working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

 
Bookmark and Share
01 July 2017
تاریخ اشاعت

از طرف مدیر

اخلاقیات، سیاست اور ہمارے رویّے

اس مضمون میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آئینی شقوں ۶۲،۶۳ سے پیدا ہونے والے ابہامات پر تفصیلی بحث کی ہے اور مثالوں سے ثابت کیا کہ کس طرح یہ شقیں عوام کے ذہنوں میں ابہام پیدا کرتی ہیں اور وکلا اور عدالتوں کے لیے تشویش ناک صورتِ حال پیدا کرسکتی ہیں۔جسٹس کھوسہ نے اس پر بھی بات کی ہے کہ آئین میں ’’اچھے کردار‘‘ کی تعریف بیان نہیں کی گئی ہے۔ اسی طرح ہر شق کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ملک کے آئین کو آئیڈیل ہونے کے بجائے عملی ہونا چاہیے۔اس مضمون کا ترجمہ تجزیات کے موجودہ شمارے میں شامل ہے۔

پاک سرزمین شادباد

امیدواروں کی اہلیت: ایک آئینی معمّہ

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ

پاکستان کی معاصر سیاسی صورت حال میں اسمبلی کی رکنیت کی اہلیت اور نااہلیت کا سوال ایک بار پھر بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اس تنازعے کی نوعیت محض سیاسی نہیں بلکہ اس میں آئینی پیچیدگیاں بھی موجود ہیں۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کا تقریباً بیس برس پہلے کا تحریر کردہ یہ مضمون اس ضمن میں نہایت اہم نکات کی طرف توجہ دلاتا ہے جسے ایک معاصر اخبار نے دوبارہ شائع کیا ہے۔ قارئینِ تجزیات کے علمی استفادے کے لیے یہ تحریر طبع ثانی پر ایڈیٹر کے نوٹ سمیت پیش ہے۔ (مدیر)

بیانیے

مولوی عبدالکریم شعیب کی جنتری اور روہنگیا مسلمانوں کی حالتِ زار

محمد عامررانا

زیرنظرمضمون میانمار میں جاری نسلی اور مذہبی کشمکش میں بیانیوں کے کردار کو زیرِبحث لاتا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے سیاسی،مذہبی اور معاشی محرکات ہیں لیکن جو چیز جذبات کو مسلمانوں کے خلاف مہمیز دیتی ہے وہ بدھ پجاریوں کے تخلیق کردہ بیانیے ہیں۔ ان بیانیوں کی تخلیق کے محرکات کی تلاش میں تاریخ کے ورق الٹے جائیں تو بعض حیرت انگیز حقائق سامنے آتے ہیں اور اندازہ ہوتا ہے کہ کسی متن یا علامت کی ایک دور میں بظاہر بے ضرر نظر آنے والی تشریح کسی اگلے دور میں کس طرح شدید تنازعات کی وجہ بنائی جا سکتی ہے۔ (مدیر)

مطالعہ مذہب

قربانی: تاریخ اور مذاہب کے پس منظر میں

سید ثاقب اکبر

قربانی کا تصور تمام مذاہب میں رہا ہے اور اس کا مقصد خالقِ کائنات کی رضا اور آلام و مصائب سے نجات رہا ہے۔ قربانی کے مذہبی تصور کی کئی جہتیں ہیں جنہیں سید ثاقب اکبر،چیئرمین البصیرہ اکیڈمی نے اس مضمون میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ بعدازاں اس پر بحث کی ہے کہ اسلام کا تصور قربانی باقی مذاہب سے کس طرح مختلف ہے اور اس کا فلسفہ کیا ہے۔ یہ مضمون قربانی کے فلسفے کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوگا۔ (مدیر)

فکری زاویے

سیکولرزم کی نئی اسلامی تعبیریں

ڈاکٹر خالد مسعود

سیکولرزم مسلم فکر اور سماج کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ مسلم فکر خواہ وہ مذہبی ہو، سماجی یا سیاسی اس کی ایک پوری روایت سیکولرزم کے ردوقبول پر قائم ہے۔ یہ بحث ریاست کی تشکیل، معاشرے کے خدوخال اور انفرادی آزادیوں سے لے کر ثقافتی اور سماجی اظہار تک پھیلی ہے۔ ڈاکٹر محمد خالد مسعود نے اس ساری بحث کو، پس منظر، تناظر اور اس کے اطلاقی پہلو سمیت، اس مختصر مضمون میں سمیٹا ہے اور واضح کیا ہے کہ مختلف مسلم معاشروں میں سیکولر ازم نے کیا چیلنج کھڑے کیے اور ردِ عمل کی نوعیت کیا رہی۔ ڈاکٹر محمد خالد مسعود جیسی وقیع علمی شخصیت ہی سے ایسے حساس اور گنجلگ موضوع سے انصاف کی توقع کی جاسکتی تھی۔(مدیر)

فیمینزم اور پاکستان میں تحریکِ نسواں

ڈاکٹر روبینہ سہگل

فیمینزم ایک فکر اور ایک تحریک کے طور پر دنیا بھر میں سماجی علوم اور ادبیاتکا حصہ ہے اور اس کے مختلف مکاتب فکر موجود ہیں۔ پاکستان کے مخصوص سیاسی، ثقافتی اور تاریخی پس منظر میں اس تحریک کا سفر کئی طرح کے فکری اور عملی نشیب و فراز سے گزرا ہے۔ اس موضوع پر زیرنظر تحریر ’’فیمینزم اینڈ دی وومن موومنٹ ان پاکستان‘‘ کے زیرعنوان تحقیقی مقالے کا خلاصہ ہے جسے ڈاکٹر روبینہ سہگل نے تحریر اور ایف ای ایس اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔ موضوع کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے مقالے کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ (مدیر)

کام کی بات

۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی قائدِاعظم کی تقریر پر میثاقِ مدینہ کا پرتو

منیراحمد منیر

’’کام کی بات‘‘قارئین تجزیات کے لیے ایک نیا سلسلہ ہے جو تین ماہ کے عرصے میں اردو اخبارات میں مذہبی ،فکری اور سماجی موضوعات پر شائع ہونے کالموں میں سے ایک کالم منتخب کرے گا۔ اس شمارے میں معروف محقق،صحافی اور محب قائداعظم منیر احمد منیر کے ایک کالم کا انتخاب کیا گیا ہے جو اگست۲۰۱۷ کو روزنامہ ’’دنیا ‘‘میں شائع ہوا۔ اس کالم میں منیر احمد منیر نے قائداعظم کے۱۱؍اگست ۱۹۴۷ کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب پر ابہامات دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ (مدیر)

پاکستان کے ہمسائے اور پالیسی امور

افغان پناہ گزین اور ان کی واپسی کا لائحۂ عمل

خالدعزیز

گزشتہ برسوں میں پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کا مسئلہ سنگین ہوا ہے اور یہ انسانی حقوق اور ان کے تحفظ کے تناظر سے ہٹ کر ایک سیاسی مسئلہ بن گیا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات میں اس مسئلے کے استعمال سے ہٹ کر اس نے پاکستان کی اندرونی سیاست پر بھی اثر ڈالا ہے۔ خصوصاً بلوچستان میں ان کی آبادی اور بدلتی ہوئی نسلی اور قومیتی تفریق اہم ہے۔پاکستان پالیسی گروپ آزاد ماہرین اور مبصرین کا ایک مشاورتی گروپ ہے جو افغانستان اور پاکستان کے باہمی تعلقات پر نہ صرف نظر رکھتا ہے بلکہ اس میں بہتری کے لیے بھی کوشش کرتا ہے۔اس گروپ کے ایک رکن اور سابق چیف سیکریٹری صوبہ خیبرپختونخوا خالد عزیز نے اس مسئلے پر ایک پالیسی پیپر تحریر کیا ہے تاکہ اس موضوع کا جامع احاطہ کیا جاسکے اور اس کے حل کے امکانات کا جائزہ لیا جاسکے۔ (مدیر)

شدت پسندی کے بدلتے رجحانات

ارسلہ جاوید

شدت پسندی کے پھیلاؤ کے بین الاقوامی تناظر میں ایک اہم مسئلہ غیرملکی جنگجوؤں کا ہے۔ کسی ایک ملک میں اپنے لیے حالات ناموافق ہونے یا دیگر وجوہات کی بنا پر شدت پسند عناصر کا دیگر علاقوں میں جا کر اپنی کارروائیاں جاری رکھنا ایک ایسا مسلسل عمل ہے جو شدت پسندی کے انسداد کے اقدامات کو مشکل تر بناتا ہے۔ اس ضمن میں نہایت قابل توجہ مسئلہ تشدد کی راہ سے واپس پلٹ آنے والے جنگجوؤں کو سماجی عمل کا حصہ بنانے کا ہے۔ ارسلہ جاوید کا زیرنظر مضمون اسی موضوع پر چند اہم نکات کو اجاگر کرتا ہے۔ مصنفہ کئی تھنک ٹینکس کو جنوبی ایشیا ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں نوجوانوں میں انتہا پسندی کے موضوع اور متشدد انتہا پسندی کے تدارک کے پروگرامز میں معاونت کرتی ہیں۔ (مدیر)

شام کی جنگ میں افغان پناہ گزینوں کا استعمال

علی محمد لطیفی

جنگ ایک المیہ ہے جس میں انسان بطور ایندھن استعمال ہوتے ہیں۔ خواہ ان کی ضرورت محاذ پر ہو یا نفرت پھیلانے کے لیے، مقتدر قوتیں ان کا بھرپور استعمال کرتی ہیں۔ شام میں مختلف متحارب عسکری اور دہشت گرد گروپوں کو دنیا بھر سے انسانی وسائل میسر ہیں۔ ایسے میں بشار الاسد کو تقویت فراہم کرنے والی قوتوں نے بھی اسی حربے کو آزمایا ہے اور معمولی تربیت کے بعد نوجوانوں کو جنگ میں جھونک رہے ہیں۔ ایران میں افغان پناہ گزین اس سلسلے میں تر نوالہ ثابت ہوئے ہیں۔ یہ تحقیقی رپورٹ اسی المیے کو بیان کرتی ہے۔(مدیر)

پاکستانیات

متاثرکن پاکستانی: قائدِاعظم کے بعد ایدھی سب سے مقبول

مومنہ منظور خان

پاکستانی سماج کے مختلف شعبوں میں مختلف شخصیات اپنی انفرادیت اور نمایاں کامیابیوں کی وجہ سے پاکستانیوں کے دلوں پر اپنا دائمی تاثر بنانے میں کامیاب رہی ہیں۔ ان میں سیاستدان، فوجی جرنیل، شاعر، سماجی کارکن، فنکار، کھلاڑی اور دیگر شامل ہیں۔ زیرنظر فیچر رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے قائداعظم کے بعد عبدالستار ایدھی کی شخصیت سب سے زیادہ متاثر کن رہی ہے۔ عبدالستار ایدھی نے اپنی انفرادی کوشش اور جدوجہد سے سماجی خدمات کے میدان میں نہ صرف پاکستان میں یادگار مقام حاصل کیا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ان کی کوششوں کی خاطرخواہ پذیرائی ہوئی۔ رپورٹ اس ضمن میں مزید کئی دلچسپ حقائق بھی سامنے لاتی ہے۔ (مدیر)

تعلیم اور نصاب کی منتقلی: ایک اہم تشویش

ظفر اللہ خان

آئین کی اٹھارہویں ترمیم میں تعلیم اور نصاب سے متعلق اداروں اور ذمہ داریوں کو وفاق سے صوبوں کو منتقل کرنا شامل تھا۔ اس اقدام میں بعض اداروں کا انضمام، تشکیلِ نو اور بعض ذمہ داریوں میں ترمیم و تنسیخ کی گئی۔ منتقلی کی اس عمل کے لیے جو خاکہ مرتب کیا گیا اس میں نفاذ و اطلاق کے حوالے سے کئی پہلو قابل توجہ ہیں۔ متعدد نکات ایسے ہیں جن کے اطلاقی پہلو کے بارے میں معاملات عدم وضاحت کا شکار ہیں۔ زیرنظر مضمون اس تناظر میں اس ترمیم کا مفصل تجزیہ پیش کرتا ہے۔ (مدیر)

مطالعہ کتب

غربت اور غلامی: خاتمہ کیسے ہو

ذیشان ہاشم

اردو میں اگر کوئی کتاب معاشیات یا سماجی علوم پر نظر آئے تو پہلا گمان یہ ہوتا ہے کہ یہ کسی انگریزی کتاب کا ترجمہ ہوگا۔ اگر کوئی طبع زاد کتاب ہو تو یقیناً حیرت ہوتی ہے۔ سماجی اور معاشتی امور کے ماہر ذیشان ہاشم کی کتاب ’’غربت اور غلامی: خاتمہ کیسے ہو؟‘‘ حیران بھی کرتی ہے اور ایک خوشگوار احساس بھی دلاتی ہے کہ اردو زبان ادب، مذہب اور فلسفے کے علاوہ سماجی اور معاشی تحقیقی موضوعات کے ابلاغ کی بھی متحمل ہوسکتی ہے۔ ذیشان ہاشم نے جس سہل انداز میں معیشت، سیاست، سماجیات اور آزادیوں سے وابستہ موضوعات کو اپنی کتاب میں پیش کیا ہے وہ ان کے وسیع مطالعے اور تجزیے کی صلاحیت کو تو ظاہر کرتی ہی ہے، ساتھ ہی ساتھ اردو کے دامن کو بھی نئے موضوعات سے وسیع کرتی ہے۔ ذیشان ہاشم معاشی، سیاسی اور سماجی انتخاب میں آزادی کو ایک نئی بنیادی قدر سمجھتے ہیں اور یہی خصوصیت اس کتاب کو پاکستانی قارئین کو اس موضوع کے نئے تناظر اور بدلتے رجحانات سے متعارف کرواتی ہے۔ قارئین تجزیات کے لیے اس کتاب کے چند اوراق یقیناً پوری کتاب پڑھنے کی تحریک دیں گے۔ (مدیر )

شناخت اور عالمی سماج

امین مالوف

اپنے ناول ’’سمرقند‘‘ سے عالمی شہرت پانے والے امین مالوف ایک سماجی دانشور کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ان کی زیرنظر کتاب شناخت کے بنیادی حوالوں اور ان میں ترجیحات کے تعین کے سماجی، ثقافتی اور نفسیاتی محرکات کا تجزیہ کرتی ہے۔ مصنف نے متعدد تاریخی حوالوں سے شناخت کے مسائل کا جائزہ لیا ہے اور عالمی سطح پر روزافزوں شدت پسندی کے محرکات میں کچھ نئے اور قابل توجہ نکات اجاگر کیے ہیں۔ (مدیر )

مولانا عبیداللہ سندھی(حالات، تعلیمات اور سیاسی افکار)

مؤلف: پروفیسر محمد سرور

مغل بادشاہ اکبر برصغیر کی تاریخ میں ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے جسے مغرب اور برصغیر کے مسلم اور غیر مسلم مورخین نے مختلف زاویوں سے دیکھا ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے اکبر کے سیاسی، سماجی اور مذہبی رجحانات اور فیصلوں پر ایک غیر جانبدار وضاحت کی ہے کہ اس کے اقدامات اپنے وقت کے تناظر میں کتنے اہم تھے۔ مولانا سندھی کے یہ افکار پروفیسر محمد سرور کی کتاب ’’مولانا عبیداللہ سندھی: حالات، تعلیمات اور سیاسی افکار‘‘ سے لیے گئے ہیں۔پروفیسر سرور،مولانا سندھی کے قریب رہے اور ان کے افکار کو زیور تحریر عطا کیا ہے۔یہ کتاب سندھ ساگر اکیڈمی لاہور نے شائع کی ہے۔ (مدیر )