working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
01 April 2017
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

پوٹھوار کا نمائندہ صوفی شاہ عبدالطیف المعروف امام بریؒ

انجینئر مالک اشتر

انجینئر مالک اشتر کا تعلق ٹیکسلا سے ہے ۔یہاں کی تاریخ اور تہذیبی ورثے کا عشق ان کے اندر حلول کر گیا ہے ۔وہ ایک کتاب’’ٹیکسلا ٹائم ‘‘ کے مصنف بھی ہیں ۔ اسلام آباد میں بری امام کا مزار واقع ہے یا بری امام کے مزار کے ساتھ اسلام آباد واقع ہے ۔یہ بات اس لئے بھی اہم ہے کہ اس شہر بے مثال کی پیشین گوئی اس عظیم المرتب صوفی نے سترہویں صدی میں کر دی تھی ۔ خطہ پوٹھوہار کے اس صوفی کی زندگی کے مختلف گوشوں کو اس فیچر میں یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ (مدیر)

ممتاز مفتی نے اپنی خود نوشت’’الکھ نگری‘‘ میں قدرت اللہ شہاب کا ایک عجیب واقعہ بیان کیا ہے،ان کا کہنا ہے کہ جب شہاب ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے تعینات تھے تو ایک روز ایمسٹرڈیم کی مقامی لائبریری میں ایک نادر کتاب ہاتھ لگی۔سترویں صدی عیسوی میں لکھے جانے والے اس خطی نسخے کی ورق گردانی کے دوران اس وقت ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے عبدالطیف المعروف بری امام کے حوالے سے یہ پیشن گوئی پڑھی کہ جس جگہ ان کا مزار تعمیر ہوگا وہاں ایک اسلامی مملکت کے عظیم شہر کی تعمیر عمل میں آئے گی۔یہ تحریر اس وقت لکھی گئی تھی جب پاکستان کے وجود کے متعلق کسی کے وہم و گمان میں کوئی شائبہ تک نہیں تھا۔
حضرت عبدالطیف کا شمار برصغیر کے اہم اور معروف ترین فقہا میں ہوتا ہے،انہوں نے خطہ پوٹھوار میں جہالت کے اندھیرے کو دور کرنے کا بیڑا اٹھایا اور رشد و ہدایت کے ذریعے اسلام کا نور پھیلانے میں اہم کردار اداکیا۔ان کی سحر انگیز شخصیت ،پرہیز گاری اور پاکیزہ خصائل کا اعلیٰ نمونہ تھی۔ حضرت کے آباؤ اجداد سرزمین عراق سے ہجرت کرکے ضلع چکوال کے ایک اہم قصبے چولی کرسال میں آکر آباد ہوگئے تھے۔سید عبدالطیف نے تقریباً1026ھ بمطابق 1617ء میں سید محمود شاہ کے مقدس آنگن میں آنکھ کھولی،ان کی والدہ محترمہ کا نام بی بی غلام فاطمہ تھا وہ نجیب الطرفین سید تھے اور سلسلہ نسب اکتیس واسطوں سے امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ سے جا کر ملتا ہے۔
ان کے والد گرامی کا شمار اپنے دور کے مشہور اور جیّد علماء میں ہوتا تھا،یہی وجہ تھی کہ قرب و جوار کے موضع جات سے طلباء کی کثیر تعداد ان سے کسب فیض حاصل کرتی اور دین کی دولت سے کما حقہ استفادہ کرتی۔ عبدالطیف نے اپنے تعلیمی سلسلے کا آغاز اپنے گھر سے پدرِ بزرگوار کی رہنمائی میں ام الکتاب قرآن حکیم کے مطالعے سے کیا۔
والد محترم کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا پڑھ لکھ کر علم کے آسماں کا درخشاں ستارہ بنے چنانچہ انہوں نے عبدالطیف کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور یہ ان کی محنت شاقہ کا ہی نتیجہ تھا کہ ہونہار شاگرد نے بچپن سے ہی دینی علوم اور مذہبی امور پر دسترس حاصل کرلی۔
قصبہ کرسال کے لوگ انتہائی سادہ لوح تھے،کسان امن کے دلدادہ اور محنت کش تھے۔مقدور بھر اناج اگاتے اور بھیڑ بکریاں پال کر گزر اوقات کرتے تھے۔مویشی اور ڈھور ڈنگر قریبی جنگل میں چارہ تلاش کرلیتے اور فصلوں کے بار آور ہونے کیلئے بارش پر انحصار کیا جاتا۔ذریعہ معاش کے بہتر مواقع حاصل کرنے کے لیے سرسبز علاقوں کی جانب مراجعت کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔
اگر عمرانی تاریخ پر ایک اجمالی نظر ڈالی جائے تو انسانی معاشرے میں ہجرت کا عنصر نہایت سرعت سے ابھر کر سامنے آتا ہے۔جبری بے دخلی ہو یا دانستہ نقل مکانی،اس کے اچھے یا برے اثرات سے انفرادی یا اجتماعی سطح پر ظہور پذیر ہونے والے عوامل نے انسانی دماغ کے خوابیدہ گوشوں کے مقفل کواڑوں پر بھرپور دستک دی ہے۔سید محمود شاہ کے آباؤ اجداد ہجرت کی لذتوں سے آشنا تھے چنانچہ وہ بھی اپنے تئیں کسی مناسب گھڑی کے انتظار میں تھے کہ جب اپنے قصبے کو خیر باد کہیں اور کسی ایسی جگہ کا انتخاب کریں جہاں وہ اپنے ادھورے خوابوں کی تکمیل کر پائیں وہ اپنی فراست سے بھانپ چکے تھے کہ نوخیز عبدالطیف میں ان کے دینی و علمی مقاصد کی تکمیل ذریعے تمام جوہر پوشیدہ ہیں،صرف موزوں ماحول کی ضرورت تھی اور اس کیلیے ہجرت کے سوا چارہ نہیں تھا۔
آخر طویل انتظار کے بعد وہ لمحہ آگیا جب انہوں نے چولی کرسال کی سکونت کا جوا ہمیشہ کے لیے اپنے کندھے سے اتار پھینکا اور افرادِ خانہ کے ہمراہ،آنکھوں میں جہانِ تازہ کے خواب سجائے موجودہ اسلام آباد کے مرکز آبپارہ میں آکر آباد ہوگئے،ان دنوں یہ جگہ باغِ کلاں کے نام سے جانی جاتی تھی،آبادی نہ ہونے کے برابر تھی۔یہ خطہ خاصا سرسبز و شاداب تھا اور چشموں کی فراوانی تھی۔حالات موافق پا کر سید محمود شاہ نے کھیتی باڑی شروع کردی اور حسبِ سابق گلہ بانی کے فرائض نوجوان عبدالطیف نے سنبھال لیے۔وہ مویشی ہانک کر جنگل کی راہ لیتے اس دوران وہ اپنے آپ کو خدا کی یاد سے کبھی غافل نہ ہونے دیتے،دراصل جانوروں کی دیکھ بھال اس خاص تربیت کا حصہ تھی جو والد گرامی ان کی عملی زندگی کے لیے ضروری خیال کرتے تھے،اس کے علاوہ درسی علم کا حصول تو باقاعدگی سے ان کے روزمرہ کے معمول کا حصہ تھا اور اس معاملے میں کسی قسم کی رعایت نہ برتی جاتی۔
گیارویں صدی عیسوی میں ہندوستان سلطان محمود غزنوی کی یلغار کی زد میں رہا۔سلطان علم و ادب سے بھی شغف رکھتا تھا یہی وجہ تھی کہ جب اس کا گزر ٹیکسلا سے ہوا تو اس کے علمی پس منظر کو دھیان میں رکھتے ہوئے یہاں عظیم و شان درس گاہ کی بنیاد رکھی اور اس کی سرپرستی پر وزیرِ خاص ابو العباس فضل بن احمد کو مامور کیا گیا۔ممتاز عالم دین محمد بن علی الحسن ماریکلی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔دینی اور اسلامی امور پر ان کی رائے ایک سند کا درجہ رکھتی تھی وہ بھی اسی مدرسے سے وابستہ تھے۔ انہیں یہ منفرد اعزاز بھی حاصل رہا کہ ان کے چالیس کے لگ بھگ شاگردوں نے برصغیر کے طول و عرض میں مختلف مقامات پر درس گاہیں اور کتب خانے قائم کیے۔
درس گاہوں کی تعمیر میں ہندوستان کے مسلم حکمرانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔شمال کی جانب سے جب محمود غوری نے ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو اٹک میں پڑاؤ کے دوران غور غشتی میں بھی درس گاہ تعمیر کی جس کا ٹیکسلا کے علمی اداروں سے قریبی روابط کا عندیہ ملتا ہے۔
سید محمود شاہ جو اپنے اہل و عیال کے ہمراہ اب باغِ کلاں میں سکونت پذیر تھے انہیں نوجوان عبدالطیف کی مزید تعلیم کی فکر بے چین کیے دیتی تھی جونہی ان کے کانوں میں غور غشتی کے مدرسے کی شہرت پہنچی تو بغیر کسی حیل و حجت کے اپنے بیٹے کو وہاں داخل کرا دیا تاکہ وہ اعلیٰ تعلیم سے بہرہ مند ہو اور اسلام کی تبلیغ کو مقصدِ حیات بنا کر ان کی دیرینہ خواہش کی تکمیل کرسکے۔
عبدالطیف نے مدرسہ غور غشتی میں مامور اعلیٰ علمائے دین کی صحبت میں فقہ، حدیث، منطق، حکمت اور دوسرے مروج علوم کی تعلیم حاصل کی اور تیزی سے علمی اور روحانی مدارج طے کئے۔علماء نے ان کے ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے خوب ہمت افزائی کی اور ان کی علمی استعداد میں کوئی کمی نہ رہنے دی۔
ان دنوں اسلامی دنیا میں علم کے حصول کی خاطر دور دور تک سفر کرنے کا رواج عام تھا۔رہائش اور کھانے کلیے جا بجا مساجد کا جال بچھا ہوا تھا ،یوں مسافروں کے لیے پڑاؤ کی سبیل نکل آتی اور طلباء بھی اسلام کے علمی مراکز تک آسانی سے رسائی حاصل کرلیتے یہی وجہ تھی کہ جب عبدالطیف نے غور غشتی کے مدرسے سے تعلیم مکمل کی تو مزید حصولِ علم کیلئے کشمیر، بدخشاں،بخارا،مشہد،بغداد اور دمشق کے سفر کا قصد کیا اور اپنے شوق کی تکمیل کیلئے تن تنہا نکل کھڑے ہوئے۔انہیں بین الاقوامی جامعات میں مذہبی اسکالروں سے تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا۔برگزیدہ ہستیوں کی محافل میں بیٹھے، یوں ان کے خیالات میں مزید وسعت اور نکھار پیدا ہوا۔اسی سفر کے دوران انہیں حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی جس سے قلب سلیم میں آسودگی اور نور کے دریا موجزن ہوگئے اور چشمِ بصیرت آگہی کے آفاقی چشموں سے سیراب ہوتی گئی۔
ایک طویل سفر کی خاک چھاننے کے بعد جب عبدالطیف کی اپنے طن میں واپسی ہوئی تو اب وہ پہلے جیسے نوجوان نہیں رہے تھے۔ان کے چہرے پر علم کا تیقن اور گہرے تفکر کی سلوٹیں نمایاں تھیں اور طبیعت میں سمندر کا سا ٹھہراؤ تھا ادھر گھر والوں نے الف لیلوی کردار کے اس نوجوان کی مانند جو شہزادی کے سوالوں کے جواب کی تلاش میں سات سمندر پار مارا مارا پھرتا ہے اور بالآخر کامیابی سے واپس لوٹنے پر شہزادی سے شادی رچا لیتا ہے،عبدالطیف کو بھی رشتہ ازواج میں جکڑ دیا گیا۔آپ کا عقد ضلع ہزارہ کے ایک گاؤں راہی سیداں میں آباد سادات خاندان کی ایک انتہائی شریف النفس خاتون سے طے پایا۔آپ کی اکلوتی بیٹی اسی زوجہ محترمہ کے بطن سے تھی وہ بچپن میں ہی اللہ کو پیاری ہوگئی۔ابھی بیٹی کی رحلت کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ آپ کی زوجہ بھی اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئیں۔
غم واندوہ کے اس دور نے عبدالطیف کو عشقِ حقیقی کی اصل دنیا سے حقیقی معنوں میں قریب کر دیا۔خلقِ خدا کی اصلاح اور خدمت کو اپنا نصب العین قرار دیتے ہوئے انہوں نے باقی ماندہ زندگی کو خدا اور اس کے رسول کے وضع کردہ زریں اصولوں کا پابند بنانے کا مصمم ارادہ کرلیا۔
اسی عرصے کے دوران ان کی ملاقات حضرت جمال اللہ حیات المیرالمعروف زندہ پیر سے ہوئی۔پہلی ہی نظر میں انہیں یوں محسوس ہوا کہ جس دُرِ نایاب کی انہیں تلاش تھی وہ مرشدِ کامل جمال اللہ کی صورت میں موجود ہے۔قلبی واردات کے زیر اثر عبدالطیف نے ان سے حجرہ شاہ مقیم میں بیعت کی سعادت حاصل کی جس سے ان کا دل حقیقی لذت سے سرشار ہوگیا۔حضرت عبدالطیف نے اپنے مرشد سے فیوض و برکات سیمٹنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔یہ فیضانِ نظر ہی تھا کہ آپ کے روحانی درجہ کمال کو پرکھتے ہوئے حضرت جمالؒ نے انہیں خرقہ خلافت سے بھی سرفراز کردیا ،اس طرح نہایت قلیل عرصے میں انہوں نے وہ گوہر مقصود حاصل کرلیا جسے پانے کیلئے عمر بھر کی ریاضت درکار ہوتی ہے۔
حضرت جمال اللہ سخی حیات المیر المعروف زندہ پیر کا شمار اپنے دور کی بلند پایہ علمی ہستیوں میں ہوتا ہے وہ حضرت غوث اعظم کی اولاد میں سے تھے۔جمال اللہ حیات المیر کا لاہور میں آمد کا ذکر تاریخ کی کتب میں تواتر سے موجود ہے۔آپ میانی صاحب کے تاریخی قبرستان کے احاطے میں قیام فرماتے اورتشنگانِ علم کو دین کی برکات سے فیض یاب کرتے۔آپ کے خلفاء میں حضرت عبدالطیف نمایاں مقام رکھتے تھے،امام بری کا لقب بھی آپ ہی کا عطا کردہ ہے اور یہی نام ان کی وجہ شہرت بھی ہے۔
بعض کتب میں یہ بھی منقول ہے کہ نیلاں ندی میں چلہ کش ہونے کی وجہ سے آپ لوگوں میں امام بحری کے لقب سے پہچانے جانے لگے پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نام امام بری میں تبدیل ہوگیا۔
خرقہ خلافت سے سرفراز ہونے کے بعد آپ نے تذکیہ نفس کیلئے مزید ریاضت اور مجاہدے کیے اور اس مقصد کیلئے مارگلہ کے سرسبز پہاڑوں میں گھری موضع لنگر کی خوبصورت وادی کا انتخاب کیا۔پہاڑیوں کے نشیب سے آنے والی ندی’’نیلاں بھوتو‘‘ کی پرکیف موسیقی آپ پر ایسا سحری طاری کرتی کہ بے خود ہو کر عبادت الٰہی کی اتھاہ گہرائیوں میں غوطہ زن ہو جاتے۔چلہ کشی کے مختلف مراحل کے دوران کبھی قلبی واردات کا ایسا غلبہ ہوا کہ سرد پانی کی لہروں میں کھڑے کھڑے کئی پہر بیت گئے اور صدیوں سے بہتا ہوا پانی ماضی اور حال کے تانے بانے کا آئینہ بن جاتا۔استغراق و انہماک کی اس منزل پر آپ کا جسم سوکھ کر ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل ہوگیا۔
ان دنوں آپ کے مرشد زندہ پیر یا بالا پیرؒ ،حسن ابدال میں مقیم تھے ان کے کانوں تک جب عبدالطیف کی روحانی مشقت کی خبر پہنچی تو فوراً نیلاں بھوتو تشریف لائے اور انہیں ریاضت کے کڑے مراحل سے باہر نکالا۔بعض دوسری روایت کے مطابق حضرت بالا پیر کے حکم سے ان کے مریدِ خاص اپنے گھر لے گئے جہاں رفتہ رفتہ آپ کی طبیعت بحال ہوئی۔
نیلاں بھوتو کے قیام میں آپ سے کئی واقعات منسوب ہیں۔آپ کا قریبی خدمت گار اپنی بھینسوں کا دودھ فروخت کرکے اپنی گزر اوقات کرتا تھا بدقسمتی سے کوئی ایسی وباء پھیلی کہ ایک ایک کرکے اس کی تمام بھینسیں ہلاک ہوگئیں،گاؤں کے لوگوں نے عبدالطیف کی قرابت داری کے حوالے سے اسے خوب طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا۔ آپ نے مرید کی پشیمانی فوراً بھانپ لی اور اس وقت تک سکون کا سانس نہ لیا جب تک اس کے تمام نقصان کا مداوا نہ ہوگیا۔ان روایات سے وابستہ کرداروں کے آثار نہ صرف آج بھی اس قصبے میں محفوظ ہیں بلکہ یہ لوک کہانیوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں علاوہ ازیں نیلاں بھوتو میں جا بجا آپ کی چلہ گاہیں زائرین کے ذوقِ نظر کی تسکین کا باعث ہیں۔
اس بطلِ جلیل کی عبادت و ریاضت کا تذکرہ حضرت میاں محمد بخشؒ نے اپنی مشہور و معروف تصنیف’’سیف الملوک‘‘ میں تفصیل سے کیا ہے وہ آپ کی علمیت کے بے حد معترف نظر آتے ہیں۔
نوجوان عبدالطیف اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ لوگ علم و حکمت سے دوری کے باعث اخلاقی انحطاط کا شکار ہیں اور معاشرے میں روز افزوں برائیاں جڑ پکڑتی جارہی ہیں۔ان کے دل کے نہاں خانے میں ایک چنگاری مدتوں سے دھیمی دھیمی سلگ رہی تھی ،ان کی انتہائی خواہش تھی کہ کسی موزوں جگہ پر مکتب کا اجراء کیا جائے اور پھر اس کی شاخیں اطراف میں پھیلا دی جائیں اس طرح ہندو اور بدھ اکثریتی آبادی والے علاقوں میں اسلام کا پیغام ہونے کے ساتھ ساتھ علم کی شمع بھی روشن ہو جائے گی چنانچہ اپنے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے وہ نیلاں بھوتو سے باغِ کلاں واپس آگئے۔
اپنی علمی اور فکری تحریک کے آغاز میں انہوں نے موجودہ آبپارہ(اسلام آباد) سے تین کوس کے فاصلے پر عین شمال کی جانب واقع ایک قدیم آبادی کا انتخاب کیا۔کتب سیر کے راوی کے مطابق اس گاؤں کا نام کہاوت مشہور تھا اور اسے گکھڑ قبیلے نے آباد تھا۔جغرافیائی طور پر یہ خطہ ایک خوبصورت محل وقوع کا حامل تھا۔مارگلہ کے بلند و بالا پہاڑوں نے اسے اپنے پہلو میں سمیٹ رکھا تھا تو دوسری جانب ان پہاڑوں سے آنے والی ندی گاؤں کی حدود کا تعین کرتی۔
قصبے کے انتہائی جنوب مغربی جانب صدیوں پرانی گزرگاہ تھی جس پر تجارتی قافلے رواں دواں رہتے۔جرائم پیشہ عناصر اور ڈاکو موقع پا کر ان قافلوں کو لوٹتے اور پھر آس پاس کے گھنے جنگل میں روپوش ہو جاتے۔چوروں اور ڈاکوؤں کے مسکن کی وجہ سے اس گاؤں کا نام’’کہاوت‘‘ سے بگڑ کر’’چور پُور‘‘ مشہور ہوگیا تھا۔
شاہ عبدالطیف کو جب اس ساری صورت حال کا علم ہوا تو انہوں نے دل ہی دل میں عہد کیا کہ دین کی ہدایت کا کام مذکورہ قصبے سے ہی شروع کیا جائے گا۔گاؤں کے اصل مالک گکھڑ سردار تھے وہ آپ کے اوصافِ حمیدہ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ نہ صرف تحفظ فراہم کیا بلکہ علمی مقاصد کی تکمیل کی خاطر زمین بھی وقف کردی۔
قدرت ان پر مہربانی تھی یوں سازگار حالات پا کر انہوں نے دن رات محنت کی۔سب سے پہلے درس گاہوں کا قیام عمل میں آیا۔قرآن حکیم اور دینی تعلیم سے لوگوں کو روشناس کرانے کے لییباقاعدگی سے دروس کا اہتمام ہونے لگا،رفتہ رفتہ خانقاہیں وجود میں آئیں جن کی تعمیر میں مخیر حضرات نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔طلبائکے لیے عربی،فارسی اور مروّجہ علوم کے علاوہ عام تعلیم کا حصول بھی آسان بنایا گیا اور اسلام کی تبلیغ کا کام بھی جاری رکھا۔
یہ آفاقی نظام کی برکات کا ہی اعجاز تھا کہ مختلف مذاہب کے لوگ دین کی تعلیمات سے متاثر ہو کر حلقہ بگوشِ اسلام ہونے لگے۔یوں پوٹھوار کے دور دراز قصبوں تک مدرسے کی شہرت پھیل گئی اور علم کے متلاشی اپنی پیاس بجھانے کے لیے جوق در جوق آنے لگے وہ گاؤں جو کبھی’’چور پور‘‘ کہلاتا تھا علم کے سوتے پھوٹتے ہی اس نے بدنام زمانہ کینچلی اتار پھینکی اور’’نور پور‘‘ کے نام سے مشہور ہوگیا اور آج یہی نام اس کی پہچان ہے۔
یہ بات صائب ہے کہ بدھوں کے رہبانیت کے فلسفے نے عیسائی اور مسلمان صوفیاء پر بھی اپنا رنگ جمایا۔یہی وجہ تھی کہ شمال کی جانب سے ہندوستان کا رخ کرنے والے علمائے عجم جو صوفیانہ خیالات کے علمبردار تھے انہیں یہاں دین کی نشر و اشاعت میں کسی بڑی مزاحمت یا دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔انہوں نے تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقامی ثقافت میں گھل مل کر اسلام کے فلسفے کو عام لوگوں میں روشناس کرایا۔شاہ عبدالطیفؒ کے عہد میں پنڈت اور سادھو مارگلہ کے پہاڑی سلسلے میں واقع قدیم کھوؤں میں نفس کشی اور مراقبے کرتے اور کئی کئی مہینے پوشیدہ رہتے۔گورو دیپال کے پیرو سرمنڈواتے،تاہم بائیں جانب بالوں کی ایک لٹ چھوڑ دیتے۔گیروے رنگ کی چادر میں لپٹے جب یہ پہاڑوں سے نیچے اترتے تو چیلے چانٹے آشیرباد حاصل کرنیکے لیے ان کے گرد جمع ہو جاتے،نذ و نیاز وصول کرنے کے بعد گورو دوبارہ دنیا کے شور شرابے سے دور غاروں میں لوٹ جاتے۔لوگوں کے مزاج کو بھانپتے ہوئے بری امام کے مریدوں نے بھی اپنے گرد چادر لپیٹ لی اور کینٹھے پہن لیے انہوں نے بالوں کی ایک لٹ کے سوا تمام سر منڈوا دیئے اور تبلیغ کیلئے کوچہ کوچہ قریہ قریہ پھیل گئے ۔اس طرح مختلف الخیال قومیتوں کے لوگوں میں گھل مل کر اسلامی تعلیم کا پرچار کرنے میں انہیں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑا۔
عبدالطیف جو اب امام بری کے نام سے پہچانے جاتے تھے کی شہرت خوشبو کی مانند چاروں اور پھیل رہی تھی اور ان کے گرد ارادت مندوں کا حلقہ روز افزوں پھیلتا ہی جارہا تھا۔ایک مرتبہ مغل فرمان روا شاہجہان کا کسی مہم کے سلسلے میں اس علاقے سے گزر ہوا تو اس کے چند زعماء نے بری امام کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا تذکرہ کچھ اس انداز سے کیا کہ موصوف کے نظریات سے باغیانہ خیالات کا تاثر ابھرا۔
امام کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کی اصل وجہ یہ تھی کہ زندگی کے معمولات میں وہ کسی سرکاری عہدے دار کو خاطر میں نہیں لاتے تھے،منصفانہ رویے کو اعلیٰ عہدے دار اپنے منصب کی توہین سمجھتے اور انہیں مزا چکھانے کے لیے موقع کی تاک میں تھے چنانچہ شاہجہان درباریوں کے جھانسے میں آگیا۔اس نے اپنے بیٹے اورنگزیب عالمگیر کی قیادت میں ایک لشکر روانہ کیا تاکہ اصل حقائق سے پردہ اٹھایا جاسکے۔
اورنگزیب عالمگیر ایک باریک بین اور زیرک انسان تھا اور لوگوں کو پرکھنے کا ہنر جانتا تھا وہ نور پور پہنچ کر سیدھا بری سرکار کی خدمت میں حاصر ہوا۔ادھر درویش کا چلن دیکھیے کہ ان پر مغل شہزادے کی آمد کا مطلق اثر نہ ہوا اور وہ بدستور طلباء کو تعلیم دینے میں مشغول رہے،درس سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے اورنگزیب عالمگیر کو شرفِ ملاقات بخشا اور اس سے اسلامی اقدار اور احکامات کی افادیت پر سیر حاصل بحث کی سیرت کی۔کتب میں مذکور ہے کہ امام نے شہزادے کو ہندوستان کی سلطنت کا حکمران بننے کی خوشخبری بھی سنائی اور اسے عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل اور رزق حلال کی جستجو کی تلقین کی۔
اورنگزیب عالمگیر پر ان کی باتوں کا گہرا اثر ہوا اور وہ امام کے ارادت مندوں میں شامل ہوگیا اور جب وہ یہاں سے لوٹا تو اس کی دنیا بدل چکی تھی۔
حضرت شاہ عبدالطیف نے تصوف اور روحانی ادراک کے بل بوتے پر مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو دین حق کی محبت سے روشناس کرایا یہ ان کے باطنی عرفان کا ہی کمال تھا کہ مضافات کے لوگ اسلام کے آفاقی مکتب میں داخل ہو کر ایمان کی دولت سے مالا مال ہوئے۔آپ کے فصاحت و بلاغت سے معمور درس ان کے دلوں پر اثر کرتا اور نفس کی معرفت کا باعث بنتا۔یوں وہ معاشرہ جس میں الوہیت کو دیو مالائی پیمانوں سے ناپا جاتا تھا عرفانِ الٰہی کی بدولت ایک متوازن سماجی ڈھانچے میں تبدیل ہوگیا اس طرح امام بری کی وساطت سے اسلام کا ابدی پیغام ملحقہ علاقوں تک پھیل گیا۔
بالآخر وہ کام جو قدرت کو آپ سے لینا مقصود تھا اپنے پایہ تکمیل کو پہنچا۔حضرت عبدالطیف المعروف امام بری کا وصال1119ھ بمطابق1708ء کو ہوا۔اس وقت آپ کی عمر91برس تھی۔آپ کی وصیت کے مطابق نور پور میں ہی تدفین عمل میں لائی گئی،بعض روایت میں ملتا ہے کہ اورنگزیب نے آپ کے جنازے میں شرکت کی اور مزار کی تعمیر کے علاوہ ملحقہ باغات اور مسجد کی تعمیر کا حکم بھی دیا۔
آپ کے مزار پر انوار کے انتہائی بائیں جانب ایک قدیم حجرہ موجود تھا جسے حال ہی میں مزار کی توسیعی منصوبے کے دوران گرا دیا گیا یہاں ہر وقت آگ کا الاؤ روشن رہتا یہ آگ صدیوں کا سفر طے کرنے کے باوجود جل رہی تھی اور عقیدت مند اس کی راکھ سمیٹ کر بطور تبرک اپنے ساتھ لے جاتے۔
آگ کا الاؤ روشن رکھنا دراصل زرتشتی روایات کا حصہ ہے،برصغیر میں یہ رسم ایران سے آنے والے صوفیاء اور فقہا کے ساتھیوں کے رہین منت ہے جو اسلام کے پرچار کے علاوہ اپنے ساتھ عجم کی ثقافت بھی لائے۔زرتشتی آگ کی پاکیزگی کے قائل تھے اور اسے زندگی کی تابندگی سے عبارت کرتے چنانچہ یہی آگ جسے’’مچ‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ان صوفیاء کے مزارت پر جن کے اجداد مشہد وغیرہ کی جانب سے وارد ہوئے تھے آج بھی نہایت آب و تاب سے جل رہی ہے اور باقاعدگی سے مقامی ثقافت کا حصہ بن چکی ہے۔
حضرت عبدالطیف امام بری کا عرس ہر سال نہایت عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے’’نور پور شاہاں‘‘ کا یہ میلہ پوٹھوار کا سب سے بڑا میلہ ہے۔
ملک کے کونے کونے سے ہزاروں زائرین شرکت کرتے ہیں۔دھمال،رقصِ درویش اور قوالیاں اس تقریب کا خاصا ہیں۔ہر سو ایک میلے کا سا سماں ہوتا ہے،دیکھتے ہی دیکھتے نور پور میں خیموں کا شہر آباد ہو جاتا ہے جدھر نظریں اٹھاؤ انسانوں کا ہجوم نظر آتا ہے۔غرباء جی بھر کر دعوتِ شیراز کے مزے لوٹتے ہیں۔دعائیں مانگتے ہیں اور خطہ پوٹھوار کے عظیم صوفی کے مرقد پر عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔عبدالطیف المعروف امام بری کا مزار مارگلہ کے خوبصورت اور سرسبز پہاڑی سلسلے میں وزیراعظم پاکستان کی قیام گاہ کے عقب میں واقع ہے جو صدیوں پہلے کیے جانے والے اس تذکرے کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے جس میں ایک اسلامی مملکت کے قیام کی پیشن گوئی کی گئی تھی۔
منابغ و مآخذ
-1 ممتاز مفتی،الکھ نگری،الفیصل ناشران و تاجران کتب،2001ء،اردو بازار لاہور،ص760:
-2 محمد یوسف فاروقی،تذکرہ حضرت امام بری سرکار،القائم ٹریڈرز،اردو بازار،لاہور،ص4,3:
-3 محمد حسیب قادری،سیرت حضرت امام بری سرکار،اکبر بک سیلرز،لاہور،ص58,57:
-4 آغا عبدالغفور،ٹیکسلا کا تہذیبی سفر نامہ،ویژن پبلی کیشنز،لاہور،1984ء،ص145:
-5 ایضاً،ص 145:
-6 محمد حسیب قادری،سیرت حضرت بری امام سرکار،اکبر بک سیلرز،لاہور،ص 59:
-7 ایضاً،ص 60:
-8 ایضاً،ص 64:
-8A منظور الحق صدیقی،تاریخ حسن ابدال،ادارہ تحقیقات پاکستان،دانش گاہ پنجاب،لاہور،1977ء،ص81:
-9 محمد یوسف فاروقی،تذکرہ حضرت امام بری سرکار،القائم ٹریڈرز،اردو بازار،لاہور،ص 6:
-10 محمد حسیب قادری،سیرت حضرت بری امام سرکار،اکبر بک سیلرز،لاہور،1984ء،ص 65:
-11 کرم حیدری،سرزمین پوٹھوہار،مکتبہ المحمود،9Bسیٹلائٹ ٹاؤن،راولپنڈی،طبع دوم،1980ء،ص 67:
-12 محمد حسیب قادری،سیرت حضرت بری امام سرکار،اکبر بک سیلرز،لاہور،1984ء،ص 61:
-13 ایضاً،ص 68,67:
-14 رشید نثار،وادی پوٹھوہار،پنڈی اسلام آباد ادبی سوسائٹی(پیاس)،راولپنڈی،1997ء،ص 69:
-15 محمد حسیب قادری،سیرت حضرت بری امام سرکار،اکبر بک سیلرز،لاہور،ص67:
-16 آغا عبدالغفور،ٹیکسلا کا تہذیبی سفر نامہ،ویژن پبلی کیشنز،لاہور،1984ء،ص 143:
-17 محمد حسیب قادری،سیرت حضرت بری امام سرکار،اکبر بک سیلرز،لاہور،ص83تا88
-18 ایضاً،ص 105:
-19 آغا عبدالغفور،ٹیکسلا کا تہذیبی سفر نامہ،ویژن پبلی کیشنز،لاہور،1984ء،ص 145,144,143:
-20 سید حبیب شاہ بخاری،پوٹھوہار ماہ و سال کے آئینے میں،سوہاوہ پرنٹنگ سروسز،سوہاوہ،2002ء،ص 41: