ایک آئین کو کس حد تک حالات کے مطابق ڈھل جانے لائق ہونا چاہیے؟
وہ آئینی ترامیم جو بُری نیت سے کی جائیں اور ان کی وجہ سے سماج میں تفریق جنم لے، انہیں منسوخ کرنا بسااوقات بہت مشکل بن جاتا ہے، خاص طور پر جب وہ مضبوط گروہوں کے لیے ایک سیاسی ہتھیار بن چکی ہوں
اٹھارہویں صدی عیسویں سے لے کر آج تک کی قومی ریاستوں نے جو آئین تشکیل دیے ہیں ان کی جڑیں بقول ماہرین سیاسیات کے روشن خیال آئینی نمونے میں موجود ہیں۔ اس آئینی ماڈل کی تشکیل میں سترہویں اور اٹھارہویں صدی عیسویں کے فلسفیوں نے بنیادی کردار ادا کیا جن میں تھامس ہابز ، جان لاک اور ژاں ژاک روسو کے نام نمایاں ہیں۔
اگرچہ اٹھارہویں صدی عیسویں سے پہلے بھی تحریری شکل میں آئین موجود تھے تاہم یہ روشن خیالی کا آئینی نمونہ ہی وہ واحد عملی مثال ہے جس پر آج تک کے آئین تشکیل دیے جاتے ہیں۔ اس لئے تمام ممالک کے تشکیل شدہ آئین میں تکثیریت، حکومتوں کے لئے قانون سازی کے رہنما اصول جن کے تحت وہ سماج میں سماجی، سیاسی اور اقتصادی استحکام کو قائم رکھتے ہیں اور سماج میں انتشار اور افراتفری کو ختم کرتے ہیں، لازمی طور پر موجود ہیں۔
آئین کا روشن خیال نمونہ اسی لئے اس امر پہ زور دیتا ہے کہ کوئی بھی قانون بنانے سے پہلے لازمی ہے کہ اس پربھرپور بحث مباحثہ کیا جائے اور اس کے بعد ہی اسے قانون یا قانون میں ترمیم کی شکل دی جائے۔ اس ساری مشق کا مقصد یہ ہے کہ ریاست کے اداروں کے درمیان جس حد تک ممکن ہو اتفاقِ رائے حاصل کیا جائے جن میں مقننہ، انتظامیہ اور عوام الناس شامل ہیں۔ تاہم یہ اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ پارلیمنٹ میں عددی برتری کے بل بوتے پر قانون سازی یا قانونی ترمیم کا عمل بہت تیزی سے انجام دے دیا گیا اور اس کے لئے بحث و مباحثہ اور تمام متعلقہ فریقین سے مشاورت نہیں کی گئی۔
حالیہ دنوں میں ہی بھارتی پارلیمان ایک متنازع قانون کو محض ایک ہی دن میں پاس کیا گیا۔ قانونِ شہریت میں ترمیمی بل جسے بی جے پی حکومتی اتحاد نے 9 دسمبر کو متعارف کروایا وہ اگلے ہی دن پارلیمان سے پاس ہوگیا۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں اور حقوق انسانی کی تنظیموں کے اس اعتراض کے باوجود کہ یہ بل اپنی دانست میں مسلم مخالف ہے اور بھارتی آئین کے سیکولر تشخص کے منافی ہے، اس بل کی منظوری نے ہندوستان بھرمیں ایک احتجاجی لہر دوڑا دی ہے۔
اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ پارلیمنٹ میں عددی برتری کے بل بوتے پر قانون سازی یا قانونی ترمیم کا عمل بہت تیزی سے انجام دے دیا گیا اور اس کے لئے بحث و مباحثہ اور تمام متعلقہ فریقوں سے مشاورت نہیں کی گئی
یہ عمل ایک ایسے آئین میں ترمیم کی واضح کوشش تھا جو اپنی اصل میں روشن خیال آئینی نمونے پر تکثیریت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قائم کیا گیا تھا۔ ایک ایسی آئینی ترمیم جو کہ بُری نیت سے لائی گئی ہو اور وہ عوام میں تفریق کرے وہ ایک مسئلہ کی صورت میں بھی ظاہر ہوسکتی ہے۔ اس طرح کی آئینی ترامیم جن کی وجہ سے سماج میں تفریق جنم لےانہیں واپس لینا بسااوقات بہت مشکل بن جاتا ہے خاص طور پر جب وہ مضبوط گروہوں کے لئے ایک سیاسی ہتھیار بن چکی ہوں۔
مثال کے طور پر امریکی آئین کی دوسری ترمیم ملاحظہ کیجئے۔ اس کی توثیق 1791ء میں ہوئی، یہ ترمیم امریکی شہریوں کو ہتھیار رکھنے کی اجازت فراہم کرتی ہے۔ یہ ترمیم بیسویں صدی کے وسط میں اس وقت متنازع صورت بن کے سامنے آئی جب بہت سے نوجوان امریکیوں نے بڑی تعداد میں بندوقیں اٹھائے تعلیمی اداروں میں اپنے ساتھیوں کا قتل عام شروع کردیا۔ باوجود اس کے کہ عوام کی بڑی تعداد نے اس ترمیم کو منسوخ کرنے کے لئے احتجاجی مظاہرے کئے امریکی حکومتوں کے لئے یہ فیصلہ مشکل ہوگیا کیونکہ ہتھیاروں کی طاقتور صنعت جس کی لابی بہت مضبوط تھی اور جنوبی امریکی ریاستوں کی روایت پرست آبادی اس ترمیم کی منسوخی کے خلاف تھی۔ علاوہ ازیں دونوں طاقتورگروہوں کے پاس بہت سے امریکی ارکان پارلیمان اور گورنرز کی سیاسی زندگیوں پر اثرانداز ہونے کی طاقت بھی ہے۔
پاکستانی آئین میں دوسری ترمیم بھی ایک دلچسپ مثال ہے جس کا جائزہ لئے جانے کی ضرورت ہے۔ سال 1986ء میں قانون توہین مذہب میں فی الفور کی گئی ترمیم جس کے تحت آرٹیکل 295-سی میں موت کی سزا لازم قرار دی گئی تھی، کے برعکس دوسری آئینی ترمیم کو افراتفری میں یا کسی مباحثے کے بغیر نہیں لایا گیا۔ اس کے لئے ایک بھرپور مباحثہ ہوا۔ محبوب حسین کی کتاب ’’دی پارلیمنٹ آف پاکستان‘‘ اس واقعے کا تفصیلی احوال بیان کرتی ہے جس میں ایک مذہبی برادری کو دائرہ اسلام سے خارج کرکے روشن خیالی کے نمونے پر تشکیل دیئے گئے جدید آئین میں اس آئینی ترمیم کو جگہ دی گئی۔
مئی 1974ء میں پنجاب کے قصبے ربوہ(حالیہ چناب نگر) میں احمدی طلبہ اور جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم کے مابین ایک جھگڑا ہوا۔ ایک ہفتے بعد پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن رہنما نے یہ مطالبہ کیا کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دے دیا جائے۔ جلد ہی قومی اسمبلی میں موجود اپوزیشن ارکان نے یہ تجویز دی کہ اس واقعے پر قومی اسمبلی میں بحث کی ضرورت ہے۔ وزیر قانون نے اعتراض کیا کہ اس معاملے پر بحث کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ معاملہ صوبائی سطح کا ہے۔
4 جون 1974ء تک حکومت نے یہ کوشش کئے رکھی کہ اس معاملے کو پارلیمانی بحث میں شامل نہ کیا جائے۔ وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کا یہ موقف تھا کہ 90 سال پرانا یہ مذہبی معاملہ (کہ احمدی دائرہ اسلام سے خارج ہیں) ایک فقہی مسئلہ ہے جس پر پارلیمنٹ میں گفتگو نہیں ہونی چاہیے۔ محبوب حسین لکھتے ہیں کہ وزیر اعظم نے مذہبی جماعتوں سے پوچھا کہ اگر یہ مسئلہ اس قدر سنگین تھا تو انہوں نے اس پر اس وقت بحث کیوں نہیں کی جب آئین(1973کا آئین پاکستان) تشکیل دیا جارہا تھا اور ان سے مشاورت کی جارہی تھی۔
4 جون 1974ء تک وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کا یہ موقف تھا کہ 90 سال پرانا یہ مذہبی معاملہ (کہ احمدی دائرہ اسلام سے خارج ہیں) ایک فقہی مسئلہ ہے جس پر پارلیمنٹ میں گفتگو نہیں ہونی چاہیے
قومی اسمبلی کے اسپیکر نے بیان کیا کہ اس معاملے پر اسمبلی میں بحث نہیں ہوسکتی کیونکہ آئین میں اقلیتوں کی وضاحت کی جاچکی ہے۔ اپوزیشن کی جماعتوں نے 14 جون 1974ء کو ملک بھر میں ہڑتا ل کی کال دے دی۔ پنجاب میں یہ ہڑتال متشدد صورت اختیار کر گئی اور یہاں ہونے والے احتجاج کے دوران درجنوں افراد مارے گئے۔
احتجاجیوں کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال کی دھمکی کے بعد بالآخر وزیر اعظم نے ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کیا اور یہ اعلان کیا کہ وہ اس معاملے پر پارلیمانی مباحثے کے لئے تیار ہیں۔ محبوب حسین لکھتے ہیں کہ فوج پہلے ہی بلوچستان میں ایک مسلح شورش سے نمٹنے میں مصروف تھی اور ملک سے باہر بیٹھے ہوئے احمدی رہنما غیرملکی صحافتی اداروں کو آئے روز یہ بیانات جاری کررہے تھے کہ بھٹو صاحب کی حکومت نااہل ہے اور وہ امن و امان کی صورتحال برقرار نہیں رکھ پارہی، اس ساری صورتحال نے بھٹو صاحب کو مجبور کردیا کہ وہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لے جانے پر رضامندی ظاہر کردیں۔
اپوزیشن کے مطالبات کی جانچ کے لئے ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ پاکستان میں موجود تمام مسالک کے فقہی ماہرین کے ساتھ ساتھ احمدی برادری کے نمایاں رہنماؤں کو بھی پارلیمانی کمیٹی کے ساتھ اِن کیمرا ملاقاتوں میں مدعو کیا گیا۔ بھٹوصاحب کی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو 1970ء کے انتخابات میں احمدی برادری کی واضح حمایت حاصل تھی۔ 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی فضائیہ اور بحریہ کے نئے سربراہا ن کو مقرر کیا اور ان دونوں افسران کا مذہبی تعلق احمدی برادری سے تھا۔ محبوب حسین کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو نے پوری کوشش کی کہ اس معاملےکو ٹھنڈا کیا جائے کیونکہ پنجاب ان کی انتخابی حمایت کا مرکز تھا۔ یہاں پھوٹنے والا تشدد ان کی حکومت اور جماعت کے لئے براہ راست خطرہ تھا۔
1973ء کا آئین تحریر کرنے والے رفیع رضا جنہوں نے 1997ء میں ایک کتاب بعنوان ’’ذوالفقارعلی بھٹو اینڈ پاکستان‘‘ لکھی ہے۔ وہ اس کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی میں بیٹھے ہوئے پیپلز پارٹی کے اکثر اراکین نے اپوزیشن جماعتوں کی حمایت کا اس وقت فیصلہ کرلیا جب خصوصی کمیٹی کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ کے کچھ مندرجات ’’لیک‘‘ ہوگئے۔
رفیع رضا لکھتے ہیں کہ احمدی برادری کے کچھ رہنماؤں نے خصوصی کمیٹی کے سامنے ایسے بیانات دیئے جن کے نتیجے میں کمیٹی کی رائے اپوزیشن جماعتوں کی طرفدار ہوگئی۔ اگرچہ انہوں نے صاف لفظوں میں بیان نہیں کیا کہ وہ بیانات کیا تھے؟
بالآخر 4 مہینے کی بحث اور دلائل کے بعد کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ اپوزیشن کی جانب سے احمدی برادری کو اقلیت قرار دیئے جانے کا بل اسمبلی میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ 7ستمبر 1974ء کو یہ بل تمام جماعتوں کی حمایت سے پاس کردیا گیا۔ تمام سیاسی جماعتوں نے چاہے ان کی نوعیت مذہبی تھی یا سیکولر، انہوں نے اس بل کی حمایت کی۔ ملک کے تمام اخبارات کے اداریئے پارلیمان کی تعریف سے بھرے ہوئے تھے کہ کس طرح انہوں نے ایک 90 سالہ پرانے مسئلے کو پر امن طریقے سے حل کردیا ہے۔
اس کے باوجو د کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے مل کر ایک قدیم مسئلے کو جمہوری اتفاق رائے سے حل کرلیا تاہم اس مصالحت کے نتیجے میں ایک پینڈورا باکس کھل گیا جسے پاکستانی ریاست اور عوام آج تک بند نہیں کرپائے۔ اس باکس سے نہ صرف مذہبی اور مسلکی بوالعجیاں برآمد ہوئیں بلکہ یہ سوال بھی ابھر کر سامنے آیا کہ روشن خیال نمونے پر قائم ہونے والے ایک آئین کو کس حد تک حالات کے مطابق ڈھل جانے لائق ہونا چاہیے؟ اور کیا یہ صلاحیت کسی کمزوری کو دعوت دیتی ہے؟
ندیم فاروق پراچہ کا یہ مضمون انگریزی روزنامہ ڈان میں شائع ہوا
مترجم: شوذ ب عسکری
فیس بک پر تبصرے