working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

 
Bookmark and Share
01 October 2018
تاریخ اشاعت

از طرف مدیر

مہاجرت اور تبدیلی

مہاجرت ایک کرب انگیز تجربہ ہے لیکن اب یہ بڑا عالمی مسئلہ بھی بن رہی ہے ۔مہاجرت کی سمت اندرونی ہو یا بیرونی ا س کے کئی محرک ہیں جس میں سب سے بڑا محرک تصادم اور شورش ہے جو لوگوں کو نقل مکانی اور پھر مہاجرت اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے ۔شام ، عراق، افغانستان ،لیبیااور یمن سے بے گھر ہو کر مختلف ممالک میں مہاجرت اختیار کرنے والوں کی تعداد ابھی تک بڑھ رہی ہے۔ مشرقی اور جنوبی اشیاء ،افریقہ، مشرقی یورپ ،لاطینی امریکہ سے ایسے لاکھوں افراد ترقی یافتہ ممالک کی طرف رخ کرتے ہیں ۔تیسری وجہ سیاسی حالات اور جبر ہے جو لوگوں کو مہاجرت اختیار کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔سیاسی پناہ لینے والوں کی تعداد قدرے کم ہے لیکن یہ تعداد بھی ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے ۔

آسیہ بی بی کیس کا فیصلہ

آسیہ بی بی کیس کا فیصلہ عدالتِ عظمیٰ نے جب سنایا تو ایک بھونچال کی سی فضا پیدا ہو گئی ۔56صفحات کا یہ تفصیلی فیصلہ تو شاید چند ایک نے پڑھا مگر اس فیصلہ سے جو تعبیریں سڑکوں پر براجمان مذہبی قیادت نے نکالیں ان کی آگ سے اٹھنے والے دھوئیں نے ہر منظر دھندلا کر رکھ دیا ۔ملک کے اعلیٰ ترین قاضیوں اور سپہ سالار کے خلاف جو منہ میں آیا کہہ دیا گیا ۔ تحمل اور بردباری کا درس دینے والوں نے ملک کو انارکی کے دروازے پر لا کھڑا کیا ۔ اس ساری صورتحال سے ایک بار پھر یہ واضح ہو گیا کہ متشدد رویئے ہمارے اندر کس قدر سرایت کئے ہوئے ہیں ۔آسیہ بی بی کیس خالصتاً ایک قانونی مسئلہ تھا ۔عدالت اگر دستیاب شواہد سے مطمئن نہ ہو تو محض خواہش کی بنا پر کسی ملزم کو لٹکا سکتی ہے ؟اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال کیا جاتا ہے بہت سے لوگ ذاتی دشمنی کی خاطر مخالفین پر شعارِ اسلام کی توہین کا کیس دائر کر دیتے ہیں ۔

فکر نظر

عالم اسلام اور عرب بہار

ڈاکٹر خالد مسعود

ڈاکٹر خالد مسعود کا شمار دنیا میں اسلامی فقہ کے چند بڑے ماہرین میں ہوتا ہے۔آپ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلا م آباد کے اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹرجنرل اور ہالینڈ کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار دی سٹڈی آف اسلام کے ڈائریکٹر بھی رہے۔عدالتِ عظمی ٰ کے شریعت اپیلٹ بنچ کے ایڈہاک ممبر بھی ہیں۔ڈاکٹر خالد مسعود سہ ماہی تجزیات اور تجزیات آن لائن میں باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ان کا حالیہ مفصل تجزیہ عرب بہار کے آٹھ سال بعد کی صورتِ حال کا احاطہ کرتا ہے اس کی اہمیت ا س لحاظ سے بھی دو چند ہے کہ عرب بہار کے بعد عالم اسلام آج کہاں کھڑا ہے اور جہاں پر موجود ہے وہاں پر عرب بہار سے اٹھنے والی تحریکوں کا کتنا عمل دخل ہے، یہ تمام زاویئے اس تفصیلی مقالے میں زیر بحث لائے گئے ہیں۔ مدیر

سفید فامی کا مذہب ،خود کش مسلک کا روپ دھار سکتا ہے

پنکج مشرا

جغرافیائی سیاست کے بطن سے ابھری زخم خوردہ ،غرورزدہ شناخت نے دنیا کا امن خطرے میں ڈال دیا ہے۔ پنکج مشرا کا شمار معروف بھارتی لکھاریوں میں ہوتا ہے جن کی تاریخ، سماجیات اور مشرقیات پر گہری نظر ہے۔وہ اب تک کئی کتابیں لکھ چکے ہیں جن کی نہ صرف یہ کہ عالمی سطح پر پزیرائی ہوئی ہے بلکہ انہیں ان پر کئی عالمی ایوارڈز بھی مل چکے ہیں۔مشرا ادب اور سیاست کے موضوعات پر نیویارک ٹائمز میں کالم بھی لکھتے ہیں۔مشرا کا مندرجہ ذیل مضمون سفید فام برتری کا تصور اور ا س کے نتیجے میں دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کا احاطہ کرتا ہے۔دنیا میں مشرق و مغرب کا جو تصور موجود ہے یہ درحقیقت کالے اور گورے کا تصور ہے جس نے دور حاضر میں ایک کشمکش کی صورت اختیار کر لی ہے۔یہ تنازعہ کیارخ اختیار کرتا جا رہا ہے۔اس کااحاطہ مشرا نے کرنے کی کوشش کی ہے۔ مدیر

ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور جہاد کا تصور

عاطف ہاشمی

آج کی مسلم دنیا میں سب سے زیادہ موضوعِ بحث جہاد ہے ،بیرونی دنیا بھی اس تصور کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانکاری حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے کیونکہ جہادی تحریکوں نے دنیاپر اپنے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ خود عالم اسلام کے اندر اس حوالے سے مختلف فقہ کی روایات مختلف ہیں جس کی وجہ سے ابہامات پیدا ہوئے ہیں ،تاہم نامور عالم دین ڈاکٹر یوسف عبداللہ القرضاوی نے اس حوالے سے بڑی جامع تحقیق کر کے بہت سی مشکلیں حل کر دی ہیں۔وہ ممالک جہاں جہادکے نام پر شرپسندی جاری ہے وہاں ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی فکر صحت مند مکالمے کو جنم دے سکتی ہے ۔ مدیر

مذہب، سماج اور تعلیم

جدید معاشرہ اور ہمارا دینی نظام

عمار خان ناصر

عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گجرات میں اسسٹنٹ پروفیسر اور ماہنامہ ’’الشریعہ ‘‘ گوجرانوالہ کے مدیر ہیں ۔ان کا زیر نظر مضمون دینی مدارس کے طرز تعلیم میں مجوزہ اصلاحات کے حوالے سے ہے ۔دینی مدارس میں لاکھو ں طلباء زیر تعلیم ہیں جنہیں دینی کے ساتھ عصری علوم سے بھی بہرہ مند ہونا ہے تاکہ وہ مسجد و منبر کے ساتھ دیگر شعبوں میں متحرک کردار ادا کر کے قومی دھارے کا حصہ بن سکیں ۔عمومی تعلیم میں بھی وسیع اور بنیادی اصلاحات کی جا رہی ہیں ، نئی حکومت یکساں نظام تعلیم کے ویژن کے ساتھ آئی ہے ۔عمار خان ناصر کا مضمون اسی پیرائے میں ہے ۔دینی مدارس سے وابستہ کارپردازان اگر اس موضوع پر اپنا قلم اٹھانا چاہئیں توہمارے صفحات حاضر ہیں۔ مدیر

ہماری مساجد کانظم و نسق

مفتی محمد زاہد

مفتی محمد زاہد معروف عالم دین اور جامعہ امدادیہ فیصل آباد کے مہتمم ہیں۔مساجد اسلام کا اہم ادارہ ہیں مگر انہیں صرف عبادات کے لئے وقف کر دیا گیا ہے ،مساجد کے نظم و نسق میں بھی بے شمار مسائل ہیں ۔یہ مسائل کس نوعیت کے ہیں اور انہیں کیسے حل کر کے مساجد کو سماجی اور دینی زندگی میں متحرک کردار دیا جا سکتا ہے ۔اس حوالے سے مفتی محمد زاہد نے گراں قدر تجاویز بھی دی ہیں ۔مدیر

مذہب اور ہمارا عمومی رویہ

مفتی محمد زاہد

مفتی محمد زاہد معروف عالم دین اور جامعہ امدادیہ فیصل آباد کے مہتمم ہیں۔مساجد اسلام کا اہم ادارہ ہیں مگر انہیں صرف عبادات کے لئے وقف کر دیا گیا ہے ،مساجد کے نظم و نسق میں بھی بے شمار مسائل ہیں ۔یہ مسائل کس نوعیت کے ہیں اور انہیں کیسے حل کر کے مساجد کو سماجی اور دینی زندگی میں متحرک کردار دیا جا سکتا ہے ۔اس حوالے سے مفتی محمد زاہد نے گراں قدر تجاویز بھی دی ہیں ۔مدیر

وطن میں اجنبی

گرگا چیٹرجی

گرگا چیٹر جی کلکتہ میں رہتے ہیں اور جنوبی ایشیائی تاریخ ،تہذیب و ثقافت پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ہارورڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کررکھی ہے اور بھارت کے ادارہ برائے شماریات سے وابستہ ہیں ۔زیر نظر مضمون میں انہوں نے بھارتی ریاست آسام میں جہاں علیحدگی کی تحریک بھی چل رہی ہے وہاں پر شہریت کے قوانین کا جائزہ معروضی حالات کے پس منظر میں لیا ہے ۔پاکستان میں بھی آج کل شہریت کے قانون پر بحث ہو رہی ہے ۔مدیر

قومی منظر نامہ

ضلع دیامر میں مذہبی تشدد کیسے پھیلا ؟

غلام دستگیر

ضلع دیامر دوردراز اور پہاڑوں میں گھرا ہوا ضلع ہے جس میں تنگیر اور داریل کی دو مشہور وادیاں ہیں ۔حالیہ سالوں میں دیامر بھاشا ڈیم اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کی وجہ سے اس ضلع کی تزویراتی اہمیت دو چند ہو چکی ہے مگر یہاں گزشتہ اگست میں ایک ہی رات میں چودہ سکول جلا دیئے گئے ۔یہ ایسا واقعہ تھا جس سے پورا پاکستان لرز گیا ۔ایسا کیوں ہوا ؟بظاہر یہ سمجھا گیا کہ اس کے پیچھے کوئی غیر ملکی ہاتھ ملوث ہے مگر ہیرالڈ کے حالیہ شمارے میں غلام دستگیر خان نے اس سانحہ کی تمام پرتیں کھول کر رکھ دی ہیں جن میں مذہبی انتہا پسندی بڑے عنصر کے طور پر یہاں گزشتہ چھ دہائیوں سے پنپ رہی ہے۔ یہاں فرقہ وارانہ قتل و غارت کی ایک پوری تاریخ موجود ہے مگر ریاستی ادارے ابھی تک مسئلے کواس کے صحیح تناظر میں دیکھنے کی بجائے روایتی انداز اپنائے ہوئے ہیں ،حیران کن بات ہے کہ یہاں قاتلوں نے دستانے نہیں پہنے ہوئے بلکہ انہیں آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے مگر کوئی ادارہ ان پر ہاتھ اٹھانے کی جرات نہیں کرتا ۔ہیرالڈ کے شکریئے کے ساتھ اس کا ترجمہ و تلخیص قارئینِ تجزیات کے لئے پیش کی جاتا ہے ۔مدیر

ڈیم کی راہ میں حائل روکاوٹیں

نشمیا سکھیرا

نشیما سکھیرا نیویارک میں رہتی ہیں اور کولمبیا یونیورسٹی سے صحافت میں فارغ التحصیل ہیں ۔پاکستان میں پانی کے مسئلے کے تناظر میں دیامر بھاشا ڈیم آج کل ہر فورم پر موضوعِ بحث ہے ۔نشیما سکھیرا نے اس پس منظر میں ایک نیا بیانیہ متعارف کرایا ہے کہ پاکستان کو پانی کی کمی کا نہیں بلکہ پانی کے بہتر انتظام کا مسئلہ درپیش ہے اس حوالے سے دیامر بھاشا ڈیم کتنا کارآمد ہو سکتا ہے اور ا س کی تعمیر اور سود مندی کے اہداف پر عمل درآمد کتنا حقیقی ہے ۔یہ مضمون ڈان کے شکریئے کے ساتھ قارئینِ تجزیات کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ بھاشا دیامیر ڈیم کا تصور پاکستان میں پانی کے مسئلے کا معجزاتی حل تصور کیا جا رہا ہے تاہم ماہرین کی رائے میں اگر ہماری قوم نے پانی کے انتظام، ذخیرے اور اس کے ضیاع سے بچاؤ کا کوئی مستقل حل تلاش نہ کیا تو شائد ہمارے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ مدیر

منچھر جھیل کی آلودگی سے زندگی کو لاحق خطرات

منزہ ظفر موتی

پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں،ایک رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی مسائل پاکستان کو 1365 ارب روپے سالانہ کا نقصان پہنچا رہے ہیں جو پاکستان کے دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے، منچھر جھیل جو کبھی بر اعظم ایشیا میں صاف پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ سمجھی جاتی تھی اب وہ قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہے جہاں کبھی کشتیوں پر پندرہ سو خاندان رہائش پزیر تھے اب ان کی تعداد گھٹ کر پچاس سے بھی کم رہ گئی ہے، منچھر جھیل میں پانی کی گرتی ہوئی صورتحال اور آلودگی نے وہاں حیاتیاتی تنوع کو ہی نقصان نہیں بلکہ اس جھیل سے وابستہ سماجی اور ثقافتی دھارے کو بھی الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے،انگریزی جریدے ہیرالڈ میں شائع ہونے والی یہ رپورٹ جامع انداز میں جھیل کی موجودہ صورتحال کو بیان کرتی ہے۔ مدیر

ثقافت

عالمی آرٹ کی قدریں اور تحریکیں

فلسفہ ،ادب ، آرٹ اور نظریہ سازی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔کسی ایک شعبے میں اٹھنے والی نئی تحریک یا رجحان باقی شعبوں کو بھی متاثر کرتا ہے ۔آرٹ ، مذہب ، فلسفے اور سماج سے اثرات قبول کرتا ہے اور اس کے اظہار کی تحریکیں ادب ، فلسفے، سیاسی اور ثقافتی رجحانات کو متاثر کرتی ہیں ۔پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم یوں تو دنیا میں بہت تباہی لائیں مگر اس عرصے میں دنیا میں آرٹ کی کئی تحریکیں اٹھیں ۔ہر تحریک کا اپنا اسلوب اور پس منظر ہے ۔روایت اور جدت کے میدان میں نئی نئی تخلیقات ہوئیں ۔ِآرٹ گیلری کی دیواریں ان رجحانات کی آئینہ دار ہیں ۔دنیا بھر کی آرٹ گیلریاں آرٹ کے نمونوں کے علاوہ شائقین کو مختلف تحریکوں سے بھی روشناس کرواتی ہیں ۔ذیل میں مختلف تحریکوں کا تعارف میٹرو پولیٹن میوزیم آف آرٹ ،واشنگٹن اور میوزیم آف ماڈرن آرٹ نیویارک کی دیواروں سے لیا گیا ہے ۔مدیر

کتابوں پر تبصرہ

سہ ماہی اجتہاد پر ایک نظر

1973کے آئین کی روشنی میں پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد تمام ملکی قوانین کو کو قرآن و سنت کی روشنی میں ترتیب دیا جانا ہے۔ یہ ادارہ اپنے قیام کے وقت سے اس اہم قومی معاملے پر ریاستی معاونت کرتا چلا آیا ہے۔ سال 2007 میں کونسل نے ایک سہ ماہی رسالہ ’’ اجتہاد ‘‘ جاری کیا جس کا مقصد قارئین کو مسلم دنیا میں جاری دانشوارانہ مباحث سے آگاہ کرنا، اسلامی قوانین کی تیاری اور نفاذ میں جاری موجودہ پیش رفت سے واقف بنانا اور کونسل کی سرگرمیوں کی تفصیلات مہیا کرنا تھا۔ کونسل اس مجلے کے اجراء کے بعد اب تک متعدد شمارے شائع کرچکی ہے۔ زیر نظر شمارہ نمبر 11 ہے اور یہ دسمبر 2017 میں شائع ہوا۔ اس شمارے سے قبل کونسل 10 شمارے شائع کرچکی ہے جنہیں ارباب اہل علم و دانش سے تحسین موصول ہوئی ہے۔

سقوط ڈھاکہ، حقیقت کتنی افسانہ کتنا

مصنف : میاں افراسیاب مہدی قریشی

میاں افراسیاب مہد ی نے 1984 میں پاکستان فارن سروس میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے واشنگٹن، نیو دہلی، بیجنگ اور ویانا میں پاکستانی سفارتخانوں میں خدمات سرانجام دیں۔ ان کی نیو دہلی میں تعیناتی دو بار ہوئی جہاں ا نہوں نے سال 2006 تا 2009 پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر کی حیثیت سے کام کیا۔ بعدازاں، انہیں وزارت خارجہ اسلام آباد میں ڈائرایکٹر جنرل جنوبی ایشیا ء کے طور پر تعینات کیا گیا۔ 2011 میں انہیں بنگلہ دیش میں پاکستان کا ہائی کمشنر مقرر کیا گیا۔ انہوں نے تین سال ڈھاکہ میں کام کیا۔ 2014 کے اواخر میں انہیں وزارت خارجہ میں ایڈیشنل فارن سیکرٹری کے طور پر تعیات کیا گیا۔

دیار مغرب کے مسلمان

از: محمد یونس قاسمی

1950کی دہائی میں جب مختلف مسلمان ممالک سے ہزاروں افرادنے معاش کی تلاش میں مغربی ممالک کا رخ کیا تو ان کا خیال یہ تھا کہ وہ مغرب میں کچھ عرصہ قیام کے بعد وطن واپس چلے جائیں گے اور یہاں سے جمع کی گئی رقم سے اپنے اہل خانہ کی کفالت کریں گے، مگر وہ واپس نہ جاسکے اور مغرب کے ہی ہوکررہ گئے۔بعد میں انہی مسلمان مردوں کے اہل خانہ نے مغرب کا رخ کیا تو انہیں دینی تعلیم، اسلام کی ثقافتی اقدار کی منتقلی و ترویج اور اسلامی تشخص کو محفوظ رکھنے سے متعلق مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اسلام کے عائلی نظام، اسلامی اسکولوں اور مدارس میں مسلم بچوں کی تعلیم، اسکولوں، ہسپتالوں اور جیلوں میں حلال کھانے کا انتظام اور مسلمانوں کی تدفین کے انتظام جیسے سماجی معاملات اور مسائل بھی پیدا ہوئے۔

سہ ماہی استعارہ پر ایک نظر

تبصرہ نگار : سجاد اظہر

سہ ماہی جریدہ استعارہ لاہور سے شائع ہونے والا ایک معروف علمی و ادبی جریدہ ہے جو ڈاکٹر امجد طفیل کی زیر ادارت باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے ۔288صفحات پر مشتمل اس جرید ے کی قیمت 400روپے ہے جس میں مستنصر حسین تارڑ کا ایک بھر پور انٹرویو بھی شامل ہے ۔نظموں ،غزلوں، افسانوں کے ساتھ ساتھ عالمی اداب اور مضامین کے گوشے بھی موجود ہیں ۔منشا یاد پر ایک خوبصورت خاکہ بھی ہے ہیروشیما پر حمید راضی کا ایک سفرنامہ بھی ہے ۔محمد دعاصم بٹ کے ناول مٹھو ایلین اور محمد عامر رانا کے ناول بستی میری جان کے ابواب بھی ناول میں دیئے گئے ہیں۔ مستنصر تارڑ اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ ہر پچاس سال بعد ہر چیز بدل جاتی ہے ۔یہاں تک کہ جذبہ بدل جاتا ہے ،مذہب بدل جاتا ہے یہ وہ مذہب نہیں جس پر ہم عمل کرتے تھے ۔جو آج کل پریکٹس کر رہے ہیں ۔ہم ’’خدا حافظ ‘‘کہتے تھے یہ پتہ نہیں ’’اللہ حافظ‘‘ کہا ں سے آگیا ۔۔ایک مولوی سے میں نے پوچھا ۔یہ کہنا کہ جی خدا دوسروں کا بھی ہوتا ہے اللہ صرف مسلمانوں کا ہے i Know کہ ا س کی بنیاد کیا ہے Anti Iran یا اینٹی شیعہ اس کی بنیاد ہے میں نے اسے صرف اتنا جواب دیا کہ یہیں آپ شرک کے مرتکب ہو گئے ۔آپ نے مان لیا کہ کوئی دوسرا بھی خدا ہے ۔مولوی فتح محمد جالندھری مشہور زمانہ قرآن کے مترجم ہیں ۔بسم اللہ کا ترجمہ کرتے ہیں شروع کرتے ہیں خدا کے نام سے ۔تو بھائی آپ اس سے زیادہ پڑھے لکھے ہو گئے ۔