مسلم سماج اور طبقاتی فکری حقوق

605

کولمبیا یونیورسٹی میں پروفسیر سلیمان بشیر دیان نے اپنی کتاب اسلام اینڈ اوپن سوسائٹی میں لکھا ہے کہ علامہ اقبال نے ایک دفعہ اپنے احباب میں سے کسی سے کہا کہ اگر میری کتاب the reconstruction of religious thought in islam عباسی خلیفہ مامون کے عہد میں لکھی جاتی تو اس کے مسلم فکر پر گہرے اثرات مرتب ہوتے۔

مامون کے دور کو اس لحاظ سے امتیازی خصوصیت حاصل ہے کہ اس مرحلے میں سماج پر اثرانداز ہونے کا فکری حق ایک محدود روایتی حلقے کی بالادستی سے نکل کر قدرے پھیل گیا اور اس میں عام سماجی فعالیت کا عکس بھی واضح نظر آتا ہے۔ اسی دور میں شعروادب اور دیگر فنون میں حریت کے آثار بھی زیادہ نمایاں ملتے ہیں۔ سید امیر علی نے مامون کی خلافت میں معتزلہ کے عہد کو اسلامی رُوح کی اوج کا زمانہ قرار دیا ہے جس میں انسانی فکر کے لیے حریت کے در وا ہوئے تھے۔ جبکہ قدیم و جدید روایتی مذہبی طبقے کی اکثریت اس دور کو ضلالت کا دور خیال کرتی ہے یا اس پہ تحفظات کا اظہار کرتی ہے۔

مسلم سماج کی نشاۃ ثانیہ اور مذہبی فکر کی تشکیلِ جدید کا خواب بہت پرانا اور ادھورا ہے۔ یہ دو اصطلاحات پچھلی ڈیڑھ دو صدیوں سے کثرت کے ساتھ مسلم سماج میں دہرائی جاتی ہیں اور اس پر مختلف حوالوں سے بحث ہوتی رہتی ہے۔ تاہم یہ بحث مفکرین و اہلِ دانش کے مخصوص طبقے تک محدود رہی ہے اور اب تک یہ ایک سماجی مطالبہ بن کر نہیں اُبھر سکی۔ بظاہر اس کے فوری امکانات بھی نظر نہیں آتے۔

مسلم سماج کی نشاۃ ثانیہ اور مذہبی فکر کی تشکیلِ جدید جیسی اصطلاحات کا استعمال روایتی اور غیرروایتی دونوں حلقے اپنے اپنے معنوں میں کرتے ہیں۔ دونوں کی تفہیم و تعبیر کا زاویہ الگ ہے۔ مگر مجموعی طور پر اس موضوع کے حوالے سے دو چیزیں اہم ہیں:

ایک تو یہ کہ تجدید یا تشکیلِ نو کی اصطلاح کا تاریخی مفہوم فقہ، علم الکلام اور روحانیت کے شعبوں کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ اور عمومی مذہبی طبقہ تجدید کا مطلب ماضی کی طرف لوٹنا اور بدعات کو ختم کرنا لیتا رہا ہے۔ اس کے ہاں مجدد وہ ہوتا ہے جو ماضی کی روایت کو اپنی اصل میں واپس بحال کردے۔ جیساکہ غزالی نے اس مقصد کے لیے احیاءالعلوم لکھی۔

شدت پسندی کے پس منظر میں مذہبی فکر کی تشکیلِ نو کا شعور سماجی سطح پر بھی ابھرا اگرچہ یہ بہت زیادہ پرزور نہیں تھا، اور اس کے ردعمل میں غیرروایتی طبقے کے اشتراک اور اس کی فعالیت کو آزادی دینے کی بجائے ریاست نے بقدر ضرورت خود ہی کانٹ چھانٹ کی ذمہ داری نبھانے کو ترجیح دی

اس حوالے سے دوسری اہم پیش رفت عصر حاضر میں یہ ہوئی کہ تشکیلِ نو یا تجدید کی مباحث کا محور دیگر فقہی مسائل، علم الکلام اور روحانیت سے ہٹا کر ’سیاست و ریاست‘ کے مسائل میں اجتہاد کو بنا دیا گیا۔ اصلاحی اور روایتی دونوں طبقات جب بھی مسلم سماج کی نشاۃ ثانیہ یا دینی فکر کی تشکیلِ نو پر بات کرتے ہیں تو اس کا اولین محور مذہب و ریاست کے مابین تعلق کی نوعیت ہوتی ہے۔ پھر یہ بحث چونکہ سیکولرزم کے تناظر میں جان بوجھ کر مذہی یا غیرمذہبی شناخت کی بنا دی گئی ہے اس لیے منطقی طور پہ مذہبی طبقے کے لیے ریاستی معاملات میں دخل اندازی کی گنجائش باقی رہتی ہے جس کی حدود کا تعین کرنے کے لیے بھی وہ آمادہ نہیں۔ یہ اپنے حقیقی شعبوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ساری توجہ مذہب کے طاقت کی سیاسی حرکیات میں استعمال پر مرکوز رکھے ہوئے ہے۔

عصرِ حاضر میں مذہبی فکر کی تشکیلِ نو کے غیر روایتی مفہوم پر جو بحثیں ہوئیں اس کے دو پس منظر ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کی ضرورت مغربی نظم و فکر کے اثرات کے نتیجے میں محسوس کی گئی۔ سماج نے اس پس منظر کے ساتھ ابھرنے والی فکر پر خاص اعتماد نہیں کیا۔ جن مفکرین نے وقت کے تقاضوں کا لحاظ کرتے ہوئے تجدید کی بات کی ان کو مغرب کا خوشہ چیں کہا گیا۔ جبکہ تجدید یا تشکیلِ نو کی ضرورت کا دوسرا پس منظر شدت پسندی اور دہشت گردی کی لہر ہے۔ دہشت گردی نے ایک بار پھر یہ معاملہ اہم بنا دیا کہ روایتی مذہبی فکر پر نظرثانی کی جائے۔ شدت پسندی کے پس منظر میں تشکیلِ نو کا شعور سماجی سطح پر بھی ابھرا اگرچہ یہ بہت زیادہ پرزور نہیں تھا، اور اس کے ردعمل میں غیرروایتی طبقے کے اشتراک اور اس کی فعالیت کو آزادی دینے کی بجائے ریاست نے بقدر ضرورت خود ہی کانٹ چھانٹ کی ذمہ داری نبھانے کو ترجیح دی۔

مسلم سماج کی نشاۃ ثانیہ اور مذہبی فکر کی تشکیلِ نو کے عمل کا حق کسی ایک طبقے کے لیے خاص کرنے کی وجہ سے مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ ہمارے ہاں اب بھی روایتی طبقے اور مسلم سماج کی عمومی ذہنیت یہ ہے کہ تجدید اور تشکلیلِ نو جیسے معاملات کے جملہ حقوق کسی مخصوص طبقے کے پاس ہوتے ہیں۔ نشاۃ ثانیہ کی اصطلاح کا تعلق تو خالصتاََ مذہب اور مذہبی حلقے کے ساتھ مربوط ہے۔ اسے دینی جہت سے ہٹا کر نہیں دیکھا جاتا۔ اور فکری تشکیلِ نو بھی عموماََ اسی کے ساتھ خاص ہے۔ دینی روایت میں ’مجدد‘ ایک ایسا مسیحا ہے جو آکر سماج کی فکری و دینی تشکیلِ نو کا فریضہ انجام دیتا ہے اور اسی سے نشاۃ ثانیہ ممکن ہوتی ہے۔ دینی روایت میں مجدد کا تصور ایک حدیث سے لیا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی میں ایک مجدد بھیجتا ہے جو اُمت کے دین کی تجدید کرے گا۔ اس حدیث کے ظاہری مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے بہت بحثیں ہوئیں۔ مجدد ایک سے زائد ہوسکتے ہیں یا نہیں۔ تجدید کی صدی کی ابتداء کب سے ہوگی، پیغبراسلامﷺ کی پیدائش کے وقت سے، بعثت کے زمانے سے یا وفات کی تاریخ سے۔ پھر فقہاء کے اپنے مجددین رہے، صوفیا نے اپنی شخصیات سمجھیں۔ ہر مسلم ملک میں اپنے الگ مجدد ہیں جو فرقہ وارانہ بنیادوں پر مختلف ہوتے ہیں۔ ماضی میں بھی کئی حضرات نے مجددین کے تعین پر کتب تصنیف کیں، جیساکہ علامہ جلال الدین سیوطی نے 9ویں صدی تک کے مجددین کے نام ایک نظم میں بیان کیے۔ برصغیر میں شیخ احمد سرہندی مجدد کہلائے۔ دیوبندیوں نے اشرف علی تھانوی کو جبکہ بریلویوں نے احمد رضا خان کو مجدد سمجھا۔ عربوں کی اکثریت شیخ محمد عبدہ کو خیال کرتی ہے، جبکہ خلیجی ریاستوں کے مجددِ اُمت شیخ عبدالوھاب ہیں۔ ابھی بھی زندوں میں سب کے الگ مجدد ہیں۔

اس روایتی ذہنیت کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ تجدید اور نشاۃ ثانیہ کا عمل سماج کے ساتھ متعلق نہیں ہوپاتا

مذہبی فکر کی تشکیلِ نو اور مسلم سماج کی نشاۃ ثانیہ کے ایک خاص طبقے کے ساتھ تعلق بنادینے کا یہ نقصان بھی ہوا کہ علم و فکر کے وہ تمام شعبے جو اس کے علاوہ تھے کوئی خاص اہمیت حاصل نہ کرسکے۔ آج بھی سماج کی اکثریت یہ خیال کرتی ہے کہ اگر ہم صرف اپنے دین سے مخلص ہوجائیں اور مذہب پر ٹھیک طریقے سے عمل پیرا ہوجائیں تو ہم ترقی کرسکتے ہیں اور دنیا پر راج کرسکتے ہیں۔ یہ تصور ہمارے وزیراعظم کی تقریروں میں بھی واضح نظر آتا ہے۔

اس ذہنیت کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ تجدید اور نشاۃ ثانیہ کا عمل سماج کے ساتھ متعلق نہیں ہوپاتا۔ اس تصور کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے شیخ محمد عبدہ کے شاگر شیخ عبدالمتعال صعیدی کی کتاب شاید واحد ایسا تفصیلی کام ہے جس میں تجدید، تشکیلِ تو اور نشاۃ ثانیہ کے مفاہیم پر نظرثانی کی گئی ہے۔

شیخ صعیدی نے اس موضوع کی حدیث مبارکہ پر مختلف حوالوں سے بات کی ہے۔ ایک تو انہوں نے یہ لکھا کہ تجدید یا تشکیلِ نو کے لیے صدی کی قید مجازی ہے جس کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ مسلم سماج میں نتائج کے اعتبار سے حالات ہر سو سال بعد ارتقائی طور پہ آگے کی طرف بڑھنے چاہیئں۔ ان کا یہ بھی کہنا کہ کہ مجدد فردِ واحد نہیں ہوتا بلکہ تجدید ایک سماجی عمل ہے، حدیث کے مصداق میں تخصیص نہیں بلکہ عموم ہے کہ ایسے افراد متعدد ہوسکتے ہیں۔ شیخ صعیدی نے تجدید کو مذہبی جہت سے ہٹا کر دیکھا ہے، ان کے نزدیک صرف فقہی یا روحانی تزکیہ ہی اس میں شامل نہیں بلکہ معاشرے کے تمام شعبے اس کے مصداق میں داخل ہیں۔ حتیٰ کے انہوں نے تجدید و ارتقاء کے عمل کو مسلم طبقے کے ساتھ بھی خاص نہیں کیا۔ حدیث میں اُمت کا لفظ آیا ہے، تاہم کئی مسلم مفکرین و محدثین نے اُمت کے دو مصداق بیان کیے ہیں۔ اُمتِ دعوت اور اُمتِ اجابت۔ اُمتِ دعوت وہ معاشرے ہیں جنہیں اسلام کی دعوت دی جاسکتی ہو اگرچہ وہ مسلم نہ ہوں۔ انہیں بھی اُمت کے مفہوم میں شامل کیا گیا ہے۔ شیخ صعیدی کے نزدیک بھی مذکورہ حدیث میں اُمت سے مراد اُمتِ دعوت ہے۔ وہ غیرمسلم سائنسدانوں اور دیگر شعبوں کی ان تمام اہم شخصیات کو مجدد کہتے ہیں جو انسانی فلاح کے لیے کوشاں ہوں۔ شیخ صعیدی نے کتاب میں مسلم شخصیات میں سے ابن سینا، فارابی، سرسید احمد خان، مرزا علی محمد اور مصطفیٰ اتاترک کو بھی شامل کیا ہے۔

شیخ کا خیال ہے کہ مجدد کے افکار و نظریات سے اتفاق ضروری نہیں، ان کے نزدیک ہر وہ شخص مجدد ہے جو اپنے عہد میں ایسے سولات اٹھائے یا ایسا ماحول پیدا کرے جو کسی نوع کی تبدیلی اور ارتقاء کا سبب بنے۔ اسلامی حوالے سے بھی وہ فرقہ وارانہ تفریق کو مسترد کرتے ہیں۔ جیسا کہ ابن کثیر نے کتاب جامع الاصول میں اہل تشیع کے شیوخ میں سے محمد الباقر، القادر باللہ اور علی بن موسیٰ الرضا کو اسلام کے مجددین میں شمار کیا ہے۔

شیخ صعیدی نے تجدید اور سماجی ارتقاء کے حوالے سے عام مسلم ذہنیت کو تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ماضی کو تقدیس کا ہالہ نہیں پہنایا جاسکتا۔ تجدید تغیر کا نام ہے۔ یہ طبقاتی عمل نہیں ہے۔ تجدید اور تشکیلِ نو تنقیدی شعور کے فروغ سے ظہور میں آتے ہیں، اور جب تک یہ شعور سماج کی جڑوں تک نہیں سرایت نہیں کرجاتا اس وقت تک تبدیلی کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...