working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

 
Bookmark and Share
01 July 2017
تاریخ اشاعت

از طرف مدیر

انتشارساانتشار ہے

فکرو نظر

پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کے مسائل

ڈاکٹر خالد مسعود

مسلمان ہمیشہ اپنی اس تاریخ پر فخر کرتے رہے ہیں کہ دوسروں کے مقابلے میں مسلم حکومتوں اور معاشروں کے غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات بہتر رہے ہیں۔ اسے تاریخ کی سب سے بڑی ستم ظریفی نہ کہیں تو کیا کہیں کہ پاکستان میں غیر مسلم شہریوں کے حقوق پر ابھی تک بحث جاری ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ پاکستان کی تحریک سے بے اعتنائی ہے یا اسلامی تاریخ سے بیگانگی،یہ سوال تفصیلی بحث کا متقاضی ہے۔ یہ مختصر مضمون صرف اہم مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔

پاکستان میں توحید پرست معاشرے کا خواب

پروفیسرفتح محمد ملک

پاکستان کے نامور مفکر پروفیسر فتح محمد ملک کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔آپ کم و بیش نصف صدی سے تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں ۔قائد اعظم یونیورسٹی ،کولمبیا یونیورسٹی نیویارک،یونیورسٹی آف ہائیڈل برگ اور ہمبولٹ یونیورسٹی برلن جرمنی اور سینٹ پیٹرز برگ یونیورسٹی روس سے وابستہ رہ چکے ہیں ۔آپ مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین اوربین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ریکٹر بھی رہے ہیں۔کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔آپ کی خدمات پر حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا ہے ۔(مدیر)

مکالمہ بین المذاہب کی راہ میں چند مشکلات اور ان کا حل

ڈاکٹر رشید احمد

آج کے انسان کو اگر ایک طرف زندگی گذارنے کے لئے بہت سی سہولیات حاصل ہیں تو دوسری طرف اس کوبہت سے مسائل کا سامنا بھی ہے۔ ان میں ایک بڑا مسئلہ تکثیریت پر مبنی پرامن معاشرے کا قیام ہے۔ آج کا انسان دوسروں سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ ایک مسلمان کو مسلم معاشرے میں اور بعض اوقات دوسرے غیر مسلم معاشروں میں زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ وہ اگر ایک ایسے معاشرے میں رہتا ہو جہاں سب کے سب مسلمان ہوں تو شائد اس کوپوری زندگی میں مکالمہ بین المذاہب کا موقع ملتا ہے اور نہ اس کی ضرورت ہوتی ہے تاہم اگر وہ ایک ایسی جگہ رہتا ہو جہاں اس کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکار بھی ہوں تو اس صورت میں پرامن بقائے باہمی کے لئے مکالمہ بین المذاہب ایک موثر ذریعہ ہو سکتا ہے۔

مغرب اور علوم انسانی

ثاقب اکبر

ثاقب اکبرکا شمار نامور مفکرین میں ہوتا ہے ۔البصیرۃ کے صدر نشین ہیں اور اس پلیٹ فارم سے امہ کی علمی و فکری آبیاری کے علاوہ ہم آہنگی کے لئے بھی کوشاں ہیں۔انہوں نے زیر نظر مضمون میں علم کے ارتقائی سفر کاجائزہ لیتے ہوئے کئی سوالات اٹھائے ہیں ۔علم کا تقاضا ہر سوال کا جواب نہیں ہوتا بلکہ غور و فکر کے در وا کرنا ہوتا ہے ۔امید ہے کہ یہ مضمون اس مظہر کو پورا کرے گا ۔(مدیر)

نظامِ تعلیم اور سماجی ہم آہنگی میں حائل رکاوٹیں

صاحبزادہ محمد امانت رسول

اس مسئلے میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ہمارا نظام تعلیم اصلاح طلب ہے۔اسے سماج سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔نظام تعلیم میں ایسی کمزوریاں ہیں جن کی وجہ سے معاشرے کے مختلف طبقات میں باہمی میل جول اور تعلقات ختم ہی نہیں ہوئے بلکہ معاشرہ مختلف فرقوں اور اعلیٰ و ادنیٰ طبقات میں تقسیم ہو کر رہ گیاہے۔نظام تعلیم دو شکلوں میں موجود ہے۔ایک مدارس اور دوسرے سیکولر تعلیمی ادارے۔

سائنس ۔۔ مسلم اور مغربی رویوں کا فرق

برنارڈ لیوس (ترجمہ: رشاد بخاری)

انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں خلافت عثمانیہ کے دور میں مسلمان دانشوروں نے سائنس کی اہمیت پر زور دینا شروع کیا۔ ان میں سے کچھ نے مزید آگے بڑھ کر سائنس اور مذہب کے درمیان کشمکش پر بھی بات کرنا شروع کی۔ اسی دور میں یورپ میں سائنس پر شائع ہونے والی کتابوں کے تراجم بھی شروع ہوئے جن کے ابتدائیے میں سائنس کی اہمیت پر زور دیا جاتا۔

عالم اسلام

حزب اللہ : سیاسی مؤقف اور حکمت عملی میں تغیر وارتقا

عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر اور ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کے مدیر ہیں ۔وہ نوجوان علماء کی ا س کڑی سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے بزرگوں کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے دور جدید کے مسائل پر اپنا ایک نقطہ نظر نہ صرف پیش کیا ہے بلکہ اپنے علمی استدلال سے ا س کو ثابت بھی کیا ہے ۔عمار خان ناصر آج کل ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں ہم ان کی علمی و فکری کاوشوں کے اعتراف کے طور پر ان کے مرتبے میں اضافے کے دعا گو ہیں ۔(مدیر )

فیچر

اسبابِ عدم نفاذِ اُردو: تکنیکی پیچیدگیاں! یا پھر طبقاتی مفادات؟

حسین رضا

پاکستان کی قومی زبان تو اردو ہے مگر اسے یہ درجہ عملی طور پر حاصل نہیں ہو سکا ۔عدالتِ عظمیٰ بھی اس کے لئے دوٹوک فیصلہ صادر کر چکی ہے مگر پھر بھی اشرافیہ اس کے نفاذ کے بارے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے ۔حسین رضا نے اس حوالے سے کئی پہلوؤں کو طشت از بام کیا ہے ۔ان کا یہ فیچر معلوماتی اور فکری ہے اور اس حوالے سے پیدا ہونے والے کئی سوالوں کے جوابات دیتا ہے ۔حسین رضا نوجوان محقق ، صحافی اور سماجی کارکن ہیں ۔(مدیر)

تہذیب و تاریخ خطہ پوٹھوار

انجینئر مالک اشتر

پوٹھوار کی سرزمین جغرافیائی طور پر چار اطراف سے قدرتی حصار میں گھری ہوئی ہے۔مشرق میں دریائے جہلم اس کی حدود متعین کرتا ہے اور مغرب کی جانب ہمالیہ کی برف پوش چوٹیوں سے پھوٹنے والا مہان دریا سندھو(سندھ) صدیوں سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے،انہی دو دریاؤں کے درمیان کا علاقہ دوآبہ سندھ ساگر کے نام سے مشہور ہے۔شمال کی جانب کالا چٹا پہاڑ اور مارگلہ کے پہاڑی سلسلے ہیں جبکہ جنوبی سمت میں کوہستانِ نمک سینہ تانے کھڑا ہے اس طرح درمیان میں جو قطعہ ارض وجود میں آتا ہے وہ سطح مرتفع پوٹھوار کہلاتا ہے(۱)۔

تلوروں پر پاکستان میں کیا کھیل کھیلا جا رہاہے؟

سبک حسنین

ایک بوڑھا جو کبھی بلوچستان کے بے آب و گیاہ پہاڑوں میں گھوما کرتا تھا اس نے وصیت کر رکھی تھی کہ وہ جہاں مر جائے اسے وہیں دفنا دیا جائے ۔ایک رات وہ ایسی محسور کن ہوا کی آغوش میں سویا کہ پھر کبھی اٹھنے کو جی نہیں کیا۔لوگوں نے اسے اسی جگہ دفنا دیا اور اس جگہ کو وبشوط (سویا ہوا) کہنے لگے ۔آج یہی لفظ بگڑ کر واشک بن گیا ہے ۔

گھر میں اجنبی

سجاد اظہر

گھر میں اجنبی ، مؤقر جریدے ’’ہیرالڈ ‘‘ کے گزشتہ شمارے سے لیا گیا ایک تحقیقی فیچر ہے جو پاکستان میں بسنے والے بنگالیوں ، برمیوں اور ایرانیوں کے روز مرہ مشکلات کا احاطہ کرتا ہے ۔یہ لوگ جو گزشتہ ایک دو نسلوں سے یہاں آباد ہیں انہیں پاکستان کے شہریت سے متعلقہ قوانین کے تحت شہریت نہیں مل رہی ۔حکومتیں ان لاکھوں لوگوں کے مسائل سے چشم پوشی کرتی آئی ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان لوگوں سے متعلق کوئی پالیسی بنائی جائے اور پاکستان کے موجودہ شہریت کے قوانین کا از سر نو جائزہ لیا جائے ۔بلال کریم مغل اور سحر بلوچ کا یہ فیچر یہی تقاضا کرتا نظر آتا ہے ۔(مدیر)

سفر نامہ

نروان ۔۔ ایک تجربہ

انجینئر مالک اشتر

یہ بڑا پراسرار سا ماحول ہے۔ یہاں کے بوڑھے درختوں کی لٹوں کے ساتھ انسان کی داخلی کائنات کے شائد کچھ راز لپٹے ہوئے ہیں۔ یہاں کے پگوڈا (موناسٹری)کے سنہرے کلس سے کچھ اسرار جھانکتے نظر آتے ہیں۔ یہاں پر قدموں کی دھیمی چاپ اور آسمان پر پرندوں کی چہچہاہٹ کے سوا کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ سینکڑوں لوگ دبے پاں راہداریوں میں خاموشی سے چل رہے ہیں۔ سب کی نظریں جھکی ہیں۔ چال میں تواضع اور احتیاط ہے۔ اپنی ذات میں گم، گردن جھکائے سب دھیمے دھیمے پاؤں ایسے دھرتے ہیں کہ آواز پیدا نہ ہو یا کہیں کسی کے پاؤں کے نیچے کوئی کیڑا مکوڑا نہ آجائے۔ کوئی شخص کسی دوسرے سے آنکھ نہیں ملا رہا، کسی سے بات نہیں کر رہا۔ اس انجمن میں ہر شخص اپنی ذات میں تنہا ہے اور اپنی ہی ذات کو کھوجنے کی کوشش کر رہا ہے۔