دستور پر عملدرآمد نہ کرنے کی قیمت
بہار اور آئین پاکستان 1973ء میں اکٹھے آئے تھے لیکن پھر قومی افق پر سرزمینِ بے آئین کی خزاں کیوں؟ جواب تلاش کریں تو گرین بک کو گرے بک بنائے رکھنے میں سبھی کا حصہ ہے۔ ناقدین کا اصرار ہے کہ ہمارے ہر آئین میں نو آبادیاتی 1935ء کے انڈین ایکٹ کی بدروح چھپی ہوئی ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ ہم اپنا معروضی آئینی ٹمپلیٹ نہیں بنا سکے۔ نو آبادیاتی نظام کی نسبت ہی یہ تھی کہ مختلف اداروں اور ضابطوں کے ذریعے غلاموں کو مکمل طور پر کنٹرول کیا جائے اور کبھی کبھار حسب ضرورت انہیں محدود اختیار کے وہم میں بھی مبتلا کردیا جائے۔
دوسرا یہ کہ ہمارا آئین ایک پروسیجرل آئین ہے یہ کوئی کامل سیاسی سمجھوتہ نہیں۔ کیونکہ ہماری آزادی کے قائدین نے نہ تو کوئی فیڈرلسٹ پیپر لکھے اور نہ ہی کوئی ایسا آئینی کنونشن منعقد کیا کہ قوم کی فکری سمت کا واشگاف انداز میں تعین ہو جائے۔ نتیجتاً جس کا جس طرف دل چاہا یا اختیار چلا اسی رخ پرچل پڑے۔
1956ءکے آئین کے مباحثے نئی قوم کی فکری الجھنوں کی گواہی دیتے ہیں تو 1962ء کا آئین تو فردِ واحد کی دانش پر انحصار کی دائمی بیماری لگا گیا۔ کئی تلخ تجربات کے بعد 1973ء آیا تو اہل سیاست نے آئین تشکیل دیا۔ 1973ء کے آئین کی تیاری اور منظوری کے لمحوں کی کہانی بھی یہی بتاتی ہے اہل مذہب، قوم پرستوں، عوام المختصر ہرکسی کو کچھ نہ کچھ دے کر راضی کیا گیا۔ اس وقت سے آج تک سبھی اپنے لئے مزید کی جستجو میں ہیں۔ علاوہ ازیں 1973ء کے آئین پر1977ء،1999ء اور 2007ء میں آمریت کے وار ہوئے تو آئینی کھینچا تانی کا نیا کلچر ابھرا۔ اہل سیاست وفاقیت کے داعی تھے تو آمریت مرکزیت پسند ٹھہری اور قوم کو ڈنڈے کے زور پر یکجا کرنے لگی۔1977ء کی آمریت پر شریعت کا لبادہ تھا تو 1999ء کے بعد روشن خیالی کی لہر اٹھی۔
2010ء میں اہل سیاست کو موقعہ ملا تو18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے برباد ہوئے آئین کی حرمت بحال کرنے کی کوشش کی گئی۔ سیاست کے اس سفر کے ساتھ ساتھ عدلیہ کا نظریہ ضرورت اور انتظامیہ کا آئین اور قانون سے ہٹ کر ”احکام شاہی“ کے ذریعہ روز مرہ کے امور نبھانے کا رویہ بھی گہری جڑیں پکڑ گیا۔
آج ہم جس بحران کا شکار ہیں اس کا ایک تجزیہ یہ بھی بنتا ہے کہ ہمارے اکثر و بیشتر مسائل آئین کی مختلف شقوں پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجہ سے ہیں۔
ہمارا آئین ایک پروسیجرل آئین ہے یہ کوئی کامل سیاسی سمجھوتہ نہیں
آئیے تجزیہ کرتے ہیں کہ آئین کی شقوں پر عملدرآمد ہوتا تو آج ہمارے ہاں کون کون سے بحران نہ ہوتے۔
٭ آئین کے دیباچہ اور1985ء میں آئین کا حصہ بن جانے والی قراردادِ مقاصد کے مطابق اگر اقتدار ہمیشہ عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے ہی ہوتا تو ہماری جمہوریت آج اتنی لنگڑی لولی نہ ہوتی اور اب تک عوام اپنے ووٹ کی قوت سے بہت سارے نکمے سیاستدانوں اور ان کی تانگہ پارٹیاں یا تو سدھر چکی ہوتیں یا پھر تاریخ کا گمنام باب بن چکی ہوتیں۔
٭ آئین کی اسکیم یہ تھی کہ تمام پاکستانیوں کو بطور شہری بنیادی حقوق میسر ہوں گے اور اقلیتوں، بچوں، خواتین اور دیگر مظلوم طبقات کی بہتری کے لئے خصوصی اضافی اقدامات کیے جائیں گے۔ چونکہ جب آئین معطل ہوتا ہے تو بنیادی حقوق کا باب بند ہو جاتا ہے اس لئے شہریوں کو نہ تو اپنے حقوق کا ادراک ہے اور نہ ہی انہوں نے اس پھل کے ثمرات چکھے ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ دس سال کےلئے رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ اس عرصہ میں ہر علاقے میں متوازن ترقی کا جھنڈا لہرائے گا لیکن ہم کوٹہ سسٹم میں بار بار توسیع کرکے عملاً میرٹ کے کلچر کو ایک صدی کےلئے قتل کر چکے ہیں۔
٭ آئین کے پہلے آرٹیکل میں پارلیمنٹ کو یہ اختیار تھا کہ وہ مزید علاقوں کو ریاست میں شامل کرلے اور وہاں آئین کی چھاﺅں لے جائے۔ اگر ایسا ہوتا تو آج قبائلی علاقوں کی پورے پاکستان کے ساتھ جڑت ہو چکی ہوتی اور اکنامک کاریڈور کے تقاضوں کی بجائے گلگت بلتستان کے رہائشی پورے پاکستانی بن چکے ہوتے۔
٭ اگر آئین کے آرٹیکل 3 پر عملدرآمد ہوتا تو استحصال کا کلچر دم توڑ جاتا، اگر آرٹیکل 4 پر کام ہوتا تو آج امیر و غریب قانون کے سامنے برابر ہوتے۔ آرٹیکل 5 پر عملدرآمد ہوتا تو پاکستانیت میں مکمل وفا کا کلچر ہوتا، آرٹیکل 6 پر عملدرآمد ہوتا تو دھرنوں سے جمہوریت کو دھمکانے کی رسم نہ چلتی۔ آرٹیکل 29 سے لے کر 40 جو کہ پالیسی کے رہنما اصول ہیں پر کام ہوتا تو آج ہم بہت آگے جا چکے ہوتے۔ پالیسی کے یہ رہنما اصول ہر سرکاری دفتر میں نمایاں طور پر آویزاں ہوتے تو ریاست اور حکومت کا ہر اہلکار ان پر عملدرآمد کرتا جو کہ آئینی تقاضا تھا۔
٭ آئین کے مطابق صدر پاکستان کے انتخاب اور اختیار کے باب پر عملدرآمد ہوتا تو ہمیں بھونڈے صدارتی ریفرینڈموں کے ذریعے صدور نہ بھگتنا پڑتے۔ اسی طرح وفاقی پارلیمان،حکومت،صوبائی اسمبلیوں اور حکومتوں کے حوالے سے آرٹیکلز پر عمل ہوتا تو آج سبھی اپنے اپنے حلقہ اثر اور دائرہ عمل میں باکمال ہوتے۔
٭ اگر آئین کی منشا اور روح کے مطابق معاشی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور حق دار کو حق ملتا تو آج نہ تو صوبائی رنجشیں ہوتیں اور نہ ہی جا بجا محرومیوں کا ترانہ۔ اگر مالیاتی نظام آئین کے مطابق ہوتا تو آج ملک کی کالی معیشت، قرضوں میں جکڑی کمزور معیشت سے بڑی نہ ہوتی۔
٭ اگر آئین کے آرٹیکل 140-A پر عملدرآمد ہوتا تو آج ہر شہر میں مضبوط عوام دوست مقامی حکومتیں ہوتیں اور ہر جگہ اچھی تعلیم، ماحول، صحت اور پینے کا صاف پانی میسر ہوتا۔
٭ اگر عدلیہ کے باب (آرٹیکل175سے لیکر آرٹیکل212 ) پر عملدرآمد ہوتا اور پی سی او ججز کا سیلاب نہ آتا تو آج ہمیں ہر چیز کےلئے خصوصی عدالتیں نہ بنانا پڑتیں اور عوام کو انصاف میسر ہوتا۔
٭ اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حوالے سے آرٹیکلز پر عملدرآمد ہوتا تو ملک میں کسی کو عوام کی رائے چرانے کی جرات نہ ہوتی اور نہ ہی کنگز پارٹیوں کے نام پر جیتنے والے گھوڑوں کو اقتدار کی مسند پر مصنوعی انداز میں پہنچایا جاسکتا۔
٭ آئین کی اسلامی شقوں پر جدید ریاست کے تقاضوں کے مطابق عمل ہوتا تو ہر کوئی اپنے اپنے تئیں اسلام نافذ نہ کرتا پھرتا۔ آئین کے آرٹیکل 256 پر عمل ہوتا تو ہمیں جا بجا مافیا، نجی لشکر اور پرائیویٹ آرمی نظر نہ آتی۔
٭ آئین کے آرٹیکل 244 پر عملدرآمد ہوتا تو اقتدار کے لئے بار بار فوج کی طرف دیکھنے کی روایت نہ ہوتی۔
٭ آئین کے کئی دیگر آرٹیکل ایسے ہیں جن پر اگر عمل ہوتا تو آج ہماری زبان، ثقافت اور کلچر اپنی تمام تر ہفت رنگی کے ساتھ بھرپور ہوتے۔
لیکن یہ آرٹیکل 254 آئین میں کیوں آگیا جو کہتا ہے کہ اگر کوئی کام جسے آئین کے مطابق ایک معین وقت میں ہونا تھا اگر نہ ہوسکا تو کوئی بات نہیں۔ خدارا اس آرٹیکل کو ختم کیجیے یا پھر کوتاہی کی بھی کوئی نہ کوئی ڈیڈ لائن ہونی چاہیے۔
ہمارا آج کا سارا مقدمہ یہ ہے کہ آئین سے انحراف کی ہم نے بھاری قیمت ادا کی ہے اور جب تک ہم آئین کی طرف نہیں آئیں گے ہمارے بحران بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔ ہمارا آئین تو خوش قسمت ہے کہ اس پر ابھی تک کم و بیش تمام سیاسی افکار کا اتفاق ہے، شکوہ ہے تو عملدرآمد نہ ہونے کا۔ ویسے بھی جدید دستور پتھر پر کندہ حتمی تحریر نہیں اس میں وقت اور حالات کے مطابق ترامیم کا جمہوری دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔دستور پر عمل کریں گے تو جمہور اس میں مزید بہتری کی راہیں بھی دیکھا دے گا۔
آخری بات:
آج پاکستانی قوم نئے بیانیہ کی جستجو میں ہے کیا یہ بیانیہ آئین اور قانون کی حکمرانی سے عبارت پاکستان ہوسکتا ہے جہاں تمام شہریوں کے لئے بلا امتیاز بنیادی انسانی حقوق میسر ہوں۔ یہ بیانیہ پاکستان میں جمہوری اور انسان دوست سماج کی تشکیل کی راہ ہموار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
فیس بک پر تبصرے