مدارس کے سماجیات کے مسائل شجرِممنوعہ کیوں؟

603

دو دن قبل کی خبر کے مطابق مانسہرہ کے مدرسہ میں ایک استاد دس سالہ بچے کو مسلسل جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا رہا جس کی وجہ سے بچے کی آنکهوں سے خون رسنا شروع ہوگیا. مدرسہ بند کردیا گیا ہے اور وزیراعلیٰ نے تفتیش کا حکم دیا ہے۔

مدارس سے متعلقہ مسائل جہاں ایک طرف متوع اور نہایت اہمیت کے حامل ہیں وہیں وہ ایک خاص قسم کی حساسیت اور پیچیدگیاں بهی رکهتے ہیں. مدارس کے معاشرے پر اثرات کا دائرہ مختصر نہیں ہے بلکہ وسیع ہے لیکن اس کے ساتهہ بڑی مشکل یہ ہے کہ اس حلقے کے ساتهہ جڑے مسائل پر بات کرنا آسان نہیں. زیادہ سے زیادہ نصاب سازی اور فرقہ واریت کے کنٹرول پر بات چیت ہوتی ہے لیکن اس کے اندر کے نظم وضبط، رہن سہن، رویوں اور سماجیات کے مسائل کو زیربحث لانا ایک ممنوع موضوع ہے اور تحقیق کے لیے ناقابلِ رسائی بهی. اس حوالے سے نہ ریاست کے پاس کوئی اعدادوشمار ہیں، نہ کسی نجی تنظیم کے پاس اور نہ ہی خود مدارس اس کا تجزیہ کرنے کو اہم خیال کرتے ہیں۔

سماجیات سے جڑے ان مسائل میں سے ایک بچوں کے ساتهہ جنسی زیادتی کا قضیہ بهی ہے. یوں تو یہ مسئلہ پورے معاشرے میں سفاکانہ حد تک ممنوعہ موضوع ہے اور ایسے واقعات پر ردعمل آئے بهی تو شورشرابے سے آگے نہیں بڑهتا، تاہم مدارس کے حلقے میں رونما ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات کا معاملہ  ایک تو پوری طرح واضح نہیں ہے کہ اس کی سطح کیا ہے، اس پر نہ تحقیق ہوتی ہے نہ بات کی جاتی ہے. مزیدبرآں اس کا تناظر بهی باقی معاشرے کی نسبت سے الگ ہے. لہذا اس کا نقصان صرف جرم کے اثرات تک رہنے کی بجائے مدارس کی اخلاقی ساکهہ اور مذہبی تشخص پر سوالیہ نشان کھڑا کرنے تک پهیلا ہے۔

ہر مسلک کے مدارس کے وفاق قائم ہیں. ان کی کمیٹیوں اور اجلاس میں سماجیات سے جڑے ایسے مسائل کبهی زیربحث نہیں آتے. نہ کسی وفاق نے اپنے ذیلی مدارس کو ان امور میں توجہ دینے کی باقاعدہ تاکید کی ہے نہ ان سے رہن سہن و نظم وضبط کی شفافیت کی رپورٹ طلب کی جاتی ہے۔

اہل مدارس کو سمجهنے کی ضرورت ہے کہ یہ معاملہ صرف انا کا یا طبقاتی نہیں ہے کہ اس پر کھل کے بات نہ کی جاسکے، بلکہ انسانی اور معاشرتی ہے اور اس کو نظرانداز کرنے کے بهیانک اثرات سامنے آرہے ہیں. ان کی طبقاتی خیرخواہی بهی اسی میں ہے کہ وہ ان معاملات میں قابلِ قدر توجہ دیں. اگر وہ کسی اور کے ان میں بات کرنے یا تحقیق کرنے سے گریزاں ہیں تو خود ہی اس کی سنگینی کو دیکهتے ہوئے اقدامات کرلیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...