working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

قومی منظرنامہ

پاک بھارت کشیدگی اور کشمیر کا بدلتا ہوا منظر نامہ

عاصمہ یعقوب

پاکستان و بھارت کے باہمی تعلقات میں کشمیر ایک بنیادی مسئلے کی صورت حائل ہے ۔اور ایک حوالے سے اس پورے خطے جنوبی ایشاءکی حرکیات اسی مسئلے کے گرد گھومتی ہیں ۔کم و بیش گزشتہ ستر سال سے حل طلب اس مسلئے میںوقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں؟کشمیری کل کہاں کھڑے تھے اور آج کس مقام پر ہیں ؟بھارت اور پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر اپنے اپنے مو¿قف میں کوئی تبدیلی کی ہے یا نہیں ؟کشمیر کی اندرونی سیاسی ،سماجی ،معاشی اور مذہبی تقسیم ا س مسئلے پر کس قدر اثر انداز ہوئی ہے ؟ ان سارے پہلوو¿ں پر ا س تحقیقی مقالے میں مفصل روشنی ڈالی گئی ہے ۔عاصمہ یعقوب انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز میں محقق ہیں اور ان کا یہ مقالہ انسٹی ٹیوٹ کے جریدے میں شائع ہوا ہے جس کی اردو تلخیص قارئین ِ تجزیات کے لئے پیش کی جا رہی ہے (مدیر)۔

بھارتی قیادت کی تنگ نظری اور کوتاہ اندیشی کے باعث ہندوستان آج تک کشمیریوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔بلکہ کشمیریوں پر روا رکھے جانے والے مظالم کی وجہ سے وہ دنیا بھر میں بدنام ہو رہا ہے اور اس کا عالمی تصور بری طرح مجروح ہو رہا ہے۔مسئلہ کشمیر ، شروع میں پاکستان اور بھارت کے مابین ایک سرحدی تنازعہ گردانا گیا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور مخصوص علاقائی اور عالمی تناظر میں یہ جغرافیائی اہمیت اختیار کرتا گیا بالخصوص علاقے میں مغرب کی بڑھتی ہوئی دلچسپی، نیابت کی جنگیں،علاقائی اتحادوں کی حرکیات اور مقبوضہ کشمیر میں جنم لینے والی بغاوت نے اس مسئلے کی حساسیت میں اضافہ کردیا۔ نئی دہلی کو اس نتیجے پر پہنچنے میں بہت وقت لگا کہ کشمیریوں کی شمولیت کے بغیر مسئلے کا کوئی بھی پائیدار حل ممکن نہیں۔مگر ا س مر کزی نکتے کو ہنوز پالیسی سازی میں اہمیت نہیں دی گئی۔ جس کی وجہ سے ابھی تک سہ فریقی مذاکرات کا کوئی رستہ نہیں نکل سکا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔مسئلہ کشمیر پر ہونے والی تمام تر سرگرمیوں کو کسی ایک مضمون میں سمیٹنا بہت مشکل امر ہے تا ہم گزشتہ چھ دہائیوں سے وہاں ہونے والی اہم سماجی، سیاسی، معاشی تبدیلیوں کا جائزہ لیتے ہیں جس سے مسئلے کی نزاکت کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
تعارف
تقریباً گزشتہ چھ دہائیوں سے مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان وجہ عداوت ہے۔ بھارت اسے” اٹوٹ انگ“سمجھتا ہے تو پاکستان اسے ”تقسیم برصغیر کانا مکمل ایجنڈا“قرار دیتا ہے۔مگر حالیہ سالوں میں اس مسئلے کی روح کافی بدل چکی ہے۔Tresita C.Schafferکے بقول ”کشمیر کا مسئلہ علاقے کے جھگڑے پر شروع ہوا مگر متضاد قومی شناختوں نے اسے زہر خند بنا دیا “۔بھارت نے کشمیریوں کے جذبات کو طاقت سے کچلنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے بھارتی اور کشمیری قومیتیں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑی ہو گئیں۔پاکستان اور بھارت میں بھی کشیدگی، علاقے میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ پر منتج ہوئی۔ اور عالمی حمایت کی عدم موجودگی میں ان کے درمیان اس مسئلے پر ہونے والے مذاکرات نتیجہ خیز نہ ہو سکے۔دوسری جانب کشمیری نوجوانوں اور سیاستدانوں نے کشمیر پر ”سٹیٹس کو “ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ عالمی برادری نے مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں ہمیشہ سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔مقبوضہ کشمیر کے لوگ سالہا سال کی جدوجہد کے بعدبھارت اور دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ وہ اس مسئلے کے بنیادی فریق ہیں اور ان کی مرضی کے بغیر مسئلے کا کوئی بھی پائیدار حل ممکن نہیں ہے۔کشمیری نوجوان بھارت کی جبریت کو بے نقاب کرنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا بھر پور استعمال کر رہے ہیںاور ایسے فورمز قائم کر کے مسلسل مکالمہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔بھارت کے اسلحہ کا مقابلہ سوشل میڈیا پر رائے عامہ سے کیا جارہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کوبھارتی آئین کے آرٹیکل 370کے تحت خصوصی درجہ حاصل ہے۔دنیا بھر میں موجود لاکھوں کشمیری تارکین ِ وطن مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ترقیاتی اور سیاسی حکمت عملی کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ کشمیری اپنے سیاسی، سماجی اور معاشی معاملات میں خود مختار ہوں۔ کشمیری گروہوں میں لیڈر شپ کے فقدان کے باوجود وہاں کے اداروں اور کاروباری طبقے کی جانب سے کئی آرا سامنے آتی رہتی ہیں۔اور وہ سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے سے تبادلہ خیالات بھی کرتے رہتے ہیں۔کشمیر میں بڑھتی ہوئی محرومیوں پر سب کو تشویش ہے۔بھارتی حکومت نے تمام اختیارت اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہیں جس کی وجہ سے کشمیری خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔کشمیری نوجوان مسئلے پر ہونے والی تمام کارروائیوں میں شمولیت چاہتا ہے۔
اس مطالعے میں ان تبدیلیوں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے جومقبوضہ کشمیر کی سیاسی و جغرافیائی صورتحال کی وجہ سے دنیا پر اثر انداز ہوئی ہیں۔اس سلسلے میں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے :
1947سے تاحال مسئلہ کشمیر پر بھارت کی کیا پالیسی رہی ہے ؟
اس پالیسی کے تحت مقبوضہ کشمیر کے باشندے کس قدر بااختیار ہیں ؟
علاقائی خود مختاری کے سوال پر وہاں کے باشندے کس قدر تقسیم کا شکار ہیں ؟
کیا سوشل میڈیا، کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو رہا ہے ؟
آج کل کشمیری کس اہم ترین چیلنج سے گزر رہے ہیں ؟
گزشتہ دو سالوں سے علاقائی اور عالمی سیاسی تناظر میں مقبوضہ کشمیر کے حالات پر کیا اثر ہوا ہے اور کیا بھارت نے اس کے تحت اپنی پالیسی میں بھی کوئی تبدیلی کی ہے ؟
کشمیر کی جغرافیائی تقسیم
کشمیر کا متنازعہ علاقہ بر صغیر کے شمال مغرب میں چین اور افغانستان کے ساتھ واقع ہے۔یہ علاقہ پانچ حصوں میں منقسم ہے۔دو علاقے پاکستان کے انتظامی کنٹرول میں ہیںجن میں گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کا علاقہ شامل ہیں جبکہ باقی تیں حصوں پر بھارت کی اجارہ داری ہے۔دونوں حصوں کو کنٹرول لائن جدا کرتی ہے جسے فائر بندی کی لائن بھی کہا جاتا ہے۔پاکستان اور بھارت دونوں کا دعوی ٰ ہے کہ اس لائن کے دونوں طرف کے علاقے ان کی ملکیت ہیں۔ کشمیر کی جغرافیائی تقسیم اسے تاریخی طور پر دو حریف ممالک کے درمیان وجہ تنازعہ ہی نہیںبناتی بلکہ ان ممالک کو اس کی سیاسی، ثقافتی اور معاشی قیمت بھی ادا کرنی پڑ رہی ہے۔مقبوظہ کشمیر تین حصوں میں بٹا ہوا ہے۔جن کی علاقائی، مذہبی، معاشی اور سیاسی تفریق حالیہ سالوں میں ابھر کر سامنے آئی ہے۔بھارتی حکومت کی 2011کی مردم شماری کے مطابق بھارتی کشمیر کی آبادی ایک کروڑ پچیس لاکھ ہے جس کا اہم حصہ وادی کہلاتا ہے جس کی آبادی پچاس لاکھ سے زائد ہے۔اس میں مسلمان آبادی کی واضح اکثریت ہے،جموں 44لاکھ نفوس کے ساتھآبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے جن میں سے 60فیصد ہندواور 30 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔مسلمان جموں کے چھ اضلاع میں سے تین میں اکثریت میں ہیں۔لداخ کا پہاڑی علاقہ تیسرے نمبر پر ہے جس میں سے زیادہ تر آبادی بدھ مت کے پیروکاروں اور مسلمانوں کی ہے۔لیہ میں دونوں کا تناسب آدھا آدھا ہے جبکہ کارگل میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔لداخ میں شیعہ مکتب ِفکر بھی کافی تعداد میں آباد ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر نہ صرف جغرافیائی بلکہ سیاسی طور پر بھی تقسیم کا شکار ہے۔مقبوضہ کشمیر کے تینوں خطوں میں سے آزادی کی تحریک کا زور وادی میں ہے جنہوں نے ہمیشہ نئی دہلی کے کنٹرول کو چیلنج کیا ہے۔ یہیں سے زیادہ تر تحریکوں نے جنم لیا اور بھارتی فوجوں کے ساتھ مسلح جھڑپیں بھی زیادہ تر یہیں ہوتی ہیں۔ جموں اور لداخ بھارتی حکومت کی طرف داری کرتے ہیں۔

کشمیری از خود اس علاقائی تقسیم سے خوش نہیں ہیں۔ بھارتی جبر واستبداد سے غیر مطمئن مقبوضہ کشمیر کی آبادی سیاسی طور پر بھی الگ الگ رائے رکھتی ہے۔وہ جو پاکستان کے ساتھ ہیں، وہ جو بھارت کی مرکزی حکومت کے ساتھ ہیں اور تیسرے وہ جو اپنے لئے الگ ملک چاہتے ہیں۔ یہ تینوں خطے 1947کے بعد ہونے والی بھارت مداخلت پر بھی الگ الگ رائے رکھتے ہیں۔کشمیر کا حکمران ایک ہندو مہاراجہ تھا اور اس نے تقسیم کے بعد ریاست کا الحاق اکثریتی آبادی کی منشا کے برعکس بھارت کے ساتھ کر دیا تھا تب سے ہی کشمیر کی حیثیت متنازعہ چلی آرہی ہے۔اس معاملے پر بھارت اور پاکستان کے درمیان 1947کے اواخر میں جنگ بھی چھڑ گئی۔جس کے بعد بھارت کو موقع مل گیا کہ وہ اپنے زیر کنٹرول علاقے پر اپنا قبضہ برقرار رکھ سکے۔اس مقصد کے لئے اس نے نہ صرف جبر واستبداد کا راستہ چنا بلکہ غیر آئینی طور پر ریاست کو اپنا حصہ قرار دے دیااور کشمیریوں پر اپنی پٹھو حکومت مسلط کر دی۔
1989-90کی کشمیریوں کی تحریک آزادی کا ایک پورا پس منظر ہے جس میں مزاحمت کاروں کے خلاف جابرانہ تشدد، سیاسی ساز باز اور معاشی اور فوجی ہتھکنڈوں کا بھر پور استعمال کیا گیا۔بالخصوص وہ لوگ جن کا جھکاو¿ پاکستان کی جانب تھا اور بھارتی حکومت سے برسر پیکار تھے۔اس تحریک کا آغاز وادی سے ہوا اور پھر یہ وادی کے دیگر علاقوں تک پھیل گئی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں لسانی و جغرافیائی، مذہبی، سماجی و معاشی اور سیاسی تقسیم نمایاں ہوتی چلی گئی جس کا جائزہ ذیل میں لیا جارہا ہے۔
مقبوضہ کشمیرمیں علاقائیت
جموں، کشمیر اور لداخ صرف برطانوی دور میں یکجا ہوئے اس سے قبل یہ تینوں خطے سیاسی اور انتظامی سطح پر الگ الگ ڈھانچہ رکھتے تھے۔ تینوں الگ الگ خطوں کو ان کی سیاسی، مذہبی اور ثقافتی تفریق کے باوجود اکٹھا رکھنے کی کوشش کی گئی۔یہ بات انگریزوں کے بھارت سے انخلا کے بعد کھل کر سامنے آ گئی۔ان تینوں خطوں میں اختلاف کا ایک پہلو سیاسی کے ساتھ گروہی بھی ہے۔وادی کا مرکزی حکومت سے وفاداری کا تاثر جموں اور لداخ سے قطعی مختلف ہے۔باوجودا س کے کہ وہ بھی مرکزی حکومت کے بارے میں وسائل کی منصفانہ تقسیم کے بارے میں خدشات کا شکار ہیں۔ اسی طرح جموں اور لداخ کے لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ وادی کے لوگ سیاسی طور پر ان پر حاوی ہیں اور دہلی حکومت صرف انہی کو اہمیت دیتی ہے۔قومی اور عالمی سطح پر بھی تمام تر توجہ وادی پر ہے۔یہ علاقائی تقسیم 1953میں بھی سیاسی اشتعال کا موجب بنی جس کے سدباب کے لئے بھارت نے کئی کمیشن بنائے۔ جن میں Sikri CommissionاورGajendragadkar Commissionکے ذریعے علاقے میں عدم مساوات کو جانچنا تھا۔جو بعد ازاں معاشی اور سیاسی میدانوں میں واضح تر ہوتی گئی۔ کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کے پیش نظر یہ کبھی رہا ہی نہیں کہ وہاں یکساں تعمیر وترقی ہو۔
علاقائی سیاسی وابستگیاں اس وقت فرقہ وارانہ شکل اختیار کر گئیں جب مقبوضہ کشمیر کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے 1987کے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں عقائد کی بنیاد پر مہم چلائی۔ کانگریس ان علاقوں میں کامیاب ہوئی جہاں ہندو¿ں کی اکثریت تھی جبکہ نیشنل کانفرنس کی توجہ کا مرکز مسلمان علاقے تھے۔مقبوضہ کشمیر میں یہ فرقہ وارانہ تقسیم اس وقت سے جاری ہے۔ اس تقسیم کے اندر مزید تقسیم بھی ہے۔جموں اور لداخ کا مطالبہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل میں مقبوضہ کشمیر کی الگ حیثیت میں سے انہیں نکالا جائے۔جموں کے ہندو¿وں اور لداخ کے بدھ مت کے پیروکاروں کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آتا رہتا ہے کہ انہیں دوسری ریاستوں کی طرح بھارتی یونین کا مستقل حصہ بنایا جائے جبکہ وادی کے مسلمان اپنے لئے مکمل آزادی چاہتے ہیں۔۔لداخ کو مقبوضہ کشمیر سے الگ کرنے کے لئے 1989میں لداخ بدھسٹ ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی گئی جس کا واضح مطالبہ یہ تھا کہ وہ وادی سے الگ حیثیت رکھتے ہیں اس لئے انہیں وادی کے ساتھ نتھی نہ کیا جائے۔لداخ بدھسٹ ایسوسی ایشن نے جموں و کشمیر کا فرقہ وارانہ تقسیم کا مطالبہ کیا یعنی لداخ بدھ مت کے پیروکاروں کے لئے،جموں ہندو¿وں کے لئے اور وادی مسلمانوں کے لئے، اس تصور کوانتہا پسندبھارتی جماعت آر ایس ایس نے بھی سراہا۔یہ مطالبہ مختلف سیاسی گروہوں کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے کسی ممکنہ حل کے طورپر وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہتا ہے۔
لداخ میں علاقائی سیاست
لداخ کے اندر دو اضلاع میں سیاسی طور پر مزید تقسیم بھی موجود ہے۔لیہ اور کارگل کے مابین مذہبی اور علاقائی تناظر میں شناخت کا تصادم بھی موجود ہے۔بدھ اور مسلمان صدیوں سے یہاں ایک ساتھ رہتے آئے ہیں لیکن بدلتے سیاسی حالات کی وجہ سے دونوں نے اپنا کعبہ الگ کر لیا ہے۔ کارگل کے شیعہ مسلمان بھی لیہ سے الگ شناخت چاہتے ہیں جو کہ بدھ اکثریت کا علاقہ ہے۔1979میں ا سوقت کے وزیر اعلی ٰ نے کارگل اور لیہ کو انتظامی بنیادوں پر الگ الگ اضلاع میں تقسیم کر دیا تھا مگر اس فیصلے کو انتظامی سے زیادہ مذہبی رنگ میں دیکھا گیا۔بالکل ویسے ہی جیسے 1905بنگال کو مشرقی اور مغربی بنگال میں تقسیم کیا گیا تھا مگر ہندو¿و کے پر زور اصرار پر اس وقت کے وائسرائے ہند لارڈ ہارڈنگ نے 1911میں اس تقسیم کو منسوخ کردیا تھا۔تاہم کارگل اور لیہ کی تقسیم علاقے کی سیاست، مذہب اور شناخت کی جداگانہ حیثیتوں کی وجہ سے قائم ہے۔
درحقیقت لداخ کی مذہبی تقسیم علاقے کے بدلتے سیاسی حالات کی وجہ سے واضح ہو گئی ہے۔کیونکہ ہر انتخابی مہم میں لداخ کے بدھ مت کے پیروکاروں کی جانب سے علاقے کیبھارتی یونین میں ادغام کا مطالبہ سامنے آتا ہے۔جس کی وجہ سے مسلمانوں اور بدھوں کے درمیان کافی تناو¿ موجود ہے۔اس کا ایک اور سبب علاقے میں تبدیلی مذہب اور بین المذاہب شادیا ں بھی ہیں۔1989کے بعد اسے بھی ایک اہم مسئلہ سمجھا جانے لگا ہے۔لداخ کی الگ علاقائی شناخت کو مسلمانوں کی جانب سے سختی سے رد کیا جاتا ہے۔جس کا نتیجہ 1989میں نسلی فسادات کی صورت میں سامنے آیا۔جس کے بعد کشیدگی اس حد تک بڑھی کہ لداخ بدھسٹ ایسوسی ایشن نے 1992تک مسلمانوں کاسماجی بائیکاٹ جاری رکھا۔ منافرانہ سیاست کے ان چار سالوں میں ایک نئی سیاسی تنظیم لداخ یونین ٹیریٹری فرنٹ کا جنم ہواجس میں لداخ کی تما م بدھ تنظیمیں ضم ہو گئیں۔
لداخ میں مسلمانوں اور بدھوں کا ساتھ چار صدیوں کا ہے اور اس دوران ان میں مثالی تعلقات رہے مگر یہ فرقہ وارانہ رواداری اس وقت مذہبی منافرت میں بدلی جب سب نے بدلتے سیاسی حالات میں اپنے اپنے لئے از سر نو سمتوںکا تعین کیا۔جس کی وجہ سے تشدد کو ہوا ملی۔لداخ بدھسٹ ایسوسی ایشن نے یہ تک بھی کہا اکہ مسلمان اور بدھ الگ الگ شناختوں کے حامل ہیں۔1970سے 1980کے درمیان بدھ مت کے پیروکاروں میں بنیاد پرستی میں اضافہ ہوا۔جس کے دباو¿ میں آ کر بھارتی حکومت نے لداخ کو خود مختار کونسل کی حیثیت دے دی۔Ladakh Autonomous Hill Development Council (LAHDC)ایکٹ کو1995میں علاقائی خود مختاری کے تناظر میں نافذ کیا گیا۔اسی طرح کی کونسل کارگل کے ضلع میں بھی بنائی گئی۔دونوں کونسلوں نے فرقہ وارانہ تقسیم کا ماحول مزید ابتر کر دیا۔
2011کے پنچائیت انتخابات کے دوران عقیدوں کی بنیاد پر مہم چلائی گئی۔ کارگل ضلع میں بدھ قصبے Zanskrnمیں مذہبی فرقہ وارانہ رنگ کھل کر سامنے آیا۔اکیسویں صدی کے شروع ہوتے ہیں دونوں مذاہب کے پیروکار تبدلی مذہب کے مسئلے پر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔کیونکہ اخبارات کا کہنا ہے 2011کی مردم شماری میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ علاقے میں بدھ آبادی کم ہو رہی ہے جس کی وجہ مخالفانہ سیاسی ماحول ہے۔
عسکری اور شدت پسند قوتیں
مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیریوں کی مرضی کے خلاف جلد بازی میں ریاست کا الحاق بھارت کے ساتھ کر دیا تھا۔جس کی وجہ سے ریاست کے باشندے بھارت کی مرکزی حکومت کے خلاف باغی ہو گئے۔کشمیر سٹڈی گروپ نے اس سلسلے میں وادی کے سیاسی رہنماو¿ں اور تاجروں سے ان کی رائے لی تو یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ”وہ لوگ جو ابتدائی سالوں میں بھارت کے ساتھ تعلق پر خوش نہیں تھے مگر بہ امر مجبوری چپ تھے بھارتی رویئے نے ان کو بھی نالاں بنا دیا “۔
کشمیر میں عسکریت اس وقت شروع ہوئی جب تقسیم کے بعد کشمیری اور بھارتی قیادت میں ریاستی باشندوں کی مرضی کے خلاف ساز باز شروع ہوئی۔بھارت نے کشمیریوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی۔تقسیم سے قبل ہی شیخ عبداللہ کی قائم کردہ نیشنل کانفرنس نے کانگریس سے رابطے استوار کر لئے تھے۔الحاق کے بعد 1949میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے رہنما ایک باہمی معاہدے تک پہنچ گئے جس کے تحت مستقبل کے بھارتی آئین میں کشمیر کے لئے ایک خود مختار سیاسی نظام کی ضمانت دی گئی تھی۔چنانچہ1950میں جب بھارتی آئین سامنے آیا تو ا س معاہدے کی روشنی میں اس میں آئین کا آرٹیکل370 شامل کیا گیا جو مقبوضہ کشمیر سے بھارت کے خصوصی تعلق کی نوعیت کوبیان کرتا ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ آرٹیکل ون کے شیڈول ایک میں قرار دیا گیا ہے کہ مستقبل میں کشمیر کوبھارتی یونین کا حصہ قرار دے دیاجائے گا۔آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر اپنا آئین، الگ جھنڈااور سیاسی ڈھانچہ بنانے کی آزادی دی گئی خارجہ، دفاع اور مواصلات کو بھارت کے ماتحت کر دیا گیا۔شیخ عبدللہ کو مقبوضہ کشمیر میں جو اتھارٹی دی گئی وہ کسی اور بھارتی ریاست کو حاصل نہیں تھی اس لئے باقی بھارتی ریاستوں کی جانب سے اس پر تنقید کی گئی۔اگر مقبوضہ کشمیر کی داخلی صورتحال کا جائزہ 1950اور 1970کے درمیانی عرصے کا لیں تویہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ نیشنل کانفرنس اور بھارتی حکومت کے درمیان ا س مسئلے پر کافی کھنچا تانی رہی۔ 1953میں شیخ عبداللہ کاKashmir Conpiracyکیس میں گرفتار کر لیا گیا جس سے علیحدگی پسند قوتوں کو گلیوں میں آنے کا موقع مل گیا۔شیخ عبدللہ کی گرفتاری اور حکومت میں تبدیلی سے یہ تاثر عام ہو گیا کہ مرکزی حکومت ریاست کو ہر حال میں اپنے تابع رکھنا چاہتی ہے اور اسے جمہوری عمل میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔1955میںجیل میں قید شیخ عبدللہ کے حامیوں نے استصوابِ رائے کے لئے رائے شماری محاذ کی بنیاد رکھی جس میں بھارتی فوج کو قابض قرار دیتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق وقتی تھا۔نیشنل کانفرنس کے مقابلے میں رائے شماری محاذ ریاست کی مو¿ثر سیاسی قوت بن کر ابھرااور یہ 1970میں اس وقت تک مو¿ثر رہا جب شیخ عبداللہ اور اندرا گاندھی کے درمیان سمجھوتا ہو گیا جس میں وہ مقبوضہ کشمیر کا سابقہ سٹیٹس بحال کرنے پر آمادہ ہوگئیں۔جب مقبوضہ کشمیر کی قیادت اور بھارتی حکومت کے درمیان محاذ آرائی جاری تھی توعسکری گروپ بھی میدان میںکود پڑے۔ایک کشمیری مصنف بلال بھٹ اپنی یاداشتوں میں لکھتا ہے کہ ”سکول میں ان کے دوستوں کا ایک گروپ آزادی کے حصول کے لئے ایک گوریلا تنظیم میں شامل ہو گیا تاکہ بھارت کے خلاف عملی جدوجہد کی جا سکے جس کے بعد والدین نے اس ڈر سے کہ ان کے بچے عسکریت پسندی کی طرف نہ مائل ہو جائیں اپنے بچوں کو وادی سے باہر کے بورڈنگ سکولوں میں داخل کرانا شروع کر دیا“۔
شیخ عبدللہ نے بھارتی حکومت سے ساز باز کے بعد محاذ رائے شماری کو تحلیل کرد یا تاہم یہ فیصلہ
دیر پا ثابت نہیں ہوا کیونکہ محاذ رائے شماری کے سابقین اور نوجوان حریت پسندوں نے مل کر جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی بنیاد رکھی جو بہت مقبول ہو گیا مگر بھارتی حکومت نے ریاست پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لئے ریاستی انتخابات میں دھاندلی کروائی جس کی وجہ سے کشمیری نوجوانوںمیں بے چینی پھیل گئی۔ انہوں نے نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی مشترکہ حکومت کے خلاف بغاوت کر دی۔جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے کشمیر کی آزادی کا نعرہ لگا دیا۔1987کے دھاندلی زدہ ریاستی انتخابات کا اعلان ہوتے ہی کشمیر کے گلی کوچے آزادی کے نعروں سے گونجنے لگے۔ اس احتجاج میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہوگئی۔ جب حالات خراب ہوئے تو بھارتی حکومت نے مطالبات پر توجہ دینے کی بجائے ریاست میں گورنر راج لگا کر ایک سخت گیر منتظم جگ موہن ملہوترا کو تعینات کر دیا جس نے عام شہریوں کے خلاف طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا۔
Victoria Schofield لکھتا ہے کہ ”کشمیر کو 1947میں جوخصوصی درجہ دیا گیا اس سے کشمیریوں کے اندر تلخیوں نے جنم لیا۔کشمیری رہنماو¿ںنے ان پر کوئی توجہ نہیں دی۔اس ساری صو رتحال کا ذمہ دار بھارت تھا۔تلوین سنگھ کو یقین ہے کہ کشمیر شاید کوئی مسئلہ ہوتا ہی نہیں اگر وادی دہلی کی بے سروپا پالیسیوں کوشرف قبولیت نہ بخشتی “۔
1: بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے جو سیاسی چالیں چلیں اس کی مقبوضہ کشمیر کے اندر کافی مزاحمت ہوئی۔1987سے1989کے دوران وہاں تشد د کی ایک بھر پور لہر آئی معمولات زندگی معطل ہو کر رہ گئے۔بھارتی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف پورے مقبوضہ کشمیر میں بھرپور احتجای مظاہرے کئے گئے جو بالآخر آزادی کے حصول کے لئے مسلح جنگ میں بدل گئے۔
1950سے ہی منتخب حکومتوں کی غیر آئینی برطرفیوں، وزرائے اعلی کی مسلسل تبدیلی اور بھارتی حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 370کی وجہ سے کشمیر میں مسلسل بے چینی بڑھتی رہی۔1963میں Holy Relicتحریک کے آغاز سے آزادی کی تحریک کو نئی جلا ملی جس کی سربراہی میر واعظ مولوی محمد فاروق کر رہے تھے اس تنظیم میں مسلمان علما اور علیحدگی پسند اکھٹے ہو گئے جنہوں نے تبرکات کی واپسی کا مطالبہ کیا۔یہ تنظیم بعد میں خود مختاری ایکشن کمیٹی میں بدل گئی۔
2: مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ ہمیشہ دھاندلی سے عبارت رہی۔1987میں الیکٹرورل ووٹوں میں دھاندلی کے نتائج تباہ کن ثابت ہوئے۔جس سے پوری وادی کشمیری نوجوانوں کی جانب سے لگائے گئے آزادی کے نعروں سے گونج اٹھی۔ Navnita Chadha Beheraنے کشمیری نوجوانوں کے احساسات کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
”جہاں ووٹ ناکام ثابت ہوا وہاں گولی آگئی۔ بھارت کے جمہوری نظام میں غلاموں کو ووٹ دینے کا حق نہیں اس لئے ان کے پا س کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ بندوقیں اٹھا لیں “۔
بھارت نے کبھی کشمیر میں گورنر راج لگایاتوکبھی براہ راست اپنی حکومت نامزد کردی جس سے کشمیریوں کے اندر مخالفانہ جذبات پروان چڑھے۔
3: اگرچہ مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی کا قیام تقسیم سے قبل 1945میں ہوچکاتھا تاہم ا س کی جانب سے پہلی بھر پور سرگرمی کا آغاز اس وقت ہوا جب ا س نے 1970کے انتخابات میں حصہ لیا۔جماعت اسلامی کشمیری مسلمانوں کے حقوق کی علمبردار گردانی جاتی تھی جو مقبوضہ کشمیر کے عسکری گروپوں میں بھی متحرک تھی۔جن میں حزب المجاہدین، حزب اسلامی، اسلامی جمعیت طلبااور الجہاد وغیرہ شامل تھیں۔ستمبر1986میں جماعت اسلامی نے آزادی کی حامی دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک اتحاد مسلم یو نائیٹڈ فرنٹ کی بنیاد رکھی۔ا سکے سائے تلے ذیلی تنظیمیں امت ِ اسلامی، انجمن اتحاد المسلمین، اسلامک سٹڈی سرکل، مسلم ایجوکیشن ٹرسٹ، مسلم ویلفیئر سوسائٹی،اسلامی جمعیت طلبا اور ادارئہ تحقیقات بھی بن گئیں۔مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کا نصب العین مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے مذہبی و سیاسی حقوق کا تحفظ تھا اسی کے لئے اس نے 1987کے انتخابات میں حصہ لیامگر دھاندلی کی وجہ سے نیشنل کانفرنس واضح اکثریت سے جیت گئی۔مگر مسلم
یو نائیٹڈ فرنٹ کی یہ شکست بھارت کے لئے فائدے کی بجائے نقصان کا موجب بن گئی کیونکہ مسلم یو نائیٹڈ فرنٹ مقبول ترین جماعت تھی اس نے دھاندلی کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاج شروع کر دیاجس کی وجہ سے اس کے کئی رہنماو¿ں کو جیلوں میں بند کردیا گیا یہی بعد ازاں عسکریت پسندی کی جانب مائل ہو گئے۔ان میں یوسف شاہ (یوسف صلاح الدین) بھی شامل تھے جنہوں نے کشمیر کی سب سے بڑی عسکری تنظیم ” حزب المجاہدین “ کی بنیاد رکھی۔ یٰسین ملک جو کہ کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ تھے ان دونوں نے 1987کے انتخابات میں مسلم یو نائیٹڈ فرنٹ کے جھنڈے تلے حصہ لیا تھا۔1990میں آزادی کے حصول کے لئے ایک نئے اتحاد ”تحریک ِ حریت ِ کشمیر“ کی بنیاد رکھی گئی جس میں عسکری اور سیاسی دونوں قیادتیںموجود تھیں۔جن میں جماعت اسلامی، مسلم کانفرنس، پیپلز لیگ،محاذِ آزادی اور اسلامک سٹوڈنٹس لیگ شامل تھے۔چونکہ ا س اتحاد کے ساتھ مذہبی مقاصد بھی منسلک تھے اس لئے مقبوضہ کشمیر میں اس پلیٹ فارم سے بھر پور طریقے سے آزادی کی جدوجہد شروع ہو گئی۔ان میں سے اکثر تنظیمیں مذہبی بنیادوں پر سیاسی تنظیمیں تھیں جو ا س لئے عسکریت پسندی کی جانب مائل ہو گئیںکیونکہ جیلوں میں ان کے رہنماو¿ ں کے خلاف بہیمانہ سلوک روا رکھا گیا تھا۔
4: عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کا بھی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر کافی اثر ہوا۔ہنگری اور کیوبا کی انقلابی تحریکیں،روس کے خلاف افغان مجاہدین کی کامیابی کی وجہ سے مقبوضہ وادی میں الفتح اور پیپلز لیگ جیسی تنظیموںقائم ہوئیں جنہوں نے بھارتی فوج کے خلاف گوریلا جنگ شروع کر دی اس دوران کئی کشمیری رہنماو¿ ں نے عسکری گروپ بنائے۔1994تک بڑے عسکری گروپوں کی تعداد گیارہ تک پہنچ چکی تھی جبکہ چھوٹے گروپوں کی تعداد درجنوں میں تھی۔ان میں سے اکثر کو بھارتی حکومت نے کالعدم قرار دے دیا جس کی وجہ سے کئی اپنے نام بدل کر نئے ناموں سے سامنے آ گئے۔1990کی دہائی عالمی سطح پر انقلابی تحریکوں اورآزادی کی تحریکوں کی دہائی تھی۔جن میں قومیت پرستی کا رنگ جھلکتا تھا۔اس لئے مقبوضہ کشمیر میں اس وقت آزادی کی تڑپ مزید بھڑک اٹھی جب روس کے ٹوٹنے سے کئی وسطی ایشیائی ریاستوں کو آزادی نصیب ہوئی۔
5: مقبوضہ کشمیر میں مذہبی جماعتوں نے بھی آزادی کی تحریک میں اپنابھر پور حصہ ڈالا۔صدیوں پرانی کشمیری شناخت جب مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہوئی تو مسلمان بھی اپنے حقوق کے لئے کھڑے ہو گئے ہندو¿وں کی قوم پرست جماعتیںجیسا کہ پراجہ پرشاد،جانا سنگھ اور آر ایس ایس کو کانگریس کی حمایت حاصل تھی یہی وجہ تھی کہ 1952میں کشمیری ہندو¿وں نے کشمیر کی خود مختار حیثیت کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔پراجہ پرشاد کے فرقہ وارانہ احتجاج نے شیخ عبداللہ کو مجبور کیا کہ وہ کشمیر کی مکمل خود مختاری کا مطالبہ کریں۔2008میں امر ناتھ لینڈ تنازعہ اور2015میں گائے کے گوشت پر ہونے والے فسادات سے کشمیری نوجوان یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے کہ ہندو حکمران کشمیریوں کو اپنی رعایا بناناچاہتے ہیں۔
6: بھارتی فوج کی جانب سے طاقت کا اندھادھند استعمال اور کشمیری نوجوانوں کے خلاف تشدد سے گزشتہ دہائی میں عسکریت پسندی عوامی سطح پرپھیل گئی۔ہیومن رائٹس واچ کے مطابق آرمڈ فورسز پاور ایکٹ(AFSPA)کی وجہ سے کشمیری فورسز کو آزادی ملی کہ وہ جسے چاہیں جہاں چاہیں مار ڈالیں۔ اسی رد عمل میں مقبوضہ کشمیر میں 1990میں شدت پسندی میں اضافہ ہوا۔بھارتی فوج نے خصوصی اختیارات کے تحت طاقت کا ندھا دھند استعمال کیا جس کا نشانہ بے گناہ عورتیں اور بچے بھی بنے۔
جموں کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ بھی ایک ظالمانہ قانون ہے جس کے تحت ریاستی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی مشتبہ شخص کو عدالت میں پیش کئے بغیر دو سال تک تحویل میں رکھ سکتی ہے۔ایمنسٹی انٹر نیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے ان دونوں جابرانہ قوانین کا جابرانہ اور ظالمانہ قرار دیا۔1995اور1996کے دوران ایسے افراد کی تعداد سالانہ اڑھائی ہزار سے تجاوز کر گئی تھی تاہم حالیہ سالوں میں اس میں کمی آئی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ کئی سالوں سے تعینات بھارتی فورسز تین قسموں کی ہے۔بھارتی فوج،بارڈر سیکورٹی فورس اور سینٹرل ریزرو فورس، آخر الذکر دونوں فورسز وزارت ِ داخلہ کے ماتحت ہیں جبکہ فوج وزارت دفاع کے ماتحت ہے۔تینوں فورسز میں بی ایس ایف کی شہرت کشمیریوں کی ماورائے عدالت ہلاکتوں اور ظالمانہ آپریشنز کی وجہ سے کافی خراب ہے۔بدنام زمانہ ٹارچر سیل Papa IIمیں ظلم و ستم کی ایسی ایسی داستانیں رقم کی گئیں کہ جن کا تصور کرتے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔بھارت نے کشمیریوں کو دبانے کے لئے ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے جس نے کشمیریوں کو مجبور کیا کہ وہ بندوق اٹھا لیں۔ اس صورتحال کو ایمنسٹی انٹر نیشنل کے ڈائریکٹر گلوبل آپریشنز نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔”کشمیر میں جتنی فورسز تعینات ہیں ان میں سے کسی کے خلاف آج تک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا کیس نہیں چلا۔چنانچہ کسی بھی جواب دہی کی عدم موجودگی میں انہوں نے ایسے ہتھکنڈے بھی استعمال کئے جن کی اجازت کسی صورت نہیں دی جا سکتی تھی “۔اس حوالے سے مقبوضہ کشمیر میںانسانی ہلاکتوں، گمشدگیوں، زنا بالجبر،تشدد اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کے اعداد و شمار ہولناک ہیں اور سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ان کی تعداد 40ہزار تک ہے۔مقبوضہ کشمیر کی حکومت ان کی سرکاری تعداد 43226بتاتی ہے جو 1990سے2011کے درمیانی عرصے میں ہلاک ہوئے۔ان میں سے 21323حریت پسند،13226 عام شہری جو سیکورٹی فورسز کا نشانہ بن گئے۔ا س میں 5369پولیس والے بھی شامل ہیں جنہیں حریت پسندوں نے ہلاک کیا۔ لیکن آزاد ذرائع کی جانب سے مہیا کئے جانے والے اعداد و شمار اس تعداد سے کہیں زیادہ ہیں۔جن میں ہلاکتوں، تشدداور زنا بالجبر کے دوران یا بعد میں خود کشیاں، جسمانی معذوری،اندرونی بے دخلیاں، سامنے آنے اور نہ آنے والی گمشدگیاں، اور وادی سے ملحقہ علاقوں میں اجتماعی قبریں بھی شامل ہیں اور یہ سب اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ قابض بھارتی فوج کو کالے قوانین کا سہارا دیا گیا ہے اور وہ اپنی رٹ قائم کرنے کی خاطر کوئی بھی حد کراس کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔کشمیر میں مسلح جدوجہد کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے Beheraنے Demystifying Kashmirنے لکھا ہے کہ ”مرکزی حکومت نے گورنر شری جگ موہن کی پالیسی کے ذریعے لوگوں کو موقع دیا کہ وہ بھارت کے خلاف ہو جائیں اور پر امن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھنے والے کشمیری عسکریت پسندی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے “۔
کشمیری نوجوانوں میں شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو دیکھتے ہوئے حکمران پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کے نوجوان رہنما وحید پیرا کہتے ہیں ”پہلے تو کشمیری نوجوان شناخت کی جستجو میں ہے،دوسرا یہ کہ اشرافیہ کو وہ پسند نہیں کرتے، ہم کو شش کر رہے ہیں کہ انہیں کیسے مرکزی دھارے کا حصہ بنایا جائے “۔
حکمران جماعت کو یہ باور ہوجانا چاہئے کہ ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کے خلاف بھارت نے جو جابرانہ اقدامات کئے اور کشمیر کی تحریک آزادی کو دہشت گردی کے ساتھ نتھی کیا اس کے جواب میں کشمیری اپنی تحریک آزادی شروع کرنے پر مجبور ہوئے۔
جبر کی بھارتی حکمت عملی
گزشتہ دہائی میںبھارت کی جانب سے جبرو استبداد کی پالیسی عروج پر رہی اور سیاسی طور پر عدم استحکام رہا۔تحریک حریت بھارت کے لئے سب سے بڑا چیلنج بنی رہی۔بھارت عالمی سطح پر ا س کامقابلہ ایک سہ رخی پالیسی کے ذریعے کر رہا ہے۔بھارت کشمیر پرکوئی بھی عالمی مداخلت قبول کرنے سے انکاری ہے۔پاکستان کے ساتھ وہ دو طرفہ مزاکرات کا حامی رہا مگر جب بات کشمیر پر ہوتی ہے تو وہ اسے اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے اور کہتا ہے کہ کشمیر کو چھوڑ کر باقی مسائل پر بات کرو۔ بھارت کشمیریوں کو اپنا غلام سمجھتا ہے اور انہیں ان کا جمہوری حق جس کا وعدہ اس نے اقوام متحدہ میں کیا تھا وہ دینے سے انکاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مرکز کے کنٹرول کو مو¿ثر رکھنے کے لئے بھارتی حکومت نے 1954سے1970کے درمیان 128آرڈر جاری کئے جبکہ 260قوانین ایسے تھے جن کا دائرہ کشمیر تک بڑھا دیا گیا۔ اس وقت وادی میںاسی لاکھ سول آبادی کے مقابلے کے لئے چھ لاکھ بھارتی قابض فوج موجود ہے۔68سالوں پر محیط اس تنازعہ میں بھارتی حکمت عملی جابرانہ انضمام سے انتخابی اثر اندازی سے امداد و ترقی کی ترغیبات کے گرد گھومتی ہے۔
گھٹن اور تشد د
مرکزی حکومت کا پٹھو بن کر سیاست کرنے والے شیخ عبداللہ نے مقبوضہ کشمیر میں نفرت کے بیج بوئے۔1989-90کی تحریک کو دبانے کے لئے بھارت آ ہنی ہتھکنڈے استعمال کئے۔بھارتی فوج کے ظلم و ستم کی ہولناک داستان مقبوضہ کشمیر کے گلی کوچوں میں بکھری پڑی ہیں۔قتل عام،اجتماعی زیادتیوں،تشدد، جبری گمشدگیوں کی ان گنت داستانیں ہیں۔1989سے اب تک 70ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔آٹھ ہزار کے قریب غائب ہیں۔ایک کشمیری صحافی بھارتی فوج کی جانب سے ظلم کی داستانوں کو رقم کرتے ہوئے کہتا ہے ”کشمیر نے انگڑائی لی جس کے بعد ہر گلی محلے میں عسکری گروپ بن گئے جس کا مقابلہ کرنے کے لئے بھارت نے کئی ہتھکنڈے استعمال کئے،کالے قوانین کا سہارا لے کر لوگوں کو تشددکا نشانہ بنایا،PAPA I اورPAPA II جیسے ٹارچر سیلوں میں گئے ہوئے بڑی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی جہادی غائب ہو گئے “۔
مقبوضہ کشمیر کے باشندے یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں کہ ان کی سرزمین پر غیر ملکی افواج قابض ہیں۔سرچ آپریشنز، کرفیو، انٹرنیٹ کی مسلسل بندش، تفتیش اور مقامی افراد کی ان گنت ہلاکتیں اور گمشدگیاں اب معمول بن چکی ہیں۔ایمنسٹی انٹر نیشنل کی 1992کی رپورٹ کے مطابق”بھارتی افواج جنوری 1990سے وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہے،پیرا ملٹری فورسز بارڈر سیکورٹی فورسزاور سینٹرل ریزرو پولیس، گھیراو¿ اور تلاشی کے آپریشنز مسلسل جارے رکھے ہوئے ہے جن میں انسانی حقوق کا کوئی پاس نہیں رکھا جاتا۔کومبنگ آپریشنز میں اور آرمی کیمپوں، تفتیشی مراکز، پولیس سٹیشنز اور جیلوں میں تشدد معمول کی کارروائی ہے۔جنسی زیادتیاں بھی عام ہیں۔مقبوضہ کشمیر کی آبادی کو حراساں کرنے کے لئے اجتماعی جنسی زیادتیوں کے واقعات بھی مسلسل ہوتے رہتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں کٹھ پتلی حکومتیں قائم کی جاتیں ہیں تاکہ ریاست پر اپنی گرفت مضبوط بنائی جا سکے۔مثال کے طور پر 1953میں شیخ عبداللہ کی گرفتاری کے بعد بخشی غلام محمد کی حکومت قائم کی گئی اس طرح 1990میں گورنر راج لگا کر جگ موہن ملہوترا کو اقتدار سونپ دیا گیا۔جس سے ریاستی جبر کے ایک سیاہ دور کا آغاز ہوا۔ اس دور میں تشدد، تضحیک، گالم گلوچ، زنا بالجبر، مشتبہ نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ اور پر ہجوم مقامات پر اندھا دھند گولیاں برسانا معمول کے واقعات بن گئے۔
اختیار کا خاتمہ
مقبوضہ کشمیر میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا مظہر بھارتی آئین کا آرٹیکل 370ہے۔اس کے ذریعے بھارت نے ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کردیا۔ تاہم قرار پایا کہ مرکزی حکومت کا کردارصرف ریاست کے خارجی، دفاعی اور مواصلاتی معاملات تک محدود ہو گا۔ اس آرٹیکل کے تحت مقبوضہ کشمیر کو باقی بھارتی ریاستوں کے مقابلے پر خصوصی حیثیت دی گئی ہے اور دوسری بہت سی شقیں جن کا تعلق باقی ریاستوں سے ہے وہ مقبوضہ کشمیر میں مو¿ثر نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر یہ آرٹیکل بھارتی شہریوں کی ریاست کشمیر میں زمین کی خریداریوں پر پابندی عائد کرتا ہے۔مرکزی حکومت ریاست میں آئین کے آرٹیکل 360کے تحت معاشی ایمر جنسی اس وقت تک نہیں لگا سکتی جب تک کہ ریاستی اسمبلی اس کی سفارش نہ کرے۔ بھارتی حکومت بہت سے عالمی معاہدوں کو ریاست تک پھیلا نہیں سکتی۔آرٹیکل370ایک حد تک مقبوضہ کشمیر کو داخلی خود مختاری دیتا ہے کہ وہ بھارتی فیڈریشن کے اندر رہتے ہوئے اپنی حکمرانی قائم کر سکیںمگر ہمیشہ اس آرٹیکل کی پامالی بھارت کی جانب سے کی گئی۔ نئی دہلی کی مرکزی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومتوں کی آشیر باد سے ضمنی آرڈر جاری کئے اور وہاں اپنی گرفت مضبوط رکھی۔ اس کی ابتدا بھارتی صدر کے جاری کردہ کانسٹی ٹیشنل آرڈر 1954سے ہوئی۔جس میںمرکز کا دائرہ تمام معاملات تک بڑھا دیا گیا۔ 1958میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے بھارتی ایجنسیوں کا دائرہ کار بھی مقبوضہ کشمیر تک بٹھا دیا گیا۔ ریاست میں گورنر راج کے ممکنہ حل کے باوجود 1964میں آرٹیکل 356کے ذریعے ریاست میں صدارتی نظام لاگو کر دیا گیا۔1965میں صدارتی حکم نامہ جاری کرتے ہوئے چھٹی آئینی ترمیم لائی گئی جس کے تحت گورنر کی تقرری مرکز کرے گا جبکہ وزیر اعلیٰ کی وزیر اعظم کرے گا۔ 1986میں آرٹیکل 249کے ذریعے پارلیمنٹ کو اختیار دیا گیا کہ وہ ریاستی معاملات میں دو تہائی اکثریت سے قانون سازی کر سکتی ہے۔استوش کمار کے الفاظ میں ”گزشتہ پانچ دہائیوں میں 42آئینی آرڈرز جاری کئے گئے جس کے نتیجے کے طور پرریاستی اسمبلی کے اختیارات محدود ہو گئے اور مرکزی حکومت کے بڑھ گئے۔ بھارتی آئین کے 395آرٹیکلز میں سے 260کا دائرہ مقبوضہ کشمیر تک پھیلا دیا گیا۔جس کا مقصد کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کا خاتمہ اور اسے رفتہ رفتہ بھارتی یونین کا حصہ بنانا تھا۔اس پر مزید یہ کہ جب بھی ڈر ہو اکہ بھارت کے مخالفین بر سر اقتدار آ جائیں گے انتخابات میں جھرلو پھیر کر اپنی من پسند حکومت لائی گئی۔ان غیر جمہوری اقدامات سے رفتہ رفتہ کشمیریوں کی آزادی محدود ہوتی گئی اور ان کے سیاسی اختیارات میں بھی کمی کر دی گئی۔
عالمی توجہ کا فقدان
امریکہ اور دوسری مغربی قوتیں کشمیر کو ایک مسئلہ تو تسلیم کرتی ہیں لیکن وہ اسے دو ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعہ سمجھتی ہیں نہ کہ ایک ایسا عالمی مسئلہ جہاں پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ ابھی تک اسے دو طرفہ مسئلے کی حیثیت حاصل ہے تبدیلی صرف اتنی آئی ہے کہ دنیا کہتی ہے کہ مسئلے کا ایساحل تلاش کیا جائے جو کشمیریوں کے لئے بھی قابل قبول ہو۔کشمیر پہلی بار اس وقت عالمی توجہ کا مرکز بنا جب 1949میں اقوام متحدہ نے مداخلت کے ذریعے یہاں پر دونوں ملکوں کے درمیان فائر بندی کرائی اور یہاں پر اپنے فوجی آبزرور گروپ تعینات کئے۔1965کی پاک بھارت جنگ سے دنیا کی توجہ ایک بار پھر مسئلہ کشمیر پر مبذول ہوئی اور دنیا سوچنے لگی کہ وہ کیسے جنوبی ایشیا کو بحران سے نکالنے میں اپنا کرادر ادا کرے۔ 1971کی جنگ جس میںبھارت نے پاکستان کے مشرقی حصہ میں مداخلت کے ذریعے اسے دو لخت کر دیا اس موقع پر بھی دنیا نے کشمیر کے مسئلے کو اپنے اپنے مفادات کے تناظر میں دیکھا۔اس دور میں مسئلہ کشمیر پر دنیا کی توجہ بہت کم ہو چکی تھی۔کیونکہ 1972میں پاکستان اور بھارت کے مابین شملہ معاہدہ ہو گیا جس میں نئی فائر بندی لائن کی نشاندہی کر کے اسے مستقل لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا۔ اس کے 1989میں جب کشمیریوں میں بیداری کی تحریک اٹھی تودنیاکی توجہ ا س مسئلے کی جانب مبذول ہو گئی۔ اس لئے مقبوضہ کشمیر میںبھارتی فوج کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر عالمی ادارے آواز اٹھانے لگے۔1990میں کشمیریوں کے خلاف بھارتی فوجی ہتھکنڈوں کی وجہ سے پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی 1998کے ایٹمی تجربوں پر منتج ہوئی جس کے بعد دنیا نے اس مسئلے کو ایٹمی جنگ کے خطرے کے تناظر میں دیکھنا شروع کیا۔ دونوں ممالک نے این پی ٹی پر دستخطوں سے بھی انکار کر دیا تھا اس لئے دنیا کی خواہش تھی کہ کشمیر پر دونوں ممالک مذاکرات کریں جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان 1999میں اعلیٰ سطحی کانفرنس ہوئی جس میں اعلان ِ لاہور سامنے آیا جس میں تمام مسائل کے حل کا اعادہ کیا گیا تھا۔ اس پر عالمی میڈیا میں کافی تذکرہ ہواکیونکہ یہ پہلا موقعہ تھا کہ دونوں ممالک اس مسئلے کے پر امن حل پر متفق ہوئے تھے لیکن اس کے ایک سال بعد ہی دونوں ممالک کے درمیان مئی1999میں کارگل جنگ چھڑ گئی۔جولائی 1999میں امریکی مداخلت سے جنگ بند ہو گئی اور عالمی برادری نے ایک بار دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ بامقصد مذاکرات کریں اور کشمیر کا کوئی حل نکالیں۔ بھارت نے ایل او سی کو مانیٹر کرنے کے لئے امریکی ٹیکنالوجی خرید لی جس کے بعد 2002میںمقبوضہ کشمیر میں ہونے والے انتخابات کی نگرانی کے لئے دنیا کے کئی ممالک نے مندوبین بھیجے۔دسمبر2001میں بھارتی پارلیمنٹ پر دہشت گرد حملے کے بعد جب دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھی تو دنیا کی توجہ کشمیر پر ایک بار پھر مبذول ہو گئی۔بھارت نے اس حملے کے ڈانڈے پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کی۔دونو ممالک کی فوجیں سرحدوں پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئیں۔امریکہ خفیہ اداروں نے دونوں ممالک میں جنگ کی صورت میں ایٹمی اسلحے کے استعمال کا خطرہ ظاہر کر دیا۔جس کی وجہ سے دنیا دونوں ممالک میںکشیدگی کم کرانے میں سرگرم ہوئی۔
دنیا کشمیر کے مسئلے کو حق خود ارادیت کے تناظر میں نہیں دیکھتی تھی اور اسے دو ممالک کے درمیان ایک سرحدی تنازعہ گردانتی تھی۔یہ1989کی کشمیریوں کی بیداری کی تحریک تھی جس نے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھارتی فوج کی جانب سے روا رکھی جانے والی خلاف ورزیوں پر چیخنے چلانے لگے۔اس کے بعد دونوں ممالک میں بیک چینل ڈپلو میسی کے ذریعے کشمیریوں کو تیسرے فریق کا درجہ مل گیا۔ اقوام متحدہ کے بعد اس مسئلے کو دیگر عالمی فورمزپر بھی اٹھایا گیا جن میں اسلامی کانفرنس، دولت مشترکہ کی پارلیمنٹری کانفرنس، مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔کشمیر پر عالمی توجہ صرف چار مواقع پر مبذول ہوئی۔ 1947,1965,1971اور1999کی پاک بھارت کارگل جنگ، جب بھی لائن آف کنٹرول پر حالات کشیدہ ہوتے پاکستان پر دباو¿ بڑھتا کہ وہ کشمیریوں کی مدد سے ہاتھ کھینچ لے نہ کہ بھارت پر دباو¿ بڑھایا جاتا کہ وہ کشمیر کا مسئلہ عالمی وعدوں کے مطابق حل کرے۔
کشمیریوں کی بطور تیسرے فریق شرکت
ابتدا میں تو یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں آنے کی وجہ سے، پاکستان اور بھارت کو ہی مسئلے کے فریق گردانا گیا کیونکہ بھارت ہمیشہ مسئلے میں کسی تیسرے فریق کی شرکت سے انکاری رہا۔نہرو لیاقت معاہدہ، معاہدہ تاشقند،سوران سنگھ بھٹومذاکرات1972میں ہونے والہ شملہ معاہدہ،1999کا اعلان ِ لاہور،2001کی آگرہ کانفرنس، کرکٹ ڈپلومیسی سمیت دونوں ممالک میںمذاکرات نے کئی رنگ اختیار کئے مگر اعتماد سازی کے لئے کئی اقدامات اٹھانے کے باوجود یہ مسئلہ حل نہیں کیا جا سکا۔ اپریل 2005میں سری نگر مظفر آباد بس سروس شروع کی گئی جون 2006میں پونچھ راولا کوٹ بس سروس شروع ہو گئی، تجارت کا بھی آغاز ہوا۔بس سروس کے ذریعے لائن آف کنٹرول کے اطراف کشمیریوں کے منقسم خاندانوں کو یکجا ہونے کا موقع ملا۔جس سے کشمیری مسئلے کے بنیادی فریق کے طور پر ابھرے۔ واجپائی دور میں دونوں ممالک کے درمیان ٹریک ٹو ڈپلومیسی بھی ہوئی جس میں پہلی بار مذاکرات میں کشمیری علیحدگی پسندوں کو بھی سنا گیا۔
مئی2000میں بھارتی حکو مت نے عوامی سطح پر تسلیم کیا کہ وہ حریت کانفرنس کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے اسی طرح اسی سال اگست میں بھارتی حکومت نے حزب المجاہدین کے ساتھ اس وقت مذاکرات کئے جب ا س نے جولائی2000میں سیز فائر کر دیا تھا۔اکتوبر2003میں بھارتی حکومت نے ایک بار پھر عسکری گروپوں کے ساتھ منقطع مذاکرات کا سلسلہ بحال کرنے کی پیشکش کی مگر سخت گیر گروپوں نے بھارتی پیشکش رد کر دی۔مگر حریت رہنما عبد الغنی بھٹ نے مذاکرات میں شرکت پر آمادگی ظاہر کی اور کہا کہ مذاکرات جنگ سے بہترآپشن ہے۔2004سے2007کے دوران اسلام آباد اور نئی دہلی نے کشمیری علیحدگی پسندوں کے درمیان مزاکرات کے کئی دور کئے۔کئی کشمیری رہنما اس وقت کے بھارتی وزرائے اعظم واجپائی اور من موہن سنگھ سے ملے۔کچھ پاکستان آکر مشرف سے ملے جن میں کشمیر کے وزیر اعلی ٰ عمر عبداللہ اور پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کی رہنما محبوبہ مفتی بھی شامل تھیں۔ آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار قیوم اپریل2007میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے دہلی گئے تو وہاں جا کر وہ من موہن سنگھ سے ملے مگر علیحدگی پسندوں کی طرح دہلی حکومت کے سخت گیر رویئے کی وجہ سے یہ مذاکرات بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے۔بھارت نے عالمی دباو¿ کو مد نظر رکھتے ہوئے کشمیر پر دو رخی پالیس اپنا لی،ایک تو کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کچلنے کے لئے آہنی ہاتھ کا ستعمال کیا اور دوسرا مذکرات بھی جاری رکھے۔ مذاکرات کی ناکامی کی دیگر وجو ہات درج ذیل ہیں :
۱۔ اپریل 2001میں کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے بی جے پی حکومت نے سابق وزیر داخلہ کے سی پنت کو نامزد کیا مگر حریت نے پاکستان کے بغیر مزاکرات میں شرکت سے انکار کر دیا۔
2۔ 2002میں نام نہاد کشمیر کمیٹی قائم کی گئی مگر یہ بھی حریت کانفرنس کے ساتھ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔
3: 2003میں بی جے پی کی حکومت نے دو مذاکرات کار نامزد کئے جنہوں نے علیحدگی پسندوں کو مزاکرات پر راضی کر لیا مگر کسی واضح روڈ میپ کی عدم موجودگی کی وجہ سے مذاکرات ناکام ہو گئے کیونکہ بھارتی حکومت کشمیریوں کوکوئی پیشکش کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھی۔
4: فروری اور مئی2006دو گول میز کانفرنسیں بھی ہوئیں مگر کئی علیحدگی پسندوں نے یہ کہہ کر بائیکاٹ کر دیا کہ پاکستان کو شامل کئے بغیر ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
5: اکتوبر2010میں بھارتی حکومت نے مسئلے کے سیاسی حل کے لئے کشمیریوں کے ساتھ مزاکرات کے لئے ایک سہ رکنی ٹیم کا اعلان کیا۔بھارت کے سابق وزیر داخلہ پی چندمبرم کے بقول ان کا مقصد کشمیر کے تمام طبقات کے ساتھ پائیدار اور نتیجہ خیز مذاکرات کی راہ ہموار کرنا تھا،بالخصوص نوجوانوں اور طلبا کے ساتھ۔اس بار ان مذاکرات کا مقصد ان وجوہات کا جائزہ لینا بھی تھا جو مقبوضہ کشمیر میں عسکریت پسندی کی بنیاد بنیں۔
کئی سالوں میں مسئلہ کشمیر پر یہ تبدیلی ضرور ہوئی ہے کہ کشمیریوں کو مسئلے کافریق تسلیم کر لیا گیا ہے۔کشمیر میں پاکستان اور بھارت کے ساتھ الحاق کرنے والوں کے ساتھ آزادی کے حق میں بھی کافی رائے عامہ ہموار ہے۔ اس لئے تینوں فریقوں کو باہمی رضا مندی سے مسئلے کے کسی ممکنہ حل تک پہنچنا ہو گا۔
(بشکریہ :ریجنل سٹڈیز،تلخیص و ترجمہ،سجاد اظہر)