عالمی بنک کے تخمینوں کی بنیا د پر ایک کروڑ 80 لاکھ آبادی کے ساتھ کراچی دُنیا کا تیسرا بڑا میٹروپولیٹن شہر ہے۔ پاکستان کے سات دوسرے شہروں کی آبادی کم ازکم بیس لاکھ ہے۔ تاہم تجزیے ظاہر کرتے ہیں کہ دو بڑے شہر کراچی اور لاہور آبادی کے لحاظ سے زیادہ بڑے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس بات کی ضرورت ہے کہ درمیانے درجے کی آبادی والے شہروں کو فروغ دیا جائے، خاص طور پر پنجاب میں اورکوئٹہ جیسے چھوٹے شہروں میں۔ پاکستان کے بڑے شہروں کی فی کس آمدنی کی اوسط چھوٹے شہروں کی نسبت تینتیس فیصدزیادہ ہے۔ یہ تناسب (51فیصد)سندھ میں بہت زیادہ ہے، جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اوسطاً فی کس آمدنی چھوٹے شہروں کی نسبت بڑے شہروں میں 23 فیصد زیادہ ہے۔
تیزرفتار شہر کاری کے نتیجہ کے طور پر موجودہ شہری ڈھانچے پر تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی، سیوریج، کوڑا کرکٹ اُٹھانے کے انتظامات کا دباؤ ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں میں پاکستان کا تعلیمی لینڈ اسکیپ مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ نجی شعبہ تعلیمی سہولیات مہیا کرنے کی مَد میں خصوصاًشہری علاقوں میں بنیادی شعبہ کے طورپر اُبھر کر سامنے آچکا ہے۔ سرکاری سکولوں میں پرائمری اندراج 2001ء سے 2014ء کے درمیان 60 تا 75 فیصد تنزلی کا شکار ہوا۔ نجی تعلیمی اداروں میں مقابلتاً معیاری تعلیم وسیع پرائمری اندراج کے لیے اپنا حصہ ڈال چکی ہے۔ مجموعی طور پر شماریات سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کے کل بچوں کا پینتیس فیصد (پانچ تا نو سال کی عمر) چھوٹے شہروں کے سرکاری سکولوں میں داخل ہے، یہ تناسب مرکزی شہروں کے حوالے میں بائیس فیصد ہے۔ یہ پبلک سکولوں اور شہروں کے تناسب کے مابین معکوس تعلقات کے واضح اشارے ہیں۔
گذشتہ دو دہائیوں میں پاکستان کا تعلیمی لینڈ اسکیپ مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے
شہری صحت کے شعبے میں صورتِحال ایک جیسی ہے، جہاں عوام کو صحت کی سہولیات کے استعمال کی شرح ناقص رسائی اور معیار کے مسائل کی وجہ سے تنزل پذیر ہے۔ نتیجے کے طور پر صحت کا نجی شعبہ خلا کو پُر کرنے کے لیے اُبھرکر سامنے آچکا ہے، لیکن کسی قاعدے اور ضابطے کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے یہ کافی حد تک استحصالی کردار ادا کر رہا ہے۔ ماسوا حفاظتی ٹیکوں کے، شہری علاقوں میں ڈائریا اور ملیریا کے علاج اور بنیادی صحت کی خدمات بہت کم ہیں۔ خواتین کو بچے کی پیدائش سے قبل او ر پیدائش کے بعد مشورہ کے لیے صحتِ عامہ کی سہولیات پہلے ہی انتہائی کم دستیاب ہیں۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں معمولی بہتری محسوس کی گئی ہے۔
شہری علاقوں کو روز بہ روزپانی کی قلت اور پانی کی سپلائی کے ناقص معیار کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیرِ زمین پانی کے ذرائع کا خاتمہ ہورہا ہے۔ علاوہ ازیں پانی کی تقسیم کے نیٹ ورک میں اس کی چوری بھی ایک سبب ہے۔ باون فیصد گھروں میں پانی کے کنکشن کے پائپ موجود ہیں۔ مثال کے طور پر پنجاب اور خیبرپختونخوا کے شہروں کے اکتالیس اور پینتیس فیصد گھرانے پینے کے پانی کے لیے موٹروں اور ٹیوب ویلز کا استعمال کرتے ہیں۔ شہر کے باسیوں کو پائپس کے ذریعے پانی مہیا کرنے کا رجحان خاص طور پر چھوٹے شہروں میں اُس بگاڑ کو واضح کرتا ہے جو عوامی خدمات کی سطح میں پایا جاتا ہے۔ پنجاب کو چھوڑ کر پانی کی دستیابی کی شرائط کی صورتِ حال قابلِ رحم ہے۔ مثال کے طورپر بلوچستان میں بیاسی فیصد شہری گھرانوں کو اور سندھ میں دن کے وقت تین گھنٹے سے کم پانی دستیاب ہوتا ہے، جبکہ پنجاب میں یہ شرح بائیس فیصد ہے۔
مجموعی طورپر اُنسٹھ فیصد شہری گھرانے پبلک سیوریج سسٹم کے ساتھ منسلک ہیں۔ اگرچہ صوبائی دارالحکومت اور دوسرے بڑے شہروں کو چھوٹے شہروں کے مقابلے میں بہتر اہمیت حاصل ہے۔ ایک تشویشناک بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے صرف سات فیصد گھرانوں کو یہ سہولت میسر ہے۔ یہ نوٹ کرنا بہت دلچسپ ہے کہ پنجاب کے شہری علاقوں میں تقریباً پینتالیس فیصد گھرانے پبلک سیوریج کی سہولیات کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔ یہ قابلِ فکر بات ہے کہ صرف تینتالیس فیصد شہری گھرانوں کے پاس ٹھوس کوڑے کو ضائع کرنے کا رسمی نظام ہے، جبکہ گھروں سے کوڑا اُٹھانے کا تناسب صرف چھبیس فیصد ہے۔ جہاں تک بنیادی رہائشی سہولیات تک رسائی کا تعلق ہے جیسا کہ بجلی، کھانا پکانے کے لیے گیس اور ٹیلی فون کنکشن وغیرہ، اگرچہ زیادہ تر شہری گھرانوں کو ان سہولیات تک رسائی حاصل ہے تاہم چھوٹے بڑے شہرں کی تخصیص سے قطع نظر بجلی کی بندش اور گیس لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے بھی شدید مسائل درپیش ہیں۔
یہ پریشان کن بات ہے کہ پاکستان کے شہر، شہروں میں میعارِ زندگی کے لحاظ سے بین الاقوامی درجہ بندی میں سب سے نیچے آتے ہیں۔ مذکورہ بالا صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ پائیدار شہری زندگی کے لیے حکومتی و معاشرتی سطح پر بہت زیادہ توجہ اور کام کیا جائے۔
فیس بک پر تبصرے