working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

 
Bookmark and Share
01 Jan 2018
تاریخ اشاعت

از طرف مدیر

مذہبی گروہ کا دھرنا اور اس کے مضمرات

گذشتہ تین ماہ کے دوران ایک واقعہ جس نے ریاست اور اس کے اداروں کو ایک سخت آزمائش سے دوچار کیا، عام آدمی کے ذہن اور رویے کو متاثر کیا، اور جس کے دُوررس سیاسی اور سماجی اثرات ہیں، وہ وسطی پنجاب میں بریلوی شناخت کے ساتھ ابھرنے والے مذہبی گروہ تحریکِ لبیک یا رسول اللہ کا راولپنڈی اور اسلام آباد کی درمیانی شاہراہ پر دھرنا تھا۔ اس دھرنے نے جڑواں شہروں کی زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا اور دنیا بھر میں پاکستان کے امیج کومتاثر کیا۔

قومی افق

دھرنا اور مابعد دھرنا اثرات

صاحبزادہ محمد امانت رسول

ہر عمل میں سازش ڈھونڈنے کی عادت اس سماج کو کس ڈگر پر لے جا رہی ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ احتجاج کے طریقے بدل رہے ہیں اور ان بدلے ہوئے طریقوں نے سماج کی نفسیات پر جو اثر ڈالا ہے، وہ اہلِ دانش کی توجہ کا متقاضی ہے۔ صاحبزادہ محمد امانت رسول ایک خوش فکر دانشور ہیں اور انھوں نے تحریک لبیک یارسول اللہ کے فیض آباد دھرنے کے تناظر میں ان مسائل پر بحث کا دروازہ کھولا ہے۔(مدیر)

شمالی سندھ: انتہا پسند گروہوں کا نیا ہدف

ضیاء الرحمن

انتہا پسند گروہوں نے آپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد کے نتیجے میں اپنے نیٹ ورک ٹوٹنے اور ٹھکانوں کی تباہی کے بعد نئے علاقوں کا رخ کیا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے میں شمالی سندھ کے بعض علاقوں میں دہشت گرد کاررائیوں کا ایک تسلسل دیکھنے میں آیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ علاقہ انتہا پسندوں کا نیا ہدف بن گیا ہے۔ ان کارروائیوں کے حوالے سے قومی میڈیا پر سامنے آنے والی رپورٹوں کو بنیاد بناتے ہوئے ضیاء الرحمٰن نے صورت حال کا تجزیہ کرنے کی سعی کی ہے۔(مدیر)

فکری زاویے

جنوب ایشیائی مسلمانوں کے ہسپانیہ سے عشق کی داستان

ڈاکٹر محمد خالد مسعود

’’اندلس اے اندلس!‘‘ ہسپانیہ مسلم تاریخ کا درخشندہ باب ہے جو آج بھی مسلم ذہن کو مسحور کیے ہوئے ہے۔ اردو ادب میں اس کا حوالہ کب، کیسے اور کس پیرائے میں آیا اور اس نے ’’کلٹ آف سپین‘‘ یا ’’عشقِ اندلس‘‘ کی صورت اختیار کر لی، اس پر ڈاکٹر خالد مسعود نے کھوج کی ہے اور قارئینِ تجزیات کے لیے موضوع کی نئی جہتیں سامنے لائے ہیں۔ عشقِ اندلس کا مسلم قومی شناخت کی تشکیل میں کیا کردار رہا ہے اور کس طرح یہ علمی بحثوں کا محور رہا، تاریخ پس منظر، اور سفرناموں سے ہوتا ہوا اردو شاعری اور ناول نگاری میں یہ کیسے ظہور پذیر ہوتا رہا، یہ سب ہمہ جہت پہلو ڈاکٹر صاحب نے ایک مختصر مضمون میں اجاگر کر دیے ہیں۔ (مدیر)

سرسید احمدخان کی روشن خیالی: محرکات و اثرات

ڈاکٹر سید جعفر احمد

ڈاکٹر سید جعفر احمد پاکستان کے سماجی علوم کے ایک ممتاز سکالر ہیں۔ وہ ۱۹۸۴ء سے جنوری ۲۰۱۷ء تک پاکستان اسٹڈی سنٹر، جامعہ کراچی سے وابستہ رہے۔ اس طویل رفاقت کے آخری سترہ برسوں میں وہ ادارے کے ڈائریکٹر کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ایم اے، مطالعۂپاکستان میں ایم فِل اور برطانیہ کی کیمبرج یونیو رسٹی سے سماجی و سیاسی علوم میں پی ایچ ڈی کی ڈگر ی حاصل کی۔ تین عشروں سے زیادہ پر پھیلی ہوئی جامعہ کراچی سے وابستہ زندگی میں ڈاکٹر سید جعفر احمد نے پاکستان کی سیاسیات بالخصوص وفاقیت، آئینی ارتقا، انسانی حقوق، تعلیمی مسائل اور منہاجِ تحقیق جیسے مضامین کی تدریس کی۔ علاوہ ازیں انہوں نے تحقیق کے میدان میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ انہوں نے تاریخ، سیاسیات اور ادب پر مجموعی طور پچیس کتابیں تصنیف اور مرتب کی ہیں۔ انگریزی اور اردو میں شائع ہونے والی ان کی کتابیں اپنی معروضیت اور سائنسی طرزِفکر کے حوالے سے ایک نمایاں پہچان رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے ہیں بالخصوص انہوں نے ان اداروں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے جو سیاسی تعلیم اور تربیت نیز محنت کشوں اور معاشرے کے دیگر پِچھڑے ہوئے حلقوں کے حقوق کی بازیافت کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد اپنے علمی اور تحقیقی کاموں کے حوالے سے کئی بین الاقوامی اور ملکی سطح پر منعقد ہونے والی کانفرنسوں میں اپنے مقالات پیش کر چکے ہیں۔ زیرِ نظر مقالہ ڈاکٹر صاحب نے شعبۂ اردو جامعہ کراچی کی کانفرنس بعنوان ’سرسیداحمد خان، دو سو سالہ یادگاری بین الاقوامی کانفرنس‘ میں ۱۶؍ اکتوبر ۲۰۱۷ء کو کلیدی خطبہ کے طور پر پیش کیا۔ (مدیر )

سفارت

اگر کشمیر میں امن قائم ہو جائے،تو بھارت کو وہاں فوج کی تعیناتی کی ضرورت نہیں رہے گی

عزیز احمد خان

عزیز احمد خان سفارت کاری اور خارجہ امور کا طویل تجربہ رکھنے والے سینیئر سفارت کار ہیں۔ خاص طور پر انڈیا اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سفارتی تاریخ، حرکیات، مسائل اور امکانات پر ان کی نظر بہت گہری ہے۔ سرکاری عہدوں سے سبکدوشی کے بعد بھی وہ مختلف پلیٹ فارموں میں سفارت اور خارجہ امور کے حوالے سے اپنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ زیرنظر گفتگو میں انھوں نے پاکستان اور اس کے ہمسایہ ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی مختلف جہتوں پر گفتگو کی ہے جسے ’ہیرالڈ‘ کے شکریے کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔(مدیر)

پالیسی امور

فاٹا کے لیے ایک نئے عدالتی نظام کی ضرورت

ڈاکٹر رشید احمد

پاکستان کے صوبائی انتظام میں فاٹا کا انضمام حالیہ سیاسی منظرنامے میں ایک اجاگر موضوع کے طور پر زیربحث ہے جس کے حق اور مخالفت میں دلائل و آرا کے اظہار کا سلسلہ جاری ہے۔ فاٹا اپنی قبائلی روایات کی بنا پر مخصوص ثقافتی اور انتظامی پس منظر کا حامل ہے۔ اس کو نئے سیاسی اور سماجی ڈھانچے میں ڈھالنا ایسی حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے جس سے فاٹا کے عوام کو کم سے کم دقت ہو۔ زیرنظر مضمون انصاف کی فراہمی کے حوالے سے فاٹا کے روایتی اور جدید عدالتی نظام میں موجود تفاوت کو زیربحث لاتے ہوئے ممکنہ صورت حال کا تجزیہ کرتا ہے اور بعض متوقع مسائل کا حل بھی تجویز کرتا ہے۔(مدیر)

انتہا پسندی اور مسلم سماج

مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا میں بنیاد پرستی کی وجوہات

فادی فراسین، صحت بتالوغلو، آدم عطاء اللہ بنساد

مسلم معاشروں کو کئی ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں ایک چیلنج انتہا پسندی کا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا کے عرب معاشرے میں ذہنی رویوں کی تشکیل کے عوامل تقریباً ایک جیسے ہیں۔ وہ کونسے عوامل ہیں جو ان رویوں میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں، اس پر نوجوان محقق فادی فرانسین نے تحقیق کی ہے اور عرب معاشرے میں سرایت کرتی بنیاد پرستی کے سماجی، معاشی، سیاسی، مغربی اثرات اور نظریاتی اسباب پر بحث کی ہے۔ پاکستان کے تناظر میں یہ بحث کوئی مختلف نہیں لگے گی کیونکہ اسی نوعیت کے مسائل سے ہم بھی دوچار ہیں۔(مدیر)

مطالعہ مذہب

کیا مذہب لوگوں کو اخلاقیات سکھاتا ہے؟

مصطفی ایکول

اگر طاقت کا استعمال نہ آتا ہو تو یہ بددیانت کرتی ہے۔ طاقت کی تہذیبی تطہیر اخلاقیات سے ہوتی ہے اور مسلم سماج میں اخلاقیات کا منبع ہے۔ لیکن مسلم معاشروں میں مذہب اور اخلاقیات اور کے مابین خلیج بڑھ رہی ہے۔ خود پاکستان میں اس کے مظاہر جابجا ہیں اور گذشتہ برس کا فیض آباد دھرنا تو اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ ترک دانشور مصطفیٰ ایکول نے اس مسئلے پر ترک معاشرے کے تناظر میں بات کی ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ فرد پر منحصر ہے کہ وہ مذہب سے کس طرح رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ (مدیر)

مذہبیات اور سماجی اخلاقیات

سید ثاقب اکبر

علامہ ثاقب اکبر ایک دردمند مذہبی رہنما اور مفکر ہیں۔ فیض آباد دھرنے سے اہل مذہب کی زبان اور شائستگی پر جو بحث شروع اور جس طرح مذہبی طبقات کا تاثر مجروح ہوا، اسے انھوں زیرنظر تحریر کا موضوع بنایا ہے اور قرآن و حدیث کی روشنی میں نہ صرف مذہبی رہنماؤں بلکہ عام مسلمانوں کو بھی غوروفکر کی دعوت دی ہے کہ وہ اپنی روزمرہ معاملت کو کیسے سنوار سکتے ہیں۔ انھوں نے اس بحث کو مذہب کی اخلاقیاتی تشکیل کے دائرے میں لانے کی کوشش کی ہے۔(مدیر)

مطالعہ کتب

سیاسی اسلام اور جدید ریاست

شفیق منصور

شفیق منصور کی کتاب’’سیاسی اسلام اور جدید ریاست‘‘مسلم سماج کو درپیش فکری چیلنج کی اندرونی جہالت پر دلچسپ تبصرہ ہے اور مسلم سماج کی تشکیل میں اسلام کے بنیادی تاریخی اور تہذیبی عناصر کے کردار کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔کتاب پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔پہلا حصہ عہدِنبوی اور خلافت راشدہ کے سیاسی خدوخال کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے،دوسرا حصہ مسلم سیاسی فکر کے ارتقاء اور اشکالات سے متعلق ہے۔ تیسرا حصہ امت،اقتدار اور طاقت کے تصور کو اجاگر کرتا ہے۔چوتھا اور اہم حصہ اسلامی قانون کی تشکیلِ جدید پر بحث کرتا ہے۔ذیل کا اقتباس اسی حصے سے لیا گیا ہے جبکہ پانچواں حصہ مسلمانوں کے باہمی نزاعات سے متعلق ہے اور شیعہ سنی مسلکی مسائل اور ہم آہنگی کی بحث کا احاطہ کرتا ہے۔کتاب میں شفیق منصور کا تعارف شامل نہیں ہے۔شنید ہے کہ شفیق منصور ایک خوش فکر نوجوان منصف ہے جنھیں اسلام کے فکری مباحث سے شغف ہے۔

عمرانی معاہدے کی تشکیلِ نو:

ڈاکٹر خلیل احمد

پاکستان میں عمرانی معاہدے اور اس پر نظرثانی کے حوالے سے سیاسی اور فکری حلقوں میں آوازیں وقتاً فوقتاً اٹھی رہتی ہیں۔یہ آوازیں سیاسی،سماجی اور فکری بے چینی کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ستر سال گزرنے کے باوجود پاکستان کی ریاست اور عوام وہ باہمی ربط اور ہم آہنگی اختیار نہیں کرسکے جو ایک زندہ اور زرخیر سماج کے لیے ضروری ہے۔سماجی،معاشی تفاوت اپنی جگہ وفاقی اکائیوں کے باہمی معاملات گھمبیر رہتے ہیں۔یہ مسائل وقتی طور پر دب جاتے ہیں لیکن موافق حالات پا کر سر اٹھانے لگتے ہیں جیسے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے پر سیاسی اور صوبائی تقسیم واضح ہوگئی تھی۔ جسے دباؤ اور اتفاق رائے کے ذریعے وقتی طور پر ٹال دیا گیا ہے لیکن یہ مسئلے سر اٹھاتے رہیں گے۔مذہبی قوتوں اور عسکری اداروں نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اثرورسوخ میں نہ صرف اضافہ کیا ہے بلکہ قوت کا ارتکاز ان کے ہاں ہوگیا ہے۔ستر سال کے اس عمل میں ریاست کئی دہائیاں سرزمینِ بے آئین رہی اور جب آئین رہا بھی تو اسے ریاستی اور سماجی قوت کا منبع نہیں بنایا گیا۔آئین کے ساتھ ساتھ ریاست اور سماج ایک عمرانی رشتہ بنانے میں بھی ناکام رہے ہیں جو اس کمی کو پورا کرتا۔ڈاکٹر خلیل احمد نے نہ صرف ان ناکامیوں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے بلکہ اس موضوع پر تمام مباحث کو اکٹھا بھی کردیا ہے۔ان کی کتاب’’عمرانی معاہدے کی تشکیلِ نو‘‘ دو حصوں پر مشتمل ہے جو نہ صرف پاکستان کے تناظر میں عمرانی معاہدے کو زیر بحث لاتی ہے بلکہ اس کی فلسفیانہ ارتقا کو بھی زیر بحث لاتی ہے۔ڈاکٹر خلیل احمد’’پاکستان میں سیاسی اشرافیہ کا عروج‘‘کے نام سے بھی کتاب لکھ چکے ہیں اور اب یہ نئی کتاب انھیں پاکستان کے نمایاں سیاسی مفکرین کی صف میں شامل کرتی ہے۔ان کی کتاب سے دو اقتباسات نذرِ قارئین ہیں۔

مختصر تاریخِ کائنات

بل بریزن

’’ مختصرتاریخِ کائنات‘‘ کائنات کی تخلیق سے لے کر خوردبینی بیکٹیریاسے ہمارے تعلق تک تقریباً ہر موضوع سے متعلق معاصر سائنسی فکر پیش کرتی ہے۔ بل بریزن ایک معروف امریکی مصنف ہیں جنہوں نے انگریزی زبان ، سائنس اور سیر و سیاحت سمیت مختلف موضوعات میں خامہ فرسائی کی ہے۔وہ عظیم برطانیہ کی فکاہیہ منظر نگاری پر مبنی اپنی کتاب’’ایک چھوٹے جزیرے کی یادداشت‘‘ کی وجہ سے بھی جانے جاتے ہیں، جسے BBC4ریڈیو کے سامعین نے اپنے ملک کی صحیح ترین عکاسی کرنے والی کتاب کے طور پر منتخب کیا۔

کالادھن

ژین میئر

۲۰۰۶ء میں شائع ہونے والی ژین میئر کی کتاب ’’کالا دھن‘‘ امریکی سیاست کے ا س تشویشناک پہلو سے پردہ اٹھاتی ہے کہ کس طرح ستر کے بعد کی دہائیوں سے امریکی سیاسی منظر نامے پر چند امیر خاندان اثرا نداز ہوتے چلے آرہے ہیں۔کسی سازشی نظریے سے قطع نظر حالیہ دور میں قدامت پسنددائیں بازو کی بنیاد پرستانہ تحریک میں ابھار کا موجب بننے والے دولت مند اور بااثر افراد کی اصل حقیقت یہی ہے۔ ژین میئر ایک تحقیقی صحافی ہیں ، امریکی اخبار نیو یارکر کی اسٹاف رائٹر ہیں۔۲۰۰۸ء میں صحافتی خدمات کے اعتراف میں انھیں جان چانسلر ایوارڈبرائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔’’پسِ دیوار: دہشت گردی کے خلاف جنگ سے امریکی مفادات کی جنگ بننے تک کے سفر کی اندرونی کہانی‘‘ بھی انھی کی تصنیف ہے۔