کیا قطر خلیج بحران ختم ہونے کو ہے؟

1,111

10 دسمبر کو ریاض میں ہونے والی 40 ویں خلیج کانفرنس انتہائی اہمیت اختیار کر گئی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ اس میں خلیجی ممالک قطر کے خلاف بائیاٹ ختم کرنے کا اعلان کر دیں گے۔ کویت جو کہ جانبین میں برابر ثالثی کی کوششیں کر رہا ہے اس کے وزیراعظم صباح خالد الصباح نے بھی اس بات کا اظہار کیا ہے کہ رواں ہفتے ہونے والی خلیج کانفرنس میں دونوں اطراف کے مابین تصفیہ ہو جائے گا اور حالات معمول پر آجائیں گے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ہمیں بہت سے مثبت اشارے ملے ہیں، خلیج کانفرنس میں بحران کے خاتمے اور مسئلے کے تدریجی حل کی طرف پیش رفت شروع ہو جائے گی۔

سعودی عرب، امارات اور بحرین کی طرف سے قطر میں جاری خلیج کپ میں شرکت کے اعلان کے بعد سے ہی دونوں طرف کے میڈیا نے بھی لفظی جنگ بندی کر دی ہے جس سے دونوں اطراف کے عوام میں  پائی جانے والی تلخی میں کمی واقع ہوئی ہے، اسی طرح امریکی اخبارات میں رپورٹ  کیے گئے قطری وزیرخارجہ کے گزشتہ ماہ دورہ سعودی عرب پر بھی عرب میڈیا خاموش ہے۔

سعودی عرب اور امارات کی جانب سے یمن جنگ سے نکلنے کی کوششیں، سعودی عرب میں قید حوثی باغیوں کی رہائی، میڈیا کی طرف سے لفظی جنگ بندی اور ایران کے ساتھ  ثالثی کے لیے پاکستان، کویت اور عمان کی خدمات وہ عوامل ہیں جو خطے میں قیام امن کے لیے نیک شگون ہیں۔

عمان کے وزیر خارجہ یوسف بن علوی جو کہ ان دنوں ایران کے دورے پر ہیں سے ملاقات کے دوران ایرانی وزیرخارجہ  کا کہنا تھا کہ ہم خطے میں قیام امن کے لیے تمام پڑوسی ممالک سے بات چیت کے لیے تیار ہیں اور سعودی عرب کے ساتھ بھی ازسر نو تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ قبل ازیں سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز بھی حالیہ دنوں میں تسلسل کے ساتھ ایسے بیانات دے چکے ہیں جن میں انہوں نے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

 اس وقت ناظرین کو خوشگوار حیرت ہوئی جب سابق امیر قطر نے پیرانہ سالی کے باوجود سعودی عرب کا قومی ترانہ کھڑے ہو کر سنا

سعودی عرب کی طرف سے خارجہ پالیسی میں یہ واضح تبدیلی اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ وہ اب قطر کے معاملے میں بھی لچک کا مظاہرہ کرے گا۔ لندن سے شائع ہونے والے عرب روزنامے “القدس العربی” کے مطابق گزشتہ ماہ  قطری وزیر خارجہ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے بعد جانبین کے درمیان برف پگھل چکی ہے اور اس بات کا امکان پیدا ہوا ہے کہ آئندہ ہفتے ہونے والی خلیج کانفرنس میں بائیکاٹ کے خاتمے کا اعلان کر دیا جائے گا۔ القدس اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ کانفرنس اس سال متحدہ عرب امارات میں ہونا طے تھی لیکن سعودی عرب نے اس امکان کے پیش نظر کہ اس میں قطری امیر شیخ تمیم بن حمد خود شریک ہوں گے کانفرنس کی میزبانی خود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کویت کے نائب وزیر خارجہ خالد الجار اللہ نے بھی امید ظاہر کی کہ قطر اور ایران کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کویت کی کوششیں رنگ لا رہی ہیں اور دونوں ملکوں کے ساتھ  سعودی عرب کے تعلقات میں کافی بہتری آئی ہے اور اس ضمن میں خلیج کانفرنس انتہائی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔

عرب ویب سائٹ ساسہ پوسٹ کے مطابق سعودی عرب  کے رویے میں یمن، ایران اور قطر کی بابت رونما ہونے والی تبدیلی کا تعلق 14 ستمبر کو  آرامکو ریفائنری پر ہونے والے حملے سے ہے جس کے بعد سے سعودی عرب کا امریکا سے اعتماد اٹھ گیا ہے اور وہ اپنے داخلی امن کے لیے امریکا پر انحصار ترک کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نومبر میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے بھائی اور سعودی نائب وزیر دفاع خالد بن سلمان کو یمن جنگ سے نکلنے کا ٹاسک دیا اور اس حوالے سے عمان  کی طرف سے پیش کیے گئے حل پر غور کرنے اور اسے عملی شکل دینے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

خلیج بحران کے خاتمے کی طرف پیش رفت کا ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ قطر میں جاری خلیج کپ میں شرکت کی دعوت کو پہلے سعودی عرب، امارات اور بحرین نے مسترد کر دیا تھا، بعد ازاں قطری وزیرخارجہ کی طرف سے ہونے والے مذکرات  نے جمود کو توڑا اور بالکل آخری وقت میں مذکورہ تینوں ملکوں نے ٹورنامنٹ میں شرکت کا اعلان کیا۔ 5 دسمبر کو سعودی عرب اور قطر کے مابین سیمی فائنل میں بھی سعودی عرب سے شائقین کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی تھی۔ میچ دیکھنے کے لیے امیر قطر کے والد اور سابق قطری امیر شیخ حمد بن خلیفہ بھی میدان میں آئے تھے اور اس وقت ناظرین کو خوشگوار حیرت ہوئی جب سابق امیر قطر نے پیرانہ سالی کے باوجود سعودی عرب کا قومی ترانہ کھڑے ہو کر سنا۔ آج اتوار کو بحرین کے ساتھ  فائنل میچ میں سعودی عرب کے ساتھ بحرین سے بھی مزید شائقین کی آمد متوقع ہے۔

خلیج کانفرنس منگل کو منعقد ہو رہی ہے، اس سے پہلے کانفرنس میں شرکت کے لیے قطر اپنے وفود بھیجتا رہا تھا، اگر حالیہ کانفرنس میں امیر قطر خود شرکت کرتے ہیں جس کے قوی امکانات ہیں تو کوئی شک نہیں کہ یہ بحران ٹل جائے گا جس سے نہ صرف جانبین کے عوام میں خوشی کی لہر دوڑے گی بلکہ پوری اسلامی دنیا جوکہ شدت سے اس گھڑی کی منتظر ہے اس کے لیے بھی یہ نہایت خوشی اور اطمینان کا باعث ہوگا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...