انتہاپسندی کی دلدل میں
ایک مذہبی سیاسی جماعت کی جانب سے فلمساز سرمد کھوسٹ کی فلم زندگی تماشا پر بے جا اعتراض کے بعد حکومت کی جانب سے انہیں خوش کرنے کی ایک بھونڈی کوشش اس معاملے کی ایک مختصر جھلک پیش کرتا ہے کہ پاکستانی ریاست اور سماج کو مذہبی انتہاپسندی کا کس حد تک سامنا درپیش ہے۔
سنسر بورڈ اس فلم کو پہلے ہی پاس کرچکا تھا تاہم ایک مذہبی جماعت تحریک لبیک نے اسے راولپنڈی کی مقامی عدالت کی جانب سے اس کےخلاف سنائے گئے فیصلے کے بعد متنازعہ بنادیا، اس فیصلے میں اس جماعت کے سربراہ علامہ خادم رضوی کے بھائی اور بھتیجے سمیت اس کے 86 کارکنان کو ہنگامہ آرائی اور پولیس کے ساتھ الجھنے کے جرم میں ہر ایک کو 55 سال عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ تحریک لبیک نے اس فلم کے ریلیز ہونے کے خلاف عین اسی روز احتجاج کی کال دی جس روز بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم لاہور میں ٹی 20 میچ کھیل رہی تھی۔ کسی بھی شخص کے لئے تحریک لبیک کی اس سیاسی چال کو سمجھنا مشکل نہیں ہے تاہم یہ فلم ان کی نفرت پر بنیاد کرتی ہوئی سیاست کی زد میں اس وقت آئی ہے جب پاکستانی سینما اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ حکومت نےاس فلم کی ریلیز کو مذہبی عمائدین کی رضامندی سے مشروط کیا ہے اور یوں اسلامی نظریاتی کونسل کا ادارہ بھی اس بحث کا فریق بن گیا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام مقننہ کی قانون سازی کے عمل کے دوران رہنمائی کے پیش نظر عمل میں لایا گیا تھا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاست نے بظاہر اس ادارے کو فتویٰ بازی اور مذہبی اتھارٹی حاصل کرنے کے عمل کے لیے تبدیل کردیا ہے اور فلموں نیز ڈراموں کا جائزہ بھی اس کے سپرد کررہی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام ایک محدود مدتی آئینی اقدام تھا جو اپنے مقاصد مکمل کرتے ہوئے ملکی آئین کی تمام دستوری شقوں کا جائزہ مکمل کرچکا ہے۔ ڈاکٹرخالد مسعود کی سربراہی کے زمانے میں کونسل کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ پاکستان کے دستور کی 96 فیصد شقیں اسلامی فقہ اور شریعت کے عین مطابق ہیں۔ تاہم ملک میں آنے والی مختلف حکومتوں نے علماء کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے اور متنازعہ مذہبی معاملات پر اپنی جان چھڑانے کےلئے اس ادارے کو باقی رکھا۔
یہ کہنا ابھی قبل ازوقت ہوگا کہ مذہب اورحب الوطنی کی خاص تعبیر کے متعلق ریاست کا نظریاتی زاویہ مکمل طور پر تبدیل ہوگیا ہے
یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی ریاست میں طاقت کی حرکیات میں مذہب کا ربط بہت کمزور ہے اور ہماری مذہبی اشرافیہ اس امر سے بخوبی واقف ہے۔ وہ اسے اپنے مقاصد کے تحفظ کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ طاقت ور حلقوں کی جانب سے کئے جانے والے سمجھوتے سخت گیر عناصر کو مضبوط کرتے ہیں۔
ریاست کو ابھی اپنی کمزوری کا اندازہ ہے۔ گزشتہ دو سال سے ریاستی عناصر کی جانب سے یہ تأثر دیا جارہا ہے کہ انہوں نے مذہب اور مذہبی اداروں سے متعلق سابقہ ریاستی رویے کے برعکس ایک نیا رویہ اختیار کیا ہے۔ فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ کی مذہبی رہنماؤں سے اکثر ملاقاتیں، جس میں انہیں مدارس اصلاحات اور انسداد دہشتگردی کے جملہ معاملات پہ قائل کرنے کی کوششیں شامل ہیں، قانون نافذکرنے والے اداروں کی جانب سے ’پیغام پاکستان‘ کو فروغ دینے کی کاوشیں جو کہ مذہبی انتہاپسندی اور دہشتگردی کے خلاف ریاست کی جانب سے جاری کیا گیا فتویٰ ہے، نیز جس طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں نے آسیہ بی بی کی رہائی پر احتجاج کرنے والے مظاہرین سے معاملہ کیا ہے، یہ سب واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ مذہبی عناصر سے متعلق ریاستی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے۔
تاہم یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ مذہب اورحب الوطنی کی خاص تعبیر کے متعلق ریاست کا نظریاتی زاویہ مکمل طور پر تبدیل ہوگیا ہے۔ حالیہ دنوں میں اس فلم کے تنازعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت ابھی تک مذہب کے متعلق مخمصے کا شکار ہے، وہ بنیاد پرستوں کی احتجاجی طاقت سے خوفزدہ ہے اور وہ انتہاپسند عناصر کو سیاسی فوائد کا ایک ذریعہ سمجھتی ہے۔
تاہم طاقتور حلقوں کی جانب سے مذہبی عناصر کے متعلق تبدیل ہوتے ہوئے رویے کی چند واضح وجوہات موجود ہیں۔ سب سے پہلی وجہ داخلی مجبوری ہے کیونکہ مذہبی عناصر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس قدر مضبوط ہوگئے ہیں کہ وہ اب ریاستی اداروں پر دھونس جمانے لگے ہیں۔ ریاستی و غیر ریاستی عناصر کی بیک وقت ’دوستی و دشمنی‘ اب کوئی راز نہیں رہی اور یہ ظاہر ہوا ہے کہ مؤخرالذکر کے ساتھ ضابطے کی کاروائی ریاست کے لئے ایک مشکل مرحلہ ہے۔ ریاست اس وقت بھی خود کو مجبور محسوس کرتی ہے کہ جب اس کے معاون مذہبی عناصر اپنے اعمال اور تصورات کے لئے مذہبی دلائل استعمال کرتے ہیں اور یہ اکثر اوقات ریاستی مفادات کے متصادم ہوتے ہیں۔ ریاستی و غیر ریاستی عناصر کے مابین یہ زمینی لڑائی سال 2002ء سے جاری ہے جب عسکریت پسند مسلح گروہوں میں موجود ناراض دھڑوں نے اپنی قیادت اور ریاست کے خلاف اعلان جنگ کردیا تھا۔ تحریک طالبان پاکستان کے قیام اور نمو کی کہانی بھی یہی ہے۔
پاک بھارت نظریاتی، سیاسی اور تزویراتی تنازع میں یہ امر دلچسپی کا باعث ہے کہ کس طرح شناخت کا مسئلہ اس جھگڑے کی جڑوں میں موجود ہے
اس معاملے کا ایک اور پہلو بیرونی دباؤ بھی ہے خاص طور پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی تلوار جو اب سر پہ لٹک رہی ہے اور دوسرا یہ کہ پاکستان سی پیک منصوبے کی کامیابی کے لئے اس خطے کو لڑائی سے پاک کردینا چاہتا ہے۔ سرحد پار بھارت میں ابھرتی ہوئی ہندو انتہاپسند سیاست اور ہندوتوا کے فلسفے پہ قائم جارح حب الوطنی سے بھی ہماری ریاست کے لئے یہ ایک موقع ابھرا ہے کہ وہ عالمی سطح پہ اپنی شبیہ کو بہتر بنائے۔
پاک بھارت نظریاتی، سیاسی اور تزویراتی تنازع میں یہ امر دلچسپی کا باعث ہے کہ کس طرح شناخت کا مسئلہ اس جھگڑے کی جڑوں میں موجود ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے ایک عوامی جلسے سے خطاب کے دوران کہا کہ شہریت قوانین میں ترمیمی بل کی منظوری سے عالمی دنیا کو یہ نوٹس لینے کا موقع ملا ہے کہ کس طرح پاکستان میں اقلیتیں غیرمحفوظ ہیں۔ یہ ان کی جانب سے اپنی حکومت کی ہندو انتہاپسند پالیسیوں پر پردہ ڈالنے کی بھونڈی کوشش تھی۔ اس سےخود کو برتر سمجھنے والی ہندو انتہاپسند سوچ کی بھی عکاسی ہوتی ہے جو ہمیشہ خود کو’پاکستان سے ماسوا‘ کرکے پیش کرتی ہے۔ پاکستان بھارت کے ہمسائے میں موجود ایک مسلم ریاست ہے اور موجودہ بھارتی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس کی اقلیتیں خاص طور پر مسلمان کسی دوسرے ملک کا حصہ ہیں۔ یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ پاکستان میں بھی حب الوطنی کی بحث میں یہ دلیل بہت قوی ہوتی ہے کہ یہ بھارت سے مختلف ہونے کی بنیاد پر قائم ہے۔ لہذا اگر بھارت اپنی ریاستی شناخت مذہب پر قائم کرنا چاہتا ہے تو پاکستان کو اس سے برعکس جانب لوٹنا چاہیئے۔
اگرچہ پاکستان اور بھارت میں ریاستی سطح پہ تبدیل ہوتے ہوئے رویے کی کوئی مرحلہ وار واقعاتی تاریخ موجود نہیں ہے تاہم دونوں جانب اس طرح کی سوچ رکھنے والے عناصر موجود رہے ہیں۔ پاکستانی ریاست بھارتی حکومت کی جانب سے ریاست جموں کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے اور شہریت ترمیمی بل کےفیصلے سے بہت پہلے ہی کرتارپور راہداری کھولنے پر آمادگی ظاہر کرچکی تھی۔ تاہم پاکستان کی جانب سے اپنی اقلیتوں کے تحفظ کا عزم بھارتی حکومت کی جانب سے اپنے ہاں موجود اقلیتوں کے ساتھ تعصب پر مبنی شہریت ترمیمی بل کے بعد مزید مضبوط ہوا ہے۔ اس کی نشاندہی رواں مہینے ننکانہ صاحب میں سکھ عبادتگاہ پر ہونے والے ناخوشگوار واقعے کے بعد وزیراعظم عمران خان کے بیان سے بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان عناصر کے ساتھ آہنی طریقے سے نمٹا جائے گا جنہوں نے سکھ عبادتگاہ کی بے حرمتی کرنے کی کوشش کی۔
تاہم انتہاپسندی کا چیلنج اتنا سادہ نہیں ہے جتنا اسے سمجھا جارہا ہے۔ ایک معتدل سماج ایک دم سے قائم نہیں ہوسکتا، اس کے لئے سماجی تبدیلی درکار ہوتی ہے اور اس کے لئے ایک پوری نسل کی انسانیت پر مبنی اقدار کی تربیت کی ضرورت ہے۔ دوسروں کو انسان نہ سمجھنے کی وجہ سے انتہاپسند سوچ جنم لیتی ہے۔ ریاست یا سماج کی جانب سے اس کے تدارک کے لئے بنائے گئے ذرائع ابلاغ یا متبادل بیانیے لوگوں کے اذہان کو تبدیلی کے لئے بہت آہستگی سے تیار کرتے ہیں۔ مساوی شہریت کے حقوق سماج میں یکساں انسانی اقدار کے فروغ میں بہت معاون و فعال کردار اداکرسکتے ہیں۔
مترجم: شوذب عسکری، بشکریہ: روزنامہ ڈان
فیس بک پر تبصرے