کراچی کے یہودی(حصہ اوّل)
یہودیوں کی کراچی میں موجودگی کے حوالے سے محمودہ رضویہ اپنی کتاب ”ملکہ مشرق“ کے صفحہ نمبر 146 پر لکھتی ہیں کہ :یہودی لارنس کوارٹر میں آباد ہیں۔ ملازم پیشہ اور عرفِ عام میں بنی اسرائیل کہلاتے ہیں۔ ذبیحہ اپنا الگ کرتے ہیں۔ اُن کی ایک ہیکل اور سیمٹری بھی ہے۔ ان کی آبادی بہت کم ہے۔ یہ خاصے تعلیم یافتہ اور خوشحال ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد پاکستانیوں نے کراچی میں تاج برطانیہ کے دور میں شہر کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کرنے والے افراد کے ناموں سے منسوب بیشتر عمارتوں اور سڑکوں کے نام تبدیل کر دیے ہیں اور ان کی یہ کوششیں تا حال جاری ہیں۔ ایسا ہی شہر کراچی کی ترقی اور تعمیر کے لیے خدمات انجام دینے والے یہود و ہنود کے ساتھ بھی کیا گیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد جو لوگ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تو یہ ان کے لیے ایک عجیب و غریب بات تھی کہ جس اسلامی ریاست میں بسنے کے لیے وہ آئے تھے وہاں کی سڑکوں، گلیوں اور اداروں کے نام ہندوں، عیسائیوں، پارسیوں اور یہودیوں سے منسوب تھے۔ایک حد تک تو انھوں نے یہ بات برداشت کی لیکن پھر آہستہ آہستہ انھوں نے ان یادگاروں کو مٹانے کے لیے عملی کوششوں کا آغاز کردیا۔ سب سے پہلے اس سلسلے کی کاوش یہودیوں کے حوالے سے کی گئی۔ یہود سے ہماری نفرت دیرینہ ہے۔ اس کا احساس ان کو بھی تھا اس لیے وہ آہستہ آہستہ یہاں سے بیرونِ ملک خصوصاََ اسرائیل منتقل ہو گئے۔آخر ہمیں یہودیوں سے اتنی نفرت کیوں ہے۔یہودیوں نے پاکستان میں رہتے ہوئے ہمارا کیا بگاڑا تھا، اس کا جواب مورخین کے پاس بھی نہیں ہے۔ یہودی تو کراچی اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں امن اور شانتی کے ساتھ رہنا چاہتے تھے۔پھر ایسا کیا ہوا کہ انھیں کراچی چھوڑنا پڑا، ان کی کراچی میں عبادت گاہ جسے وہ ’یہودی مسجد ‘ پُکارتے تھے وہ بھی ختم ہو گئی۔رفتہ رفتہ یہودیوں کا وجود کراچی کی گلی کوچوں سے ختم ہو گیا۔لیکن یہ کیوں ہوا؟کیسے ہوا، اور کب ہوا؟ اس کا ذکر ہم آپ کوآہستہ آہستہ بتائیں گے، لیکن آئیے سب سے پہلے کراچی میں یہودیوں کی موجودگی کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔
یہودیوں کی کراچی میں موجودگی کے حوالے سے محمودہ رضویہ اپنی کتاب ”ملکہ مشرق“ کے صفحہ نمبر 146 پر لکھتی ہیں کہ :یہودی لارنس کوارٹر میں آباد ہیں۔ ملازم پیشہ اور عرفِ عام میں بنی اسرائیل کہلاتے ہیں۔ ذبیحہ اپنا الگ کرتے ہیں۔ اُن کی ایک ہیکل اور سیمٹری بھی ہے۔ ان کی آبادی بہت کم ہے۔ یہ خاصے تعلیم یافتہ اور خوشحال ہیں۔ ایٹکن کی مولفہ سندھ گزیٹیر مطبوعہ 1907 میں یہودیوں کی کراچی میںآبادی کے بارے میں لکھا ہے کہ 1901کی مردم شماری کے مطابق ان کی تعداد صرف 428 ہے۔ یہ سب تقریباََ کراچی میں آباد ہیں۔ اکثر کا تعلق بنی اسرائیل برادری سے ہے۔ محمد عثمان دموہی اپنی کتاب ’کراچی تاریخ کے آئینے‘ میں کے صفحہ نمبر 652 پر لکھتے ہیں کہ: کراچی میں یہودیوں کا صرف ایک قبرستان تھا جو پرانا حاجی کیمپ کے جنوب مشرق میں واقع تھا۔ یہ بنی اسرائیل قبرستان کہلاتا تھا۔ اس حوالے سے محمودہ رضویہ لکھتی ہیں؛ ”پرانی جوئیش سمیٹری (یہودیوں کا قبرستان) عثمان آباد سے ملحق ہے اور حاجی کیمپ کے جنوب مشرق میں بنی اسرائیل (یہودیوں)کا قبرستان ہے۔ محمودہ رضویہ نے کراچی میں یہودیوں کی دو عبادت گاہوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان کو تلاش کرنے سے قبل ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جو یہودی کراچی سے اسرائیل منتقل ہوئے وہ کس حال میں ہیں اور کراچی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
سولجر بازار کا ڈینئل
اس بارے میں معروف قلم کار اور صحافی محمد حنیف جنھوں نے خوش قسمتی سے اسرائیل کا دورہ کیا،اس وقت بین القوامی نشریاتی ادارے بی بی سی سے وابستہ ہیں۔ ان کا ایک مختصر سفرنامہ بی بی سی سے نشر ہوا تھا۔ جسے بعد ازاں نام ور ادیب اجمل کمال نے اپنے سہ ماہی جریدے آج کے شمارے نمبر 35 مطبوعہ 2001 میں شائع کیا تھا۔ محمد حنیف اسرائیل کے دورے کے دوران ایک تقریب کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:” تقریب کے آخر میں کسی منتظم کو خیال آیا کہ میں نے تقریر نہیں کی۔ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اسٹیج پر کھڑا کردیا گیا۔ میں نے کہا کہ میرا تعلق ہندوستان سے نہیں کراچی سے ہے۔ میں تو یوں ہی کام سے آیا تھا۔ لیکن آپ لوگوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی وغیرہ وغیرہ۔ “ میری بات سن کر پہلی قطار میں بیٹھے ہوئے پکی رنگت اور فربہ جسم کے ایک چالیس پینتالیس سالا آدمی نے زور سے سسکی لی۔ میں اسٹیج سے اترا تو اس نے آکر میرا ہاتھ پکڑا، ایک کونے میں لے کر گیا اور گلے لگایا۔ یہ سولجر بازار کراچی کا ڈینئل تھا۔
ڈینئل بولا:”میں نے 68 کے بعد سے کوئی کراچی والا نہیں دیکھا“ اس نے سسکیوں کے درمیان مجھے بتایا؛ ”میں وہاں(کراچی پاکستان ) کے ایک انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھتا تھا، ہماری اپنی مسجد (یہودی مسجد)تھی۔ سن 1967کی جنگ کے دوران ایوب خان نے اس کی حفاظت کے لیے پولیس بھی بھیجی تھی۔“ پھر اس نے دل پر ہاتھ رکھا اور کہا،”ہمیں وہاں کوئی تکلیف نہیں تھی۔ ہمیں کبھی کسی نے گالی تک نہیں دی۔ ہم نے بس دیکھا کہ سب یہودی اسرائیل جا رہے ہیں تو ہم بھی آگئے۔ آپ سولجر بازار کے ظفر خان کو جانتے ہو؟“ ڈینئل ایک فیکٹری میں کام کرتا ہے۔ ایک ہندوستانی یہودی لڑکی سے شادی کر رکھی ہے۔ دو بچے بھی ہیں۔ خواہش یہ ہے کہ مرنے سے پہلے ایک دفعہ کراچی ضرور دیکھ لے۔سنا ہے آج کل پھر کوئی فوج وغیرہ کی حکومت ہے وہاں، وہی چلا سکتے ہیں اپنے ملک کو بس۔“ باتوں باتوں میں ڈینئل نے بتایا اس کا اسرائیل، خاص طور پر راملے میں دل نہیں لگتا۔ میں نے پوچھا کیوں؟ڈینئل بولا کہ: آپ کو پتا ہے کہ ہم پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کی طبیعت میں بڑا فرق ہے۔ یہ لوگ ہمیں کبھی پسند نہیں کر سکتے۔ ہماری بھی ان کے ساتھ نہیں بنتی۔ ہمارے یہاں پر صرف تین چار خاندان ہیں۔ میری بیوی بھی ہندوستانی ہے لیکن وہ اپنے لوگوں والی بات نہیں ہے۔ میں نے کہا یہ سب توآپ کے یہودی بھائی ہیں۔ کہنے لگے ’ہاں ہاں، لیکن ہیں تو ہندوستانی!“
اس بلاگ کی اشاعت کے تقریباً چار سال بعد صحافیوں کی ایک نشست میں ہماری ملاقات مدثر شاہ سے ہوئی۔ مدثر شاہ ایک فری لانس صحافی ہیں، جو گزشتہ پندرہ یا سولہ برس سے بین الاقوامی نشریاتی اداروں اور اخبارات و رسائل کے لیے لکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ دستاویزی فلمیں بنانے میں بھی مہارت رکھتے ہیں، ساتھ ساتھ پشتو زبان میں فلمسازی بھی کرتے ہیں۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ یہودیوں کے حوالے سے ہمارا بلاگ انھوں نے بیرونِ ملک رہائش پذیر ایک یہودی خاتون کو ارسال کیا تھا جو انھیں خاصا پسند آیا لیکن انھوں نے بلاگ میں دی جانے والی معلومات پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا ۔اُن کی ای میل کا متن کچھ یوں ہے:
عزیزی مدثر،
آرٹیکل بھیجنے کا شکریہ، مجھے مکمل یقین ہے کہ اس کا متن پاکستان کے حوالے سے حقائق پر مبنی ہے۔علاوہ ازیں مجھے اس آرٹیکل پر کیے جانے والے تبصرے بہت پسند آئے۔یہ تبصرے نہایت ہی شائستہ اور مہذب انداز میں لکھے گئے ہیں۔ ان میں سے چند میں نے اپنے پاس محفوظ کر لیے ہیں جو میں اپنے دوستوں کو دکھانا چاہتی ہوں۔ اُس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے لوگ پاکستان کے حوالے سے خاصے لاعلم ہیں۔
حالاں کہ آرٹیکل کا ایک اہم حصہ بذات خود درست نہیں۔ جہاں تک رام اللہ شہر کا ذکر ہے اس شہر میں کوئی یہودی آباد نہیں۔ یہ شہر فلسطینی اتھارٹی کا غیر سرکاری دارالخلافہ ہے۔ اس شہر میں کسی یہودی کو بسنے کی اجازت نہیں، یہ ایک افسوسناک بات ہے۔ بنیادی طور پر یہ شہر عرب مسیحیوں کا ہے، گوکہ اب وہ بھی ایک مختصر اقلیت میں تبدیل ہو چکے ہیں۔آپ اس کی تصدیق انٹرنیٹ کے ذریعے بھی کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے مضمون میں خامی نظر آتی ہے۔
محترمہ اس کے بعد لکھتی ہیں کہ
: یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ اسرائیل میں آباد یوروپی، ہندوستانی اور مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے یہودیوں میں امتیازات نمایاں ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ذاتی انا،گلے شکوے اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بہ حیثیت یہودی ہماری لغت میں لفظ ”نفرت“ کا کوئی وجود نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ چند لوگ ایک دوسرے کا احترام نہ کرتے ہوں۔ (یہ افسوسناک بات ہے) لیکن نفرت نہیں، گوکہ مسلم انتہاپسندی کی وجہ سے کچھ نوجوان عربوں سے نفرت کرتے ہیں لیکن اس عمل کو یہودی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہودی حصول ِعلم کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں اور میں سمجھتی ہوں کہ یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ مزید برآں ، یہودیوں میںغریب بھی ہیں ، ان کی غربت کی وجہ ان کے مذہبی عقائد ہیں۔
آئیے اب بات کرتے ہیں رام اللہ کے رہائشی ڈینئل کی۔ خاتون یہودی نے جو ای میل مدثر کو بھیجی وہ کسی حد تک درست ہے۔ ہم نے اس حوالے سے محمد حنیف کو آگاہ کیا تو انھوں نے کہا کہ:اصل میں یہ نام رام اللہ نہیں بلکہ راملے ہے جواسرائیل کاایک بڑا شہر ہے۔ ذکر ہو رہا تھا کراچی میں یہودیوں کی عبادت گاہوں کا۔ ان میں سب سے مشہور (Bani Israil Trust) Magain Shalome Synagogueکی عمارت تھی جسے آج بھی کراچی کے پرانے لوگ اسرائیلی یا یہودی مسجد کے نام سے جانتے پہچانتے ہیں۔ یہ عبادت گاہ رنچھوڑ لائن کے مرکزی چوک پر واقع ہے۔ جہاں اب اس عبادت گاہ کی جگہ پر مدیحہ اسکوائر کی کثیر المنزلہ عمارت موجود ہے۔ آخرکار یہودی مسجد مدیحہ اسکوائر میں کیسے تبدیل ہوئی، اس کی جانکاری کے لیے ہمارے دوست قاضی خضر حبیب نے ہماری خاصی مدد کی۔ ان کے مطابق بنی اسرائیل ٹرسٹ کی آخری ٹرسٹی ریشل جوزف نامی خاتون تھیں جنھوں نے اس عمارت کا پاور آف اٹارنی احمد الہٰی ولد مہر الہٰی کے نام کر دیا تھا۔ ان میں ایک معاہدہ طے پایا تھا کہ عبادت گاہ کی جگہ ایک کاروباری عمارت تعمیر کی جائے گی۔ عمارت کی نچلی منزل پر دکانیں جب کہ پہلی منزل پر عبادت گاہ تعمیر کی جائے گی۔
اس معاہدے کے مطابق نچلی منزل پر دُکانیں تو بن گئیں اور پہلی منزل پر عبادت گاہ بھی، مگر اب عبادت گاہ کی جگہ رہائشی فلیٹوں نے لے لی ہے۔ ریشل جوزف اور مختلف افراد کے درمیان ٹرسٹ کی ملکیت کے حوالے سے مقدمہ بازی بھی ہوئی۔ جس میں ریشل اور ان کے اٹارنی کو کامیابی ملی۔ ریشل کی کراچی موجودگی کے بارے میں ہم نے اپنے ایک وکیل دوست جناب یونس شاد کے ذریعے ان کے وکیل سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ وہ کافی عرصہ پہلے لندن منتقل ہوگئیں تھیں۔ 6 مئی2007 کو روزنا مہ ڈان میں شائع ریما عباسی اپنے ایک مضمون میں ریشل سے گفتگو کا حوالہ دیتی ہیں۔ یہ گفتگو یہودی قبرستان کے حوالے سے ہے، جس کی وہ آخری نگران تھیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ 2007 تک کراچی میں موجود تھیں۔ جس کے بعد وہ یہاں سے چلی گئیں۔ اب ہمارا اگلا مرحلہ یہودی قبرستان جانے کا تھا۔ ہم نے اپنے ایک صحافی دوست اسحاق بلوچ جو گولیمار کے رہا ئشی ہیں سے اس سلسلے میں مدد چاہی۔ انھوں نے بتایا کہ قبرستان کی نگرانی ایک بلوچ خاندان کرتا ہے۔ وہ ایک بار وہاں گئے تھے۔ بلوچ خاندان نے بہ مشکل انھیں قبرستان میں جانے کی اجازت دی۔ وہ بھی بغیر کیمرے کے ،ہم مایوس ہو گئے۔ اسحاق بلوچ نے ہمیں کہا کہ اس سلسلے میں ہم نوجوان صحافی ابوبکر بلوچ سے بات کریں تو بہتر ہوگا۔ ان کے رشتے داروں کے قبرستان کے نگران خاندان سے تعلقات ہیں۔ میں نے اس حوالے سے ابوبکر بلوچ سے بات کی اور ہمارے درمیان یہ طے پایا کہ اتوار کے دن میوہ شاہ قبرستان جا کر کوشش کریں گے۔ اتوار کے دن ہم ابوبکر کے گھر لیاری کے علاقے نوالین پہنچے اور وہاں سے میوہ شاہ قبرستان۔ ابوبکر نے ایک پھولوں کی پتیاں بیچنے والی خاتون کی جانب اشارہ کیا۔ ہم نے انھیں ادب سے سلام کیا ،تو انھوں نے ناگوار نظر وں سے ہماری جانب دیکھا ۔ کیا کمال خاتون ہیں۔ انھیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ہم پھولوں کی پتیاں خریدنے نہیں آئے۔ وہ اردو میں بولیں تم لوگ اندر نہیں جا سکتے۔ میں نے ابوبکر کی جانب دیکھا۔ اُس بے چارے نے بلوچی میں کسی شریف بھائی کا حوالہ دیا۔
خاتون نے نیازبو کے ڈنٹھل صاف کرتے ہوئے ہماری طرف کچھ حیرت سے دیکھا اور پھر اردو میں اپنا پرانا جواب دہرایا۔ لیکن اب ان کے لہجے میں پہلی والی شدت نہیں تھی۔ ہم نے بھی بلوچی کا حربہ آزمانے کا فیصلہ کیا اور ان سے بلوچی میں قبرستان دیکھنے کی اجازت چاہی۔ اب انھوں نے ہم سے بلوچی میں گفتگو شروع کی۔ ان کے لہجے سے دُر شتگی تقریباََ ختم ہو چکی تھی۔ انھوں نے کہا پہلے بھی کچھ لوگ آئے تھے۔ فوٹو بنا کر چلے گئے۔ ہم کو بڑا آسرا دیا کہ قبرستان ٹھیک کروا دیں گے۔ اس کی چار دیواری اونچی کروادیں گے۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔ چار دیواری بھی ہم نے اونچی کروائی ہے نہیں تو لوگ سنگ مر مر بھی نہ چھوڑتے۔ انھوں نے بتایا کہ قبرستان میں 500 سے زیاہ قبریں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قبرستان کی حفاظت کرتے ہوئے 100 سال سے زیادہ کا عر صہ ہو گیا ہے۔گفتگو کے دوران وہ ہمیں بار بار اس بات کا احساس بھی دلاتی رہیں کہ ہمیں اندر جانے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گی۔ لیکن ہم نے بھی اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ آخر زِچ ہوکر انھوں نے کہا کہ ہم پیر والے دن ایک بجے آجائیں اور ان کے بیٹے سے ملیں۔ ہم تقریباََ مایوس ہو چکے تھے۔ اتنی دیر میں ایک موٹر سائیکل ہمارے قریب آکر رکی اور اس پرسوارایک نوجوان اترا۔ جو لنگڑا کر چل رہا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک چھڑی بھی تھی۔ یہ یہودی قبرستان کی نگران خاتون کا بیٹا عارف تھا۔ عارف نے ہماری جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ان کی والدہ نے اشاروں کنایوں میں اسے ہمارے بارے میں بتایا۔
عارف نے بھی کہا کہ ہم یہودی قبرستان میں نہیں جا سکتے۔ لیکن اس کے لہجے میں اپنی ماں والی درشتگی نہیں تھی۔ ہم نے عارف سے بلوچی زبان میں درخواست کی، تو اس کی آنکھوں میں حیرت اور کچھ قبولیت کے آثار دیکھ کر ہم نے اسے بتایا کہ ہم صرف قبرستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ خاصی بحث کے بعد وہ ہمیں قبرستان دکھانے کے لیے راضی ہو گیا۔ لیکن شرط رکھی کہ صرف ایک آدمی ان کے ساتھ قبرستان کے اندر جائے گا۔ ہم نے فوراًشرط مان لی۔ یوں ہم قبرستان کے اندر داخل ہو گئے۔ اگلا کٹھن مرحلہ تصویریں بنانے کا تھا۔ قبرستان کانٹے دار جھاڑیوں سے اٹاہواتھا۔ میں نے آہستہ آہستہ جیب سے کیمرہ نکالا اور تصویریں بنانی شروع کی۔ عارف نے میری طرف دیکھا اور بلوچی میں ہنستے ہوئے بولا جتنی چاہو بنا لو ،آخر بلوچ بھائی ہو۔ اس دوران عارف نے بھی اپنی والدہ والی باتیں دہرائیں اور بتایا کہ پہلے وہ جھاڑیاں وغیرہ خود صاف کرتا تھا۔ لیکن گزشتہ دنوں اس کا موٹر سائیکل سے ایکسیڈنٹ ہو گیا ،جس کے نتیجے میں اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اس لیے اب اس کے لیے یہ کام ممکن نہیں۔ عارف کا مزید کہنا تھا کہ تقریباََ ایک سال قبل ایک شخص اس کے پاس آیا تھا جس نے بتایا کہ شیرٹن ہوٹل میں کچھ لوگ اس سے ملنا چاہتے ہیں۔ وہ ہوٹل پہنچا تو 4 لوگوں سے ملاقات ہوئی جنھوں نے اُس سے قبرستان کا تفصیلی حال معلوم کیا، مگر یہ لوگ قبرستان دیکھنے نہیں آئے حالاں کہ انھوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ قبرستان دیکھنے آئیں گے۔عارف کے مطابق کبھی کبھار مختلف لوگ قبرستان دیکھنے آتے ہیں اورقبروں کے ساتھ تصویریں بھی بنواتے ہیں۔ لیکن کبھی بھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ یہودی ہیں یا مسلمان یا کوئی اور۔ تصویریں بناتے ہیں قبرستان کی بحالی کے لیے بڑی بڑی باتیں کرکے چلے جاتے ہیں،پر ہوتا کچھ نہیں ۔ اس موقعے پرایک لکھاری کی حیثیت سے میں سوچ رہا تھا کہ دنیا بھر کے یہودیوں کو اس بات کاشکُر ادا کرنا چاہیئے کہ ان کی قبروں کے نگران بلوچ ہیں ورنہ یہودی مسجد کا تو آپ کو پتہ ہے نا کیا حال ہوا؟! لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ گو کہ یہودیوں کی کہانی طویل ہوتی جا رہی ہے لیکن مجھے اس حوالے سے کچھ اور معلومات آپ کی خدمت میں پیش کرنی ہے۔
فیس بک پر تبصرے