شریعت اور آئین کا موضوع حالیہ سالوں میں اس لئے بھی ابھر کر سامنے آیا ہے کیونکہ کئی شدت پسند تنظیموں نے اپنے اپنے ملکوں کے آئین کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور ان کا مو¿قف ہے کہ قرآن و حدیث کی موجودگی میں کسی آئین کی کوئی ضرورت نہیں ۔اس صورتحال میں ضروری ہو جاتا ہے کہ یہ جائزہ لیا جائے کہ روز مرہ امور اور معاملات ِ حکومت چلانے کے لئے شریعت کے اندر رہتے ہوئے آئین سازی کا اختیار کس حد تک ہے ؟اسی موضوع پر ثاقب اکبر نے قلم اٹھایا ہے ۔ثاقب اکبر سیرت ،تفاسیر،سوانح ،علم الکلام اور عالم اسلام کے مسائل پر تواتر کے ساتھ لکھتے ہیں ۔آپ البصیرة ٹرسٹ کے چیئرمین ہیں ۔(مدیر)
پاکستان میں شریعت اور آئین کے حوالے سے بحثیں جاری رہتی ہیں۔ ہمارے لکھاری بھی اس موضوع پر مشق سخن کرتے رہے ہیں۔ ایک دینی طالب علم کی حیثیت سے ہم نے بھی مناسب سمجھا کہ اس حوالے سے چند معروضات اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کریں۔
۱۔ یہ آج کی بات نہیں بلکہ ہم ایک عرصے سے ایک گروہ کی طرف سے یہ پڑھتے اور سنتے آرہے ہیں کہ جب قرآن و سنت موجود ہے تو پھر آئین کی کیا ضرورت ہے۔ یہ لوگ دراصل سمجھتے ہی نہیں ہیں کہ ریاست کیا ہوتی ہے اور اسے آئین کی ضرورت کیوں ہوتی ہے۔ پاکستان یا کسی بھی ملک کا آئین اٹھا کر اگر یہ لوگ دقت نظرسے دیکھیں تو یہ کوئی ایسا مخمصہ نہیں کہ جو سمجھ نہ آسکے۔ مثلاً پاکستان کا آئین یہ بتاتا ہے کہ وفاقی حکومت کیسے بنتی ہے، قانون سازی کا اختیار کس کو ہے، پاکستان میںطاقت کے مراکز کون کون سے ہیں، عدلیہ کیسے معرض وجود میں آتی ہے، فوجی سربراہ کیسے بنتے ہیں، فوج کے اختیارات کیا ہیں، صوبوں میں حکومتیں کیسے بنتی ہیں، صوبوں اور وفاق کے درمیان تعلقات کی بنیاد کیا ہے، بنیادی انسانی حقوق کیا ہیں وغیرہ وغیرہ۔ کیا یہ ساری باتیں قرآن و سنت میں صراحت سے بیان ہوئی ہیں؟ کیا قرآن و سنت میں صوبوں اور وفاقی حکومت کے مابین تعلقات کار کو بیان کیا گیا ہے؟
البتہ پاکستان کے آئین میں یہ بات واضح طور پر لکھی گئی ہے کہ اس کا کوئی بھی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں ہوگا نیز حکومت عوام کو اسلامی تعلیمات کے مطابق عمل کرنے اور اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے مددکرے گی۔ اسی طرح کی دیگر شقیں بھی موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ قرآن و سنت سے راہنمائی حاصل کرکے اور قرآن و سنت میں بیان کیے گئے اصولوںکو سامنے رکھ کر زندگی کے تمام امور انجام دیے جا سکتے ہیں لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہر بات اور ہر دور میں پیش آنے والی ہر ضرورت کو قرآن و سنت میں واضح طور پر لکھ دیا گیا ہے۔
”قرآن و سنت کے ہوتے ہوئے کسی آئین کی ضرورت نہیں“ اگراس کا یہ مطلب ہے کہ آئین کو قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں بنایا جاسکتا ہے تو پھر یہ بات درست ہے لیکن اگر اس کا وہی مطلب ہو کہ کسی ریاست کو کسی دور میں آئین کی کوئی دستاویز درکار نہیں کیونکہ قرآن و سنت ہمارے پاس موجود ہے تو پھر سادہ ترین لفظوں میں اور نہایت احتیاط کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ”یہ ایک ایسا اشتباہ ہے جو کہنے والے کی نادانی پر دلالت کرتا ہے۔“
۲۔ بعض احباب کو آئین اور قانون کی کتابوں کے انگریزی میں ہونے پر بھی اِشکال اور اعتراض ہے۔ ان کا اس پر بھی اصرار ہے کہ اصطلاحیں بھی عربی یا فارسی میں ہونی چاہئیں۔ یہ ایک ایسی بات ہے کہ جس پر کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ تھوڑی سی عقل رکھنے والا شخص بھی اس پر غور کرے تو ایک خندہ¿ استہزا کے سوا اسے کم ہی کسی ردعمل کا مستحق سمجھے۔
قرآن و سنت آسمانی تعلیمات کا سرچشمہ ضرور ہیں لیکن کیا یہ تعلیمات فقط عرب دنیا کے لیے ہیں اورکیا دیگر زبانیں بولنے والوں کو ان کی زبانوں میں ان تعلیمات کو بیان نہیں کیا جاسکتا؟ قرآن حکیم کے مطابق زبانوں کا اختلاف اللہ کی آیات میں سے ہے۔ اللہ کی کوئی زبان نہیں، زبان تو اس کے بندوں کی ہوتی ہے۔ سارے بندے اللہ ہی کے بندے ہیں اوربندے ہونے کے اعتبار سے سب برابر ہیں۔ اللہ نے ساری قوموں میں ہادی بھیجے ہیں اور قرآن ہی کے مطابق سارے نبی اپنی قوموں کی زبان میں بات کرتے رہے ہیں۔ سب نبی ایک ہی دین لے کر آئے ہیں گویا یہ دین ہر زبان میں بیان کیا جاسکتا ہے اور انبیاءایسا کرتے رہے ہیں۔ ہمیں مفہوم اورمعنی سے غرض ہونی چاہیے نہ کہ کسی خاص زبان سے۔ جو علمائے کرام اردو یا پشتو زبان میں آج ”شریعت“ کے نفاذ کے لیے بات کررہے ہیں ہم نہیں سمجھتے کہ وہ کوئی غیر دینی زبان بول رہے ہیں۔ اگر کسی مولوی صاحب کو انگریزی زبان نہیں آتی تو یہ بات بھی قابل اعتراض نہیں البتہ انھیں چاہیے کہ وہ آئین اور قانون کی کتابوں کو سمجھنے کے لیے ان افراد سے مدد لیں جو ترجمہ کرکے انھیں بتا سکتے ہیں۔
بعض لوگ صدر اور وزیراعظم کی اصطلاحوں کو بھی ناپسند کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ خلیفہ اور امیر کے الفاظ استعمال کرنے چاہئیں۔ جو لوگ تاریخ پر نظر رکھتے ہیں جانتے ہیں کہ خود خلیفہ اور امیر کے الفاظ بھی عمل اور تعامل کے ساتھ ساتھ متشکل ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں عربوں کو عربی زبان ہی میں الفاظ اور اصطلاحوں کی ضرورت تھی۔ لہٰذا انھوں نے اپنی زبان کے الفاظ سے استفادہ کیا اور جہاں ضرورت پڑی وہاں دیگر زبانوں سے الفاظ لے کر انھیں عربی رنگ ڈھنگ میں ڈھال لیا۔
۳۔ پاکستان کے آئین میں موجود یہ بات کہ ”کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنے گا“ اپنے اندر بہت سے امکانات لیے ہوئے ہے۔ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ ہر قانون قرآن وسنت کے مطابق ہو گااور دوسرا پہلو یہ ہے کہ قانون سازی کے لیے قرآن وسنت کے راہنما اصولوں کو سامنے رکھا جائے گا اور تیسرا پہلو یہ ہے کہ جس مسئلے میں قرآن وسنت کی واضح ہدایت نہیں ہوگی وہ مباحات کے دائرے میں آجائے گا اور مجلس قانون ساز اس میں قانون سازی کرنے میں آزاد ہو گی، بشرطیکہ پہلے دو پہلوﺅںکو ملحوظ رکھا جائے۔
اصول فقہ میں ایک اصول” الاصالة الاباحة“ کہلاتا ہے جس کی روح یہ ہے کہ ہر چیز مباح ہے مگر یہ کہ شریعت/اسلام نے اس کے بارے میں کوئی حکم دیا ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آئین پاکستان کی مذکورہ بالا عبارت اس اصول کے مطابق ہے جو اپنے اندر بہت سی وسعتیں رکھتی ہے۔
۴۔ شریعت میں انسانی تجربات کی کوئی حیثیت ہے یا نہیں۔ اس پر علمائے کرام نے تفصیل سے بحث کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیغمبراسلام نے انسانی معاشرے میں رائج قوانین، رسوم اور رواجات کے ساتھ تین طرح کا سلوک کیا:
الف) وہ قوانین یا روایات جودینی مقاصد سے ہم آہنگ تھیں اور اس وقت کے معاشرے کے لیے آسانی سے قابل قبول بھی تھیں انھیں آپ نے من وعن قبول کر لیا۔ اس کی مثال ایک آزاد مرد کے ناحق قتل پر 100اونٹوں کی دیت کی روایت تھی جوآنحضرت کے دادا بزرگوار حضرت عبدالمطلب سے منسوب تھی، اسے آپ نے قبول کر لیا۔
ب) وہ رواج یا روایت جو آپ کے الٰہی مقاصد سے پوری طرح ہم آہنگ نہ تھی اور اس میں اُس دور کے حالات کے مطابق کچھ ترمیم کی جاسکتی تھی، اس میں آپ نے ترمیم کردی۔ اس کی مثال مردوں کو ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ چار عورتوں سے بیک وقت شادی کی اجازت ہے جبکہ قبل ازاں اس پر کوئی حد اور قدغن عائد نہ تھی۔ اس موضوع کی مزید بھی تفصیلات ہیں جس کا متحمل یہ مضمون نہیں ہوسکتا۔
ج) بعض رواج آنحضرت کے الٰہی مقاصد کی ضد تھے اور ان کا خاتمہ آپ کی نظر میں ضروری تھا۔ آنحضور نے انھیں ختم کرنے کے لیے اقدام کیا۔ اس کی مثال ”ربا“ کا خاتمہ ہے۔
´ بعض امور میں آپ نے نئی قانون سازی بھی کی اس کی مثال خواتین کو وراثت میں شریک کرنا ہے۔
اب ہم اپنے سوال کی طرف لوٹ کر آتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ شریعت میں انسانی تجربات کی کوئی حیثیت ہے یا نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج بھی مختلف انسانی معاشروں میں رائج رسوم،رواجات اور قوانین پر اسی طرح نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ نیز انسان نے تجربات سے جو نئی چیزیں سیکھیں ہیں ان سے بھی استفادہ کرنے کی ضرورت ہے، یہ تجربات چاہے مغرب میں کیے گئے ہوں چاہے مشرق میں۔
۵۔ آئینی حکومتوں کا قیام ایک بہت بڑی انسانی یافت ہے۔ انسانی معاشروں میں کسی قانون اوردستور کے مطابق حکومتوں کا بننا اورچلنا ایک بہت بڑا ارتقاءہے۔ ہم جانتے ہیں کہ صدر اسلام میں آنحضرت کے بعد جو حکومتیں قائم ہوئیں جن میں پہلے چار خلفاءکی حکومت بھی شامل ہے، وہ کسی لکھے ہوئے دستور اور آئین کے مطابق نہیں بنیں۔ یہاں تک کہ چاروں پہلے خلفاءمختلف انداز سے منصب حکومت پر فائز ہوئے۔ انسانی معاشرے کے ارتقاءکا سلسلہ جاری تھا وگرنہ لکھا ہوا دستور اورآئین موجود ہوتا توہوسکتا ہے کہ بہت سی مصیبتیں جو مسلمانوں پر آئی ہیں وہ نہ آتیں اور نہ ہی ملوکیت کا دور شروع ہوتا۔ بادشاہوں کی مرضی اور منشاءکے بجائے انسان کی اجتماعی فکر سے بننے والا نظام حکومت جس کے خدوخال کسی متفق علیہ دستاویز میں لکھ دیے گئے ہوں،کہیں زیادہ عوام کے لیے خیر خواہی کے پہلو رکھتا ہے۔ انسانی کاروان آج بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ انسان کا اجتماعی ضمیر کسی خاص گروہ، کسی خاص نسل اور کسی خاص مسلک کی حکمرانی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے میں ماضی کی روشن مثالوں اور نمونوں سے سبق ضرور حاصل کرنا چاہیے لیکن اندھی تقلید کے بجائے عصری تقاضوں کو سامنے رکھ کر دین کی اصل روح کے مطابق معاشرے کو چلانے کی ضرورت ہے۔
۶۔ شریعت کے مسئلے میں بعض لوگوں کا تصور ان کے اپنے مسلک کے اندر ہی محدود ہے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ موجودہ مسالک آنحضرت کے بعد معرض وجود میں آئے ہیں اور بیشتر آپ کی امت کے افراد کے مختلف ادوار میں غوروفکر کا نتیجہ ہیں۔ اس غوروفکر پر زمان ومکان کا پرتو بھی موجود ہے اور فقیہ کی ذمے داری بھی یہ ہے کہ وہ قرآن وسنت کی روشنی میں اپنے دور کے تقاضوں کے لیے استنباط کرے۔ آج ہمیں نئے سرے سے نئے تقاضوں کی روشنی میں انہی بزرگوں کی سنت کے مطابق اجتہاد کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں دیگر مسالک کے علماءکی آراءاور دلائل پر بھی نظر ڈالنا چاہیے۔ نیز انفرادی اجتہاد کے بجائے اجتماعی اجتہاد کی روش کو اپنانا چاہیے۔ پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل اس کی ایک مثال ہے۔ یہ ایک مشاورتی ادارہ ہے لیکن موجودہ آئین پارلیمنٹ کو پابند نہیں کرتا کہ وہ اس ادارے کی سفارشات پر غوروفکر کرے۔ اس حوالے سے آئین میں ترمیم کرکے کونسل کی سفارشات پر ایک خاص مدت میں غوروفکر ضروری قرار دینا چاہیے۔ اس کونسل میں عام طور پر مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام ہوتے ہیں اور زیادہ تر سفارشات اتفاق رائے سے کی جاتی ہیں۔ان سفارشات پر کسی ایک مسلک کی مہر نہیں ہوتی اور عام طور پر تمام مسالک میں ان کے بارے میں حسن ظن پایا جاتا ہے۔ یہ امر تمام عالم اسلام اور مسالک کے اندر مقید افراد کے لیے بہت سبق آموز ہے۔ یہ ساری صورت حال مثالی تو نہیں مگر مثالی کی طرف آگے بڑھنے کے لیے ایک بنیاد ضرور فراہم کرتی ہے۔
۷۔ دنیا میں کوئی ایسا نظام قانون نہیں ہے کہ جس میں سزاﺅں اورتعزیرات کا ذکر نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی معاشرہ مجرموں کے لیے سزاﺅں اورتعزیرات کے بغیر چل ہی نہیں سکتا کیونکہ انسان اپنے اختیار کی آزادی سے جہاں مثبت فائدہ اٹھاتا ہے وہاں اسے منفی طور پر بھی بروئے کار لاتا ہے۔ اس لیے سزاﺅں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اسلام کے تصور قانون میں بھی مختلف درجے کے مجرموں کے لیے مختلف درجے کی سزاﺅں کا ذکر موجود ہے لیکن یوں لگتا ہے کہ بعض لوگوں کا تصور شریعت حدود و تعزیرات سے شروع ہوتا ہے اور اسی پر ختم ہو جاتا ہے۔ دشمنان اسلام بھی اسلام پر طعن زنی کرنے کے لیے اس کے نظام سزا پر اعتراضات کرتے ہیں۔ جہاں تک دشمنوں کا تعلق ہے ان کا جواب اسلام کے دانش مندوں نے اچھے انداز سے دے رکھا ہے اور وہ اس سلسلے میں اسلام کا موقف سنجیدگی سے بیان کرتے رہتے ہیں لیکن اپنے عاقبت نا اندیشوں سے ہمیں یہ کہنا ہے کہ اسلام حدود و تعزیر سے شروع نہیں ہوتا۔ اسلام کا معاشرتی پہلو بہت انسان دوست ہے۔ وہ بھوکوں کا کھانا کھلانے اور پیاسوں کو پانی پلانے سے شروع ہوتا ہے۔ ایک خدا پرست انسان اللہ کے بندوں کو عیال اللہ سمجھ کر دیکھتا ہے۔ اسلام میں قصاص بھی معاشرے کے لیے حیات بخش قرار دیا گیا ہے۔
سب سے پہلے کسی معاشرے کے لیے قانون کا ہونا ضروری ہے اور پھر اس قانون کا ہر کسی کے لیے مساوی ہونا ضروری ہے۔ یہ بات اہم ہونے کے باوجود بعد کی ہے کہ وہ قانون کیسا ہو اور کیا ہو۔ افسوس آج قاتل، دہشت گرد،دین نابلد اور وحشی شریعت کا پرچم لے کر ایک مسلمان معاشرے ہی کو تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ کیا نبی رحمت کی شریعت کے ترجمان وحشی بھی ہوسکتے ہیں، الامان والحفیظ۔ جن بیچاروں کو اتنا شعور نہیں کہ ایک ریاست کے لیے آئین کی کیا حیثیت ہے اور کیا آئین کی کسی ریاست کو ضرورت ہے یا نہیں، وہ آج شریعت کے علمبردار بن چکے ہیں۔ شریعت کا علم ان لوگوں کو اٹھانا چاہیے جو رحمت للعالمین کے وارث بن سکتے ہیں، جو اللہ کے بندوں کے لیے خیر خواہ ہوںاور عصری تقاضوں کو سمجھ کر دین کی آفاقی تعلیمات کی روشنی میں انسانی معاشرے کی راہنمائی کر سکیں۔