working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
01 April 2017
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

سرحدوں سے متعلق الزامات کا کھیل

طاہر خان

طاہر خان اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں جو ایکسپریس ٹریبیون کے رپورٹر ہیں۔وہ نیوز نیٹ ورک انٹرنیشنل نامی ایک خود مختار نیوز پورٹل کے ایڈیٹر بھی ہیں۔انہوں نے پاکستان کے مغربی بارڈر پر جاری صورتحال کا تجزیہ پیش کیا ہے ۔یہ سرحد جسے ڈیورنڈ لائن بھی کہا جاتا ہے اس کے آر پار ہونے والی دہشت گردی نے دونوں ممالک کو پریشان کر رکھا ہے مگر ہنوز دونوں ممالک بارڈر مینجمنٹ کے کسی سمجھوتے تک نہیں پہنچ سکے ۔(مدیر)

افغانستان کے ساتھ پاکستان کی مغربی سرحد پر کئی حملوں کے سبب2016ء میں سیکیورٹی کی حالت نازک ہی رہی ہے۔
سب سے نمایاں پچھلے ستمبر میں جمعہ کی نماز کے دوران مسجد میں ہونے والا حملہ تھا جس میں34ہلاکتیں ہوئیں۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے گروپ جماعت الاحرار نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے یہ معصومانہ دعویٰ بطور جواز پیش کیا کہ ہلاک ہونے والے حکومت کی حامی امن کمیٹیوں کا حصہ تھے۔مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت بچوں کی تھی جو آخری صفوں میں کھڑے تھے۔
دوسرے پاکستانی مسلح گروہوں کی طرح احرار بھی سرحدی علاقوں میں سیکیورٹی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ گروپ اگست2014ء طالبان کی صفوں میں اختلافات پیدا ہونے کے بعد قائم کیا گیا۔آج یہ گروپ جس میں زیادہ تر پرانے ٹی ٹی پی مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والے جنگجو شامل ہیں،ایک بڑے خطرے کے طور پر سامنے آچکا ہے کیونکہ اس گروپ نے کئی ایسے تباہ کن حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جس میں بڑی تعداد میں عام شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
26نومبر کو چار بمباروں کے ایک گروہ نے مہمند ایجنسی میں فرنٹیئر کارپس کیمپ کو نشانہ بنایا جس میں فوجی ترجمان کے مطابق دو ہلاک اور14زخمی ہوئے۔احرار نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے چاروں بمباروں کی تصویر ریلیز کی۔
سرحدی علاقوں میں حملوں سے متعلق ایک متنازع مسئلہ حملہ آوروں کا محل وقوع ہے۔پاکستانی افسران کا ماننا ہے کہ احرار کے جنگجو سرحد کے اس پار افغانستان سے کارروائی کرتے ہیں ،یہی بات کچھ دوسرے رہنماؤں کے متعلق بھی کہی جاتی ہے۔افغان رہنماؤں صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ نے عوامی اجتماعات میں کہا کہ افغان فوجوں نے تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مولوی فضل اللہ کیخلاف کئی آپریشن کیے لیکن ناکام رہیں۔اس لیے ایک طرح سے افغان رہنماؤں نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ پاکستانی جنگجو رہنما افغانی سرحدی علاقے میں چھپا ہوا ہے۔
خطہ خراساں کے دولت اسلامیہ داعش کا رہنما حافظ سعید خان اگست میں امریکی ڈرون حملے میں افغانستان کے مشرقی صوبے ننگھراڑ میں مارا گیا۔اس سال افغانستان میں کئی اور سینئر پاکستانی طالبان رہنما مارے جا چکے ہیں جن میں عمر منصور،الیاس نرائی اور اعظم طارق شامل ہیں۔ اس سے اس مفروضے کو تقویت ملتی ہے کہ پاکستانی طالبان رہنماؤں کی افغانستان کے سرحدی علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں زیادہ تر بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے صحافی جو دہشتگردوں سے متعلق خبروں کی کوریج کرتے ہیں، کا کہنا ہے کہ جب مسلح گروپ پاکستان میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں تو انہیں موصول ہونے والی فون کالیں عموماً افغانی سموں سے کی جاتی ہیں۔
تاہم پاکستانی طالبان نے کبھی واضح طور پر یہ قبول نہیں کیا کہ وہ افغان سرحدی علاقوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ایک پاکستانی طالبان رہنما نے تو ایک دفعہ یہ کہا کہ انہیں افغانستان کی طرف دھکیلنا’’پاکستان کے لییزیادہ خطرناک‘‘ہوگا۔ افغان حکام اپنے طور پر یہ اصرار کرتے ہیں کہ طالبان،جنہیں وہ متحارب گروپ کہتے ہیں،سرحد کی پاکستانی جانب سے کارروائیاں کرتے ہیں۔ یہ معاملہ دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کی وجہ ہے۔اسلام آباد میں افغانی سفیر عمر ذخیل وال نے وقت ٹی وی نیوز چینل کو دسمبر میں دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کا ملک’’پاکستان سے مطالبہ کررہا ہے کہ وہ طالبان کی بھرتی،ان کے اجلاسوں اور رہنماؤں کیلئے جگہ فراہم نہ کرے‘‘۔
مئی2016ء میں افغان طالبان سربراہ ملا اختر منصور پاکستان کے صوبے بلوچستان میں مارا گیا۔افغان حکومتی رہنماؤں کا اصرار ہے کہ طالبان نے اپنے نئے’’امیر المومنین‘‘ یا کمانڈر کا انتخاب بلوچستان میں ایک اجتماع میں کیا۔
اس بات کی علامات موجود ہیں کہ طالبان کے مختلف دھڑے پاکستان میں باہمی تعاون سے مشترکہ حملوں اور سرگرمیوں کے لیے کوئی اتحاد تشکیل دے سکتے ہیں۔اس بات کی رپورٹیں بھی ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان،تحریک طالبان پاکستان احرار اور دوسرے تحریک طالبان پاکستان کے دھڑوں خان سعید اور شہریار کے کم از کم دو اجلاس ہو چکے ہیں جن میں مشترکہ کارروائیوں پر اتفاق کیا گیا ہے۔مزید براں اب لشکر جھنگوی اور داعش مشترکہ حملے کرتے ہیں۔داعش افرادی قوت مہیا کرتا ہے جبکہ لشکر حملوں کا سہولت کار ہوتا ہے۔اس طرح القاعدہ کے ساتھ پرانی وابستگی سے گریز کرکے لشکر داعش کی طرف مائل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔طالبان دھڑے،نیا اتحاد اور داعش،لشکر حکمت عملی پاکستان کے لیینئے چیلنج کے طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے یہ سیکیورٹی خدشات طویل عرصے تک رہیں گے کیوں کہ پاکستان اور افغانستان اس خطرے سے نمٹنے کیلئے سنجیدہ اقدامات نہیں کررہے۔
پاکستان کو اب افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پاکستانی عسکریت پسندوں کی موجودگی کا مسئلہ درپیش ہے جبکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان عدم اعتماد سرحد محفوظ بنانے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
بارڈر مینجمنٹ:
روایتی الزامات اور صاف صاف الزامات مسئلہ پیدا کررہے ہیں اور عدم اعتماد میں اضافے کے ساتھ ساتھ سرحد کے موثر انتظامات کے لییدونوں ملکوں کی کوششوں پر برا اثر ڈال رہے ہیں۔ایک سینئر پاکستانی افسر کا ماننا ہے کہ اس وقت افغان طالبان کی امن کوششوں میں حوصلہ افزائی اور مدد کی کوشش سے بھی زیادہ اہم بارڈر مینجمنٹ ہیں۔پاکستان بارڈر مینجمنٹ میں سنجیدہ دکھائی دیتا ہے اور پاکستان میں داخل ہونے والے افغانوں کی سفری دستاویزات کے معاملے پر اپنے منصوبے سے ایک انچ بھی نہیں ہلا۔یہ منصوبہ پہلے جون2016ء میں سب سے مصروف داخلے کے طورخم پر متعارف کروایا گیا تھا۔
پاکستان آرمی کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ اگلے سال سرحد پار نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے18مقامات پر نیا بارڈر مینجمنٹ سسٹم نافذ کیا جائے گا۔فرنٹیئر کارپس،جس کی بنیادی ذمہ داری افغانستان کے ساتھ سرحد کی سیکیورٹی ہے،میں مزید لوگ بھرتی کیے جائیں گے۔
قبل ازیں ہزاروں افغان خصوصاً سرحدی علاقوں میں مقیم افغان کسی سفری دستاویزات کے بغیر سرحد پار کیا کرتے تھے۔کابل میں پاکستانی سفارتخانے کے ترجمان اختر منیر کا کہنا ہے کہ سفارتخانہ اور افغانستان میں ملک کی چار قونصلیٹ تقریباً2ہزار ویزے روزانہ جاری کرتے ہیں لیکن افغانستان سے ہر روز18000 کے قریب لوگ پاکستان میں داخل ہوتے ہیں جن میں اکثریت کسی بھی طرح کی سفری دستاویز کے بغیر ہوتے ہیں۔
پاکستانی حکام دلیل دیتے ہیں کہ عسکریت پسند بارڈر کنٹرول میں کمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی پابندی کے بغیر داخل ہو جاتے ہیں۔وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ پاکستان کے ضلع چارسدہ میں باچہ خان یونیورسٹی(جنوری2016ء) پشاور کے قریب ،پاکستان ایئر فورس رہائشی کالونی(ستمبر2015ء) اور پشاور کے آرمی پبلک سکول(دسمبر2014ء) پر حملوں میں ملوث عسکریت پسند افغانستان سے طورخم کے راستے ہی پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔
افغانستان کی بات کریں تو اپنے طور پر افغانوں کو پاکستان کے نئے بارڈر میکانزم پر ٹھوس شکوک ہیں اور وہ اسے بارڈر کے تعین کے سلسلے کا ایک قدم سمجھتے ہیں۔افغان حکام پاکستانی موقف سے متفق نہیں اور اس کی بجائے مصر ہیں کہ عسکریت پسندوں کے پاس سنگلاخ پہاڑوں میں بارڈر پار کرنے کے کئی روٹ موجود ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے جو بھی دلائل ہوں دونوں ملکوں کو سیکیورٹی چیلنجوں کا سامنا ہے اور آخر کار دونوں ہی کو سرحدی سیکیورٹی کے مسئلے پر کسی نہ کسی میکانزم پر متفق ہونا ہی پڑے۔
طورخم پاکستان اور افغانستان کی مصروف ترین گزرگاہ ہے۔رواں سال جون میں پاک افغان دستے اس وقت کئی دنوں تک برسرپیکار رہے جب افغان فورسز نے پاکستان کو ایک داخلی دروازہ تعمیر کرنے سے روکنے کی کوشش کی تھی تو افغان مصر تھے کہ اس دروازے کی تعمیر دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کی خلاف ورزی ہے اور بارڈر ایشوز پر پاکستان کوئی یکطرفہ فیصلہ نہیں لے سکتا۔
پاکستان نے اس بات سے اختلاف کرتے ہوئے دلیل دی کہ یہ گیٹ جس کا اب مکمل ہو کر باقاعدہ افتتاح بھی ہو چکا ہے سرحد کی پاکستانی جانب جسے افغان ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں کے تقریباً تیس میٹر اندر ہے۔کچھ افغانوں نے اسے پاکستان کی ڈیورنڈ لائن کے تعین کی طویل عرصے سے جاری کوشش کا تسلسل ہی سمجھا۔اگرچہ پاکستان ڈیورنڈ لائن کو ایک بند ہو چکا باب سمجھتا ہے،افغانستان اسے غیر حل شدہ مسئلہ ہی قرار دیتا ہے۔سرحدی معاملات سے متعلق کسی بھی اقدام کو افغان گہرے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
عسکریت پسندوں کی سرحد پار نقل و حرکت پاکستان اور افغانستان کے تعلق میں بنیادی رکاوٹ رہے گی جب تک کہ دونوں سرحد کو محفوظ بنانے کی مشترکہ حکمت عملی پر متفق نہیں ہوتے۔عدم اعتماد اور شک نے تقریباً2600 کلو میٹر کی سرحد جسے افغان ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں کی مانیٹرنگ کے مشترکہ میکانزم کی راہ میں رکاوٹ ڈال رکھی ہے۔
دو بڑی گزرگاہوں طورخم اور چمن پر بارڈر کوآرڈینیشن سنٹرز کو دوبارہ فعال کرنے میں دونوں ممالک ہی ناکام ہو چکے ہیں۔یہ سنٹرز2014ء میں امریکی سربراہی میں چلنے والی نیٹو فورسز کے جنگی مشن کے رسمی/باقاعدہ اختتام سے پہلے ایساف(ISAF) کے ساتھ سہ ملکی تعاون کے مراکز کا حصہ تھے۔
یہ کوآرڈینیشن مراکز عسکریت پسندوں کی غیر قانونی نقل و حرکت کی معلومات شیئر کرنے کے لیے انتہائی ضروری تھے۔افغان صدر اشرف غنی کے دورہ پاکستان کے بعد جب دونوں ملکوں کے تعلقات میں گرمجوشی آئی تو دونوں ناراض ہمسایوں نے ابتدا میں ان مراکز کو دوبارہ فعال کرنے پر اتفاق کیا تھا لیکن خراب تعلقات اور افغانوں میں پائے جانے والے گہرے شکوک کی بدولت یہ کبھی نہ ہوسکا کیونکہ افغان ایسے کسی بھی اقدام کو پاکستان کی طرف سے ڈیورنڈ لائن کے تعین کی کوشش ہی سمجھتے ہیں۔