working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

قومی منظرنامہ

پنجاب فرقہ واریت کا مقابلہ کرنے میں کہاں غلطی پر ہے ؟

شیر علی خان، شکیل احمد، فرید اللہ چوہدری

نیشنل ایکشن پلان کے بعد سے پاکستان میں فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف کارروائیاں ایک نئے رخ کے ساتھ سامنے آئی ہیں۔ جن کا مقصد فرقہ وارانہ تشدد کا قلع قمع کرنا ہے ۔اس سلسلے میں کئی نامی گرامی مبینہ دہشت گرد پولیس مقابلوں میںمارے بھی گئے ہیں ۔اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔انگریزی جریدہ ہیرالڈ نے ان مبینہ پولیس مقابلوں پر نہ صرف سوال اٹھائے ہیں بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ کیا یہ فرقہ واریت کے عفریت سے نمٹنے کی درست حکمت عملی ہو سکتی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ ا س رپورٹ میں پاکستان میں فرقہ واریت کی تاریخ اور اس کے فروغ کی حرکیات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے جس سے اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔(مدیر)

سیاہ اور گھنی داڑھی والا ایک نوجوان ایک وڈیو میں گویا ہوتا ہے۔سندھی ٹوپی پہنے سفید کپڑوں میں ملبوس نوجوان پر جوش حاضرین سے کہتا ہے، کیاآ پ جانتے ہیں اگلے لمحے آپ سے خطاب کرنے کون آ رہا ہے۔” جناب ملک اسحاق صاحب “ جیسے ہی وہ یہ الفاظ ادا کرتا ہے حاضرین جلسہ زور وشور سے نعرے بلند کرنے لگتے ہیں ”تیرا اسحاق، میرا اسحاق، ملک اسحاق “۔
نعروں کی گونج میں ایک درمیانی عمر کا آدمی جس نے ہلکے سفید رنگ کے کپڑے اور سندھی ٹوپی پہن رکھی ہے وہ نمودار ہوتا ہے۔اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ عمومی باتیں کرنا شروع کرتا ہے یہ عربی الفاظ کا سہار الیتے ہوئے فصاحت و بلاغت کا کوئی خطاب نہیں ہے بلکہ وہ دھمکی آمیز زبان میں کہتا ہے کہ ”ہمار اکوئی ذاتی ایجنڈا نہیں ہے بلکہ ہمارا مقصد صحابہ کرام ؓ کی آبرو کی حفاظت ہے “۔
وڈیو میں خطاب کے مقام کا تو اندازہ نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ وڈیو 17اکتوبر2012کو ملک اسحاق جو قتل کی کئی وارداتوں کے الزام میں جیل میں تھے ان کی رہائی کے ایک سال بعد اپ لوڈ کی گئی۔
”یہ مت بھولئے کہ ہم نے اپنے ہاتھ نیچے ضرو رکئے ہیں مگر اپنے دفتروں کو مستقل طور پر بند نہیں کیا“۔ وہ حکومت اور شیعوں کو للکارتے ہوئے کہتا ہے ”اگر ہمیں چھیڑا گیا توہم انتقام لینا خوب جانتے ہیں، ہمیں مرنا بھی آتا ہے اور مارنا بھی “۔
اس کے عین پیچھے ایک پوسٹر لگا ہوا ہے جس میں ایک طرف ملک اسحاق کی تصویر ہے اور دوسری جانب مولانا لدھیانوی کی، اہل سنت و الجماعت کا دعوی ٰ ہے کہ ا س نے تشدد کا راستہ ترک کر دیا ہے اور 2008کے انتخابات میں حصہ لے کر وہ جمہوری نظام کا حصہ بن چکی ہے۔ اس تصویر میں ایک تیسری تصویر بھی ہے جو مولانا حق نواز جھنگوی کی ہے جس نے شیعوں کے خلاف عسکری تنظیم سپاہ ِ صحابہ کی بنیاد رکھی جوآج کل کالعدم ہے۔ملک اسحاق کہتا ہے کہ مولانا لدھیانوی میرا لیڈر ہے جو کہ جھنگوی کے راستے پر گامزن ہے۔وہ اس کے بعد حاضرین جلسہ سے مخاطب ہوتا ہے کہ وہ شیعوں کو کافر کہنے کے نعرے لگائیں۔وہ کہتا ہے پریشان نہ ہوں شیعوں کو کافر کہنے سے آپ کے خلاف کوئی کیس درج نہیں ہو گا۔ پھر وہ فخر سے کہتا ہے کہ ”میں نہ جیلوں سے ڈرتا ہوں نہ کیسوں سے، موت اپنے وقت پر آنی ہے ا س لئے ڈر کیسا ؟“
29جولائی2015کو ملک اسحاق ایک مقابلے میں مارا گیا۔پولیس کا کہنا تھا کہ ایک روز قبل سی ٹی ڈی (محکمہ انسداد دہشت ) ملک اسحاق اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کر کے ملتان سے مظفر گڑھ لا رہا تھا جہاں ان کی نشاندہی پر اسلحہ اوردھماکہ خیز مواد بر آمد کیا گیا جسے دہشت گردی کی خاطر استعمال کیا جانا تھا۔ جب پولیس واپس ملتان کی جانب آ رہی تھی تو سہ پہر تین بجے لشکر جھنگوی (جسے 1996میں ریاض بسرا نے ملک اسحاق کے ساتھ مل کر بنایا تھا )کے کچھ جنگجوو¿ں نے قافلے پر ہلہ بول دیا۔اس دوران دو طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں ملک اسحاق اپنے چودہ ساتھیوں جن میں ان کے دو بیٹے بھی شامل تھے مارا گیا۔
اسی روز رحیم یار خان جانے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کر دی گئی۔شہر کے داخلی راستوں پر مسلح اہلکار تعینات کر دیئے گئے جن کا مقصد لوگوں کو ملک اسحاق کے جنازے میں شرکت سے روکنا تھامگر اس کے باوجود ائیر پورٹ روڈ پر واقع ملک اسحاق کے گھر پر ہزاروں لوگ اکھٹے ہو گئے۔لوگوں کا ایک اژدہام تھا مگر انہیں کہا گیا کہ وہ جتنی جلدی ممکن ہو تجہیز و تکفین مکمل کر لیں۔یہ بات ملک اسحاق کے ایک ہمسائے نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتائی۔اس دوران طوفانی بارش ہو رہی تھی ہر کوئی پانی سے شرابور تھا۔ملک اسحاق کی پرورش رحیم یار خان میں ہوئی تھی۔پولیس کو مطلوب ہونے سے قبل وہ سیگریٹ فروخت کرتا تھا۔اس کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ کوئی مذہبی آدمی ہر گز نہ تھا۔لیکن جب ا س کا رجحان مذہب کی جانب ہوا تو اس کے بھائیوںنے اس کی مخالفت کی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ملک اسحاق شیعہ مخالف سرگرمیوں کا حصہ بنے۔
ملک اسحاق کا پولیس کے ساتھ رویہ ہمیشہ معاندانہ رہا۔عسکریت پسند بننے کے بعد اس نے اپنے رتبے سے اس کا اظہار بھی کیا جب بھی اسے گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیاجاتا تو وہ جج حضرات اور پولیس کو کوستا کہ اسے کیوں انتظار کرایا جاتا ہے۔ایک بار اس نے عدالت میں کہا ”میںنے 130شیعوں کو قتل کیا ہے جج صاحب آپ مجھے سزا کیوں نہیںدیتے “؟
عدالتوں اور پولیس سٹیشنوں میںوہ اپنے جارحانہ مزاج کی وجہ سے رحیم یار خان سے باہر بھی مقبول ہو گیا۔وہ چاہے جتنا بھی سنگین جرم کر ڈالتا،پولیس اور عدالتوں سے بچنے کا ہنر اسے آ گیا تھا۔اس دور میں اس کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔
رحیم یار خان کی تحصیل خان پور میں تقریباً چار کلو میٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاو¿ں چانڈیو بستی آتا ہے۔ملک اسحاق جیسا فرقہ وارانہ ذہن رکھنے والا اسی گاو¿ں سے نکلااور جلد ہی پورے پنجاب میں مشہور ہو گیا۔اس کی موت سے چند ماہ پہلے ا سکے گاو¿ں میں ہر طرف سپاہِ صحابہ کے جھنڈے لگا دئے گئے۔ڈی پی او نے وہاں چھاپے کا حکم دیا اور پولیس اہلکاروں کو این جی او کے اراکین کے بھیس میں وہاں بھیجاتاکہ یہ معلوم کیا جائے کہ یہ جھنڈے کس نے لگائے ہیں۔جس پر معلوم ہوا کہ گاو¿ں کے تقریباً ہر گھر پر ہی یہی جھنڈا لگا ہوا ہے۔چانڈیو بستی کے ایک مقامی کاشتکار نبی بخش چاندیو کا بیٹا اورنگ زیب فاروقی جو کہ اہل سنت والجماعت کراچی کے سینئر رہنما ہیں ان کے ساتھ گارڈ تھا۔ اس نوکری کی وجہ سے اس کے گھر کے حالات بدل گئے تھے۔اس نے اپنے خاندان کے لئے نیا گھر تعمیر کیا اور کچھ مال مویشی بھی خرید لئے۔وہ جب بھی گاو¿ں آتا تو اس کے بدلے ہوئے حالات دیکھ کر گاو¿ں کا ہر فرد یہ خواہش کرتا کہ کاش اس کے حالات بھی اسی طرح بدل جائیں۔خان پور کے ایک سیگریٹ ڈیلر نے بتایا کہ یہ تاثر عام ہو گیا کہ جو کوئی ملک اسحاق گروپ میں شامل ہو گا تو اس کے حالات بھی اسی طرح بدل جائیں گے۔ وہ ملک اسحاق کو بخوبی جانتا تھا کیونکہ وہ دونوں ایک ہی جگہ ایک ہی پیشے سے منسلک رہ چکے تھے۔”اگر آپ پانچ سال ان کے ساتھ کام کریں تو آپ گھر بنانے اور کچھ مویشی خریدنے کے قابل ہو جائیں گے “۔
ملک اسحاق نے ایسے نوجوانوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔رحیم یار خان کے ایک صحافی خورشید احمد نے بتایا کہ ”جن کے پاس کاشت کے لئے زمین نہ تھی اور جنہیں روزگار کی تلاش تھی ویسے نوجوان ملک اسحاق کی طرح بننا چاہتے تھے تاکہ وہ خود کو منوا سکیں “۔
خان پور کے نزدیک ایک اور گاو¿ں روخان پور آتا ہے یہ اس وقت شہ سرخیوں میں آیا جب ملک اسحاق نے فروری2013میں اپنے حمایتیوںکوکہا کہ وہ ایک ریلی نکالیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اس ریلی سے ایک روز پہلے اس کے سپورٹرز نے موٹر سائیکلوں پر ایک ریلی نکالی اور گاو¿ں کی شیعہ آبادی کو دھمکایا۔جس کی وجہ سے گاو¿ں کی شیعہ آبادی کے لوگ مسلح ہو کر اپنی چھتوں پر مورچہ زن ہو گئے۔
سنوک گاو¿ں بھی خان پور سے ملحقہ ہے جہاں چند ایک گھر ہیں یہاں بھی ملک اسحاق پر جان چھڑکنے والے سپورزٹرز موجود ہیں۔ ملک اسحاق کے ساتھ جو لوگ مارے گئے ان میں سے دو کا تعلق اسی گاو¿ں سے تھا۔ان کے نام عماداللہ اور وقاص تھے جو آپس میں چچازاد تھے۔
مانک گاو¿ں کا ایک عمررسیدہ کاشت کار قائم دین، عماد اللہ کا باپ ہے۔وہ ملک اسحاق کو مجرم کہتا ہے نہ عماد اللہ کو قاتل،وہ کہتا ہے کہ جب وہ اپنے بیٹے اور بھتیجے کی لاش وصول کرنے گیا تو اسے بہت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑااس نے کہا کہ ”اگر ملک اسحاق برا آدمی تھا یا میرے بیٹے نے کچھ غلط کیا تھا تو پھر سرکار نے مجھ سے کبھی رابطہ کیوںنہیں کیا؟“
پنجاب کے کئی دیہات اور قصبوں میں اس نوعیت کی کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ جب کسی کا بیٹا یا بھائی غائب کر دیا گیا تو کچھ دنوں کے بعد اسے کسی مقابلے میں مار دیا گیا۔ان میں سے ہی دو تہذیب شاہ اور محمد شفیق المعروف علی تھے۔جو کہ مظفر گڑھ کے قدیم اور تاریخی قصبے سیت پور کے نزدیک ایک چھوٹے سے گاو¿ں خان گڑھ دوئمہ کے رہائشی تھے۔وہ بھی ان افراد میں شامل تھے جو ملک اسحاق کے ہمراہ مقابلے میں مارے گئے۔
شفیق کا بڑ ابھائی محمد ریاض گوپانگ اہل سنت والجماعت کا مقامی کارکن ہے۔ و ہ اپنے بھائی کے متعلق کچھ بات کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا تھا۔اس نے کہا کہ ہم نے اپنے معصوم بھائی کے قتل کی ایف آئی آر اللہ کی عدالت میں دائر کر دی ہے۔ریاض گاو¿ں میں دودھ بیچنے کا کام کرتا تھا۔اس کا کہنا ہے کہ اس کے بھائی کا اہل سنت والجماعت سے واسطہ ضرور تھاتاہم وہ کسی عسکری گروپ یا سرگرمی میں ملوث نہیں تھا۔شفیق کواس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ کھیتوں میں مال مویشیوں کے ساتھ تھا۔اس کے ایک روز بعد پولیس نے ریاض اور اس کے بڑے بھائی رزاق کو بھی گرفتار کر لیا۔دس روز کے بعد پولیس نے رزاق اور ریاض کو گھر جانے کی اجازت دے دی لیکن شفیق کو زیر حراست رکھا۔اس کے گھر والوں کو بتایا گیا کہ اس سے مظفر گڑھ ضلع کونسل کے سابق چیئر مین مخدام الطاف بخاری فائرنگ کیس میں تفتیش کی جارہی ہے۔ریاض نے کہا کہ پولیس نے ہمارے کچھ عمر رسیدہ افراد کو بھی گرفتار کیا جن کا تاحال کچھ اتہ پتہ نہیں ہے۔
یہ تمام واقعات شفیق کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے چار ماہ پہلے رونما ہوئے۔ریاض نے کہا کہ ہمیں اس کی میت کو بھی گھر لانے کی اجازت نہیں ملی۔پولیس نے ہمارے گاو¿ں سے دور مٹھو سلطان کے قبرستان میں اسے دفنا دیا۔
تہذیب شاہ کے چھوٹے بھائی سید عابد حسین بھی اسی قسم کی کہانی بیان کرتے ہیں۔انہوںنے بتایا کہ انٹیلی جنس کا ایک اہلکار اس کے بھائی کو یکم اپریل 2015کو اپنے ہمراہ لے گیا۔جس کا مقصد اس سے یہ عہد نامہ لینا تھا کہ ا سکا کسی بھی عسکری گروپ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔مگر تہذیب شاہ زندہ سلامت واپس نہیں آ سکا میرے بڑے بھائی اور ماموں اس کے مرنے سے تین روز پہلے دورانِ حراست اس سے ملے۔ تہذیب شاہ نے کہا اس کے لئے کسی وکیل کا بندوبست کریں کیونکہ پولیس اس کے خلاف مقامی عدالت میں چالان پیش کرنے والی ہے۔
ملک اسحاق کی ہلاکت سے پانچ روز قبل ملتان کے سی ٹی ڈی نے پریس ریلیز جاری کی جس میں کہا گیا تھا کہ ملک اسحاق کے گروہ میں 23افراد ہیں جن میں سے 18سنگین مجرم ہیں۔حکام نے کہا کہ ان کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ان میں سے ایک محمد عرفان قریشی المعروف علی عرفان بھی تھا جو کہ مظفر گڑھ کے گاو¿ں خان گڑھ کا رہائشی تھا۔عرفان کا باپ عبد القدیر یہ دعوی ٰ کرتا ہے کہ اس کا بیٹا اس پریس ریلیز کے اجرا سے دو ماہ پہلے اپنے گاو¿ں سے غائب تھا۔وہ عدالت بھی گیا اور کہا کہ اسے شبہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ا س کے بیٹے کو اٹھایا ہے۔ جج نے پولیس کو کہا کہ وہ ایف آئی آر رجسٹر کریں کہ ا سکے بیٹے کو سی ٹی ڈی نے 10اپریل 2015کو اس وقت اٹھایا جب وہ کام سے واپس آرہا تھا۔
عبد القدیر نے لاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ میں بھی اپنے بیٹے کی بازیابی کے لئے رٹ دائر کی۔ اس نے بتایاکہ اس کی درخواست پر کئی حکومتی اہلکاروں نے بتایا کہ اس کے بیٹے سے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے سلسلے میں تفتیش کی جا رہی ہے۔
3نومبر 2015کو عبد القدیر نے سی ٹی ڈی والوں کی جانب سے سنگین نتائج کی دھمکیوں کے بعددرخواست واپس لے لی۔ا س نے کہا کہ اب ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے ا سکے بیٹے کا کچھ اتہ پتہ نہیں شاید وہ اس دنیا میں نہ رہا ہو۔
سی ٹی ڈی ملتان کے حکام نے کہا کہ عرفان دہشت گردی کے کئی کیسوںمیں ملوث رہ چکا ہے۔2اپریل 2015کوایک ایف آئی آر درج کی گئی جس میں عرفان اور اس کے دیگر 19ساتھیوں پر الزام ہے کہ انہوں نے مظفر گڑھ کے ایک گاو¿ں سیت پور کی ایک امام بارگاہ میں بم نصب کرنے کی منصوبہ بندی کی۔دھماکہ خیز مواد ایک واٹر کولر میں رکھا گیا اور منصوبے کے مطابق اسے جمعہ کی نماز کے دوران استعمال کیا جانا تھامگر کچھ تکنیکی مسائل کی وجہ سے منصوبے پر عمل در آمد نہ ہو سکا۔پولیس کا مو¿قف ہے کہ اس منصوبے کا مقصد ملک اسحاق کی رہائی کے لئے حکومت پر دباو¿ بڑھانا تھا۔دو روز بعد پولیس نے ایک اور ایف آئی میں عرفان کو گرفتار کر لیاجس میں کہا گیا تھاکہ خان گڑھ کے ایک شیعہ مکین صادق بلوچ کے گھر کے نزدیک دیوار میں دھماکہ خیز مواد نصب کر رہے تھے پولیس نے کہا کہ ا س نے دھماکہ خیز مواد جو ایک واٹر کولر میں نصب تھا اسے بر آمد کر لیا ہے۔پولیس کے مطابق ریموٹ کنٹرول کے کام نہ کرنے کہ وجہ سے دھماکہ نہیں ہوا۔
خان گڑھ گا و¿ں کے نزدیک قاضی ولا گاو¿ں کے رہائشی قاضی رشید بھی ان افراد میں شامل تھے جن کا نام ان دونوں ایف آئی آر میںدرج ہے۔اس کے باپ محمد حنیف قریشی نے بتایا کہ پولیس نے پہلے پانچ اپریل 2015کو اس کے گھر پر چھاپہ ماراجس میں قاضی رشید فرار ہو گیا پولیس نے دوبارہ پندرہ اپریل کوبھی چھاپہ مار امگر ا س بار بھی اسے گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
گرفتاری سے بچنے کے لئے قاضی رشید نے مظفر گڑھ چھوڑ دیااور فیصل آباد جا کر ایک فیکٹری میں ملازمت اختیار کر لی محمد حنیف قریشی نے بتایا کہ وہ 24اپریل 2015تک ہمارے ساتھ رابطے میں تھا اس کے اگلے روز سی ٹی ڈی والوں نے مل پرچھاپہ مار کر اسے حراست میں لے لیا اس کے گیارہ روز بعد انہیں ایک فون آیا جس میں بتایا گیا کہ وہ رشید کی میت شیخو پورہ ہسپتال سے بر آمد کر لیں۔ حنیف قریشی نے بتایا کہ اسے ایک جعلی مقابلے میں مار دیا گیا۔
سی ٹی ڈی کے ترجمان نے بتایا کہ قاضی رشید ا س لئے مارا گیا کہ وہ عسکریت پسند تھا پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ شیخوپورہ ضلع میں شرق پور روڈ پر کچھ عسکریت پسند موجود ہیں جب پولیس نے وہاں چھاپہ مارا ورانہیں ہتھیارڈالنے کا کہا تو انہوں نے فائرنگ کر دی پولیس کی جوابی فائرنگ سے تمام افراد اپنے ساتھیوں سمیت مارے گئے۔
قاضی رشید محمود، حنیف قریشی کا اکلوتا بیٹا تھا جو اس کی شادی کے اٹھارہ سال بعد پیدا ہوا تھا اس نے پولیس سے کہا کہ اسے اپنے بیٹے کی پوسٹ مارٹم رپورٹ دی جائے مگر انہوںنے انکار کر دیا۔
مقابلوں کی بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ یہ جاری و ساری ہیں۔ایسے مزید مقابلوں میں فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث مزید 19افراد مارے گئے۔صرف لیہ کے ضلع میں 2016کے پہلے نصف میں دو مقابلے ہوئے جن میں نو افراد مارے گئے ملتان کے نزدیک نواب پور گاو¿ں میں مئی 2016میں دو مقابلوں میں چودہ افراد مارے گئے۔ان واقعات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پنجاب حکو مت فرقہ وارانہ عسکریت پسندی کے خلاف کس قدر آہنی عزم لئے ہوئے ہے۔اس بات کے شواہد بھی ہیں کہ ا س طرح کے مقابلے اب صرف جنوبی پنجاب کے ان علاقوں تک ہی محدود نہیں جو ملک اسحاق اور اس کے ساتھیوں کا گڑھ ہیں۔ا س سلسلے میں طارق کمبوہ کی مثال دی جاتی ہے جب اس کا نام سامنے آیا تو گڑھی شاہو لاہور کے لوگ بہت حیران ہوئے کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔ کمبوہ ایک کامیاب پراپرٹی ڈیلر تھا۔اس کا باپ عبدلغفور گڑھی شاہو میں کپڑے کی دوکان چلاتا تھا۔ چھوٹے سے ایک بیڈ روم کے گھر میں ا س کی پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے رہ رہے تھے۔جب کمبوہ جوان ہوا تواس کا سب سے بڑا خواب یہ تھا کہ وہ کسی پوش علاقے میں اپنے خاندان کے لئے ایک بڑا گھر تعمیر کرے۔اس نے رئیل سٹیٹ میں پیسہ کما کر اپنا یہ خواب سچ کر دکھایا۔
کمبوہ چھ فٹ قد کاٹھ کا ایک صحت مند نوجوان تھا جس کی گھنی داڑھی بھی تھی۔ اس نے اپنی تمام تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول گڑھی شاہو سے حاصل کی تھی۔اس کے خاندان کی وابستگی گڑھی شاہو کے بریلوی مکتب فکر کے مدرسہ جامعہ نعیمیہ سے تھی،علاقے میں اس کی شناخت نواز شریف کے ایک جانثار کارکن کی تھی۔1990کی دہائی میں اسے مسلم لیگ ن ڈیوس روڈ کے دفتر میں اکثر و بیشتر دیکھا جاتا تھا جو ان دنوں نواز شریف کی سیاسی جماعت کا ہیڈ کوارٹر ہوا کرتا تھا۔
کمبوہ مذہبی رجحان رکھتا تھاجو اپنی تصویر بنانے کے بھی خلاف تھا۔ اس کے گھر والوں کو ٹیلی ویژن دیکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی کیونکہ اس کے خیال میں یہ اخلاق کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ اس کے خاندان کے ایک قریبی فرد نے بتایاکہ پولیس نے کمبوہ کو سب سے پہلے 2000میں لاہور میکلوڈ روڈ سے متصل مومن پورہ کے شیعہ قبرستا ن میں حملے کے الزام میں گرفتار کیا جو 1998میں ہوا تھا۔ اسے بیس روز تک حراست میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا گیا۔ اس دوران اس کے گھر والوں سے بھی ا سکی فرقہ وارانہ وابستگی پر سوالات کئے گئے۔اس کے خاندان والے کہتے ہیں کہ ا س نے ان تنظیموں سے قطع تعلق کر رکھا تھا۔2004میں کمبوہ کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ اس کا نام دہشت گردوں کی واچ لسٹ میں شامل تھا وہ مسلسل پولیس سٹیشن میں حاضری لگوانے جاتا تھا۔ 2010میں اس نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی جس میں اس نے کہ اکہ اس کا نام اس واچ لسٹ سے نکالا جائے۔ عدالت نے حکومت کو نوٹس جاری کیاتاکہ سرکاری رد عمل معلوم کیا جا سکے مگر حکومت نے ا س کا کبھی جواب نہیں دیا۔ ایجنسیوں نے کمبوہ کو 2011میں دوبارہ اٹھا لیا مگر پھر رہا کر دیا۔15مارچ 2016کو لاہور کے کئی اخبارات میں صفحہ اول پر خون میں لت پت پانچ با ریش افراد کی تصویریں شائع ہوئیں جن کے بارے میں بتایا گیا کہ ان کا تعلق شیعہ مخالف کالعدم تنظیم سے تھا جو تین روز قبل 12مارچ کوبہاولپور کے قصبے سمہ سٹہ میں مارے گئے۔ کمبوہ بھی ان میں سے ایک تھا۔ مرنے والے تمام افراد کاتعلق پنجاب کے مختلف اضلاع سے تھا۔کمبوہ کے ایک قریبی عزیز کا کہنا ہے کہ اسے سی ٹی ڈی نے لاہور ڈی ایچ اے میں واقع ایک رئیل سٹیٹ کے دفتر سے اٹھایا تھا۔ اس کے خاندان کے افراد نے کئی پولیس سٹیشنوں کا دورہ کیا تاکہ اس کے بارے میں معلومات لی جا سکیں مگر ا س کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ ان کی تلاش دس روز بعد اس وقت ختم ہوئی جب انہوں نے اخبارات میں اس کے مرنے کی خبریں پڑھیں۔ اس کا خاتمہ سمہ سٹہ میں کیسے ہوا یہ ابھی تک ایک راز ہی ہے۔اس کے گھر والے جب پولیس سے مطالبہ کرتے ہیں تو انہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ جب مار اگیا تووہ دہشت گردوں کے ساتھ تھا۔کمبوہ کو گڑھی شاہو میں دفنا دیا گیا مگر اس سے اس کی کہانی ختم نہیں ہوئی۔اس کے خاندان کے افراد کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مسلسل دھمکایا جاتا ہے۔ا س کے ایک رشتہ دار کا کہنا ہے کہ ا س کے مرنے کے بعد بھی اس کے گھر کے ہر مرد سے ا س کی فرقہ وارانہ وابستگی کی بار ے میں سوالات کئے گئے۔
جب شہباز شریف اپنی خود ساختہ جلا وطنی ترک کر کے واپسی کے لئے پر تول رہے تھے تو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے ان کے دور میں ہونے والی ماورائے عدالت ہلاکتوں پر 2007میں ان کے وارنٹ جاری کر دیئے تھے۔ا س میں ان ہلاکتوں کو جواز بنایا گیا تھا جو 1998میں ان کی وزارت اعلیٰ کے دور میں ہوئی تھیں۔لاہور کے علاقے سبزہ زار میں ایک مقابلے میںمارے جانے والے دو افراد کے والدین سعید الدین اور خورشید خانم نے عدالت میں درخواست دائر کی کہ ان کے بچوں کے قتل کے ذمہ دار پولیس کے سینئر حکام اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف ہیں۔ بعدازاں سعید الدین نے عدالت سے کیس واپس لے لیا اور ملزمان کو معاف کر دیا جس پر جج نے 2008کے انتخابات کے ایک ماہ بعد شہباز شریف کو بری کر دیا۔اس کیس کے دوسری مدعی خورشید خانم کے کیس کی پیروی آفتاب احمد باجوہ کر رہے تھے۔ انہوں نے انسداد دہشت گردی کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔اس کو آٹھ سال گزر چکے ہیں مگر اپیل ابھی تک زیر التوا ہے۔اس دوران شہباز شریف تیسری بار وزیر اعلی ٰ بن گئے۔قانون کی دھاک بٹھانے کے لئے پھر جعلی پولیس مقابلوں کا سہار الیا جا رہا ہے۔پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ کہتے ہیں ”جب کوئی جرائم پیشہ شخص پولیس مقابلے میں مار اجاتا ہے تو عوام کافوری رد عمل یہ ہوتا ہے کہ بہت اچھا ہوا“۔ یہ بات انہوں نے ایک انٹرویو میں کہی۔”کیونکہ جو مارا جاتا ہے وہ قاتل ہوتا ہے قانون کی پیروی کرنے والا کوئی عام شہری نہیں “۔
انگریزوں کے دور میں بنائے گئے اپنے اس دفتر میں بیٹھے رانا ثنا اللہ یہ بات فخر سے کہہ رہے تھے کہ پنجاب حکومت نے فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت لی ہے اور اس میں مقابلوںمیں ہونے والی ہلاکتوں کا بھی کردار ہے۔ رانا ثنا اللہ بار بار یہ بات زور دے کر کہتے کہ یہ وہ لوگ تھے جن کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس سال کے پہلے سات ماہ میں سی ٹی ڈی ملتان، مظفر گڑھ، لیہ، لودھراں، ڈیرہ غازی خان، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ میں اس قسم کے مقابلوں میں 69افراد مارے گئے۔
سی ٹی ڈی کا دعویٰ ہے کہ ا س نے لشکر جھنگوی، سپاہ محمد اور حزب التحریر کی تمام اعلیٰ اور درمیانی درجے کے قیادت کو مار دیا ہے۔ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ” پھر بھی یہ پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ پنجاب حکومت دہشت گردوںکے لئے نرم گوشہ رکھتی ہے یا پنجاب ان کے لئے محفوظ جنت ہے ۔“اب آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ ہم کس قدر سنجیدہ ہیں۔
قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ ان مقابلوںمیں ماورائے عدالت ہلاکتیں یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ حکو مت ایسے عناصر کے خلاف عدالتوں میں کیس چلانے کی سکت نہیں رکھتی۔لاہور کے ایک وکیل علی باجوہ جس نے پولیس اکیڈمی لاہور پر 2009میںہونے والے ایک حملے کے ملزم کو بری کرایا کا کہنا ہے کہ ”عدالتی نظام میں کسی پر جرم ثابت کرنا خاصا دشوار ہے،یہی وجہ ہے کہ اس کا کلائینٹ شواہد کی کمزوری کی وجہ سے بری ہو گیا۔عدالتی چارہ جوئی کا شعبہ بہت خستہ حالی کا شکار ہے۔سرکاری وکیل ایسے ہیںجنہیں کوئی پوچھتا نہیں آپ ان پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ان کی ناکامی کی وجہ سے قانون نافذ کر نے والے ادارے جعلی مقابلوں کا سہارا لیتے ہیں۔ ماورائے عدالت ہلاکتیں اس لئے بھی بڑھ رہی ہیں کہ پولیس کسی کو جوابدہ نہیں ہے۔ایسے کیسوںمیں آج تک کسی پولیس والے کو سزا تودور کی بات کسی کو معطل بھی نہیں کیا گیا۔
1980میں شیعوں کی ایک نئی بنے والی سیاسی جماعت تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے جنرل ضیا الحق کے زکواة و عشر آرڈیننس کو چیلنج کر تے ہوئے ا س کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے شروع کر دیئے۔ چند سال پہلے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے ریٹائر ہونے والے طارق کھوسہ اس وقت جھنگ پولیس میں اے ایس پی تھے۔وہاں پورے ملک کی نسبت شیعوں کے خلاف ماحول کافی گرم تھا۔اس کی وجہ ایک مقامی مولوی حق نواز جھنگوی تھا اس نے انقلاب ایران 1979کے بعد شیعوں کے خلاف شدت پسندانہ مو¿قف اختیار کر رکھا تھااور جب شیعوں کی جانب سے سیاسی مطالبات سامنے آئے تو اس میں اور زیادہ شدت آگئی۔ اس پس منظر میں جب جھنگ کی شیعہ کمیونٹی نے ساتویں محرم کا جلوس نکالا تواس جلوس کے راستے میں واقع ایک مسجد سے جھنگوی نے شیعوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کی۔شیعہ کمیونٹی نے دھمکی دی کہ اگر اس نے تقریر بند نہ کی تووہ اس پر حملہ کر دیں گے۔قریب تھا کہ تصادم ہو جاتا کہ طارق کھوسہ اپنے ساتھ 25اہلکار لے کر مسجد پہنچ گئے۔جھنگوی کو تقریر سے روکنے کی کوشش میں ناکامی پر پولیس مسجد میں داخل ہو گئی اور جھنگوی کوگرفتار کر لیا۔طارق کھوسہ بتاتے ہیں کہ ا س واقعے کے فوراً بعد انہیں ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کی جانب سے طلب کیا گیا۔مجھے بتایا گیا کہ جنرل ضیاالحق فون پر موجود ہیں اور وہ جھنگوی کی فوری رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ طارق کھوسہ نے یہ واقعہ 2002میں سینیٹ کی ایک کمیٹی کے روبرو بتایا۔ انہوں نے کہا کہ جب ایک فرقہ پرست جماعت کی اس پیمانے پر سرپرستی کی جائے گی تو پھر وہاں مختلف فرقوں اور عقائد پر ا س کا لازمی اثر پڑے گا۔
تحریک نفاذ فقہ جعفر یہ پاکستان جو بعد میں فقہ جعفریہ پاکستان بن گئی اس کے اور سپاہ ِ صحابہ کے کارکنوں کے مابین 1980کی دہائی میں ایک دوسرے کے کارکنوں کو قتل کرنے کی روایت ادلے بدلے میں بدل گئی۔ شیعوں کے دو بڑے علما مفتی جعفر حسین الحسینی اور عارف حسینی بالترتیب 1983 اور 1988 میں مارے گئے۔خود حق نواز جھنگوی بھی 1990میں اسی روایت کی نظر ہو گئے۔ ان کے قتل کے جواب میں سپاہ صحابہ کے لوگوں نے ایران کلچرل سینٹر لاہور کے ڈائریکٹر جنرل صادق گنجی کو قتل کر دیا۔ا س کے بعد1991میں مولانا حق نواز جھنگوی کی جگہ پر آنے والے مولانا ایثار القاسمی بھی قتل ہو گئے۔1994میں شیعوں کی عسکری تنظیم سپاہِ محمد قائم ہوئی جس نے شیعوں کے خلاف سرگرم افراد کو نشانہ بنایا۔
پنجاب کے سابق اسسٹنٹ آئی جی طارق پرویز کہتے ہیں کہ اس وقت پولیس اس طرح کی فرقہ واریت سے نمٹنے کے لئے تیار نہیں تھی۔اس وقت انسدا ددہشت گردی کے لئے ہمارا نظریہ بھی وجود میں نہیں آیا تھا۔یہ ایک غیر معمولی صورتحال تھی مگر پولیس فرقہ وارانہ وارداتوں کے ساتھ بھی عام وارداتوں کے طرح برتاو¿ کرتی تھی۔
فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ایک مہلک موڑ 1996میں اس وقت آیا جب سپاہ ِ صحابہ پاکستان کے سابق ممبران ریاض بسرا، ملک اسحاق، غلام رسول شاہ اور اکرم لاہوری نے مینار پاکستان کے سائے تلے اکھٹے ہو کر لشکر جھنگوی کی بنیاد رکھی۔بعد میں وہ افغان طالبان کے ساتھ بھی مل گئے اور ان کے ذریعے اسامہ بن لادن تک رسائی حاصل کر لی۔یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں فرقہ پرست،دہشت گردوں کی عالمی تنظیموں کا حصہ بن گئے۔جنہوں نے ان کو اسلحہ، گولہ بارود جاسوسی کے آلات فراہم کئے اور انہیں گوریلا جنگ کی تربیت دی۔ طارق پرویز کہتے ہیں کہ اس دور میں سپاہ صحابہ کے کارکنوں سے جوتفتیش کی گئی ا س میں یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ کچھ کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کی پشت پناہی بھی حاصل تھی جو انہیں روس کے خلاف افغان جہاد میں شرکت کے لئے بھیج رہی تھیں۔ا س لئے ان کارکنوں نے افغان جہاد کے دوران جو تربیت حاصل کی اسے پاکستان میں شیعوں کے خلاف استعمال کیا۔
اس کے بعدیہ ہوا کہ لشکر جھنگوی نے مقامی سطح پر ایسے خود مختار گروہ بنا لئے جو از خود کارروائیاں کرتے تھے جس کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے مشکل ہو گیا کہ وہ ان کے خلاف کوئی ایسی حکمت عملی اپنائیں جو مو¿ثر ثابت ہو۔
حامد علی خان جنہوں نے حال ہی میں نیکٹا سے استعفیٰ دیا ہے وہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوںنے16دسمبر2014میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا تھا۔ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ریاست شدت پسند تنظیموں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کی ذمہ دار ہے۔ اس کے ساتھ مدارس کی بڑھتی ہوئی تعداد نے بھی ا س میں اپنا حصہ ڈالا۔1979میں پاکستان میں مدارس کی تعداد 2700کے لگ بھگ تھی جبکہ اگلے دس سالوں میں یہ تعداد بڑھ کر 16000تک جا پہنچی۔ ان میں سے کئی مدارس میں افغان مجاہدین کو تربیت بھی فراہم کی جاتی تھی۔
1996 میں ریاض بسرا نے کمشنر سرگودھا تجمل عباس کو ٹارگٹ کلنگ میں قتل کر دیا۔1997میں لشکر جھنگوی نے ملک بھر میں قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا۔ریاض بسرا نے 1997میں ایران کلچرل سینٹر لاہور پر حملہ کر دیا جس میں 20افراد مارے گئے اس کے بعدلشکر جھنگوی کے لوگوں نے گوجرانوالہ کے ایس پی اشرف مارتھ اور کانسٹیبل شمیم کو قتل کر دیا۔اس سال 93افراد فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن گئے۔جس کی وجہ سے ا س وقت کی نواز شریف حکو مت پر دباو¿ بڑھا کہ وہ کوئی فیصلہ کن قدم اٹھائیں۔چنانچہ ماورائے عدالت ہلاکتوں کے ساتھ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتیں بنائی گئیں۔ 25ستمبر 1998سے23اکتوبر1998میں ایک ماہ کے دوران سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے سات کارکن پولیس مقابلوں میںمار دیئے گئے۔ اس کے جواب میں ریاض بسرا نے نواز شریف، شہباز شریف اور مشاہد حسین کے سروں کی قیمت ساڑھے تیرہ کروڑمقرر کر دی۔نواز شریف پر ا س دور میں ایک حملہ بھی ہوا انہیں لاہور میں اپنی رہائش گاہ جاتی عمرہ جاتے وقت نشانہ بنایا گیا۔ ان کے راستے میں ایک کنکریٹ کا پل اڑ ادیاگیا مگر نواز شریف کا قافلہ ا س پل پر دس منٹ کی تاخیر سے پہنچنا تھا اس لئے وہ بچ گئے۔
2002میں مشرف نے سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی پر پابندی لگا دی لیکن جب شہباز شریف پنجاب میں بر سر اقتدار آئے تو انہوںنے ایک مختلف مو¿قف اختیار کیا۔انہوں نے 2008کے انتخابات میں جھنگ، فیصل آباد، بہاولنگر، رحیم یار خان، اور لیہ میں اہل سنت والجماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد قائم کر لیا جوکہ سپاہ صحابہ کی نئی شکل تھی۔اس کا اثر کئی حلقوں میں پڑا جس کے جواب میں شہباز شریف نے انہیں یہ یقین دہانی کرائی کہ ان کے گرفتار کارکنوں کی جیلوں اور عدالتوں میں مدد کی جائے گی۔ان میں لشکر جھنگوی کے وہ کارکن بھی تھے جوقتل و غارت میں ملوث تھے۔2008کے بعد 2013کے انتخابات میں بھی مولانا لدھیانوی کی زیر قیادت جماعت اہل سنت والجماعت نے مسلم لیگ ن کے ساتھ انتخابی اتحاد قائم کئے۔جھنگ کے ضمنی انتخابات میںمولانا لدھیانوی اور رانا ثنا اللہ نے مل کر ن لیگ کے امیدوار کی مہم چلائی جس کے جواب میں حکومت نے شیعوں کے خلاف سرگرم کئی کارکنوں بشمول ملک اسحاق کو رہا کردیا۔اپنی رہائی کے فوراً بعد ملک اسحاق نے ایک انٹرویو میں مولانا لدھیانوی کا شکریہ ادا کیا۔جب کوئٹہ اور کراچی میں شیعوں کے خلاف خونی حملے ہوئے تو پاکستانی طالبان اور ان کے فرقہ وارانہ اتحادیوں کے خلاف آپریشن کا آغاز ہوا۔جس کی وجہ سے شہباز شریف نے اپنی پالیسی بدلی۔جس کی وجہ فوج کا دباو¿اور فرقہ وارانہ جماعتوں کے خلاف عوامی دباو¿ میں اضافہ تھا۔ کیونکہ یہی جماعتیں طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہی تھیں۔تب سے ہی فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف ماورائے عدالت ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہے۔
کیا مسئلے کا صرف یہی حل ہے ؟
بہاولپور ضلع میں خیر پور ٹامیوالی ایک پسماندہ قصبہ ہے۔ وہاں شیعہ، بریلوی اور دیو بندی کئی نسلوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رواداری سے رہتے آئے تھے۔مختلف مکاتب فکر کے لوگ ایک دوسرے کے ہمسائے میں آباد تھے۔ایک مقامی باشندے کا کہنا ہے کہ کسی کو فرقے کی بنیاد پر کسی تقسیم کا سامنا نہیں تھا۔ 1980میں سپاہ صحابہ سے وابستہ ایک عالم یٰسین کلہڑی فیصل آباد سے خیر پور ٹامیوالی منتقل ہو گئے۔اس نے ایک مقامی مسجد میں شیعوں کے خلاف تقریریں شروع کیں۔ہم نے امن کو بحال رکھنے کی کوششیں کیں مگر کچھ لوگ امن کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ یہ بات شیعوں کی ایک تنظیم کے سیکرٹری جنرل ساجد عباس نے بتائی۔1986میں دسویں محرم کے ایک جلوس میں چھ سو کے قریب لوگ شریک تھے۔جلوس خیر پور ٹامیوالی کی تنگ گلیوں سے گزر رہا تھا۔جب جلوس ایک مقامی زمیندار راو¿ ررزاق جو کہ 1947میں بھارت سے ہجرت کر کے آئے تھے ان کے گھر کے پاس سے گزرا تو اسے غیر معمولی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔وہاں کلہوڑا کی رہنمائی میں کئی ہزار افراد ہاتھوں میں اینٹیں اور پتھر اٹھائے کھڑے تھے تاکہ جلوس کو روکا جا سکے۔دونوں فریقین میں تصادم ہو گیا۔ شرکاءنے جلوس پر پتھراو¿ کیا جس کے جواب میں شیعوںنے بھی جو ہاتھ میں لگا اس کی دھنائی کی۔ یہ تصادم چار گھنٹے جاری رہا۔جب مقامی حکام نے موقع پر آ کر حالات کو کنٹرول کیا تو اس کے بعد جلوس کو جانے کی اجازت دی گئی مگر ایک مقامی سنی مولوی منظور شاہ اس دنگافساد میں ہلاک ہو گیا۔ شیعوں کا کہنا تھاکہ وہ اپنے لوگوں کا پتھر لگنے سے ہلاک ہوا جبکہ سنیوں کا کہنا تھا کہ اسے شیعوں نے مارا ہے۔
یہ خیر پور ٹامیوالی میں پہلا فرقہ وارانہ قتل تھا۔ منظور شاہ کے خاندان کے افراد نے بدلہ لینے کے لئے سپاہ صحابہ میں شمولیت اختیار کر لی۔جس کے بعد بدلے کی آگ بھڑک اٹھی۔یہ آگ دس سال تک جلتی رہی۔ایک مقامی شیعہ ذولفقار بھٹہ کو پولیس نے منظور شاہ قتل کیس میں گرفتار کر لیا۔ لیکن جب وہ رہا ہو کر آیاتو اسے 21رمضان 1996کو قتل کر دیا گیا۔ اس کے فورا ًبعد ایک اور مقامی شیعہ ذولفقار بھٹی کو اغوا کے بعد قتل کر دیا گیا۔اس کے بعد ایک اور قتل نے 1995میں قومی میڈیا میں نمایاں جگہ حاصل کی۔ یہ قتل پیپلز پارٹی کے ا س وقت کے ممبر قومی اسمبلی ریاض حسین پیرزادہ کے والداور خیر پور ٹامیوالی کے مقامی جاگیردار میاں شاہ نواز کا تھا۔ اس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔ اس کیس میں کلہوڑا اور اس کے ساتھیوں کو نامزد کیا گیا جس کے فوراً بعد کلہوڑا نے خیر پور ٹامیوالی کو خیر آباد کہہ دیا۔1996میں سپاہ صحابہ کے کارکنوں نے خیر پور ٹامیوالی کی ایک مقامی مارکیٹ کونشانہ بنایا۔ایک عینی شاہد کے مطابق ایک مسلح شخص نے مارکیٹ میں موجود شیعوں کوالگ کیا اور انہیں ناموں کی شناخت کی وجہ سے گولیوں سے اڑا دیا جن میں نو افراد شامل تھے جن میں سے تین شیعہ نہیں تھے مگر اپنے مخصوص ناموں کے سبب مار دیئے گئے۔
خوف و دہشت کی یہ فضا 1999تک برقرار رہی۔اس سال انسداد دہشت گردی کی عدالتیں قائم ہوئیں چنانچہ دونوں فریقین جوخیر پو ر ٹامیوالی میں قتل و غارت میں ملوث تھے ان پر خصوصی عدالتوں میں مقدمے چلنے لگے۔ اس کے بعدفریقین کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔اس حلقے کے ممبر قومی اسمبلی تسنیم نواز گردیزی نے فریقین میں صلح کروائی۔دونوں کے درمیان ایک تحریری معاہدہ ہوا جس میں پہلی والی تمام عداوتیں معاف کر دی گئیں۔ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں ہر فریق کے سات سات افراد شامل کئے گئے۔ہر فرقے نے عہد کیا کہ وہ اپنے اپنے فرقے کے عسکری ونگ سے قطع تعلق کر لیں گے۔ یہی وجہ وہاں پردیرپا امن کے قیام کی محرک بن گئی۔
(بشکریہ ہیرالڈ،ترجمہ :سجاد اظہر)