علامہ اقبال بنام قائد

1,188

ان خطوط کے اہم نکات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ اقبال نے ان میں اسلام کے ثقافتی مسائل کی اہمیت، سیاسی جدوجہد میں عوامی امنگوں اور ضروریات کو پیش نظر رکھنے، اشتراکیت کے اسلام لیے خطرہ نہ ہونے کے باوجود اس سے استفادے کے امکانات، مسلمانوں میں موجود خود غرض سیاستدانوں کا طرز عمل ہندوستان کے مسلمانوں کی حقیقی مشکلات نیز فلسطین کے مسئلے کی عالم اسلام کے لیے انتہائی اہمیت کا ذکر کیا ہے

علامہ اقبال نے قائداعظم محمد علی جناح کے نام 23 مئی 1936 سے 10 نومبر1937 کے درمیان تیرہ خطوط لکھے۔ یہ خطوط انگریزی میں ہیں۔ انھیں علامہ اقبال کی وفات کے بعد خود قائداعظم نے اشاعت کے لیے شیخ محمد اشرف کے حوالے کیا۔ اس پر قائداعظم نے ایک مختصر دیباچہ بھی سپرد قلم کیا ہے۔ یہ خطوط ابتداء میں دونوں شخصیات کے مابین خفیہ تھے کیونکہ یہ اس دور کی تحریک سے متعلق ضروری مشوروں اور راہنمائی پر مشتمل تھے۔ بعد میں قائداعظم نے مناسب سمجھا کہ انھیں شائع کر دیا جائے تاکہ تاریخ کے اس مختصر لیکن اہم دور میں علامہ محمد اقبال کی فکر و فہم اور راہنما یا نہ کردار پر روشنی پڑ سکے۔ دیباچے کا آغاز اس پیرا سے ہوتا ہے:

The letters which form the subject of this booklet were written to me by the sage, philosopher and national poet of Islam, the late Dr. Sir Muhammad Iqbal, during the period May 1936 to November1937, a few months before his death. This period synchronises with a very eventful period in the history of Muslim India—between the establishment of the All-India Muslim League Central Parliamentary Board in June 1936 and the great historic sessions at Lucknow in October 1937.

یہ کتابچہ ان خطوط پر مشتمل ہے جو عارف، فلسفی اوراسلام کے قومی شاعر ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم نے میرے نام مئی 1936 سے نومبر1973 کے درمیانی عرصہ میں اپنی وفات سے کچھ ماہ قبل تحریر کیے۔ یہ دور جو جون 1936میں آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے قیام اور اکتوبر1937میں لکھنؤکے تاریخی اجلاس کے دوران پر محیط ہے، مسلم ہندوستان کی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔

شیخ محمد اشرف کا شائع کردہ جو نسخہ راقم کے پاس ہے وہ 1963 کا ہے جو اس کی پانچویں اشاعت ہے۔ پہلی اشاعت 1942 کی ہے۔ شیخ محمد اشرف نے علامہ اقبال سے متعلق بہت سی دیگر کتب بھی شائع کی ہیں۔ بہرحال اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خطوط پاکستان بننے سے بہت پہلے شائع ہو گئے تھے اور ان کی اشاعت میں خود قائداعظم نے دلچسپی لی تھی۔ دیباچے کا آخری پیرا قائداعظم کی اس دلچسپی کو مزید واضح کرتا ہے:

With this brief historical background in mind, the letters can be read with great interest. It is, however, much to be regretted that my own replies to Iqbal are not available. During the period under reference I worked alone unassisted by the benefit of a personal staff and so did not retain duplicate copies of the numerous letters that I had to dispose of. I made enquiries from the Trustees of Iqbal’s estate at Lahore and was informed that my letters are not traceable. Hence I had no alternative but to publish the letters without my replies as I think these letters are of very great historical importance, particularly those which explain his views in clear and unambiguous terms on the political future of Muslim India.

His views were substantially in consonance with my own and had finally led me to the same conclusions as a result of careful examination and study of the constitutional problems facing India, and found expression in due course in the united will of Muslim India as adumberated in the Lahore resolution of the All-India Muslim League, popularly known as the “Pakistan Resolution,” passed on 23rd March, 1940.

M.A. Jinnah

اس مختصر تاریخی پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان خطوط کو بڑی دلچسپی سے پڑھا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ اقبال کے نام میرے اپنے جوابات موجود نہیں ہیں۔ زیر نظر عرصے میں، میں نے کسی ذاتی سٹاف سے استفادہ کیے بغیر اکیلے کام کیا تھا لہٰذا میں نے جو متعدد خطوط بھجوائے ان کی کاپی نہیں رکھ سکا۔ لاہور میں اقبال سے متعلق ادارے سے میں نے تفتیش کی تو مجھے بتایا گیا کہ وہ خطوط ناقابل دستیابی ہیں۔ میرے پاس اس کا کوئی متبادل نہیں سوائے اس کے یہ خطوط شائع کردوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ خطوط عظیم تاریخی اہمیت کے حامل ہیں، خصوصاً وہ جومسلم انڈیا کے سیاسی مستقبل کے بارے میں ان کے نظریات کو واضح اور غیر مبہم طور پر بیان کرتے ہیں۔ ان کے نظریات بہت حد تک میرے اپنے نظریات سے ہم آہنگ تھے لہٰذا انڈیا جن مسائل سے گزر رہا تھا ان کا احتیاط سے جائزہ لینے اور ان کے مطالعے کے بعد آخر کار انھوں نے مجھے انہی نتائج تک پہنچنے میں راہنمائی کی اور وہی چلتے چلتے مسلم انڈیا کی متحدہ خواہش کی صورت میں 23مارچ1940 کی آل انڈیا مسلم لیگ کی قرار داد لاہور میں ظاہر ہوئے جسے مقبول طور پر ’’قرارداد پاکستان‘‘ کہا جاتا ہے۔ (ایم۔اے۔جناح)

ان خطوط کا ترجمہ کئی ایک افراد نے کیا ہے۔ ہمارے پیش نظر محمد جہانگیر عالم کا اردو ترجمہ ہے جو 1977 میں شائع ہوا تھا۔ ان خطوط میں سے صرف تین مکتوب ہم اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں جو آج کے حالات میں خاص مناسبت رکھتے ہیں اور پاکستان کے حوالے سے اہل علم و دانش میں جاری مباحث میں مصور پاکستان علامہ اقبال کے افکار کو سمجھنے میں معاون ہیں:

لاہور، 20 مارچ 1937ء

محترم جناح صاحب

میرا خیال ہے کہ آپ نے پنڈت جواہر لال نہرو کا وہ خطبہ جو انھوں نے آل انڈیا نیشنل کنوینشن میں دیا ہے، پڑھا ہوگا اور اس کے بین السطور جو پالیسی کارفرما ہے اس کو آپ نے بخوبی محسوس کر لیا ہوگا۔ جہاں تک اس کا تعلق ہندوستان کے مسلمانوں سے ہے، میں سمجھتا ہوں آپ بخوبی آگاہ ہیں کہ نئے دستور نے ہندوستان کے مسلمانوں کو کم از کم اس بات کا ایک نادر موقعہ دیا ہے کہ وہ ہندوستان اور مسلم ایشیا کی آئندہ سیاسی ترقی کے پیش نظر اپنی قومی تنظیم کرسکیں۔ اگرچہ ہم ملک کی دیگر ترقی پسند جماعتوں کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں، تاہم ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ایشیا میں اسلام کی اخلاقی اور سیاسی طاقت کے مستقبل کا انحصار بہت حد تک ہندوستان کے مسلمانوں کی مکمل تنظیم پر ہے۔ اس لیے میری تجویز ہے کہ آل انڈیا نیشنل کنوینشن کو ایک موثر جواب دیا جائے۔ آپ جلد از جلد دہلی میں ایک آل انڈیا ِمسلم کنوینشن منعقد کریں، جس میں شرکت کے لیے نئی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے علاوہ دوسرے مقتدر مسلم رہنمائوں کو بھی مدعو کریں۔ اس کنوینشن میں پوری قوت اور قطعی وضاحت کے ساتھ بیان کردیں کہ سیاسی مطمح نظر کی حیثیت سے مسلمانانِ ہند ملک میں جداگانہ سیاسی وجود رکھتے ہیں۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اندرون اور بیرون ہند کی دنیا کو بتا دیا جائے کہ ملک میں  صرف اقتصادی مسئلہ ہی تنہا ایک مسئلہ نہیں ہے۔ اسلامی نقطۂ نگاہ سے ثقافتی مسئلہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے اپنے اندر زیادہ اہم نتائج رکھتا ہے اور کسی صورت سے بھی یہ اقتصادی مسئلہ سے کم اہمیت نہیں رکھتا ہے۔ اگر آپ ایسی کنوینشن منعقد کر سکیں تو پھر ایسے مسلم اراکین اسمبلی کی حیثیتوں کا امتحان ہو جائے گا جنھوں نے مسلمانانِ ہند کی اْمنگوں اور مَقاصد کے خِلاف جماعتیں قائم کر رکھی ہیں، مزید برآں اس سے ہندوئوں پر یہ عیاں ہو جائے گا کہ کوئی سیاسی حربہ خواہ کیسا ہی عیارانہ کیوں نہ ہو پھر بھی مسلمانانِ ہند اپنے ثقافتی وجود کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کرسکتے۔ میں چند روز تک دہلی آرہا ہوں۔ اس مسئلہ پر آپ سے گفتگو ہوگی۔ میرا قیام افغانی سفارت خانہ میں ہوگا۔ اگر آپ کو فرصت ہو تو وہیں ہماری مْلاقات ہونی چاہیے۔ ازراہِ کرم اس خط کے جواب میں چند سطور جلد از جلد تحریر فرمائیے۔

آپ کا مخلص

اقبال بار ایٹ لاء

…….

لاہور، 28 مئی 1937ء

محترم جناح صاحب

آپ کے نوازش نامہ کا شکریہ جو مجھے اس اثنا میں ملا۔ مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ مسلم لیگ کے دستور اور پروگرام میں جن تبدیلیوں کے متعلق میں نے تحریر کیا تھا وہ آپ کے پیش نظر رہیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانانِ ہند کی نازک صورت حال کا آپ کو پورا پورا احساس ہے۔ مسلم لیگ کو آخر کار یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے بالائی طبقوں کی ایک جماعت بنی رہے گی یا مسلم جمہور کی جنھوں نے اب تک بعض معقول وجوہ کی بنا پر اس (مسلم لیگ) میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ کوئی سیاسی تنظیم جو عام مسلمانوں کی حالت سدھارنے کی ضامن نہ ہو، ہمارے عوام کے لیے باعث کشش نہیں ہوسکتی۔

نئے دستور کے تحت اعلیٰ ملازمتیں تو بالائی طبقوں کے بچوں کے لیے مختص ہیں اور ادنیٰ ملازمتیں وزراء کے اعزا اور احباب کی نذر ہو جاتی ہیں، دیگر امور میں بھی ہمارے سیاسی اداروں نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی طرف کبھی غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ روٹی کا مسئلہ روز بروز نازک ہو تا جارہا ہے۔ مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ گذشتہ دو سو سال سے وہ برابر تنزل کی طرف جارہے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ اس غربت کی وجہ ہندو کی ساہو کاری (سود خوری) اور سرمایہ داری ہے۔ یہ احساس کہ اس میں غیرملکی حکومت بھی برابر کی شریک ہے ابھی پوری طرح نہیں ابھرا لیکن آخر کو ایسا ہو کر رہے گا۔ جواہر لال نہرو کی بے دین اشتراکیت مسلمانوں میں کوئی تاثر پیدا نہ کر سکے گی۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا علاج کیا ہے۔ مسلم لیگ کا سارا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کیا کوشش کرتی ہے۔ اگر مسلم لیگ نے ( اس ضمن میں) کوئی وعدہ نہ کیا تو مجھے یقین ہے کہ مسلم عوام پہلے کی طرح اس سے بے تعلق رہیں گے۔ خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ میں اس کا حل موجود ہے اور موجود نظریات کی روشنی میں (اس میں) مزید ترقی کا امکان ہے۔ اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظام قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہر شخص کے لیے کم از کم حقِّ معاش محفوظ ہو جاتا ہے لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقاء ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے۔ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی میرا ایمان ہے کہ مسلمانوں کی غربت (روٹی کا مسئلہ ) اور ہندوستان میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہوسکتا ہے۔ اگر ہندوستان میں یہ ممکن نہیں ہے تو پھر دوسرا متبادل (راستہ) صرف خانہ جنگی ہے جو فی الحقیقت ہندو مسلم فسادات کی شکل میں کچھ عرصہ سے جاری ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ملک کے بعض حصوں مثلاً شمال مغربی ہندوستان میں فلسطین ( کی داستان) دہرائی جائے گی۔ جواہر لال نہرو کی اشتراکیّت کا ہندوئوں کی ہیئت سیاسیہ کے ساتھ پیوند بھی خود ہندوئوں کے آپس میں خون خرابہ کا باعث ہوگا۔ اشتراکی جمہوریت اور برہمنیت کے درمیان وجہ نزاع برہمنیت اور بدھ مت کے درمیان وجہ نزاع سے مختلف نہیں ہے۔ آیا اشتراکیّت کا حشر ہندوستان میں بدھ مت کا سا ہوگا یا نہیں ؟ میں اس بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتا لیکن میرے ذہن میں یہ بات صاف ہے کہ اگر ہندو دھر م اشتراکی جمہوریت اختیار کر لیتا ہے تو خود ہندو دھرم ختم ہو جاتا ہے۔ اسلام کے لیے اشتراکی جمہوریّت کو مناسب تبدیلیوں اور اسلام کے اصول شریعت کے ساتھ اختیار کر لینا کوئی انقلاب نہیں، بلکہ اسلام کی حقیقی پاکیزگی کی طرف رجوع ہوگا۔ موجودہ مسائل کا حل مسلمانوں کے لیے ہندوئوں سے کہیں زیادہ آسان ہے لیکن جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے، مسلم ہندوستان کے ان مسائل کا حل آسان طور پر کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کو ایک یا ایک سے زیادہ مسلم ریاستوں میں تقسیم کیا جائے جہاں پر مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو۔ کیا آپ کی رائے میں اس مطالبہ کا وقت نہیں آپہنچا؟ شاید جواہر لال کی بے دین اشتراکیت کا آپ کے پاس یہ ایک بہترین جواب ہے۔

بہرحال میں نے اپنے خیالات پیش کر دیے ہیں اس امید پر کہ آپ اپنے خْطبہ مْسلِم لیگ کے آئندہ اجلاس کے مباحث میں ان پر سنجیدگی سے توجہ دیں گے۔ مسلم ہندوستان کو امید ہے کہ اس نازک دور میں آپ کی فراست موجودہ مشکلات کا کوئی حل تجویز کرسکے گی۔

آپ کا مخلص

محمد اقبال

…….

لاہور، 16اکتوبر1937ء

محترم جناح صاحب

مسلم لیگ کے لکھنؤ اجلاس میں پنجاب سے خاصی تعداد کی شرکت کی توقع ہے۔ یونینسٹ مسلمان بھی سر سکندر حیات کی قیادت میں شرکت کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں۔ آج کل ہم ایک پْر آشوب دور سے گزر رہے ہیں اور ہندوستانی مسلمان امید کرتے ہیں کہ آپ اپنے خطبے میں جْملہ امور میں جن کا تعلق قوم کے مستقبل سے ہے ان کی کامل اور واضح ترین راہنمائی فرمائیں گے۔ میری تجویز ہے کہ مسلم لیگ ایک مناسب قرار داد کی صورت میں کیمونل ایوارڈ سے متعلق اپنی پالیسی کا اعلان یا مکرر وضاحت کردے۔ پنجاب، نیز یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سندھ میں بھی بعض فریب خوردہ مسلمان اس فیصلہ کو اس طرح تبدیل کرنے کے لیے تیار ہیں کہ یہ ہندوئوں کے حق میں زیادہ مفید ہو جائے۔ ایسے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہندوئوں کو خوش کرکے وہ اپنا اقتدار بحال رکھ سکیں گے۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ برطانوی حکومت ہندوئوں کو خوش کرنا چاہتی ہے جو کیمونل ایوارڈ گڑ بڑ کرانے کو خوش آمدید کہیں گے۔ لہٰذا وہ (برطانوی حکومت) کوشش کر رہی ہے کہ اپنے مسلم ایجنٹوں کے ذریعے اس میں گڑ بڑ کرائے۔

مسلم لیگ کونسل کی خالی نشتوں کے لیے میں28 افراد کی فہرست تیار کروں گا، مسٹر غلام رسول آپ کو وہ فہرست دکھادیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ انتخاب پورے غوروخوض سے کیا جائے گا۔ ہمارے آدمی 13 تاریخ کو لاہور سے روانہ ہوں گے۔

مسئلہ فلسطین نے مسلمانوں کو مضطرب کر رکھا ہے۔ مْسلم لیگ کے مقاصد کے لیے عوام سے رابطہ پیدا کرنے کا ہمارے لیے یہ نادر موقع ہے۔ مجھے امید ہے کہ مسلم لیگ اس مسئلہ پر ایک زور دار قرار داد ہی منظور نہیں کرے گی بلکہ لیڈروں کی ایک غیر رسمی کانفرنس میں کوئی ایسا لائحہ عمل بھی تیار کیا جائے گا جس میں مسلمان عوام بڑی تعداد میں شامل ہوسکیں۔ اس سے ( ایک طرف تو ) مسلم لیگ کو مقبولیت حاصل ہوگی۔ اور (دوسری طرف) شاید فلسطین کے عربوں کو فائدہ پہنچ جائے۔ ذاتی طور پر میں کسی ایسے امر کے لیے جس کا اثر ہندوستان اور اسلام دونوں پر پڑتا ہو جیل جانے کے لیے تیار ہوں۔ مشرق کے عین دروازہ پر ایک مغربی چھائونی کا قیام (اسلام اور ہندوستان ) دونوں کے لیے پْر خطر ہے۔

بہترین تمنّائوں کے ساتھ

آپ کا مخلص

محمد اقبال

بار ایٹ لاء

ان خطوط کے اہم نکات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ اقبال نے ان میں اسلام کے ثقافتی مسائل کی اہمیت، سیاسی جدوجہد میں عوامی امنگوں اور ضروریات کو پیش نظر رکھنے، اشتراکیت کے اسلام لیے خطرہ نہ ہونے کے باوجود اس سے استفادے کے امکانات، مسلمانوں میں موجود خود غرض سیاستدانوں کا طرز عمل ہندوستان کے مسلمانوں کی حقیقی مشکلات نیز فلسطین کے مسئلے کی عالم اسلام کے لیے انتہائی اہمیت کا ذکر کیا ہے وہ یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ وہ اسلام اور فلسطین کے لیے جیل جانے کو بھی تیار ہیں۔ افسوس برصغیر کے مسلمانوں نے اور خاص طور پر اہل پاکستان نے علامہ اقبال کو کماحقہ نہیں پہچانا اور ان کی قدر نہیں کر سکے۔ ہماری رائے میں علامہ اقبال کی بازیافت کی ضرورت ہے۔ نیز انھوں نے جس طرح سے قائداعظم پر بے پناہ اعتماد کیا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ قائداعظم کے علاوہ اس دور میں مسلمانوں کے لیے کوئی اور مناسب قیادت نہ تھی۔ قائداعظم نے بھی مذکورہ خطوط کے دیباچے میں یہ واضح کر دیا ہے کہ ان کے بھی وہی افکار ہیں جو علامہ اقبال کے تھے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے فلسطین کے حوالے سے علامہ اقبال کی توقع سے بھی بڑھ کر اقدامات کیے اور انھوں نے پاکستان بننے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم کی طرف سے سفارتی تعلقات کے قیام کی خواہش کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا اور فلسطین کی آزادی کے لیے اپنی اسلامی آرزو کا ببانگ دہل اعلان کیا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان علامہ اقبال اور قائداعظم کے ارمانوں پر عملدرآمد کرکے ہی ایک آزاد اور فلاحی ریاست کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...