٹ پر قادیانی مسئلہ لکھا تھا جو مارشل لاء سے ایک دو دن پہلے چھپ چکا تھا۔
مولانا موددی پاکستان کے پہلے مذہبی یا سیاسی رہنما تھے جنھیں ملٹری کورٹ سے سزائے موت ہوئی۔لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔9مئی کو انھیں سزا ہوئی لیکن 13 مئی کو سزائے موت عمر قید میں تبدیل کر دی گئی۔
مولانا مودودی پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ یوں تو وہ عورت کی حکمرانی کے خلاف تھے لیکن انھوں نے ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی اس تمام واقعے کا ذکر نوابزادہ نصراللہ خان نےخرم بدر کی مولفہ کتاب ’’سید مودودی کی سیاسی زندگی‘‘ مطبوعہ ۱۹۸۸ میں اپنے مضمون’’ قومی سیاست اور
مولانا مودودی‘‘میں یوں کیا ہے:
’’
مادر ملت فاطمہ جناح کا نام یوں بالاتفاق صدارتی امیدوار کے طور پر منظور کر لیا گیا۔تو ہم سب محترمہ فاطمہ جناح کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھیں بڑی مشکل سے اس تجویزکو قبول کرنے پر راضی کیا۔ان کی رضامندی حاصل ہو گئی تو رات ساڑھے گیارہ بجے ہم نے پریس والوں کو اس فیصلے سے آگاہ کر دیاکہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے حزب اختلاف کا صدارتی امیدوار بننا منظور کر لیا ہے۔اس کے بعد دوسرا کٹھن مرحلہ یہ تھا کہ جماعت کا اس سلسلے میں تعاون کیسے حاصل کیا جائے۔یہ مشکل چودھری محمدعلی صاحب نے حل کی۔انھوں نے مولانا مودودی سے جیل میں رابطہ قائم کیا۔انھوں نے اپنے ساتھیوں کو جو باہر تھے،کہلوا بھیجا کہ صدارتی انتخاب کی اس مہم میں مادر ملت کی حمایت کرنی چاہیے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ صدر ایوب سے نجات پانے کی اس وقت اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ صدر ایوب کے مقابلے میں نسبتاً کم برائی ہے۔مادر ملت نے ان کا فقرہ کچھ محسوس بھی کیا۔بعد میں ایک موقع پر میں ان کے پاس بیٹھا تھا کسی سلسلے میں مولانا کا ذکر آیا تو مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں۔بھئی انھوں نے تو مجھے بُرائی کے طور پر تسلیم کیا تھا۔
پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں مذہبی رحجانات کے اثر و نفوذ کے بارے میں عموماً یہ خیال عام ہے کہ یہ سب جنرل ضیاء کے دور میں ہوا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا آغاز جنرل ضیاء نے کیا تھا مگر بھٹو صاحب کے دور میں غالباً بھٹو کو اندازہ بھی نہ تھا کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے۔
بریگیڈئرظفر اقبال چودھری اپنی کتاب ’’یادوں کی دھنک‘‘اشاعت دوم فروری 2001 میں لکھتے ہیں:
’’
قائد اعظم نے پاکستان بننے کے بعد مولانا سید ابو الاعلیٰ کو دعوت دی تھی کہ وہ ریڈیو پر اپنے لیکچرزکے ذریعے اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرہ قائم کے لیے پاکستانی عوام کی رہنمائی کریں ۔دوسری طرف فوجی حلقوں میں یہ صورت حال تھی کہ مولانا مودودی یا جماعت اسلامی سے کسی قسم کا رابطہ رکھنا شجر ممنوعہ قرار پایا تھا۔ذاتی طور پر تو فوج سے متعلقہ بہت سے افراد مولانا کی تعلیمات اور دین اسلام کے لیے ان کی خدمات سے متاثر تھے،مگر ان سے تعلق یا رابطہ رکھنا ممنوع تھا۔جنرل ایوب خان کے زمانے میں تو مولانا کی ڈاک سنسر ہوتی تھی اور اگرکوئی حاضر سروس فوجی ان سے خط و کتابت کرتا تو اس سے بازپرس کی جاتی تھی۔ایک فوجی کے لیے جماعت اسلامی سے کسی نوع کا تعلق رکھنا گوارا نہیں کیا جا سکتا تھا۔مگر اب مسٹر بھٹو کے عہد حکومت میں جنرل ضیاء الحق نے انتہائی جرات مندانہ قدم اُٹھاتے ہوئے فوج کے اندر اسی منبع علم خوشہ چینی کی ترغیبات پیدا کیں ۔انھوں نے مولانا مودودی کی قران مجید کی تفسیر تفہیم القران بھی فوج میں سرکاری طور پر خرید کر لائبریریوں اور ریڈنگ رومز میں رکھوانے کے احکامات دیے ۔یہ یقیناًان کے ایمان کی پختگی اور اسلام دوستی کا بڑا مظہر ہے۔‘‘

اسی قسم کا ایک اور واقعہ نعیم احمد کی مرتبہ کتاب پاکستان کے پہلے’’ سات وزرائے اعظم ‘‘اشا عت اول جون 1998 مطبوعہ جنگ پبلشرز کے صفحہ نمبر 19 پر بیان کیا گیا ہے:
’’
وزیر اعظم کا کوئی علیحدہ دفتر (سیکرٹریٹ) نہیں تھا۔البتہ کیبنٹ ڈویژن مین ایک برانچ تھی۔جس میں لیاقت علی خان کے دور میں ایک اسٹینو،چارپانچ اسسٹنٹ دو تین کلرک ایک چپڑاسی اور ایک اسسٹنٹ انچارج ہوتا تھا ۔یہ عملہ دراصل وزیر اعظم کے پرائیوٹ سیکرٹری کے ماتحت کام کرتا تھا۔خواجہ ناظم الدین کے دور میں اس برانچ کے اسسٹنٹ انچارج کے عہدہ کے برابربڑھا دیا گیا۔
یہ بات قارئین کے لیے دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ اسی پرائم منسٹر برانچ میں ایک کلرک جس کا نام رحمت الہیٰ تھا وہ اس برانچ میں سرکاری کاغذات ڈائری کرنے کا کام کرتا تھا۔یہ آدمی نہایت خاموش اور سنجیدہ قسم کا تھا۔ چند ماہ نوکری کرنے کے بعد اس شخص کے بارے میں انٹیلی جنس بیورو سے رپورٹ آئی کہ اس کا تعلق جماعت اسلامی ہے۔اس شخص کو مشورہ دیا گیاکہ اگر وہ یہ کہہ دے کہ اس کا کوئی تعلق جماعت اسلامی سے نہیں تو اس کی ملازمت میں کوئی خلل واقع نہ ہو گاورنہ اسے نوکری سے فارغ کر دیا جائے گا۔ لیکن وہ نہایت دلیر انسان تھا۔ اس نے جواب دیا کہ جماعت اسلامی سے وابستگی کی وجہ سے ایسی ہی رپورٹ کی بناء پراسے فوج سے جہاں وہ کمیشنڈ آفیسر زیر تربیت تھا ،نکال دیا گیا تھا۔یہاں تو صرف میں ایک کلرک ہوں ۔میں جھوٹ نہیں بول سکتا۔لہٰذا رحمت الٰہی نے ملازمت سے استعفی دے دیا۔یہ رحمت الٰہی وہ ہیں جو اب چودھری رحمت الٰہی کے نام سے جماعت اسلامی کے بڑے کارکنوں میں شامل ہیں اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں بطور وزیر پانی وبجلی کچھ عرصہ کام کرتے رہے ہیں۔یہ ایک عام سی مثال تھی جماعت اسلامی کے کارکنوں کی۔
یوں تو مولانا مودودی ان کی حیات اور بعد وفات مختلف قسم کے مذہبی ، سیاسی الزامات لگتے رہے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے خود سے کبھی بھی ان الزامات کا جواب نہیں دیا۔لیکن جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ایک سو ستائیس صفحات پر مبنی ایک کتاب ’’مولانا مودودی پر جھوٹے الزامات اور ان کے مدلل جوابات‘‘ مولفہ عاصم نعمانی مطبوعہ فروری 1985 ناشر منصورہ بوک سینٹر، منصورہ لاہور نمبر 18 شایع کی گئی جس میں پینتالیس کے قریب ذاتی اور شخصی ، مذہبی ، سیاسی، الزامات کے جواب دیئے گئے ہیں۔ان مین ایسے الزامات شامل ہیں جن کو بیان کرنا مناسب نہیں ۔ اگر جماعت اسلامی یہ کتاب  شایع نہ کرتی تو شاید لوگوں کو ان الزامات کا علم ہی نہیں ہو پاتا۔بہر حال، مولانا مودودی پر لگنے والے الزامات کی ایک طویل فہرست ہے اور اس کا ذکر ہم اپنے اگلے بلاگ میں کریں گے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...