working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

قومی مطالعہ جات

جامع اور روادار تعلیمی بیانئے کے فروغ کی ضرورت

(پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے زیر اہتما م اساتذہ کی تربیتی ورکشاپوں کا احوال)

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز گزشتہ کئی سالوںسے سماجی ہم آہنگی اور ا س سے متعلقہ موضوعات پر تحقیق میں منہمک ہے۔اور ا س مقصد کے لیے مکالمے کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ا س سال ادارے نے جامعات اور کالجوں کے ان اساتذہ کو مدعو کیا جن کا تعلق اسلامیات سے تھا۔زیر نظر مطالعہ ان اساتذہ کی آرا اوررجحانات کا آئینہ دار ہے جو عمومی تعلیمی داروں سے منسلک ہیں۔ تعلیمی بیانیہ ہی قومی بیانئے کا موجب بنتا ہے ا س لیے جب تک تعلیم کے اندر رواداری اور ہم آہنگی نہیں ہو گی اس وقت تک قومی سطح پر کسی یکجہتی کا قیام ایک خواب ہی رہے گا۔ (مدیر)
پس منظر
تعلیم کو پر تشدد انتہاپسندی کے خلاف سب سے مو¿ثر ہتھیار سمجھا جاتا ہے جس کو مسلمان اور مغربی ممالک اپنی اپنی دانست میں استعمال کر رہے۔پاکستان جیسے ممالک جہاں عمومی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم کے بارے میں بھی یہ رائے عام ہے کہ یہ نظریاتی شدت پسندی اور پر تشددانتہا پسندی کے فروغ میں کردار ادا کر رہی ہے۔اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ جامع اور روادار تعلیمی بیانئے کو فروغ دیا جائے۔
اس پس منظر میں پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں کے شعبہ عربی اور اسلامیات کے اساتذہ کے ساتھ دو روزہ تربیتی ورکشاپس کیں۔2016 میں ہونے والی کل تین ورکشاپوں میں اس حوالے سے مکالمہ بھی ہوا اور جہاں ضرورت تھی وہاں کچھ تربیت بھی کی گئی۔اس کا مقصد اساتذہ کو یہ باور کرانا تھا کہ پاکستان میں رواداری ،برداشت اور ہم آہنگی کے فروغ میں ان کا کردار کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔اس رپورٹ میں ان ورکشاپوں سے سامنے آنے والے نتائج ِ فکراور شرکاءکے خیالات کو مجتمع کر دیا گیا ہے جو دو مختلف طرز کے سوال ناموں کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں۔
ان ورکشاپوں کا مقصد ان محرکات کا جائزہ لینا تھا جن کی بنا ءپر یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا تعلیمی نظام انتہا پسندی اور پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف جبر کی ایک وجہ ہے۔اگرچہ جب بھی پاکستان میں عدم برداشت اور شدت پسندی کی بات کی جاتی ہے تو اس کی ذمہ داری مذہبی اداروں یعنی مدارس پر ڈالی جاتی ہے لیکن بہت سے مفکرین کا خیال ہے کہ مسائل کی ایک بڑی وجہ پبلک سکول سسٹم بھی ہے جہاں سے طلباءاعلی ٰ تعلیم کے لیے کالجوں اور یونیورسٹیوں کا رخ کرتے ہیں۔کرسٹین فیئر نے اپنے مقالے "عسکریت پسندی اور مدارس "میں کہا ہے کہ پاکستان میں نصاب ِ تعلیم عدم برداشت کے رویوں کو جنم دے رہا ہے جس سے تشدد کو ہوا ملتی ہے اور تنازعات جنم لیتے ہیں۔ایس حفیظ نے اسی نقطے کی وضاحت اس طرح کی ہے :سماجی علوم کو اسلامی نقطہ نظر سے بیان کرنے کی ہر کوشش مذہبی تعصب اور جذباتیت کو جنم دیتی ہے جس سے سماجی حقیقتوں کی مختلف تشریح ہوتی ہے۔
عوامی سکولوں کی طرح اعلی ٰ تعلیم میں بھی اسلامائزیشن کا یہی عمل جاری ہے۔1983 میں یو نیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جانب سے ایک حکم نامہ جاری ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ نصاب کے مرتبین یہ بات پیش نظر رکھیں کہ پاکستان کی اساس نسلی ، لسانی یا علاقائی نہیں بلکہ ایک مشترکہ مذہب کے ماننے والوں کی ہے۔1978 میں اسلامی نظریاتی کونسل نے اسلامی معاشرہ قائم کرنے کی ایک سکیم تجویز کی جس کے تحت ملک کے تعلیمی ، معاشی ، قانونی نظام وغیرہ کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا تھا۔
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ حکومتوں کے ایما پر تاریخ نویسوں اور مذہبی پیشواو¿ں کے ساتھ تعلیمی ماہرین اور نصاب سازوں نے بھی قومی مذہبی نظریات کو ابھارا۔کئی لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے غیر مسلموںکے خلاف مذہبی عدم برداشت کے بیج بوئے گئے۔اگر نصاب کا جائزہ باریک بینی سے لیا جائے بالخصوص اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کا، تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ نصاب ساز اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ نظریہ پاکستان بنیادی طور پر نظریہ اسلام ہے جو ہماری رہنمائی ہر شعبہ ہائے زندگی میں کرتا ہے۔
اگرچہ فی الوقت تعلیمی اصلاحات کا شعبہ مرکز سے لے کر صوبوں کو تفویض کرد یا گیا ہے تو ایسے میں سول سوسائٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماہرین تعلیم اور اساتذہ پر زور دے کہ وہ ایسے جامع اور روداری کا حامل تعلیمی نصاب مرتب کریں جس میں شدت پسند بیانئے کے تحت غیر مسلموں کے ساتھ امتیازی سلو ک روا نہ رکھا جائے۔
پاکستان میں تعلیم کے ذریعے امن اور ہم آہنگی کے فروغ کے لیے کئی ادارے اور لوگ کام کر رہے ہیںمگر ان کی کوششیں منضبط نہیں ہیں اور نہ ہی یہ تعلیمی مباحث پر اثر انداز ہو رہے ہیںجس میں ساتذہ کی تربیت ، برداشت اور ہم آہنگی شامل ہے۔نہ ہی حکومت نے اس جانب کوئی قدم اٹھایا ہے۔درحقیقت اس سلسلے میں تعلیمی نصاب میں اصلاحات سازی کے ساتھ طلباءمیں امن کے فروغ اور شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔مجموعی طور پر پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی یہ ورکشاپیں ریاست اور معاشرے کی سطح پر تعلیمی معیار کو بڑھانے کی کاوشوں کا حصہ ہیں جن کے تحت معاشرے میں مثبت اظہار کو فروغ مل سکتا ہے اور غیر مسلموں سے متعلق پسندیدہ آراءسامنے آ سکتی ہیں۔
طریقہ کار
دو روزہ تین ورکشاپوں میں پاکستان بھر کے کا لجوں اور یونیورسٹیوں کے شعبہ اسلامیات اور عربی کے 101اساتذہ نے شرکت کی۔ اس میں بڑی تعداد میں پروفیسرز ، ایسوسی ایٹ پروفیسرز کو مدعو کیا گیا جو کہ تعلیمی معاملات اور رائے سازی میں انتہائی اہم کردار رکھتے ہیں۔پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی جانب سے اسلامیات اور عربی زبان کے اساتذہ کے ساتھ تربیتی نشستیں کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نصابی کتب متعصبانہ موادسے پ±ر ہیں جن کو اسلامی نقطہ نظر سے مرتب کیا گیا ہے۔اور دوسرا یہ کہ ان مضامین کو پڑھانے والے عربی اور اسلامیات کے اساتذہ دیگر مضامین مطالعہ پاکستان ، تاریخ اور سماجی علوم پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔
ایسی ایک ورکشاپ کا انعقاد کراچی میں کیا گیا جس میں سندھ اور بلوچستان کے اساتذہ نے شرکت کی۔جبکہ دو ورکشاپیں مری میں منعقد کی گئیں۔ایک میں فاٹا ، خیبر پختونخواہ ، گلگت اور بلتستان کے اساتذہ نے شرکت کہ جبکہ دوسری میں پنجاب ، اسلام آباد اور آزاد کشمیر کے اساتذہ شریک ہوئے۔
مقررین کے پینل جنہوں نے مختلف نشستوں کی صدارت بھی کی ان میں اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود ، پشاور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر قبلہ ایاز ، کالم نگار اور مفکر خورشید ندیم ، پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا ، پاکستان سٹڈی سینٹر کراچی یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سید جعفر احمد ، سینٹر فاردی ایکسیلینس فار ویمن کراچی یونیورسٹی کی سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر خالدہ غوث ، جامعہ نعیمیہ لاہور کے پرنسپل مولانا راغب نعیمی، الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر عمار خان ناصر ، سماجی کارکن رومانہ بشیر ، کرسچئن سٹڈی سینٹر راولپنڈی کی ڈائریکٹر جینی فر جگ جیون ،صحافی اور اینکر وسعت اللہ خان شامل تھے۔ ہر مکالمہ اور ورکشاپ کا موضوع "سماجی میل جول اور مذہبی ہم آہنگی میں اساتذہ کا کردار" تھا۔ہر ورکشاپ سات مفصل نشستوں پر محیط تھی جن میں درج ذیل امور پر تبادلہ خیالات کیا گیا :
1۔ پاکستان کے موجودہ تعلیمی بیانئے کا تعارف اور پس منظر ، امن اور سماجی رابطوں کے لیے اس کے مضمرات
2۔ مسائل کی نشاندہی ،وجوہات اور تجاویز (گروپوں کی تشکیل اور گفتگو)۔
3۔ مقررہ گروپوں کی رپورٹس پر مفصل مباحثہ
4۔ ماہرین کی جانب سے کلیدی خطبات (متعلقہ موضوعات پر )
الف۔ پاکستان کا سیاسی و سماجی منظر نامہ اور تعلیمی اداروں کا کردار
ب۔ مذہبی و فرقہ وارانہ تنوع اور مذہبی اداروں کا کردار
5۔ عدم برداشت اور انتہاپسندی میں تعلیم کا عنصر
الف۔ عدم برداشت :سماجی ہم آہنگی میں رکاوٹ
ب۔ پاکستان میں شدت پسندی کی حرکیات
6۔ مذہبی عدم برداشت اور منفی آرائ
الف۔ پاکستان کے غیر مسلم ، عدم برداشت کے شکار
ب۔ عدم برداشت، انتہا پسندی اور میڈیا کا کردار
پ۔ آئین پاکستان کی حدود و قیود
7۔ برداشت کے فروغ اور جامع تعلیمی بیانیہ کے لیے تجاویز
ورکشاپ سے پہلے اور بعد کے سروے
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی جانب سے دو مختلف قسم کے سوالنامے مرتب کیے گئے۔ایک ورکشاپ سے پہلے اور دوسرا بعد میں دیا گیا۔اس کا مقصد اس بات کا جائزہ لینا تھا کہ وہ ان ورکشاپوں سے کیا توقعات رکھتے ہیں اور یہ کس حد تک مو¿ثر ہو سکتی ہیں۔ اس سروے کے نتائج سے حتمی تجاویز کو مرتب کرنے میں بڑی مدد ملی۔
اہم تجاویز
ورکشاپو ںکے شرکاءنے اپنے مکالموں کے ذریعے کئی نتائج ِ فکر اخذکیے۔یہ کہ پاکستان میں سماجی میل جول اور امن کے قیام کے لیے کیا کچھ ناگزیر ہے۔اہم تجاویز ذیل میں رقم کی جا رہی ہیں۔
شناخت کا سوال
زیادہ تر شرکاءنے یہ سوال اٹھایا کہ لوگوں کے نزدیک شہریت اور مذہبی شناخت دراصل کیا ہے ؟
وسعت اللہ خان نے کہا کہ "جس روز ہم نے یہ طے کر لیا کہ یہ ملک صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ تمام پاکستانیوں کا ہے اس دن ہم اس قابل بھی ہو جائیں گے کہ یہاں پر عدم برداشت کو ختم کر سکیں اور معاشرے میں سماجی ہم آہنگی کو فروغ دے سکیں "۔
رومانہ بشیر نے اس بات پر زور دیا کہ قیام پاکستان کے وقت اس بات کوئی عندیہ نہیں دیا گیا کہ یہ ملک صرف مسلمانوں کا ہو گا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے مذہبی وابستگی سے ہٹ کر سب کو برابر کے شہری قرار دیا۔لیکن یہ ہو نہیں سکا۔"جو آج اکثریت ہے وہ کل اقلیت تھی "۔انہوں نے یاد کروایا۔
کئی مقررین نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کیسے پاکستان کی تاریخ میں مذہب کو قومی مفاد کا لبادہ پہنا دیا گیا ہے۔مذہب کا بہر طور معاشرے میں ایک کردار ضرور ہے تاہم اس کو بھار ت کے ساتھ علاقے اور دریاو¿ں کی تقسیم تک پھیلا دیا گیا ہے۔شاید کچھ لوگ یہ کہیں کہ یہ تو حق اور باطل کی جنگ ہے۔
کچھ شرکاءنے کہا کہ ایک الگ ملک کی تشکیل کے لیے مسلمان اکھٹے تھے جن کے ساتھ اقلیتوں نے بھی حصہ ڈالا۔کچھ نے کہا کہ 1947 میں ہونے والی تقسیم نے مذہبی اور تمام فرقوں کی ہم آہنگی میں ایک لکیر کھینچ دی جس کی وجہ سے نئی مملکت ایک ایسے راستے پر گامزن ہو گئی جس نے آگے چل کر شناخت کا بحران پیدا کیا اور لوگ فرقوں میں بٹ گئے۔
عامر رانا نے جائزہ پیش کیاکہ پاکستانی اپنی شناخت کیا بتاتے ہیں۔انہوں نے کئی سروے رپورٹوں کا حوالہ دیا اور شرکاءسے دریافت کیا کہ ہم ابھی تک کیوں بوکھلاہٹ کا شکارہیں ہم کیوں ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ ہم پہلے پاکستانی ہیں یا مسلمان یا یہ کہ پہلے ہماری کوئی علاقائی شناخت آتی ہے۔انہوں نے کہا کہ جو اپنی مسلم شناخت ظاہر کرتے ہیں وہ یا تو کم آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر وہ نوجوان ہیں۔جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے خیالات ، ان کی سماجی حیثیت یا عمر کے حوالے سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔اساتذہ کو بھی اسی ماحول میں کام کرنا پڑتا ہے۔
ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ ہم عالمگیریت کی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں پر علم اور تنوع پہلے کی نسلی اور مذہبی اساس اور معاشرتی بیانئے کو بدل رہے ہیں۔آج دنیا میں کثیر مذہبی اور ثقافتی معاشرے ہیں جن سے ہمیں باہمی میل جول کے اسباق سیکھنے ہیں۔
تکثیریت اور تنوع معدوم ہو رہے ہیں
شرکاءنے یہ بات نوٹ کی کہ مجموعی طور پر پاکستانی معاشرے میں تشدد بڑھ رہا ہے جہاں پرتکثیریت اور برداشت کا عنصر رخصت ہو رہا ہے۔اس کاا ثر تعلیمی بیانئے اور اداروں پر بھی پڑ رہا ہے۔کچھ لوگوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک ایسا نظام تعلیم رائج ہے جو معاشرے کی طبقاتی ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ نظام کسی حد تک عوا م میں مختلف ثقافتوں اور نظریات کو فروغ دیتا ہے۔
عامر رانا نے بالخصوص اس بات پر زور دیا کہ ہمارے معاشرہ میں جس میں تعلیمی معاملات بھی شامل ہیں وہاں پر تکثیریت اورآزادفکر کی جگہ روز بروز کم ہو رہی ہے۔انھوں نے کہا کہ کم علمی کی وجہ سے ہمارا معاشرہ اجتماعیت سے عاری ہو رہا ہے یا پھر معاشرے کی تعلیمی صلاحیتیں کام کرنا چھوڑ چکی ہیں۔
معاشرے میں تشدد کے رواج کے حوالے سے عمار خان ناصر نے کہا کہ ہم آہنگی اور برداشت کا تعلق ذہنوںسے ہے اور متذبذب اذہان تشدد اور عدم برداشت کے لیے زر خیز ثابت ہوتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ سیاسی اور کمیونٹی رہنماو¿ں کو آگے آ کر اس تذبذب کا خاتمہ کر کے معاشرے کی اصلاح کرنی ہو گی۔
کچھ نے اس کی وجہ فکری انتشار کو بھی قرار دیا۔جب تک یہ رہے گا سماجی ہم آہنگی ممکن نہیں ہو گی۔
تنوع مسئلہ نہیں بلکہ یہ اتحادکے فروغ کا سبب ہے
ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا کہ تنوع میں کوئی برائی نہیں بلکہ تنوع کے باعث ہم میں اتحاد ممکن ہے۔انہوں نے اس کے لیے اسلامی روایات کا حوالہ دیا جہاں پر تنوع موجود تھا۔
اس سے قبل انہوں نے کہاریاست پاکستان نے کیسے یہ کوشش کی کہ لوگوں کو متحد رکھا جائے اس کے لیے انہوں نے سماجی علامتوں سمیت اردو زبان کا سہارا لیا۔اس کے عملی پہلوادب کی بجائے گرامر پر توجہ دی گئی۔سماجی حوالے سے ملک میں تنوع پر زور نہیں دیا گیا۔
مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ تنوع تہذیبوں کی کامیابی کی علامت ہے۔عمار خان ناصر نے کہا کہ اسلامی تہذیب کے مثالی دور میں بھی غیر مسلموں کے علم پر انحصار کیا گیا جبکہ آج دنیا کی کئی تہذیبیں دنیا بھر سے مختلف پس منظر کے لوگوں کو اپنی جانب راغب کرتی ہیں۔
ڈاکٹر خالد مسعود نے مختلف تعلیمی مدارج میں تنوع پر زور دیا۔انہوں نے کہاکہ بنیادی مہارتیں پرائمری لیول پر پڑھائی جائیں نہ کہ ثانوی درجے پر ،جبکہ اعلی ٰ تعلیم میں انہیں مکمل فکری آزادی دی جائے انہیں سوال کرنے کی آزادی دی جائے جس کا جواب اساتذہ دیں۔
کچھ شرکاءنے کہا کہ فر قے در اصل تاویلیں ہیں اس لیے دوسروں کی تاویلوںاور فرقوں کا احترام کیا جائے اور یہی تنوع اور تکثیریت کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔ اختلاف آراءمیں ہو یا تاویلوں میں ، یہ فطری ہے اور اس کو مثبت ہی لیا جانا چاہیے۔
تعلیم کا مقصد
کچھ شرکاءنے کہا کہ تعلیم کا ایک بنیادی مقصد اخلاق یا کردار کی تعمیر ہے مگر اسے پاکستان کے تعلیمی نظام میں نظر انداز کرد یا گیا ہے۔ گورنمنٹ انٹر میڈیٹ کالج کوئٹہ کے شعبہ اسلامیات کے لیکچرار مفتی محمد رفیق نے کہا کہ اخلاقی تعلیم کے بغیر تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے لوگ بھی جاہلوں اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں کی طرح کا برتاو¿ کرتے ہیں۔ جبکہ کچھ شرکاءنے کہا کہ ہمارا تعلیمی نظام لکیر کے فقیر بنا رہا ہے جبکہ تعلیم کا اہم مقصد سوال اٹھانا اور تنقیدی نقطہ نظر پیدا کرنا ہے جو کہ ہمارے تعلیمی نظام میں سرے سے ہی موجود نہیں ہے۔
ان دونوں کی وجہ سے ہمارے طلباءکا رویہ صارفین جیسا ہے انہیں تعلیمی اداروں میں جو کچھ ملتا ہے خواہ وہ ہم آہنگی اور برداشت پرمنفی اثر ہی کیوں نہ ڈالے وہ اسے اختیار کر لیتے ہیں۔
اساتذہ اور تعلیمی اداروں کا کردار
ورکشاپ کے تمام شرکا نے بظاہراس بات پر اتفاق کیا کہ اساتذہ کا تعلق کسی سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے چاہے خواہ ان کا جھکاو¿ کسی بھی جانب ہو۔تعلیمی اداروں کا مقصد صرف تعلیم و تحقیق ہونا چاہیے۔ایک اہم مقرر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ پاکستانی معاشرے میں اساتذہ کو جو عزت واحترام دیا جاتا ہے اس لیے اس کا تقاضا ہے کہ وہ معاشرے میں سماجی ہم آہنگی کے لیے آگے آ کر اپنا کردار ادا کریں۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں دوسرے مذاہب اور عقائد والوں سے بھی سیکھنا چاہیے تاکہ ہم معاشرے کی مجموعی دانش سے استفادہ کر سکیں۔
خورشید ندیم نے ایک صحت مند معاشرے کے لیے اساتذہ کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس مقصد کے لیے انتھک محنت کی جائے۔اساتذہ کے دو اہم کردار ہیں :ایک یہ کہ وہ تعمیری نتائج کے حامل تعلیمی ماحول کو یقینی بنائیں اور دوسرا یہ کہ وہ صحیح معنوں میں ایک تعلیمی نصاب کو تشکیل دیں۔ اگر متذکرہ بالا ان دو سمتوںمیں کام کیا جائے تو پاکستان میں حقیقی معنوں میں مذہبی ہم آہنگی کا حامل معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔
مقررین نے اساتذہ پر زور دیا کہ وہ حقیقی تعلیمی طریقہ اپنائیں۔کچھ نے کہا کہ اگرچہ ہمارا نصاب اوردرسی کتابیںمختلف عقائد کے طلبا میں امتیازات کو پروان چڑھاتی ہیں مگر پھر بھی اساتذہ اس کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
مقررین نے حقیقی اور ایسے مفکرین کی ضرورت پر بھی زور دیا جو معاشرے کی ضرورت کے مطابق علم کو ڈھال سکیں۔ایک نے اس سلسلے میں کہا کہ معاشرے کی ضرورت کے مطابق تحقیقی راہ متعین کرنےوالاہی در اصل انقلابی ہے۔تمام شرکا اس بات پر بھی متفق ہوئے کہ اساتذہ کا کردار نہ صرف تعلیم و تدریس میں ہے بلکہ طلباءکی کردار سازی میں بھی وہ کلیدی کردار کے حامل ہیں۔
اس دوران معروف اسلامی مفکر ڈاکٹر خالد مسعود نے یہ بات زور دے کر کہی کہ اساتذہ کو تنوع اور تغیر کو منفی سمجھنے کی روایت ترک کرنی ہو گی کیونکہ یہ ہماری طاقت ہے۔
سماجی کارکن رومانہ بشیر نے کہا کہ تدریسی کتب نہ صرف جذبات سے عاری ہیں بلکہ اساتذہ بھی پڑھاتے وقت دوسروں کے جذبات کا خیال نہیں رکھتے۔نصابی کتب سے ماوریٰ علم کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ انھوں نے کہا کہ "ایک استاد کو یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ اسے مختلف عقائد کے طلباءکو کیسے مخاطب کرنا ہے "۔ کچھ شرکاءنے کہا کہ وہ اس مسئلے سے مکمل طور پر آگاہ ہیں اور اپنے طلباءکو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔مثال کے طور پر گورنمنٹ کالج بفر زون کراچی کے محمد طاہر عبدالقیوم نے کہا کہ وہ پڑھاتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ ان کے مخاطب مختلف مذاہب اور عقائد کے لوگ ہیں بالخصو ص غیر مسلموں کے جذبات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔اس لیے میری کلاس میں پڑھنے والے طلبا  کلاس کے ماحول میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔اسی طرح گورنمنٹ پاکستان کالج بدین کے اسسٹنٹ پروفیسر مولانا بخش محمدی نے کہا کہ میرا تھر پارکر سے تعلق ہے جہاں پر مسلمان اقلیت میں اور ہندو اکثریت میں ہیں۔میرے 24 سالہ تدریسی تجربے میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ہے کہ کسی ہندو طالب علم نے کوئی شکایت کی ہو۔انھوں نے کہا یہ استاد پر ہی منحصر ہے کہ وہ کلاس کے اندر کس قدر ہم آہنگی کا ماحول قائم رکھتا ہے۔
قاعد اعظم یونیورسٹی آف انجینئرنگ نواب شاہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سیف اللہ بھٹو نے کہا کہ اساتذہ طلباءمیں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دے سکتے ہیں انہیں یہ بتا کر کہ انہیں کیسے ایسی گفتگو کرنے ہے جو دوسروں کے لیے قابل قبول ہو۔مہران یونیورسٹی آف انجنئرنگ سائنسزاینڈ ٹیکنالوجی جام شوروکے پروفیسر عبد الرزاق گھانگرو نے کہا کہ ہمیں پڑھاتے وقت یہ نقطہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ہمارے طلباءکو یہ معلوم نہ ہو سکے کہ ہمارا تعلق کس فرقے سے ہے تاکہ یہ بات ان کی مذہبی تعلیم کو متاثر نہ کر سکے۔بہت سے شرکاءنے یہ بات کہی کہ معاشرے اور کلاس روم میں فرقہ وارانہ تقسیم کو ختم کرنے کے لیے سماجی ہم آہنگی اور برداشت کو فروغ دیا جائے۔اس مقصد کے لیے اساتذہ کو نہ صرف اپنا کردار ادا کرنا ہے بلکہ ان عناصر کی بھی نشاندہی کرنی ہے جو کہ معاشرے میں انتشار کا باعث بنتے ہیں۔ایک شریک گفتگونے کہا کہ وہ ہفتے میں ایک دن اس بات کے لیے مختص کرتے ہیں جن میں سماجی مسائل پر بحث کی جائے اس سلسلے میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات دیئے جائیں۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ہمیں اخبارات و جرائد میں ایسی تحریریں لکھنی چاہئیں جن کے ذریعے یہ پیغام عام ہو۔
ریاست اور معاشرے کا کردار
زیادہ تر شرکاءجن میں سے کچھ نے صراحتاً اور کچھ نے خفیف انداز میں یہ بات کہی کہ پاکستانی ریاست اقلیتوں میں برابر کی شہریت اور تحفظ کا احساس اجاگر کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔وہ یہ بات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ باہر کی دنیا پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے اطوار سے خوش نہیں ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے کیونکہ اس طرح باہر کی دنیا میں پاکستان کا مثبت تصور اجاگر ہوتا ہے۔
انہوں نے یہ بات بھی محسوس کی کہ اکثریتی فرقے کے لوگوں کو اس بات کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی اقلیتوں پر تھوپ سکیں۔اس لیے کئی شرکاءنے کہا کہ حکومت کو اس سلسلے میں کوئی واضح پالیسی تشکیل دینی چاہیے جو کہ نہ صرف سماجی اور مذہبی رواداری کو فروغ دے بلکہ اقلیتوں کے خلاف مظالم کو بھی بند کروائے۔
اس موقع پر ڈاکٹر سید جعفر احمد نے کہا کہ تکثیریت پر مبنی معاشرے کاقیام ریاست کی پالیسی ہونی چاہیے تھی تاکہ تمام شہریوں کو ترقی کے مساوی مواقع دستیاب ہوتے اس سے بقائے باہمی کو فروغ ملتاجس کا اظہار قائد اعظم نے 11 اگست 1947 کو قانون ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں کیا تھاجس میں انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ ریاست کو کسی کی مذہبی وابستگی سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔جس کا مطلب تھا کہ بانی پاکستان ایک ایسا آئین چاہتے تھے جو اکثریت اور اقلیت کا تحفظ برابری کی بنیاد پر کرے۔
کچھ شرکاءنے بیرونی عوامل کی بھی نشاندہی کی بالخصوص پاکستان کی خارجہ پالیسی اور افغان جنگ میں اس کا کردار جس کی وجہ سے معاشرے میں انتشار کو فروغ حاصل ہوا۔ایک شریک گفتگو نے کہا کہ پاکستان میں عدم ہم آہنگی کی جڑیں دو بڑی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ میںہیں جنہوں نے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔
خورشید ندیم نے یہ بات بھی اٹھائی کہ معاشرے اور تعلیم کا آپس میں کیا تعلق ہے کیا تعلیم معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہے ؟یا پھر اس بات کا فیصلہ معاشرہ کرتا ہے کہ اسے کیا پڑھنا ہے اور کیا نہیں ؟ اس لیے سماجی ہم آہنگی کے لیے اساتذہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہے انھوں نے کہا کہ اگر تعلیم کا مقصد معاشرے کوکوئی راہ دکھلانا ہے تو یہ کام اساتذہ کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے لیکن اگر اساتذہ نے یہ کردار ادا نہ کیا تو پھر معاشرہ خود جس تعلیم کی جانب جائے گا اس میں رہنماو¿ں کا کردار اہم ہو گا۔جبکہ کچھ کا خیال تھا کہ مسئلے کی وجہ ریاست اور معاشرے ،صوبوں اور مرکز کے تعلقات ہیں جو پاکستان میں عدم ہم آہنگی کی وجہ بنتے ہیں۔

تعلیم شدت پسند نظریات اور انتہا پسندی کی ایک وجہ ہے
بہت سے مقررین اور کچھ شرکاءنے اس بات پر اتفاق کیا کہ شاید ایسا ہی ہے۔سینٹر فار ایکسیلنس کراچی کی سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر خالدہ غوث نے کہا کہ سماجی نا انصافیوں کے پروردہ مختلف تعلیمی نظام پاکستان میں سماجی عدم مساوات اور مذہبی عدم برداشت کی ترویج کر رہے ہیںجس کی وجہ سے پاکستان میں ہم آہنگی کا فقدان ہے۔اس کے لیے پہلے سماجی ، تعلیمی ، مذہبی ، قانونی اور نسلی بنیادوں پر کھڑے اپنے ڈھانچے کو بدلنا ہو گا کیونکہ ہمارا معاشرہ ایک جذباتی معاشرہ ہے یہاں منطقی سوچ کا فقدان ہے جو معاشرے کو برادشت کے عنصر کی طرف لے جاسکے۔
ایک شریک کار نے کہا کہ ہمیں ابہام کو ختم کرنا ہو گا اور معاشرے کی بنیادیں علم پر استوار کرنی ہوں گی کیونکہ مبہم ذہن ،انتہا پسندی کی طرف جلد راغب ہو جاتے ہیں۔شرکاءنے کہاکہ اس مقصد کے لیے مفکرین آگے آئیں ،کسی کو بندوق پکڑانا آسان ہے مگر اس سے واپس لینا مشکل ہے۔اس لیے ایک ایسے نصاب کی ضرورت ہے جس کو مفکرین اتفاق رائے سے سامنے لائیں۔
تنقیدی سوچ پروان چڑھانے کی اہمیت
شرکاءنے یہ بات تسلیم کی کہ ہمارا تعلیمی نظام طلباءکے اندر تنقیدی سوچ کو پروان چڑھانے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ طلباءکو تحقیق کی جانب راغب کرنے کے لیے یونیورسٹیوں کو بھی اپنی ڈگر تبدیل کرنی ہو گی۔کچھ علوم کا خاصا ہے کہ انہیں کورے ذہن کی ضرورت ہوتی ہے یعنی آپ یہ جانیں کہ آپ کچھ نہیں جانتے۔ہم مختلف مکاتب فکر کے زیر اثر رہتے ہیں لیکن کسی وقت کچھ سیکھنے کے لیے اپنا دامن وسیع کرنا پڑتا ہے۔ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ 1980 کی دہائی میں جو تبدیلیاں آئیں انہوں نے دنیا کے بارے میں ہمارا نظریہ بدل کے رکھ دیا۔یہاں سب کچھ مذہب کے نام پر کیا گیا کیونکہ ہم تنقیدی زاویئے سے سوچتے ہی نہیں ہیں۔ہم نے ایسے بت تراش رکھے ہیں جن کی کوئی عملی حیثیت نہیں ہے۔
ایک شریک کار نے کہا کہ تحقیق پر مبنی تدریس انتہائی ضروری ہے لیکن یہاں لوگ ایسی تقریریں داغ رہے ہیں جن کے پیچھے کوئی علمی توجیح نہیں ہے اس لیے باہر کی دنیا ہم پر ہنستی ہے۔یہ بھی معاشرے میں عدم ہم آہنگی کی وجہ ہے۔
ڈاکٹر اے ایچ نیئر نے کا کہ اساتذہ کلاس روم کے اندر ایسا ماحول پیدا کریں جس میں سوال اٹھانے والے طلباءکی حوصلہ افزائی ہو۔
میڈیا کا کردار
تعلیمی اداروںمیں تحقیقی رجحان نہ ہونے کی وجہ سے وہ میڈیا کی معلومات پر بھروسہ کرتے ہیں جس سے مسئلہ شدت اختیار کر جاتا ہے۔عامر رانا نے کہا کہ پاکستان ان ملکوں کی فہرست میں بہت نچلے درجے پر ہے جو کہ تحقیق کے لیے گوگل سکالر سے مدد لیتے ہیں۔ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا کہ پاکستانی جن میں اساتذہ بھی شامل ہیں ان کی معلومات کے ذرائع زیادہ تر اخبارات ہیں ،جہاں اکثر اوقات درست معلومات نہیں ہوتیں۔صحافی وسعت اللہ خان نے بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ صرف اس لیے کہ یہ بات اخبار میں آئی ہے اس کی صداقت کی دلیل نہیں ہو سکتی۔کئی لوگ اس بات پر سیخ پا ہوئے کہ میڈیا تفرقات کوسامنے لاتا ہے مگر وہ مشترکات کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ڈاکٹر راغب نعیمی نے کہاکہ برداشت کا عنصر تو کچھ میڈیا کے پروگراموں میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔جس سے اتفاق کرتے ہوئے وسعت اللہ خان نے کہا کہ جن کے پروگراموں میں لڑائی ہوتی ہے ریٹنگ بھی انہی کی آتی ہے اس لیے کون ہو گا جو کہ فکری گفتگو کی حوصلہ افزائی کرے گا۔انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ میڈیا کا یہ کرادر نہیں کہ وہ سماجی ہم آہنگی پیدا کرے لیکن میں کہتا ہوں کہ کیا میڈیا کا یہ کردار ہے کہ وہ منافرت پیدا کرے۔؟میڈیا کو غیر جانبدار رہنا چاہئے۔وسعت اللہ خان نے کہا کہ آج کے پاکستان کے مقابلے پر 1960 کا پاکستان زیادہ روادار تھاجہاں طلباءکو ہندو اور مسلم کی تفریق کے ساتھ نہیں پڑھایا جاتا تھا۔انہوں نے 1970 کے اخبارات کا حوالہ بھی کہ انڈیا میں اگر کوئی نسلی فساد بھی ہو جاتا تو میڈیا اسے ہندو مسلم فساد بنا کر پیش کرتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ صرف میڈیا کو مورد الزام قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اگر میڈیا کے لوگ پڑھے لکھے ہی نہ ہوں توحق و باطل میں وہ تمیز ہی نہیں کر سکیں گے تو پھر انہیں مورد الزام کیوں ٹھہرایا جائے۔
قانون کی عملداری کئی مسائل کا حل ہے
کرسچئن سٹڈی سینٹر راولپنڈی کی ڈائریکٹر جینی فر کرسٹین نے آئین پاکستان میں موجود اقلیتوں کے حقوق کے تحفط کی شقوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 36 انہیں تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔آرٹیکل 22 واضح طور پر کہتا ہے کہ تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم کسی بھی شخص کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے یا کسی مذہبی تقریب میں حصہ لینے یامذہبی عبادت میں شرکت پر مجبور نہیں کیا جائے گا اگر ایسی تعلیم یا تقریب یا عبادت کا تعلق اس کے اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب سے ہو۔ انہوں کہا کہ آئین میں دی گئی ان ضمانتوں کو زیادہ تعلیمی اداروں میں پامال کیا جا رہا ہے۔
توجہ طلب اور نازک امور
مقررین اور شرکاءنے اس بات پر بھی زور دیا کہ کچھ امور ایسے ہیں جن پر توجہ دئے بغیر پاکستان کا نظام تعلیم سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کو فروغ نہیں دے سکتا۔
باعث ِ نزاع اور امتیازات سے بھر پور نصاب
عامر رانا نے اساتذہ سے پوچھا کہ سماجی ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ وہ کس کو گردانتے ہیں اور اس کے خاتمے کے لیے کیا تجویز کرتے ہیں۔کیونکہ یہ بات تو واضح ہے کہ شدت پسندی کی ایک وجہ یہ نزاعی نصاب ہے جو طلباءکو مزید تقسیم کر دیتا ہے۔کچھ اساتذہ نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ وہ پڑھاتے وقت جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ نصاب سازی کے امور پر معمور ادارے اساتذہ کی رائے لیتے ہی نہیں ہیں۔مگر کچھ لوگوں نے کہا کہ اساتذہ سے رائے لی جاتی ہے مگر وہ ان اجلاسوں میں جاتے ہی نہیں ہیںکیونکہ یہ ایک تھکا دینے والی سرگرمی ہوتی ہے۔کچھ شرکاءنے کہا کہ جب تک مشترکہ نصاب نہیں ہو گا ہم آہنگی ایک خواب ہی رہے گی۔کیونکہ اس کے کچھ حصے ایسے ہیں جو دوسرے مکاتب فکر کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔ایک شریک کار نے کہا کہ ہم آہنگی کیسے قائم ہو گی جب معاشرہ اور اساتذہ دو متضاد سمتوں کی جانب گامزن ہو ں گے۔ممتاز ماہر تعلیم ڈاکٹر اے ایچ نیئر نے کہا کہ نصاب تعلیم میں کچھ بنیادی تبدیلیوں کے بغیر مذہبی برداشت اور ہم آہنگی قائم نہیں کی جا سکتی۔پرائمری ، ہائی سکول اور کالج کی سطح پر نصاب میں کچھ ایسی چیزیں شامل ہیں جن میں غیر مسلموں کے خلاف نفرت کی بات کی گئی ہے یہ غیر مسلموں کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔اس لیے نصاب پر نظر ثانی کی جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ دلائل سے بھر پور مکالمہ اور دوسروں کی دلیل سننے کا حوصلہ علم کے حصول کے لیے ضروری ہے جس سے معاشرے میں ایک دوسرے کے بارے میں گنجائش بڑھتی ہے جس سے ہم آہنگی کو فروغ مل سکتا ہے۔رومانہ بشیر نے بھی ان مسائل کی جانب توجہ مبذول کروائی جو اس وقت غیر مسلموں طلباءکو درپیش ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری درسی کتب غیر مسلموں کے خلاف بر انگیختہ جذبات سے بھری پڑ ی ہیں ہمارا نصاب طلباءمیں اختلافات کو ہوا دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اساتذہ کے لیے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
وسعت اللہ خان نے کہا کہ ہمارا مجموعی ڈھانچہ ایسا بن گیا ہے کہ اس میں اقلیتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی۔یہ رویہ عام ہے کہ ہم ہر سطح پر سچ کو جھٹلاتے ہیںاور ہماری اس روش سے تعلیم اور علم بھی نہیں بچ سکے۔
غیر مسلموں کے بارے میں فرضی تصورات
پاکستانی معاشرے میں غیر مسلموںاور ان کے مذاہب کے بارے میں بہت سی غیر حقیقی باتیں موجود ہیں۔کئی شرکاءنے اس جانب اشارہ کیا کہ یکساں اور جامع تعلیمی بیانیہ ہی اقلیتوںجیسا کہ ہندو¿ں اور عیسائیوں کے بارے میں پائے جانے والے غلط العا م تصورات کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ اسلامیات سمیت ہمارے ہاں مذاہب کی تعلیم کا رواج نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے تقابل ادیان کو بھی اسلامیات کے اندر شامل کر رکھا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ہمارے اساتذہ نے کبھی عیسائیت ، ہندومت، بدھ مت وغیرہ کا بھی مطالعہ کیا ہے ؟تاکہ ان مذاہب کی تشریح بھی ان کی آفاقی کتب کی روشنی میں کی جا سکے۔ تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ان مذاہب کی حیثیت ان کے عہد ناموں کی روشنی میں کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کیا ہم سے کوئی ایسا ہے کہ جس نے بدھ مت کی تعلیمات کا مطالعہ پالی زبان میں بدھ مت کی کتابوں سے کیا ہو۔کیا ہم میں سے کوئی ہے جس نے ہندو مت اور عیسائیت کا مطالعہ بھی اسی انداز میں کیا ہو۔شاید یہی وجہ ہے کہ جب بھی ہم دوسرے مذاہب کے بارے میں کوئی بات کرتے ہیں تو ان مذاہب کے ماننے والے کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔
ایک شریک گفتگو نے تجویز کیا کہ تمام تعلیمی اداروں بالخصوص مذہبی اداروں میں دوسرے مذاہب کے بارے مثبت چیزیں لازمی پڑھائی جائیں اس سے نہ صرف بین المذاہب ہم آہنگی کے قیام بلکہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے بارے میں جو تاثر قائم ہو چکا ہے اس کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔
کئی دوسرے شرکاءنے کہا کہ جو متشدد اور غیر متشدد مذہبی گروہ اس طرح کی فضا پیدا کریں جس میں مذہبی و سماجی ہم آہنگی کو خطرہ ہو تو ان پر پابندی لگا دینی چاہیے تاکہ یہ تنظیمیں پھل پھول نہ سکیں۔
اختصاصی تاریخ
سماجی کارکن جینی فر نے بتایا کہ غیر مسلموں نے تحریک پاکستان میں کتنا اہم کردار ادا کیا جس کی تعریف بانی پاکستان نے بھی کی۔پاکستان کا دل پنجاب کی پاکستان میں شمولیت ایک عیسائی ایس پی سنگھا کے ووٹ کی بدولت ہوئی۔اسی طرح غیر مسلم پاکستان کے دشمنوں کے خلاف شانہ بشانہ لڑے۔مگر یہ ہماری تاریخ یا نصاب کا حصہ نہیں ہے۔ کئی شرکاءنے جینی فر کے خیالات سے اتفاق کیا۔رومانہ بشیر نے کہا کہ ملک میں سماجی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو مکمل تاریخ پڑھائیں بالخصوص قیام پاکستان میں غیر مسلموں کے کردار کے بارے میں انہیں آگاہ کریں۔
نصاب ساز اور درسی کتب نویس
کچھ شرکاءنے اس رائے کا اظہار بھی کیا کہ نصاب کے مرتبین اور درسی کتب کے مصنفین میں تربیت کا فقدان ہے جس کی وجہ سے وہ ایسے مسائل جن کا تعلقہم آہنگی اور مذہبی برداشت سے ہوتا ہے ان کا ادراک ہی نہیں کر پاتے۔کچھ نے کہا کہ نصاب سازی میں اساتذہ اور تعلیمی اداروں کا کردار محدود ہے۔
غیر مسلموں کے لیے برابر کی شہریت
مقررین نے قومی یکجہتی میں مذہب اور نظریات کے کرادر پر بھی روشنی ڈالی جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ غیر مسلموں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ رومانہ بشیر نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ غیر مسلموں کو برابر کا شہری تسلیم نہ کیے جانے کی وجہ سے ان میں عدم تحفظ اور خوف سرایت کر گیا ہے۔جس کی وجہ سے پاکستان میں اقلیتوں کو سماجی ، تعلیمی اور مذہبی میدانوں میں کئی چیلجز کا سامنا ہے۔انہوں نے کہا بدقسمتی یہ ہے کہ یہ چیلنج وقت کے ساتھ کم نہیں ہو رہے بلکہ بڑھ رہے ہیں۔
کلاس روم کے اندر امتیازات
شعبہ اسلامیات کے اساتذہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ کلاس روم میں موجود تنوع کے ہوتے ہوئے کیسے پڑھائیں۔مقررین نے اس بات کا برملا اظہار کیاکہ نصاب میں کئی چیزیں بحث طلب ہیںلیکن پھر بھی یہ اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ پڑھاتے وقت اس بات کو ملحوظ ِ خاطر رکھیں کہ کہیں کسی دوسرے مکتب فکر یا مذہب کے ماننے والوں کے جذبات تو متاثر نہیں ہو رہے۔رومانہ بشیر نے کہا کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے بچوں کو سکولوں میںاساتذہ کی جانب سے امتیازی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچتا ہے۔کچھ تجاویز یہ بھی آئیں کہ جن میں کہا گیا کہ ہم آہنگی اور برداشت کو فروغ دینے کے لیے اساتذہ کی سخت تربیت کی جائے۔جبکہ کچھ نے کہاکہ اساتذہ کی تعیناتیوں میں یہ بات مدِنظر رکھی جائے۔ایک شریک گفتگو نے کہا کہ جس کو اور کوئی نوکری نہیں ملتی وہ آخر میں استاد بن جاتا ہے۔
تعلیم سے منسلک تاریخی اور نظریاتی حساسیت
کچھ شرکاءنے ا س بات پر بھی غور کیا کہ تعلیمی نصاب اور میڈیا میں کس قدر انڈیا کو مرکزیت حاصل ہے جس کو مذہبی رنگ دے کر معاملے کی شدت بڑھا دی گئی ہے۔ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ آج بھی تعلیم کے میدان میں کچھ تاریخی اور نظریاتی حساسیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ تعلیم کے جدید اور نئے مسائل کو زیر بحث نہیں لایا جاتا۔انہوں نے کہا کہ ہماری یونیورسٹیوں کا دائرہ بھی محدود ہے۔ہمیں اپنی نئی نسلوں کی ترجیحات اور ضروریات کاادراک کرنا ہو گا۔اسلامیات پڑھانے والوں کو پڑھانے کے نئے رجحانات ٹویٹنگ اور بلاگنگ کی طرف بھی جانا ہو گا۔
مدرسہ اور یونیورسٹی میں فاصلہ
ایک شریک کار نے دنیا کے بارے میں مدرسے اور یونیورسٹیوں کے طلباءکے نقطہ نظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگرچہ مدرسے کے طلباءفطری سائنس کے مضامین پر کوئی توجہ نہیں دیتے اسی طرح یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو مذہب کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔آزاد جموں کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کی لیکچرار ثوبیہ خانم نے کہا کہ مدرسوں کے طلباءکا تعلق کم آمدنی والے طبقات سے ہوتا ہے۔اس لیے اس فاصلے کو مٹانے کی ضرورت ہے۔گورنمنٹ ڈگری کالج کوئٹہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سید باچا آغا نے کہا کہ جو کچھ مدارس میں پڑھایا جا رہاہے اس سے مدارس اور کالج کے طلباءکے مابین فاصلے بڑھ رہے ہیںلوگ مجھ سے اس کی وجہ پوچھتے ہیں۔اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اسلامیات اسلامیہ یونیورسٹی بہالپور ڈاکٹر ضیاءالرحمٰن نے کہا کہ مدارس اور یونیورسٹیوں کے طلباءکو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے ان کے درمیان رابطے بڑھائے جائیں تاکہ پاکستان میں سماجی ہم آہنگی ممکن ہو سکے۔
نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد کے شعبہ تاریخ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عبد الغفار بخاری نے کہا کہ مختلف تعلیمی نظام جو کہ مختلف پرائیویٹ اور مذہبی اداروں اور ان کے نصاب ہائے تعلیم پر مشتمل ہیں وہ معاشرے میں انتشار کا باعث بن رہے ہیں۔
ورکشاپ سے قبل ہونے والا سروے
اساتذہ کی نظر میں سماجی ہم آہنگی
ورکشاپوں سے قبل سروے فارم اساتذہ میں تقسیم کیے گئے۔کل تین ورکشاپوں میں 101 اساتذہ شریک ہوئے 99نے سروے فارم پر±کیے۔اس سروے کا مقصد یہ جاننا تھا کہ سماجی ہم آہنگی کے فروغ میں اساتذہ اور تعلیمی اداروں کا کردار کیا ہے ،ان کے کردار کا معاشرے پر کیا اثر ہوتا ہے اور اس سے متعلقہ دیگر مسائل کیا ہیں۔سروے میں یہ جائزہ لینے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے بارے میں اساتذہ کیا سوچ رکھتے ہیں۔ورکشاپوں کے شرکاءکی علاقائی تقسیم کا جائزہ چارٹ نمبر ایک میں دیا گیا ہے۔

93 فیصد جواب دہندگان یہ یقین رکھتے ہیں کہ اساتذہ اور تعلیمی ادارے سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے فروغ میں اپنا کردار رکھتے ہیں اور وہ طلباءاور معاشرے دونوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔تاہم 7 فیصد جواب دہندگان کا جواب مختلف تھا لیکن سندھ اور بلوچستان گروپ سے کسی نے بھی اس کا جواب نفی میں نہیں دیا۔

تمام شرکاءتو اس پر متفق نہیں تھے تاہم غالب اکثریت یعنی 93 فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ اساتذہ سماجی ہم آہنگی اور رواداری کے قیام میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔صرف 58 فیصد نے کہا کہ اساتذہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔تقریباً 33 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ اساتذہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہے (یہ رائے دینے والوں میں سے 40 فیصد کا تعلق سندھ اور بلوچستان کے گروپ سے تھا)جبکہ 9 فیصد نے اس سوال کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اساتذہ جو کردار ادا کرہے ہیں اس کا کوئی اثر معاشرے پر ہو بھی رہا ہے یا نہیں تو 61 فیصد نے کہا کہ "ہاں"،30 فیصد نے کہا کہ "نہیں "جبکہ 9 فیصد نے کوئی جواب نہیں دیا۔خیبر پی کے ، فاٹا اور گلگت بلتستان کے گروپوں کی اکثریت نے کہا کہ اساتذہ کے کردار کا معاشرے پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔

ایک سوال جو کہ ورکشاپوںسے قبل شرکاءسے پوچھا گیا کہ طلباءاور معاشرے میں سماجی ہم آہنگی اور برداشت کے فروغ میں اساتذہ کے کرادر کی غیر فعالیت کی کیا وجوہات ہیں تو 52 فیصد نے کہا کہ اساتذہ اس مسئلے کا مکمل ادراک نہیں رکھتے لیکن 39 فیصد نے کہا کہ اساتذہ کو اس میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی۔جبکہ 31 فیصد نے کہا کہ اساتذہ یہ سمجھتے نہیں کہ اس ضمن میں ان کا کوئی کردار ہے۔دوسرے علاقوں کے مقابل میں یہ رائے زیادہ تر پنجاب کے گروپ سے آئی جن کا خیال تھا کہ اس ضمن میں اساتذہ کی غیر فعالیت کی وجوہات میںیہ بھی وجہ ہے کہ وہ اس مسئلے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے اور نہ ہی اس کا مکملادراک رکھتے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کیا ان کے طلباءنے کبھی سماجی ہم آہنگی کے بارے میں ان سے کوئی سوال پوچھا تو 74 فیصد نے کہا کہ "ہاں"اور 26 فیصد نے کہا کہ "نہیں "۔وہ شرکاءجنہوں نے کہا کہ "نہیں "ان کا تعلق خیبر پی کے ، فاٹا اور گلگت بلتستان سے تھا۔جبکہ 74 فیصد نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے طلباءان سے ایسے کردار کی توقع کرتے ہیں یا کم از کم اس مسئلے کوسمجھنے کے لیے ان کی راہنمائی چاہتے ہیں۔

تقریباً 45 فیصد اساتذہ سماجی ہم آہنگی اور برداشت کے فروغ میں اپنے کردار کے بارے میں کسی حساسیت سے دوچار نہیں ہیں۔42 فیصد شرکاءکہتے ہیں انہیں حساسیت ہو سکتی ہے (یہ رائے دینے والوں میں سے زیادہ تر کا تعلق سندھ اور بلوچستان کے گروپ سے تھا)۔جبکہ 13 فیصد نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔

کچھ سوالوں کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ شرکاءکے سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے بارے میں عمومی خیالات کیا ہیں۔تقریباً تمام شرکاءیعنی 99 فیصد نے کہا کہ معاشرے میںسماجی ہم آہنگی اور برداشت کا نہ ہوناایک مسئلہ ضرور ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ مسئلہ کس قدراہمیت کا حامل ہے۔

شرکاءسماجی ہم آہنگی اور رواداری کے نہ ہونے کی وجہ سے ہونے والے منفی اثرات سے کماحقہ آگاہ تھے۔تمام جواب دہندگان میں سے 40 فیصد یہ یقین رکھتے ہیں کہ سماجی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ کم ہوتی ہوئی برداشت بھی ہے۔تاہم صرف 3 فیصد نے کہا کہ سماجی ہم آہنگی کا فقدان مذہبی منافرت پر منتج ہوتا ہے۔مزید نقصانات کا اظہار چارٹ نمبر 9 میں کیا گیا ہے۔

58 فیصد نے جواب دیا کہ حکومت اور مذہبی مفکرین پاکستان میں سماجی و مذہبی رواداری کے فقدان کے ذمہ دار ہیں۔صرف 8 فیصد نے کہا کہ اس کا ذمہ دار معاشرہ ہے۔جبکہ 15 فیصد جواب دہندگان جن میں سے زیادہ تر کا تعلق سندھ اور بلوچستان سے تھا انہوں نے کہا کہ معاشرے میں ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ فرسودہ روایات و اقدار بھی ہیں۔

ورکشاپ کے بعد کا سروے
ورکشاپ کتنی مو¿ثر ثابت ہوئی ؟
ورکشاپ کے بعدکے سروے میں زیادہ تر سوالات اس بات کا احاطہ کرتے تھے کہ ورکشاپ کے بعد ان پر اس کا کیا اثر ہوا ہے اور وہ مستقبل میں برداشت کے فروغ اور جامع تعلیمی بیانیہ کی تشکیل میں کیا کردار اد ا کریں گے۔اس سروے میں یہ کوشش بھی کی گئی اس میں جو موضوعات زیر بحث آئے ان کی وجہ سے اساتذہ کی رائے میں کیا تبدیلی رونما ہوئی ہے۔کل 101 جواب دہندگان میں سے 94 نے ورکشاپ کے بعد سروے میں حصہ لیا جن کی علاقائی تقسیم چارٹ نمبر 11 میں بتائی گئی۔

مجموعی طور پر پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے شرکاءکے ساتھ جو تبادلہ خیالات کیا اس کے نتیجے میں یہ بات واضح طور پر سامنے آئی کہ برداشت اور جامع تعلیمی بیانئے کی ضرورت کے بارے میں ان کی معلومات بڑھی ہیں اور اب وہ اس قابل ہیں کہ وہ مختلف عقائد رکھنے والے کو غیر امتیازی طریقے سے پڑھا سکتے ہیں۔ مکالمہ نما تربیتی ورکشاپوںکا مقصد غیر عقلی اور امتیازی نصاب کے ہوتے ہوئے بہتر تدریس کو ممکن بنانا تھا۔شرکاءاس بات پر بھی متفق پائے گئے کہ امتیازی اور عدم برداشت کے حامل تعلیمی نظام پر اس سر نو غور کیا جائے۔ساتھ ہی انہوں نے تعلیمی نظام کو نئے سرے سے مرتب کرنے کے لیے اپنی بھر پور تجاویز بھی دیں تاکہ بین المذاہب اور سماجی ہم آہنگی تعلیمی نظام کا منتہا ومقصود بن جائے۔سروے میں شرکاءکی جانب سے دی جانے والی تجاویز درج ذیل ہیں :
شرکاءکی اکثریت یعنی 98 فیصد نے کہا کہ ان ورکشاپوں سے انہیں مسئلے کے ادرا ک میں مدد ملی ہے اور ساتھ ہی یہ سمجھنے میں بھی کہ سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کا تعلیم سے کیا تعلق ہے۔

ساتھ ہی اکثریت یعنی 95 فیصد نے کہا کہ انہیں ورکشاپ کے بعد حتمی تجاویز کی تیاری میں شامل رکھا گیا ہے جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ تجاویز پر سب کا اتفاق تھا۔صرف دو فیصد جواب دہندگان جن کا تعلق سندھ اور بلوچستان سے تھا انہوں نے کہا کہ ان کی آراءکو نظر انداز کیا گیا ہے۔جبکہ تین فیصد نے کوئی جواب نہیں دیا۔
جواب دہندگان میں سے 93 فیصد نے کہاکہ گروپ مکالموں میں ان کی تجاویز پر غور کیا گیا ہے اس وقت بھی جب ان تجاویز کو حتمی شکل دی جارہی تھی۔دو فیصد جواب دہندگان جن کا تعلق پنجاب ، اسلام آباد اور آزاد کشمیر سے تھا انہوں نے کہا کہ ان کی آراءکو نظر انداز کیا گیا ہے۔اور پانچ فیصد نے کوئی جواب نہیں دیا۔
غالب اکثریت یعنی 94 اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ جو تجاویز تیار کی گئی ہیں وہ قابل عمل ہیں۔جبکہ باقی چھ فیصد نے کوئی جواب نہیں دیا۔

سو فیصد شرکاءاس بات پر متفق پائے گئے کہ وہ تجاویز جن کا تعلق اساتذہ اور ان کی تدریسی ذمہ داریوں سے ہے اس بار ے میں وہ دوسرے اساتذہ اور طلباءکو بھی اس بارے میں آگاہی دیں گے۔

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا اس ورکشاپ نے اس موضوع پر ان کی پہلے سے موجود رائے پر کوئی اثرات مرتب کیے ہیں ؟تو 96 فیصد نے کہا کہ ہاں ، جبکہ خیبر پختونخواہ ، فاٹااور گلگت بلتستان کے ایک فیصد نے نفی میں جواب دیا۔

تجاویز
• تین خصوصی گروپ جنہیں ہر ورکشاپ میں ترتیب دیا گیا تھا انہوں نے کئی ایک تجاویز دیں مگر جن پر اتفاق پایا گیا انہیں حتمی تجاویز میں اکھٹا کر دیا گیا جن کا اجراءآخری ورکشاپ کے آخری روز کیا گیا۔یہ حتمی آراءدر حقیقت ان تمام تجاویز کی ایک بہتر شکل تھی جو اس طرح کی پہلے والے اجلاسوںمیں سامنے آئی تھیں۔
• برداشت اور سب کے لیے قابل قبول تعلیمی بیانئے کے لیے جو تجاویز سامنے آئیں ان کا اختصاریہ ذیل میں رقم کیا جاتا ہے۔
• مدارس، فرقہ وارانہ گروہوں اور اقلیتوں کے مابین مکالمے کو فروغ دیاجائے۔
• سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں اور مدارس کے مابین پائے جانے والے فاصلوں کی فصیل کم کرنے کے لیے انتھک کو ششیں کی جائیں۔
• آئین کے تحت یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقلیتوں اور محروم طبقات میں پائے جانے والے عدم تحفظ کے احساس کو ختم کرے۔
• ہم آہنگ اور تمام طبقوں کے لیے قابل قبول نصاب جو جدید دور کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہو اس کی حوصلہ افزائی کی جائے بلکہ نصاب کو تخلیق واختراع کا حامل ہونا چاہیے۔
• موجودہ نصاب میں نفرت انگیز اور متنازعہ مواد کو خارج کیا جائے۔
• نصاب میں دوسرے مذاہب کے بارے میں مشترکات کو اجاگر کیا جائے نہ کہ ان کے ساتھ اختلافات کو ابھارا جائے۔
• دوسرے عقائداور فرقوں کے بارے میں تعلیم حاصل کی جائے اور تعلیمی نظام کے اندر اس مکالمے کو فروغ دیا جائے۔
• سماجی ہم آہنگی سے متعلقہ اسباق کو پرائمری اور سیکنڈری لیول کے نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
• تعلیمی نصاب میں تحقیق اور سوال اٹھانے کے عمل کی حوصلہ افزائی کی جائے۔کیونکہ پوچھ تاچھ ، اخلاقیات اور کردار سازی ہی تعلیم کا منتہا و مقصود ہے۔
• تمام یونیورسٹیوں کے نصاب کو اکھٹا کر کے ان پر غور کر کے ان میں اصلاحات لائی جائیں۔
• خواتین کی تعلیم اور معاشرے میں ان کے کردار کو اجاگر کیا جائے۔بچوں کا پہلا سکول گھر ہوتا ہے
ا س مناسبت سے معاشرے میں عدم ہم آہنگی اور مذہبی منافرت کے خاتمے میں خواتین اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
• طلباءکو تعلیم کی فراہمی میں تعلیمی اداروں کا کردار مکمل غیر جانبدار ہونا چاہیے۔
• مدرسوں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں مختلف مکاتب فکر کے بارے میں پڑھائے جانے والے منافرانہ مواد کا خاتمہ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ز کی ذمہ داری ہے۔مدارس فرقہ وارانہ دھارے سے خود کو آزاد کروائیں۔
• استاد اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو پہچانیںاور اس تناظر میں اپنا کردار ادا کریں۔
• ریاست اور سول سوسائٹی کی جانب سے اساتذہ کے تربیتی پروگراموں کا دائرہ بڑھایا جائے۔
• اساتذہ کاا نتخاب کرتے وقت یہ دیکھا جائے کہ وہ سماجی اور مذہبی ہم آہنگی کے لیے کتنے ممدو معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
• مجموعی طور پر معاشرے کو سماجی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے آگے آنا ہو گا۔تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ وہ برداشت اور سماجی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے کہاں کہاں پر اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
• یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے اور تعلیمی اداروں میں تکثیریت کو فروغ دے۔
• معاشرے میں اتحاد ناگزیر ہے مگر یہ تنوع کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔
• استادتمام فرقوں اور عقائد کے طلباءکے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں۔اس لیے اس حوالے سے بھی وہ اپنا جائزہ لیں۔
• ایک استاد کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے طلباءکی جانب سے پوچھے جانے والے سوالوں کا جواب دینے کے لیے اپنے متعلقہ مضمون پر دسترس حاصل ہوتاکہ وہ ان میں برداشت اور ہم آہنگی پیدا کر سکے۔ایک استاد کو ماہر نفسیات ہونا چاہیے تاکہ وہ طلباءکے رویوں کا اندازہ کر کے انہیں مناسب رہنمائی فراہم کرے۔
• اساتذہ کو اپنے کلاس روم کے طلباءمیں مذہبی رواداری کو فروغ دینا چاہیے۔ریاست بھی اس مقصد کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے جن سے اساتذہ کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔
• خواتین کے مدرسوں کے اساتذہ اور طالبات کو بھی سماجی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے کی جانے والی سرگرمیوں کا حصہ بنایا جائے۔
• مستقبل میں بھی ایسی سرگرمیاں جاری رکھی جائیں جن کے مد نظر درج ذیل نکات ہوں:
• تمام شعبہ جات کے اساتذہ اور طلباءکے ساتھ مکالمہ کیا جائے کیونکہ ہم آہنگی کا فروغ سب کی ذمہ داری ہے۔
• میڈیا کو ایسی تربیتی ورکشاپوں کو اجاگر کرنا چاہیے اس کے ساتھ ہی میڈیاایسی خبریں پھلانے سے اجتناب کرے جن میں انتشار پھیلے ، فرقہ واریت اور تشدد کو ہوا ملے۔
• ایسی ورکشاپوں کا انعقاد اگر ضلعی سطح پر نہ ہو سکے تو کم از کم ڈویژن کی سطح پر ضرور کی جائیں۔
• ورکشاپ کے شرکاءکو سروے فارم ای میلز سے بھی بھیجے جائیں تاکہ وہ ان کا جواب زیادہ بہتر انداز میں دے سکیں۔
• مکالمے کے اختتام پر ایک مشترکہ دستاویز جاری کی جائے اور اسے تمام متعلقہ اداروں کو بھیجا جائے۔
• ایسی سرگرمیوں میں تمام فرقوں اور مذاہب کے لوگوں کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔
• مغرب کے کسی نمائندے کو بھی ورکشاپوں میں مدعو کیا جائے تاکہ مغرب کے بارے میں ہمارا جو تصور ہے اس کے بارے میں پائے جانے والے سوالات کے جواب آ سکیں۔
• ایسی ورکشاپوں کا دائرہ ہائی سکولوں اور کالجوں کی سطح پر بڑھایا جائے بالخصوص وہ علاقے جہاں تشدد زوروں پر ہے۔
• مستقبل میں اساتذہ کے ساتھ طلبا کو بھی مدعو کیا جائے، تاکہ دونوں جانب کا نقطہ نظر آ سکے۔
• ریاست کو بھی سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے لیے اساتذہ کی تربیت پر مبنی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
(انگریزی سے ترجمہ: سجاد اظہر)