working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
01 April 2017
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

کراچی:ہلاکتوں میں کمی لیکن خاتمہ نہیں

ضیاء الرحمٰن

ضیا الرحمن کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان میں عسکریت پسندی اور سیکیورٹی کے مسائل کی کوریج کرتے ہیں۔انہوں نے ایک کتاب Karachi in Turmoilء بھی تحریر کی ہے۔ کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا مگر آج اس قدر مسائل میں گھر چکا ہے کہ سمجھ ہی نہیں آتا کہ اس کا کون سا مسئلہ بڑا ہے اور کون ساچھوٹا۔مگر ان تمام مسئلوں میں سب سے اہم کراچی میں امن و امان کی بحالی ہے ۔گزشتہ سال یہاں سیکورٹی کی کیا صورتحال رہی ؟ اس سوال کا جواب اس مضمون میں دیا گیا ہے ۔(مدیر)

کراچی میں امن کی بحالی کے لیے رینجرز کی سرپرستی میں ہونے والا ٹارگٹڈ آپریشن چوتھے سال میں داخل ہورہا ہے۔2016ء میں امن و امان کی مجموعی صورتحال میں نمایاں بہتری ہوئی ہے۔اگرچہ سیاسی تشدد اور گینگ وار سے ہونے والی ہلاکتوں میں اس جاری آپریشن میں تیزی سے کمی ہوئی ہے تاہم شہر کو حالیہ سال میں فرقہ وارانہ فسادات کا سامنا مسلسل رہا۔
وفاقی حکومت اور فوج کے تعاون سے کراچی میں سیکیورٹی آپریشن ستمبر2013ء میں شروع ہوا جس کا بنیادی مقصد شہر میں فسادات اور تشدد کی ٓاگ بھڑکانے والے چار طرح کے پرتشدد گروہوں کو ٹارگٹ بنانا تھا۔ان میں طالبان،فرقہ وارانہ فسادات،علاقائی سیاسی پارٹیوں کے عسکری ونگ اور لیاری اور دوسرے شہر میں سرگرم مجرم گروہ شامل ہیں۔
دسمبر2014ء کے سانحہ پشاور آرمی پبلک سکول کے بعد وفاقی حکومت کے اختیار کردہ20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان میں عسکریت پسندی اور تشدد کا مقابلہ کرنیکے لیے ایک نکتہ خاص طور پر بیان کرتا ہے کہ کراچی میں جاری آپریشن کو اس کے منطقی انجام تک لے جایا جائے گا۔
طالبان گروہوں کی طاقت میں کمی:
آپریشن کے آغاز ہی سے کراچی میں سرگرم عمل تحریک طالبان پاکستان کے دھڑے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مرکزی ہدف رہے ہیں۔کراچی کے یہ دھڑے ٹی ٹی پی کے سوات،مہمند اور جنوبی وزیرستان کا پھیلاؤ ہیں یہ کراچی میں تب بننا شروع ہوئے جب2009ء میں فوج نے فاٹا میں آپریشن شروع کیا۔عسکریت پسندوں نے اپنی داڑھیاں منڈوا دیں اور بال چھوٹے کروا کر عام مزدوروں کا حالیہ اپنا کر کام شروع کردیا۔یہ ان کی حکمت عملی کا حصہ تھا تاکہ وہ کراچی میں اپنا متعلقہ دھڑا شروع ہونے سے قبل انتظار کا وقت گزار سکیں۔
ٹی ٹی پی نے پہلی بار کراچی میں اپنی موجودگی کا ثبوت تب دیا جب عوامی نیشنل پارٹی نے کارکنوں کو پارٹی چھوڑنے کی دھمکی دی پھر ٹی ٹی پی عسکریت پسندوں نے پولیس والوں،پولیو ویکسین پلانے والوں اور سول سوسائٹی کارکنوں پر حملوں کے ساتھ ساتھ پشتون تاجروں کے خلاف ایک بے رحمانہ مہم چلا دی تاہم کراچی آپریشن شروع ہونے سے ٹی ٹی پی کے تینوں دھڑے کمزور ہوئے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ فائرنگ میں ان کے اہم رہنما مارے یا گرفتار کیے گئے ہیں۔2016ء میں بھی ٹی ٹی پی کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رہا اور کئی ارکان کی گرفتاری یا ہلاکت شہ سرخیوں میں رہی۔
اگرچہ کراچی میں طالبان گروہوں کو منتشر کرنے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کافی حد تک کامیاب رہے لیکن انہیں اس دوران عارضی جنگجوؤں اور خود ساختہ انقلابیوں کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ مسلح گروہوں کی مصیبت نے بھی گھیرے رکھا جو شہر کے مقتدر طبقات سے تعلق رکھتے تھے۔
ان وقتی گروہوں میں مرکزی طور پر ہندوستانی برصغیر کی القاعدہ(AQIS)،لشکر جھنگوی العالمی(LIA) اور حرکت المجاہدین العالمی(HUMA) شامل ہیں جو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق ٹی ٹی پی اور لشکر جھنگوی کے ساتھ مل کر کارروائیاں کرتے رہے تھے۔
کراچی کے ایک سینئر کاوئنٹر ٹیرر ازم پولیس آفیسر راجہ عمر خطاب کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے2016 ء میںAQIS کے بہت سے رہنماؤں کو گرفتار کرکے نیٹ ورک کو کافی کمزور کردیا ہے لیکن پھر بھی کراچی میں اس کے ٹھکانے موجود ہیں اور چھوٹے پیمانے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ارکان اور سکولوں پر حملے کرتے ہیں۔
فروری2016ء میں ملٹری کے ترجمانِ اعلیٰ نےAQIS کے پاکستان میں مرکزی رہنما فاروق بھٹی عرف موسانہ کے ساتھ ساتھ لشکر جھنگوی سندھ کے سربراہ نعیم بخاری اور لشکر جھنگوی کراچی کے سربراہ صابر خان کی گرفتاریوں کا اعلان کیا۔
اسی طرح لشکر جھنگوی کے ایک ضمنی شیعہ مخالف گروہ لشکر جھنگوی العالمی بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے راڈار پر رہی ہے۔25اگست2016ء کو سندھ رینجرز نے لشکر جھنگوی العالمی کے ایک مرکزی رہنما سید صفدر جو یوسف،حذیفہ،خراسانی،معاوصہ،علی،شاہ جی اکا ذیشان وغیرہ کی عرفیت رکھنے والے کی اس کے سہولت کاروں اور ساتھیوں سمیت گرفتاری پر50لاکھ انعام کا اعلان کیا۔
حرکت المجاہدین ہی سے نکلا ہوا ایک جنگجو گروہ HUMA بھی کراچی میں کارروائیوں میں ملوث رہا اور اس کے اراکین لشکر جھنگوی اورAQIS میں شامل ہوتے رہے۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے کراچی کے موقر اور معتبر تعلیمی اداروں پر نظر رکھتے رہے ہیں تاکہ بین الاقوامی جہادی نیٹ ورکس جن میں القاعدہ اور داعش شامل ہیں سے تعلق رکھنے والے افراد اور گروہوں کا پتہ چلایا جاسکے جو سالوں سے متوسط اور اپر مڈل کلاس کے طلباء کو بھرتی کرتے رہے ہیں۔
حکومت پہلی بار ان کی موجودگی سے باخبر تب ہوئی جب مئی2015ء میں سانحہ صفورا گوٹھ کے سلسلے میں پولیس نے مشکوک افراد کو گرفتار کیا۔اس سانحے میں ایک بس میں سوار اسماعیلی فرقے کے47 افراد کو مار دیا گیا تھا۔پورے2016ء کے دوران تعلیمی اداروں پر انٹیلی جنس کی بنیاد پر کریک ڈاؤن جاری رہا۔
بلوچستان سے متعلق فرقہ وارانہ تشدد:
کراچی میں اکتوبر2016ء میں ابھرنے والے فرقہ وارانہ فسادات نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قیام امن کی تین سالہ کوششوں پر سوالیہ نشان چھوڑ دیا اور حکومت کو مجبور کردیا کہ وہ فرقہ وارانہ ٹھکانوں پر کریک ڈاؤن شروع کردے۔اس اقدام کے نتیجے میں کئی شیعہ اور دیو بندی رہنماؤں کی گرفتاری عمل میں آنے کے ساتھ ایسے گروہوں سے منسلک عسکریت پسندوں کا قانون نافذ کرنے والوں اداروں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
قانون نافذ کرنے والے افسران اور سیکیورٹی تجزیہ کاروں کے مطابق کراچی سنی دیو بندی اور شیعہ گروہوں کے درمیان سب سے فعال شہر ہے جہاں مستقل بنیادوں پر انتقامی کارروائیاں جاری رہتی ہیں۔پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق2011ء سے ایسی پرتشدد کارروائیوں میں اب تک134سنیوں اور215 شیعوں سمیت349 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ان گروہوں نے مخالف فرقوں کے فعال ارکان،پروفیشنلز اور مذہبی رہنماؤں کی کڑی نگرانی کی اور موقع ملتے ہی انہیں مار ڈالا۔
روایتی طور پر کراچی میں سپاہ صحابہ پاکستان،لشکر جھنگوی اور جند اللہ کے عملی اور نظریاتی روابط القاعدہ اور ٹی ٹی پی سے ہوتے ہیں۔پولیس آفیشلز کا خیال ہے کہ کراچی اور قبائلی علاقے میں کریک ڈاؤن کے بعد طالبان گروہوں اور فرقہ وارانہ جماعتوں نے سندھ بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں نئی پناہ گاہیں تلاش کرلی ہیں جہاں سے وہ شیعہ کمیونٹی،سرکاری املاک اور سندھ کے باقی علاقوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
کراچی میں کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ نے بھی وفاقی حکومت سے بلوچستان کے ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والے ان عسکریت پسند گروہوں کیخلاف کارروائی کی تحریری درخواست کی ہے جو لشکر جھنگوی اور ٹی ٹی پی کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا کرتے رہے ہیں۔
شیعہ کمیونٹی پر حملوں کے خلاف شیعہ مسلح گروہ سپاہِ محمد پاکستان بھی کراچی میں سرگرم رہا ہے۔اگرچہ شیعہ رہنما اپنی صفوں میں ایسے عناصر کی موجودگی سے انکار کرتے ہیں۔پولیس افسران کا ماننا ہے کہ شیعوں کے مسلح دھڑے موجود ہیں اور کراچی میں سنی ہلاکتوں میں ملوث ہیں۔
عموماً ڈسٹرکٹ سنٹر کراچی فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں رہا ہے۔پچھلے چھ سالوں میں اس علاقے میں شیعہ اور سنی فرقے سے تعلق رکھنے والے کم از کم135 افراد مارے جا چکے ہیں۔اس کے علاوہASWJ اور سنی تحریک کے نمائندہ دیو بندی اور بریلوی فرقوں کے تصادم بھی اس علاقے کے قریب گودھرا میں عموماً ہوتے رہتے ہیں۔

سیاسی پارٹیوں کے مسلح ونگ:
امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کا الزام مرکزی علاقائی سیاسی اور مذہبی پارٹیوں کے عسکری ونگز کی کارروائیوں پر بھی لگایا جاتا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایسے ونگز کو آپریشن کے دوران نشانہ بنایا ہے۔شہری کی بڑی سیاسی پارٹی متحدہ قومی موومنٹ اس آپریشن سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی کیونکہ اس کے ممبران کی ایک بڑی تعداد گرفتار ہوئی یا گرفتاری سے بچنے کیلئے چھپ گئی۔پارٹی یہ بھی دعویٰ کرتی ہے کہ ایک بڑی تعداد کا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل ہوا یا انہیں غائب کردیا گیا۔
اگست2016ء میں لندن میں مقیم پارٹی کے سربراہ الطاف حسین کے میڈیا ہاؤسز پر حملے کی ہدایات کے بعد پارٹی کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔چند ہی گھنٹوں میں رینجرز نے کراچی میں متحدہ رہنماؤں کو گرفتار کرلیا جس میں قومی اسمبلی میں متحدہ کے پارلیمانی لیڈر فاروق ستار بھی شامل تھے۔نائن زیرو کے نام سے معروف پارٹی ہیڈ کوارٹر کو پہلی بار سیل کردیا گیا۔اس بحران نے متحدہ رہنماؤں کو الطاف حسین سے اظہار لاتعلقی پر مجبور کردیا۔
کریک ڈاؤن اور اس کے نتیجے میں متحدہ مسلح گروہ کی طاقت میں کمی نے ایم کیو ایم کی منٹوں میں شہر بند کردینے کی مشہور زمانہ صلاحیت کو بھی کم کردیا تاہم اس کی الیکٹورل طاقت متحد رہی البتہ ووٹ بینک سکڑتا دکھائی دے رہا ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی،سنی تحریک اور سندھی لسانی پارٹیوں کو بھی اس آپریشن سے نقصان پہنچا اور2016ء میں ان کے درجنوں کارکن گرفتار کیے گئے۔
پچھلے کئی سالوں سے کراچی کے قدیم علاقوں میں سے ایک لیاری مخالف مجرم گروہوں کی باہمی جنگوں کا مرکز بن چکا ہے۔گینگ وار کے نتیجے میں سینکڑوں معصوموں کی جانیں گئی ہیں۔پورے2016ء میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گینگ لیڈروں کی ایک بڑی تعداد ہلاک کرکے ان گروہوں کا نیٹ ورک توڑا ہے۔